سیاسی و سماجی

اس انقلاب میں جالب وفیض کابھی حصہ ہے!

سینٹرل ہندوستان میں سی اے اے/این آرسی کے خلاف احتجاجات کی لہر تعلیمی اداروں اور دانش گاہوں سے اٹھی ہے،جہاں ملک کا منتخب ترین طبقہ رہتاہے اور جس کے بارے میں کہاجاتاہے اور صحیح کہاجاتاہے کہ یہی طبقہ ملک کے مستقبل کا معمار،اس کی امنگوں کامرکز اوراس کی آرزووں کاقبلہ ہوتاہے۔یہ بھی ایک حسن اتفاق ہے کہ یہ لہر جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اٹھی اور پورے ملک کی تعلیم گاہوں اورعام شہریوں میں پھیل گئی، حتی کہ اس کی صداے بازگشت آکسفورڈ، کیمبریج اوریالے تک سنی جانے لگی ـ 1920میں گاندھی،علی برادران اور شیخ الہند وغیرہ کے ہاتھوں اس یونیورسٹی کی پیدایش تحریکِ عدم تعاون کی کوکھ سے ہوئی تھی اور2019میں موجودہ فاشسٹ حکومت کے خلاف پرزوراور توانامزاحمت کی علامت کے طورپر اس کا”ری برتھ“ہواہے۔جامعہ،ابناے جامعہ،منتسبینِ جامعہ اورملک بھر میں اس تازہ تحریکِ عدم تعاون سے جڑے لوگوں کے لیے یہ اتفاق باعثِ فخر ہوناچاہیے۔
اس تحریک کولگ بھگ آدھے مہینے کا عرصہ ہونے جارہاہے،مگر اس کی انرجی میں کوئی کمی نہیں آئی ہے،آج تیسرے جمعے کوبھی جھارکھنڈ کے جمشید پورسے لے کر بہار کے چمپارن اور کرناٹک کے منگلور سے لے کر ممبئی کے آزاد میدان تک سے ہزارہامظاہرین کی تصویریں آئی ہیں،مردودیوگی نے گرچہ یوپی میں تمام وسائل و ذرائعِ اطلاعات پر پابندی لگارکھی تھی،مگر متعددشہروں سے پرامن احتجاج کی خبریں مل رہی ہیں۔مظاہرین میں اس انرجی کے کئی سورسزہیں،جن میں سے ایک اہم تویہ ہے کہ لوگوں میں اس ملک کے دستور،سیکولرزم اور مساوات کے حق کو بچانے کا ایک نہایت مضبوط جذبہ پیدا ہوگیاہے اور وہ جذبہ اب سردہونے والانہیں ہے،دوسرے ایسی تحریکوں کو انرجی دانشوروں،مصنفوں،ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں سے بھی ملتی ہے؛چنانچہ اس تحریک سے رام چندرگوہا،اروندھتی رائے، یوگیندریادوجیسے دانشوران کی وابستگی بھی اہم ہے اور محمد ذیشان ایوب،سوارابھاسکر،انوراگ کشیپ،سنیل گرور، رچاچڈھا اور سشانت سنگھ وغیرہ جیسے اداکاروں کی عملی شرکت سے بھی ان مظاہروں میں انرجی آرہی ہے، متعدددیگر فلم اداکاروں اورہدایت کاروں نے بھی طلبہ کے ذریعے چھیڑی گئی اس تحریک کی تائید کی،طلبہ پرپولیس کی زیادتی کی مذمت کی اور جمہوریت کے تحفظ کے لیے احتجاج کرنے والی اس نئی نسل کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ہندی اور انگریزی کے متعدد شاعر و ادیب بھی اپنے خیالات کا اظہار کررہے ہیں اور مارکیٹ میں سب سے زیادہ رائج ناول نگارچیتن بھگت جیسے مودی بھگت بھی اب کھل کر مودی حکومت پرنقد کررہے ہیں ۔البتہ اردوکے شاعروں اور ادیبوں نے مجموعی طورپر مایوس کیاہے،حالاں کہ متعدد نوجوان شعرانے احتجاجی نظمیں اور غزلیں لکھ کر اپنے جذبات کا اظہار کیااور مظاہرین کو حوصلہ دیاہے،معروف طنزومزاح نگار مجتبی حسین اور شیریں دلوی نے احتجاجاً اپنے ایوارڈزواپس کیے ہیں،اسی طرح رحمان عباس،مشرف عالم ذوقی اوراشعرنجمی جیسے دوچارلوگ ہیں، جوشروع سے شہریت ترمیمی قانون اوراین آرسی پرکھل کرلکھ رہے ہیں،مگرمین سٹریم کے بیشتر شاعروں اور ادیبوں کی جانب سے کوئی حوصلہ بخش رسپانس،کوئی مضبوط سٹینڈ سامنے نہیں آیاہے۔