سیاسی و سماجی

ماحول کو انصاف کے لیے سازگار بنائیں!

دہلی فساد سے متاثر ہونے والے علاقوں کامیں نے دورہ کیا ہے،ان میں سے بعض تو میدانِ جنگ کا منظر پیش کررہے ہیں،ہرگلی میں جلی ہوئی دکانیں اور مکانات بکھرے پڑے ہیں۔یہ نہایت تکلیف دہ صورتِ حال ہے، دکان ومکان تو دوبارہ بنائے جاسکتے ہیں،مگر اس فساد کے دوران جوجانیں تلف ہوئیں ان کا بدل کہاں سے آئے گا؟اس فساد میں پچاس سے زائد لوگ بلاکسی وجہ صرف نفرت کی وجہ سے مارے گئے۔بچوں کوان کے والدین کے(صحیح یاغلط) نظریہ وافکارکی وجہ سے سزادی گئی،یہ انصاف ہے یاناانصافی ہے؟کیامحض مالی مدداور معاوضے سے اس درد اور تکلیف کا مداواہوسکتاہے،جس سے یہ بچے اوران کے والدین گزر رہے ہیں؟ کیا بدلے میں انھیں یہی کچھ دیاجاسکتاہے اوربس؟شیووہاراور دیگر فسادزدہ علاقوں کے معاینے کے دوران میرے ذہن میں یہی سوالات گردش کرتے رہے۔
عیدگاہ کامنظر بھی تکلیف دہ تھا۔وہاں کافی سارے ریلیف کیمپ لگے ہوئے ہیں،مجھے بتایاگیاکہ ان کیمپوں میں تقریباً ایک ہزارلوگ رہ رہے ہیں۔اہلِ خیر جماعتیں اور افراد چٹائیاں،کمبل،کھانا،دوائیں فراہم کررہے اور وہاں مقیم لوگوں کی راحت کا سامان کررہے ہیں۔میڈیاکے ایک طبقے کودیکھاکہ وہ فساد متاثرین کے بیانات ریکارڈ کررہاہے۔توقع ہے کہ یہ بیانات جانچ کرنے والوں کے ذریعے ثبوت و شواہد کی فراہمی کے لیے استعمال کیے جائیں گے اگر سٹیبلشمنٹ بھی ساتھ مل کر کوئی قدم اٹھائے۔فساد متاثرین کی بازاآبادکاری کے لیے جو کچھ تھوڑی بہت مددکی جارہی ہے وہ غیر سرکاری تنظیموں اور اہلِ خیر افراد کی طرف سے کی جارہی ہے،رفاہی ریاست کی جانب سے بہت معمولی مدد کی جارہی ہے۔
مگر اس فساد پر الزام تراشی کا کھیل شروع ہوچکاہے اور یہ تب بھی جاری رہے گاجب اس کی جانچ پوری ہوجائے گی یا انکوائری کمیشن اپنی رپورٹ سونپ دے گی۔اس کا ایک متوقع نتیجہ تویقینی ہے کہ…اگرانتظامیہ کے کسی فرد کو گڈگورننس کا آئیڈیاہوتا یا سٹیبلشمنٹ نے مناسب قدم اٹھایاہوتا تو بہت سی جانیں بچائی جاسکتی تھیں اور بہت سی دکانیں اور مکانات جلنے،لٹنے اور تباہ ہونے سے بچ سکتے تھے۔بیوروکریٹک نااہلی اور انتظامی ناکارگی نے مل کرخوں ریزی کے لیے ماحول سازی کاکام کیا،جوایک دو نہیں،پورے تین دن تک جاری رہی۔ایسالگتاہے کہ پولیس اور انتظامیہ سے مرکب سٹبلشمنٹ کمبھ کرنیوں کی زدمیں تھے اور اس کی نہایت بھاری قیمت چکانی پڑی۔
معقول احساسِ ذمے داری دہی کا فقدان:
پوری زندگی قانون کا طالب علم رہنے کی حیثیت سے،میں حیرت زدہ رہ گیاکہ عدلیہ نے کسی معقول ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کیا۔قانون کے مطابق ہر عوامی آفت یا نسلی فساد کے متاثر شخص کو قانونی خدمت کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اورپر ہونے والے ظلم کے خلاف کیس فائل کرے،مثلاً ہونے والے نقصان کے معاوضہ وغیرہ کے لیے۔پارلیمنٹ کے ذریعے پاس کردہ قانون کے تحت دہلی اسٹیٹ لیگل سروسز اتھارٹی کی ذمے د اری تھی کہ وہ متاثرین کی مدد کے لیے اقدامات کرتی،مگر وہ کہاں تھی؟ انصاف تک رسائی محض ایک نعرہ نہیں،مقصداور ہدف ہوناچاہیے۔اس اتھارٹی نے اس فساد کے پورے ایک ہفتے بعدپانچ ہیلپ ڈیسک قائم کیے،مگر ان میں سے جن دو ہیلپ ڈیسک کامیں نے معاینہ کیا،وہاں کے وکلا کو خود ہی مدد کی ضرورت ہے،انھیں اپنی ذمے داری کاکچھ پتاہی نہیں۔میں ان خیر اندیش وکلاکی کوششوں کی تحقیر نہیں کررہا،مگر مجھے یقین ہے کہ جب دہلی لیگل سروسزاتھارٹی اپنی سالانہ رپورٹ تیار کرے گی تو اس میں فساد متاثرین کے مفاد میں کیے گئے قانونی اقدامات کو بڑھا چڑھا کر بیان کیاجائے گا۔ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہیے۔
البتہ دہلی ہائی کورٹ سے جب رجوع کیاگیا تواس نے فوری ایکشن لیا۔دیررات کیس کی سماعت کی اور فساد متاثرین کو راحت دیتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کی جواب دہی سے متعلق سوالات کیے۔گرچہ اگلے ہی دن عوام کے محافظین کوایسا لگاکہ ملزمین کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے لیے اس وقت ماحول سازگار نہیں ہے اور کیس کو اگلے چھ ہفتوں کے لیے لٹکادیاگیا۔آپ تصور کیجیے کہ ایک شخص گھریلو تشددکا شکار ہے یا ایک عورت جنسی ہراسانی کی شکارہے اور وہ ایف آئی آر درج کروانے کے لیے تھانے جاتی ہے اور وہاں ایس ایچ اواسے کہتاہے کہ ابھی رپورٹ درج کرنے کے لیے ماحول سازگارنہیں ہے،چھ ہفتے بعد آنا،توکیااس عرصے میں اس کے ساتھ دوبارہ تشددیاہراسانی کاامکان نہیں ہے؟کیا یہ حیرت ناک لاجک نہیں ہے؟یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کواس سلسلے میں مداخلت کرنی پڑی اورہائی کورٹ کوحکم دیناپڑاکہ سماعت میں جلدی کرے،مگر مسئلہ یہ ہے کہ متاثرین میں سے کتنے لوگ سپریم کورٹ جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟
ایک بار اگر ایف آئی آر درج ہوجائے تو متعلقہ مبینہ الزام کی تحقیق شروع ہوجاتی ہے؛لیکن اگر ایف آئی آر ہی درج نہ ہو تو کسی قسم کی تفتیش نہیں ہوسکتی۔کئی سارے فیصلے ہیں، جن میں کورٹ نے متاثرشخص کے ذریعے ایف آئی آر درج کروانے میں تاخیر پر سوالات کیے ہیں۔بہت سے کیسزمیں تاخیر کی مناسب وجہ بتائی گئی اور بہت سے کیسز میں ایسا نہیں ہوا،جس کی وجہ سے ملزم رہاکردیاگیا،ایف آئی آر کی اس حد تک اہمیت ہے۔تفتیش کی جو سب سے اہم خاصیت ہے وہ ہے ثبوتوں کو جمع کرنا اور اگر ان ثبوتوں کو مٹانے یا گواہ کو متاثر کرنے کا امکان پایاجائے تو ملزم کو انوسٹی گیشن آفیسرکے ذریعے گرفتار بھی کیاجاسکتاہے؛لہذااگر دہلی ہائی کورٹ کے ذریعے ایف آئی آر درج کرنے کو چار ہفتوں کے لیے مؤخر کردیاگیاہے،تواس عرصے میں ایک ہوشیار ملزم چالاکی کا مظاہرہ کرکے اپنے خلاف اہم ثبوتوں کومٹا سکتا اور گواہوں کو دھمکی یالالچ دے کر خاموش کرسکتاہے،جس کے نتیجے میں پولیس اس کے حوالے سےno offence report فائل کردے گی اور اس طرح یہ پورا کیس ہی بند ہوجائے گا۔اس پورے سلسلے کو انصاف کہاجائے گا یا ناانصافی؟
عدلیہ کی اخلاقی ذمے داری:
