سیاسی و سماجی

طالبان-امریکہ امن معاہدہ:دنیا کا ردِ عمل کیا ہے؟

19سال کی اعصاب شکن جنگ کے بعد بالآخر امریکہ نے طالبان مزاحمت کاروں سے معاہدۂ امن کرنے میں ہی عافیت جانی اور 29فروری2020کوقطری راجدھانی دوحہ میں امریکہ و طالبان کے درمیان ایک معاہدہ ہوا،جس کے بعد یہ امیدکی جارہی ہے کہ افغانستان میں حقیقی معنوں میں امن وامان کی واپسی ہوجائے گی۔اس معاہدے پر افغانستان کے دواہم پڑوسی ممالک ہندوستان وپاکستان سمیت دنیابھر کے مختلف ممالک کا ردعمل سامنے آرہاہے اوروہاں کے لوگ اپنے اپنے حساب سے اس ڈیل پر اظہار خیال کررہے ہیں۔سنیچر کے دن افغانستان اورامریکہ سمیت ہندوستان،پاکستان اور اقوامِ متحدہ کے ممبرممالک کے ڈپلومیٹس دوحہ کے فائیوسٹارشیراتون ہوٹل میں جمع ہوئے اور وہاں یہ معاہدہ عمل میں آیا۔اس موقع پر امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیونے تمام ڈپلومیٹس کی میزبانی کی۔
ہندوستان نے طالبان و امریکہ کے درمیان ہونے والے اس معاہدے پر محتاط ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ اس کی یہ پرانی پالیسی ہے کہ افغانستان میں امن و امان،سلامتی واستقلال اور دہشت گردی کے خاتمے کا سبب بننے والے تمام مواقع کی حمایت کی جائے۔وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمارنے کہاکہ پڑوسی کی حیثیت سے ہندوستان افغانستان کی ہر قسم کی مدد جاری رکھے گا۔قابل ذکرہے کہ افغانستان کے معاملات میں ہندوستان بھی ایک اہم فریق کی حیثیت رکھتاہے،اب تک افغانستان کی تعمیر نومیں ہندوستان دوارب ڈالر خرچ کرچکاہے۔وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے امن معاہدے پر ہندوستان کی ترجمانی کرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ”ہم نے نوٹ کیاہے کہ افغانستان کے تمام سیاسی گروپ،حکومت،جمہوری سیاسی رہنما اور سول سوسائٹی نے اس معاہدے کے ذریعے افغانستان میں امن و استقلال کے قیام کے تئیں امید کا اظہار کیاہے“۔افغان لیڈرشپ کے ساتھ اپنی میٹنگ میں بھی انھوں نے یہ بات دہرائی کہ ہندوستان افغانستان میں امن و استقلال،سیاسی و معاشی ترقی میں اشتراک کے تئیں پابند عہد ہے۔پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک بیان میں کہاکہ”پاکستان نے اس امن معاہدے کے تئیں اپنی ذمے داری پوری کردی ہے۔پاکستان آیندہ بھی ایک پرامن، مستحکم، متحد، جمہوری و فلاحی افغانستان کی حمایت کرتارہے گا“۔نیٹونے اپنے بیان میں کہاہے”امن کے تعلق سے حالیہ تبدیلی نے افغانستان میں تشددکے خاتمے کے تئیں امید جگائی ہے اورجامع امن معاہدے تک پہنچنے کے لیے طالبان و افغانستان کے مرکزی دھارے کے درمیان باہمی مذاکرات کی راہ ہموار کی ہے“۔
اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیوگیٹریز نے ملکی سطح پر تشددکے خاتمے پر زور دیتے ہوئے طالبان-امریکہ معاہدے کو افغانستان میں ایک دوررس سیاسی استحکام کے حصول کے سلسلے میں اہم قرار دیا ہے۔ وہائٹ ہاؤس نے اپنے بیان میں کہاہے”ہماری قوم نے افغان بحران کے خاتمے کے تئیں ذمے دارانہ اپروچ کا مظاہرہ کیاہے اور ہم طالبان پر نظر رکھیں گے کہ وہ اپنے عہد کی پاسداری کرتے ہیں یانہیں۔صدر ٹرمپ نے وعدہ کیاہے کہ وہاں سے ہماری فوج واپس بلالی جائے گی اورہم اپنے اس وعدے کو پورا کریں گے“۔افغان صدر اشرف غنی نے کابل میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا”اس معاہدے کے تمام پہلو ایک شرط سے مشروط ہیں،جس کا انحصارامن کے تئیں طالبان کے عہد پرہے۔اس ڈیل میں کئی نکات ہیں جنھیں مذاکرات کے دوران ملحوظ رکھنا ہوگا۔ افغان گورنمنٹ کے فریم ورک کے تحت ہماری ایک جامع مذاکراتی ٹیم ہوگی“۔
افغان شہری کیاکہتے ہیں؟
24سالہ عصمت،صوبہ ہلمند:
”افغان طالبان اور سکیورٹی فورسز کی باہمی جھڑپوں میں میں نے اپنا ایک پاؤں کھودیا۔میرے والدایک عمردراز قبائلی تھے،وہ میرے دس سالہ بھائی کے ساتھ سفرکررہے تھے کہ طالبان نے ان پر حملہ کردیا اور وہ دونوں مرگئے۔میں روزاس تجسس کے ساتھ ریڈیوسنتی ہوں کہ امن مذاکرات کہاں تک پہنچا؟ میں اس پروسیس کی حمایت کرتی ہوں اور روز دعاکرتی ہوں کہ جنگ کا خاتمہ ہواور ملک میں امن قائم ہو،مجھے جنگ سے نفرت ہے“۔
ستائیس سالہ زرمینہ،غزنی:
”آدھی رات کا وقت تھاکہ طالبان اور سکیورٹی فورسزکے درمیان تصادم شروع ہوگیا۔مجھے معلوم نہیں کہ میرے گھرپرگرنے والا راکٹ تھایابم۔میرے شوہر اور تین بچیاں اس کی زدمیں آکر مرگئے۔میرے شوہر کاسران کے دھڑسے الگ ہوچکا تھا۔میری دوبیٹیاں زندہ ہیں،مگر ان کا ذہنی توازن برقرار نہیں رہا۔میں امن مذاکرات کے تئیں پرامید ہوں،مجھے پتانہیں کہ امن قائم ہوگایانہیں،مگر جنگ ہرحال میں ختم ہونی چاہیے“۔
فضائی حملے میں اپنے گھرکے بارہ افراد کوکھونے والی ننگرہارصوبے کی وحیدہ:
”میں نے اپنے دوبھائی، آٹھ بہنوں اور اپنے والدین کو کھودیا۔میں بھی بری طرح زخمی ہوئی اور چلنے کے قابل نہیں رہی۔کیامیں اس سانحے کو بھول سکتی ہوں؟جب آپ کے گھرکے لوگ آپ کی آنکھوں کے سامنے مررہے ہوتے ہیں،آپ ان کی دردناک آواز سنتے ہیں مگرکوئی مددنہیں کرسکتے،آپ تصوربھی کرسکتے ہیں کہ اس وقت کیاکیفیت ہوتی ہوگی؟اگراس ملک میں امن قائم ہوتاہے اور طالبان وامریکہ کے درمیان ہونے والا معاہدہ کامیاب ہوتا ہے،توبھی نہ تومیری زندگی بدل سکتی ہے اورنہ ہی میرے پیارے مجھے مل سکتے ہیں،ہاں!مگراس سے دوسرے لوگوں کی زندگیاں بدل سکتی ہیں۔وہ اپنے پیاروں کونہیں کھوئیں گے اور یہی بڑی بات ہے“۔
کابل کی بائیس سالہ حجت عزت:
”میرا بھائی احمد چوبیس سال کا تھا،اس کا یونیورسٹی کا آخری سال تھا،وہ یونیورسٹی جارہاتھاکہ راستے میں بم بلاسٹ ہوگیا،ہمیں صرف اس کا پاؤں مل سکا۔ہم موسمِ بہارمیں اس کی شادی کے منتظر تھے مگر ہمیں اسکے کفن دفن کا انتظام کرنا پڑا،امن قائم ہوجائے تب بھی ہمارادردختم تونہیں ہوسکتا،لیکن اگر واقعی ایسا ہوتاہے تودوسرے بہت سے لوگ اپنے اعزاکوکھونے سے بچ جائیں گے“۔
قابل ذکرہے کہ اس معاہدے کے مطابق آنے والے چودہ ماہ کے اندرامریکہ افغانستان سے اپنی ساری افواج بلالے گا۔13000میں سے 8,600سپاہیوں کو اگلے تین چار ماہ میں بلالیاجائے گااوراندرون افغان طالبان،حکومتِ افغانستان اور دیگر متعلقہ فریقوں کے درمیان امن مذاکرات کا سلسلہ 10مارچ سے شروع ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×