حالاں کہ ایسی عوامی تحریکوں میں ایسے لوگوں کی بڑی ضرورت ہوتی ہے، شاعر اور ادیب عوامی احساسات کے ترجمان ہوتے اور ان کی نبض پہچانتے ہیں،وہ ایسے موقعوں پر انقلاب کے نعروں میں تب و تاب پیدا کرسکتے اور نوجوانوں کے حوصلوں کوقوتِ پرواز عطا کرسکتے ہیں،مگر موجودہ منظرنامے پر زیادہ تر اردو ادیبوں کے کارنامے مانگے کے اجالےہیں اور بیشتر شاعر کاروباری ہیں،سوان سے ایسے کسی رسک کی توقع نہیں کی جاسکتی،مگر چوں کہ یہ تحریک ملک کے منتخب ترین طبقے یعنی طلبہ کے ذریعے شروع کی گئی ہے،سوانھوں نے اپنی پسند اور معیار کے مطابق اردوشعروادب سے ایسی آوازیں تلاش کرلی ہیں،جن سے انھیں اپنے جذبات کے توانااظہار میں مدد مل رہی ہے۔ان میں سے ایک حبیب جالب ہیں ـ گزشتہ دنوں جے این یو میں سٹوڈینٹ یونین کے انتخابات کے دوران ایک طالب علم ششی بھوشن کے ذریعے ان کی مشہورِ زمانہ نظم ”دستور“ سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی تھی اور عصری دانش گاہوں کے ماحول میں اس کی گونج ابھی سنی ہی جارہی تھی کہ اب یہ نئی تحریک شروع ہوگئی، سوجامعہ ملیہ کے باہر،جنتر منترپر یا دہلی پولیس کے ہیڈکوارٹر کے باہر احتجاجات کے دوران آپ کو ایسے طلبہ و طالبات آسانی سے مل جائیں گے،جواپنے اپنے مخصوص لب و لہجے میں جالب مرحوم کی احتجاجی آوازسے آواز ملاتے ہوئے”میں نہیں مانتا،میں نہیں جانتا“کے زمزمے بلند کررہے ہوں گے۔دہلی کے باہر کے شہروں میں ہونے والے احتجاجات میں بھی اس نظم کی گونج بہت تیزی سے سنی جارہی ہے۔اس کے علاوہ مختلف پلے کارڈز اور بینرز پر بھی اس کے مصرعے دیکھے جاسکتے ہیں،جالب صاحب کی اس نظم میں،اس کے مصرعے مصرعے میں ایک سحرہے،اسے سنتے ہی دل دماغ میں مزاحمت اور احتجاج کی لہریں اٹھنے لگتی ہیں،چوں کہ جالب مرحوم قول و عمل ہر دواعتبار سے سسٹم کی ناانصافیوں اور حکومتی مظالم کے خلاف ایک چٹان تھے، انھوں نے پوری زندگی لڑتے ہوئے گزاری، سوان کی نظموں میں؛بلکہ ان کے مصرعوں میں آج بھی ایک عجیب تاثیر ہےاوراسی تاثیرمیں ڈوب کر ہندوستان کے نوجوان مودی-شاہ کی جوڑی کوچیلنج کرنے نکلے ہیں ـ دوسرے فیض احمد فیض ہیں اور خصوصاان کی نظم”ہم دیکھیں گے“اپنی تمام تر معنویتوں کے ساتھ اس تحریک پر چھائی ہوئی ہے۔فیض کی خوش قسمتی ہے کہ وہ خود اپنی نظموں اور غزلوں کو جس بھدے لہجے میں پڑھتے تھے، انھیں اپنی زندگی میں اور وفات کےبعد اتنے ہی اچھے گانے والے ملے ہیں۔اقبال بانو، نیرہ نور، فریدہ خانم، ٹیناثانی وغیرہ سے لے کر آج کے ہندوپاک کے گانے والے تو انھیں گاہی رہے ہیں،کئی برٹش سنگرز بھی فیض کو گارہے ہیں اور اچھا گارہے ہیں۔ ہمارے اِن احتجاجات کے دوران بھی فیض کو نئے سنگرز ملے ہیں،دہلی میں جامعہ، جے این یو، ڈی یو وغیرہ اور دیگر شہروں کے طلبہ و طالبات کی بہت سی ویڈیوز وائرل ہورہی ہیں، جن میں وہ اپنے مخصوص بے ساختہ اور جذبات سے معمور لب و لہجے میں ”ہم دیکھیں گے!