سیاسی و سماجی

بھاجپاکی جیت غیر متوقع نہیں،بدحواسی سے باہر نکلیے!

17ویں لوک سبھا الیکشن میں غیر معمولی جیت کے بعد بھاجپا حکومت بناچکی ہے،حکمراں پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں میں جہاں جوش ہے، وہیں اپوزیشن اس جیت کو غیر متوقع مان کر بدحواسی کا شکار ہے۔سماجوادی،گاندھی وادی،لیفٹسٹ اور امبیڈکر وادی سبھوں کے ہوش اڑے ہوئے ہیں۔ زمین ، جنگل،پہاڑ اور پانی کی لڑائی لڑنے والے بھاجپاکی جیت سے حیرت زدہ و مایوس ہیں؛لیکن کیا یہ جیت واقعی غیر متوقع ہے؟کیا اس غیر معمولی جیت میں واقعی ای وی ایم کا کوئی حصہ ہے؟کیا اپوزیشن پارٹیاں واقعی عوام میں اپنا اثر و رسوخ کھو چکی ہیں؟کیا اپوزیشن پارٹیاں اس شرمناک ہار کا درست جائزہ لینے میں دلچسپی رکھتی ہیں یا وہ پانچ سال بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرنا چاہتی ہیں؟عام سیکولر سیاست و سوشل ورک سے دلچسپی رکھنے والے لوگ اسی قسم کے سوالوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔
یہ بات تو طے ہے کہ نہ یہ ای وی ایم کی جیت ہے اور ناہی یہ جیت غیر متوقع ہے۔یہ دراصل آرایس ایس،بھاجپا،وشو ہندو پریشد اور ان جیسی ہزاروں تنظیموں، ان کے ہم خیال لوگوں کی لگ بھگ ایک صدی کی محنتوں کا ثمرہ ہے۔تحریک آزادی کے دوران ہی کانگریس نے کئی ہندوتووادی نیتاؤں کو اپنے قافلے میں شامل کرلیا تھا۔آزادی کے فوراً بعد گاندھی کے قتل کی وجہ سے ہندوتووادی تنظیمیں گرچہ سیاسی اعتبار سے بیک فٹ پر چلی گئیں؛لیکن نہ ہی انھوں نے ہار مانی اور ناہی ہندستان کو ہندو راشٹر بنانے کے اپنے عہد سے پیچھے ہٹیں۔پھر ستر کی دہائی میں اندرا گاندھی کی پالیسیوں کے خلاف چلنے والی جے پی تحریک نے انھیں آبِ حیات فراہم کیا اور اس کے بعد سے ہی ان کی بنیادیں مضبوط ہوتی چلی گئیں،کبھی مندر مسجد،کبھی دہشت گردی،کبھی بدعنوانی تو کبھی حب الوطنی کو ایشو بناکر وہ اپنے آپ کو مسلسل آگے بڑھاتی رہیں۔
منڈل کے بعد کس طرح سماج وادیوںکا بیانیہ(Narrative)نسلی و طبقاتی(برادری واد)گول بندی اور اقرباپروری کی سیاست میں الجھ کر رہ گیا،یہ سبھوں کے سامنے ہے۔کانگریس کی اقلیتوں(مسلمانوں)کا استحصال کرنے والی پالیسیوں،دہشت گردی جیسے الزام میں مسلم نوجوانوں کی فرضی گرفتاریوں اور فرقہ وارانہ فسادات جیسے معاملوں میں اس کے دوہرے پیمانوں نے جہاںملک کی دو بڑی ریاستوں (یوپی اور بہار)سے کانگریس کا صفایاکردیا،وہیں سماج واد اور سماجی انصاف کے نام پر اقرباپروری اور برادری واد پر مبنی سیاست کے عروج اور اس کے ذریعے اعلیٰ برادریوں کے تئیں بنائے جانے والے نفرت کے ماحول،غیر یادواور غیر جاٹ رائے دہندگان کی امنگوں نے ہندستانی سیاست میں بھاجپاکے لیے جگہ بنائی۔اَسی کی دہائی کے بعد والی اعلیٰ برادریوں کی نسل نے دوسرے لوگوں میں اپنے تئیں نفرت دیکھا،کچھ برادریوں کو چھوڑ کر زیادہ پسماندہ برادریوں نے اپنی ضروریات دیکھیں اور عام ہندووں نے رام مندر کا خواب دیکھا۔ان نوجوانوں کو ملک کی ایک بڑی آبادی(مسلمانوں)کو دہشت گردی سے جوڑ کر دکھایاگیا۔تعلیم،صحت اور روزگار کی لڑائی مندر مسجد کی لڑائی میں بدل گئی۔جو محروم طبقات تھے،ان کے دماغ میں مسلمانوں کے’’تشٹی کرن‘‘کی بات تواتر کے ساتھ ڈالی گئی۔بھاجپا کے لیے یہ ساری چیزیں سیاسی ہتھیار کے طورپر کام آرہی تھیں اور نئی نسل کے ہندووںکی ایک بڑی تعداد اسی بھرم،اُکساوے اور نفرت کے ساتھ پرورش پارہی تھی۔