فرقہ وارانہ فسادات کے موقعوں پر عدلیہ کی ذمے داری نہایت اہم ہوتی ہے؛کیوں کہ وہ ہنگامہ آرائی کو فساد بننے سے روک سکتی ہے۔عدلیہ کے پاس نہ توتلوار ہے اور نہ ہی وہ ریاست کےpurse stringپر کنٹرول رکھتی ہے، البتہ وہ اس اعتبار سے طاقت ور ہے کہ اسے اخلاقی اتھارٹی اور عوامی اعتماد حاصل ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عدلیہ جو کہتی یاکرتی ہے،زمینی سطح پراس کا غیر معمولی اثر ہوتاہے، اس سے قطع نظر کہ تلواراور purse stringکس کے ہاتھ میں ہے۔اسی وجہ سے ایسی صورت حال میں فوری ایکشن کی ضرورت ہوتی ہے؛لہذاکورٹ سے یہ کہتے ہوئے کہ رپورٹ درج کرنے کے لیے ماحول سازگارنہیں ہے کیس کو مؤخر کرنے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔اکثروبیشتر جب ریاست اور پولیس اپنی تمام تر قانونی طاقت و قوت کے باوجود ناکام ہوجاتی ہے، تو کورٹ کی مداخلت سے ہی ماحول سازگار بنتاہے۔ سامراجی نظریہ ختم ہوناچاہیے کہ کورٹ ری ایکٹیوہو،اس کی جگہ عوامی مفاد میں یہ نظریہ تشکیل پاناچاہیے کہ کورٹ فعال ہو۔اگرایسانہیں ہواتواے ڈی ایم جبل پورکیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ پھر اپنی پہنائیوں سے باہر نکل آئے گااور ہماراپیچھا کرتارہے گا۔
حالیہ واقعات سے واضح طورپر معلوم ہوتاہے کہ پولیس نے اظہارِ خیال کی آزادی اور اشتعال انگیز بیان بازی کو پوری طرح خلط ملط کردیاہے۔سیاسی قوت رکھنے والے افراد کی جانب سے اشتعال انگیز تقریر اور نعرے بازی، جو غداری کے جرم میں آئے یا نہ آئے،مگر نفرت انگیز بیان بازی کے زمرے میں تو آتی ہی ہے،مگر اس پر بالکل توجہ نہیں دی گئی۔دوسری طرف کمزورلوگوں کوایسے عمل کے لیے بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیاگیاجس کی وجہ سے معمولی جھڑپ بھی نہیں ہوئی چہ جائیکہ اس کے ذریعے ”نفرت پھیلائی جائے یااس کی کوشش کی جائے،قانون کے مطابق قائم حکومت کے خلاف لوگوں کو بھڑکایاجائے یابھڑکانے کی کوشش کی جائے“،اس پس منظر میں اوہاراکے جواب میں بروسلی کا مشہور مقولہ کتنا درست ہے کہ ”اگرآپ لکڑی کے تختے کوتوڑتے ہو،تووہ مڑکر حملہ نہیں کرے گا“۔پس ایک دوسرے پرالزام تراشی کے کھیل سے قطع نظر سوال یہ ہے کہ جو لوگ دہلی فساد کے ملزم ہیں،کیاان کی شناخت ہوگی اوران پر مقدمہ ہوگا اور اگر ہوابھی،توکیاانھیں سزاملے گی؟ہماری عدلیہ کوتو1984فسادات میں سجن کمارپرالزام ثابت کرنے میں پورے35سال لگ گئے۔اب حالیہ فسادکے مجرموں کوکب تک پکڑاجائے گااور کب تک سزاملے گی،پتانہیں اور اس کی کس کو فکر ہوگی؟
آخری بات:
ہمیں اپنے ملک کے عظیم الشان دستور کے دیباچے کو پڑھنا چاہیے اور اس میں موجود ان چار اہم ترین الفاظ کی قدرکرنی چاہیے”انصاف،آزادی،مساوات، اخوت“۔ اورسوچنا چاہیے کہ ہم ان تمام یا ان میں سے بعض الفاظ کی معنویت کوبھی سمجھ رہے ہیں یا بالکل ہی نہیں سمجھ رہے؟

(مضمون نگار سپریم کورٹ آف انڈیاکے سابق جسٹس اور فی الوقت سپریم کورٹ آف فیجی کے جج ہیں۔اصل مضمون 8؍مارچ کے روزنامہ دی ہندومیں شائع ہواہے)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×