“ کی صدائیں بلند کررہے ہیں، قابل ذکر ہے کہ فیض کی اس نظم کا اصل عنوان ہے”ویبقی وجہ ربک“جوایک قرآنی آیت کا اقتباس ہے اور اس میں جہاں انقلابی خیالات کا طاقت ور اظہارہے،وہیں ایک خداکے وجود اوراس کی وحدانیت کا بھرپور بیان بھی ہے۔اِنہی احتجاجات کے دوران چنددن قبل آئی آئی ٹی کانپورکے طلبہ کی ایک ویڈیووائرل ہوئی تھی کہ کالج کے اوپن ایئرتھیٹر میں سیکڑوں طلبہ موجودہیں اور ایک طالب علم یہ نظم پڑھ رہاہے،ترنم سے نہیں، تحت اللفظ، پڑھتے پڑھتے جب وہ اس شعر پر پہنچتاہے”بس نام رہے گااللہ کا…جوحاضربھی ہے غائب بھی“ توایک لال ٹوپی والے مہاشہ یہ چلاتے ہوئے مجمع میں گھسنے کی کوشش کرتےہیں کہ”یہ نہیں چلے گا“۔مطلب یہ لطیفہ ہی ہوگیا،بے چارہ ”اللہ“لفظ سن کرہی بھڑک گیا۔ اسے لگاکہ پڑھنے والاشایداسلام کی تبلیغ کررہاہےـ خیر یہ ایک واقعہ ہے،مگر ان احتجاجات کے دوران آپ کو جگہ جگہ ایسے طلبہ و طالبات کاگروپ مل جائے گا،جو فیض کےہم آواز ہوکر”ہم دیکھیں گے“کے نعرے لگارہے،مودی و شاہ کے فاشزم کے سامنے سینہ سپر ہوکربازارمیں پابجولاں چلنے کی قسمیں اٹھارہے،لبوں کی آزادی اور زبان کی قوت کا اظہار کرتے ہوئے ظلم وجورسے خلقِ خداکے الجھنے کی روایت کو زندہ کررہے اورجو آگ میں پھول کھلانے کے سفر پررواں دواں ہیں ۔راحت اندوری کا ایک شعر بھی ان مظاہروں میں بڑا چل رہاہے،شعر کوئی تیس پینتیس سال پراناہے،مگر جب سے بی جے پی حکومت میں آئی ہے،اسے نئی زندگی مل گئی ہے،گزشتہ سال انھوں نے کپل شرماکے شومیں اسے سناکر پورے ہندوستان کے کانوں اور ذہنوں میں پہنچادیا تھا،گزشتہ جون میں پارلیمنٹ میں مہواموئی ترانے اسے پڑھاتھا، اداکار امالاپال اور فلم ساز عاشق ابو نے اس کا ملیالم ترجمہ انسٹاگرام پر پوسٹ کیا اور شیوسینا لیڈر سنجے راوت نے اسے ٹوئٹ کیاتھا،حالیہ احتجاجات کے دوران جگہ جگہ ایسے پلے کارڈزنظر آجائیں گے،جن پر یہ شعر لکھاہوانظرآئے گا:
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے!
25دسمبر کوتو معروف انگریزی روزنامہ ”انڈین ایکسپریس“نے اس شعر پر خصوصی رپورٹ بھی شائع کی تھی،راحت اندوری سے رپورٹرکی گفتگو کےچند اقتباسات بھی نقل کیے گئے تھے، گفتگوکاآخری جملہ یہ تھا ”میرے آس پاس جو کچھ ہورہاہے، اس پر اگر میں نہ لکھوں،تو میرے اور نیروکے درمیان کیا فرق رہ جائے گا؟اگر میرے شہر اور ملک میں آگ لگی ہوئی ہے اور میں اپنی محبوبہ کی زلفوں کی شان میں قصیدے لکھ رہاہوں،تویا تومیں اندھاہوں یا بہراہوں“۔
بہرکیف حکومت کے خلاف اٹھنے والی اس ملک گیرتحریک کے حوالے سےگرچہ زیادہ تراردوکے شاعروں اور ادیبوں نے افسوسنا ک سردمہری کامظاہرہ کیاہے،مگر جالب و فیض کی روحیں ان مظاہرین پر سایہ فگن ہیں اور راحت اندوری تازہ نہ سہی،پرانے اشعار کے ساتھ ان کے درمیان موجودہیں۔ اگریہ انقلاب کامیابی سے ہم کنارہوتایااس کے ذریعے ہندوستانی جمہوریت کی بقا واستقلال کی راہیں ہموارہوتی ہیں، تواس میں جہاں ہمارے نوجوانوں کی عملی جدوجہد اورقربانیوں کادخل ہوگا، وہیں اس میں حبیب جالب، فیض احمدفیض اوردیگر شعراوادباکی بھی حصے داری ہوگی، جن کے نتائجِ فکران کے جذبۂ عمل وانقلاب کو مہمیز کر رہےاوران کے حوصلوں کوتوانائی بخش رہے ہیں ـ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×