سپا،بسپا،راجد جیسی پارٹیاں جہاں برادری واد کی گول بندی کا کھیل کھیل رہی تھیں،وہیں کانگریس محض اس فکر میں رہی کہ حکومت پر کیسے قبضہ کیا جائے۔ان سبھی پارٹیوں کے پاس بھیڑ تھی،کوئی تنظیم نہیں تھی،تنظیم صرف اور صرف بھاجپا کے پاس تھی۔اس کے پاس کسان کے بیٹے کے پارٹی صدر بننے اور چائے والے کے پردھان سیوک بننے جیسی نظیریں تھیں۔آرایس ایس اور اس کی ہزاروں ہم مشرب تنظیمیں تھیں،لاکھوں کی فسادی بھیڑ تھی،لاکھوں تجربہ کار و تنظیم کے کازکے لیے وقف کارکنوں کے ساتھ بڑے بڑے اصحابِ ثروت کا ساتھ تھا، سسٹم میں ہر جگہ بیٹھے افسران و اہل کار تھے،ملک کے بہت بڑے حصے میں ریاستی سطح کی حکومتیں تھیں،پھر بھاجپا کیوں نہ کامیاب ہوتی؟یہ جیت غیر متوقع ہرگز نہیں ہے۔اس جیت کے پس منظر میں جہاں خود بھاجپا کی مضبوط حکمت عملی و منصوبہ بندی کا دخل ہے،وہیں کانگریس،لالو،ملایم،مایا و ممتا جیسے رہنماؤں کی حد سے زیادہ مفاد پرستی و اقتدار دوستی کابھی حصہ ہے۔سماج وادیوں،گاندھی وادیوں اور امبیڈکر وادیوں سے سماج کی نئی نسلیں دور ہیں۔نئی نسلوں کو محض نعرہ باز بھیڑ سمجھنے والی ان پارٹیوں نے جو بویا،اب وہ کاٹ رہی ہیں۔
نریندر مودی کے عروج،ملایم اور لالو کی اقرباپروری،مسلسل فرقہ وارانہ فسادات سے ہونے والے مسلمانوں کے جانی و مالی نقصانات،مسلم نوجوانوں پر لگائے جارہے دہشت گردی کے جھوٹے الزامات اور تعلیمی و معاشی محاذ پر پسماندگی سے دلبرداشتہ مسلم نوجوانوں میں بھی اب ملی قیادت کا احساس ابھر رہا ہے۔عام مسلمانوں میں یہ بات پھیلائی جارہی ہے کہ سیکولرزم کو بچانے کا ٹھیکہ کیامسلمانوں نے ہی لے رکھاہے؟ہمیں ہمارا نمایندہ چاہیے،یہ نوجوان اسی قسم کی دلیلوں سے مذکورہ بالا پارٹیوں کو مسترد کرنے کی بات کرتے ہیں۔انھیں مسلم ناموں والی پارٹیوں میں اپنی قیادت نظر آتی ہے۔مگر عام طورپر مسلمانوں کو مسلم نمایندگی اور مسلم سیاست کا فرق ہی معلوم نہیں ہے،ان سے جب پوچھا جاتاہے کہ اگر آپ کو سیکولرزم نہیں چاہیے،تو پھر اس ملک کے ہندو ہندوراشٹر سے پرہیز کیوں کریں؟تو اس سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔سیکولرزم کے حوالے سے مسلمانوں کو غلط فہمی میں ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جنوبی ہند کے دوبھائیوں کی جوڑی کبھی بے باکانہ تو کبھی غیر ذمے دارانہ انداز میں گزشتہ کم و بیش دس سال سے اسی قسم کے سوالات اٹھارہی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ ستر سالوں میں کیا ہوا؟مسلمانوں کا یہ حال کانگریس نے ہی کیاہے اور کانگریس کوختم ہوجانا چاہیے وغیرہ اور اس قسم کے بیانات سے بھی بی جے پی کو آکسیجن فراہم ہوتا ہے۔عام طورپر مسلم نوجوانوں کا پورے ملک کو درپیش عوامی مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے،انھیں بس مسلم لیڈر چاہیے۔آج اگر عوامی ایشوز میں سب سے کم کسی سماجی طبقے کی حصے داری ہے،تو وہ مسلمان ہیں۔یہاں تک کہ خود مسلمانوں کی تعلیم،صحت،روزگار جیسے بنیادی مسئلوں پر مسلمانوں کی حصے داری برائے نام ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا محض مسلم نام والے عوامی نمایندے کے پارلیمنٹ میں پہنچ جانے سے مسلمانوں کے سارے مسائل حل ہوجائیں گے؟ نیلی،بھاگلپور ،مظفر نگر فسادات اورہاشم پورہ قتل عام جیسے واقعات کے دوران پارلیمنٹ میں مسلم نمایندے تھے یانہیں؟