سماجی دوری کتنی ضروری؟‘ ساوتھ کوریا کے اکتیسویں کورونا مریض کی زبانی
ساوتھ کوریا کا پہلا کوروناپازیٹیو مریض 20 جنوری 2020 کو پایا گیا، حالات اگلے اٹھائیس دن تک نارمل رہے یعنی 17 فروری تک صرف تیس افراد کی تشخیص ہوسکی جو کورونا وائرس سے متاثر تھے لیکن اکتیسویں مریض نے نارمل حالات کی قلعی کھول دی، 17 فروری کو اکتیسویں مریض سے 4 مارچ کے درمیان صرف سولہ سترہ دنوں میں کورونا وائرس مریضوں کی تعداد یکدم چھ ہزار (6000)سے متجاوز ہوگئی، جن میں سے نصف تعداد تک وائرس صرف اکیلے اکتیسویں مریض کے ذریعہ پھیلا، یہ کیسے ہوا اگلی سطور میں ملاحظہ کریں، دی ہندو نیوز پیپر مورخہ 25 مارچ نے اپنے اخبار کے صفحہ نمبر بارہ پر جنوبی کوریا اورسنگاپور میں مریضوں کی بڑھتی تعداد اور ان کے عوامل پر بہترین نقشہ تیار کیا ہے، (دی ہندو آن لائن دستیاب نہیں ہے) ۔
تفصیلات کے مطابق جنوبی کوریا کے "ڈائیگو” شہرمیں رہنے والی اکسٹھ برس کی ایک خاتون کا چرچ آنا جانا لگا رہتا تھا، معمول کے مطابق 9 فروری صبح ساڑھے سات بجے وہ چرچ جاکر آگئی، 10 فروری کو تیز بخار چڑھنے پر ڈاکٹر نے کورونا جانچ کا مشورہ دیا جس کو اس خاتون نے نظر انداز کرتے ہوئے 15 فروری کو "ڈانگ گو” شہر کے ایک ہوٹل میں اس نے اپنے ایک ساتھی کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا ، اگلے دن 16 فروری کو صحت خراب رہنے کے باوجود وہ وہی چرچ دوبارہ گئی جہاں وہ 9 فروری کو گئی تھی، اس دن چرچ میں جنوبی کوریا کے 15 مختلف شہروں سے آئے ہوئے 1160 افراد موجود تھے، 17 تاریخ کو یہ خاتون کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا ، پھر اس کے بعد جو سلسلہ شروع ہوا توہزاروں افراد اس سے متاثر پائے گئے، 20 مارچ تک جنوبی کوریا میں کورونا مریضوں کی تعداد آٹھ ہزار چھ سو (8600) سے متجاوز تھی جس میں پانچ ہزار اٹھائیس (5028) مریضوں کا تعلق اُسی چرچ سے تھا یعنی وہ خود یا ان کے قریبی افراد 16 فروری کو چرچ میں موجود تھے جہاں وہ کورونا سے متاثر خاتون موجود تھی…
چرچ کے اس غیر ذمہ دارانہ رویہ پر جنوبی کوریا کی عوام نے شدید غصہ کا اظہار کیا، جس پر چرچ کے مالک "لی مین ہی” نے باقاعدہ پریس کانفرنس میں عوام کے سامنے "سر زمین پر ٹیک کر” معافی مانگی، جنوبی کوریا کے دارالحکومت "سیول” نے چرچ کے مالک کے بشمول بارہ افراد پر قتل ، تکلیف پہونچانے اور وبائی امراض کو روکنے کے لئے بنائے گئے قوانین کی خلاف ورزی کے مقدمات کے تحت قانونی شکایت درج کروائی ہے…
پیر کے روز جنوبی کوریا کے وزیر اعظم نے کہا کہ "چرچ کایہ رویہ نہ صرف اپنے ماننے والوں کے لئے نقصان دہ بلکہ ملک میں بسنے والی باقی برادریوں کے لئے بھی تشویشناک ہے ،ہم سماجی دوری کے بنائے گئے قوانین کی خلاف ورزی پر ان چرچوں کے خلاف ضرور قدم اٹھائیں گے”، جنوبی کوریا قریب ساڑھے پانچ کروڑ کی آبادی والا آبادی کے اعتبار سے ایک چھوٹا سا ملک ہے، ہمارے ملک میں دیکھا جائے تو صرف اتر پردیش میں بسنے والوں کی سرکاری گنتی بیس کروڑ اور مہاراشٹرا کی بارہ کروڑ ہے، آدھی سے زیادہ آبادی غیر مذہب یا ملحد ہے، عیسائی (پروٹسٹنٹ اور کیتھولک) تقریبا اٹھائیس فیصد ہیں، جس چرچ میں یہ وقعہ پیش آیا وہ پروٹسٹنٹ فرقہ سے تعلق رکھتا ہے، حکومتی عہدہ داروں کا الزام ہے کہ چرچ سے جب 16 فروری کو موجود شرکاء کی فہرست مانگی گئی تو چرچ انتظامیہ نے اولا تو فہرست دینے سے انکار کیا بعد میں جب انہوں نے فہرست دی تو دوبارہ یہ الزام لگایا گیا کہ فہرست نامکمل دی گئی ہے، چرچ نے اپنی صفائی میں کہا کہ فہرست تیار کرنے میں وقت لگ رہا تھا جسے انکار پر محمول کیا گیا لیکن ملک کی غیر مذہبی اکثریت نے اس صفائی کو رد کردیا ہے، جنوبی کوریا میں اس وبائی مہلک مرض کے پھیلنے پر چرچ کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے…
سنگاپور میں اب تک ساڑھے پانچ سو سے زیادہ مثبت کورونا مریض پائے گئے ہیں جن میں آدھے سے زیادہ افراد کو کورونا وائرس 15 فروری کو ایک کلب کے ریسٹورنٹ میں ہونے والی ڈنر پارٹی سے ملا جہاں صرف ایک مریض موجود تھا، یہ مریض بعد میں ایک جِم گیا جہاں اس سے کچھ اور افراد بھی متاثر ہوئے،ان سطور کی تحریر تک جنوبی کوریا میں کورونا مریضوں کی کُل تعداد نو ہزار دو سو اکتالیس (9241) تک پہونچ چکی ہے جس میں سے ایک سو اکتیس (131) افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، ابھی بھی روزانہ سو کے اوسط سے لوگوں میں مرض پھیل رہا ہے…
اسی لئے ماہرین کی جانب سے وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لئے سماجی دوری انتہائی ضروری قرار دی گئی ہے، اب چاہے یہ سماجی دوری بازاروں میں ہو یا عبادت گاہوں میں ، جنوبی کوریا کے چرچ کے معاملہ کو سامنے رکھتے ہوئے ہم پر بھی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی عبادت گاہوں کے معاملہ میں کافی احتیاط برتیں، باشعور بنیں اور دوسروں میں شعور بیدارکریں…
ایک عذاب اللہ کی جانب سے مسلط ہے، داعی ہوں یا مبلغ، عالم ہو یا علامہ، مجبوری کی درجہ میں ہی سہی لوگوں کو مساجد آنے سے روکنا پڑرہا ہے، عوام بھی اپنی ناواقفیت اور بے شعوری کا ثبوت دینے پر تلی ہوئی ہے، ایسے میں ضرورت ہے مستقبل کے خدشات اور موجودہ حالات کے پیش نظر اپنے اپنے علاقوں میں اہل علم نمائندگی کریں…
مضمون نگار سے رابطے یا اپنی رائے کے اظہار کے لئے:
+91 9966 870 275
muftinaveedknr@gmail.com