اگر تھے تو ان کے ہونے کا فائدہ کیا ہوا ؟حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو عام اور ضروری عوامی ایشوز اور مسائل کو اٹھاکر ہی سیاست میں اپنی نمایندگی اور اپنے حقوق تلاش کرنا ہوںگے۔ایک بات اس ملک کے مسلمانوں کو صاف طورپر سمجھ لینی چاہیے کہ اس ملک کی مخصوص ساخت کی وجہ سے یہاں مسلم سیاست کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے،اس کی کوشش بھی بھاجپا کو تقویت پہنچانے کے طورپر دیکھی جائے گی۔
ملک کے پاس18-25سال کے نوجوانوں کی ایک بڑی بھیڑ ہے،جس کے پاس نہ اپنے مستقبل کا کوئی نقشۂ کار ہے،نہ کوئی امید ہے اور نہ کوئی مشعلِ راہ ہے۔وہ محض سیاسی آلۂ کار کے طورپر استعمال ہورہے ہیں۔ انھیں ضرورت کے مطابق کبھی سماجی انصاف کے نام پر،کبھی بدعنوانی کے نام پر تو کبھی راشٹر واد کے نام پر استعمال کیاجارہاہے،کبھی رام نومی،کبھی تعزیہ،کبھی بارہ ربیع الاول،تو کبھی راشٹرواد اور ملی قیادت کے نام پر لڑنے والے سوشل میڈیائی مجاہدین ہی نئے بھارت کا مستقبل ہیں۔
کچھ لوگوں کا مانناہے کہ مودی کی یہ غیر معمولی جیت اقرباپروری و برادری واد کی سیاست کا خاتمہ ہے،تو کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ پھر تملناڈ میں اسٹالن اور اوڈیشہ میں نوین پٹنایک کیسے جیت گئے؟وہ یہ نہیں بتاتے کہ اوڈیشہ اور تملناڈ کی سیاست مندر -مسجد،برادری واد کے کھیل اور راشٹر واد کی آڑ میں نفرت سے متاثر نہ ہوکر ترقی کی سیاست پر ٹکی ہوئی ہے؛اس لیے اگر ایسے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بغیر اپنی ہار کا صحیح جائزہ لیے دوبارہ اسی سیاست کو دوہرائیں گے،تو بھارت کو تباہی کی راہ پر لے جانے کی ذمے داری انہی لوگوں پر ڈالی جائے گی۔
اب یہ طے ہے کہ جو پچھڑے،دلت اور اعلیٰ برادری کے لوگ بھاجپا میں جاچکے ہیں ،وہ ان نام نہاد سیکولر اور سماجی انصاف کی بات کرنے والی پارٹیوں پر آسانی سے اعتماد نہیں کرنے والے ہیں۔نہ آر ایس ایس اور بھاجپا کو فلمی ڈائیلاگ والی دھمکیاں دینے سے اقلیت ان کے جھانسے میں آنے والی ہے؛ کیوںکہ اقلیتوں میں اب مایا،ملایم اور تیجسوی کے بارے میں سرعام چرچا ہورہی ہے کہ ان لوگوں کی بھاجپا سے سانٹھ گانٹھ ہے یا آگے ہوسکتی ہے،ایسی صورت حال میں دوبارہ ان کا اعتماد حاصل کرنا مشکل نظر آتا ہے۔
اس وقت ملک کافی مشکل دور سے گزر رہاہے۔پچھلے پانچ سالوں میں لگ بھگ سبھی قابلِ اعتماد دستوری ادارے برباد کیے جاچکے ہیں۔اگلے پانچ سالوں میں بھی اس سے الگ ہونے کی امید نہیں کی جاسکتی۔اب امیدصرف ملک کے عوام خود ہیں،ان کے بیچ سے کچھ نکلے،تبھی کچھ ہوسکتا ہے۔بھاجپا کو چھوڑ کر ملک کی سبھی پارٹیاں عوام کی نبض پکڑنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں اور افسوس ہے کہ ان کے اندر پنے گناہوں کے کفارے کی اخلاقی جرأت بھی نہیں رہی۔ یہ بھارت کی سیاست اور روح کو ازسرِ نو سمجھنے کا وقت ہے اور اس کے لیے دوبارہ بھارت کے اندر اترنا ہوگا،افکار و نظریات کی ایک سیدھی لکیر کھینچ کر جدوجہد کرنی ہوگی،اتنے عظیم ملک کی روح کے تحفظ کی خاطر کون اپنی قربانی دینے کے لیے آگے بڑھے گا،یہ کسی کونہیں پتا۔ایک نقطۂ انجماد ہے،اسے توڑیے،اس سے باہر نکلیے!

رابطہ:9004955775

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×