سیاسی و سماجی

ہم ہندوستان کو کیا دے رہے ہیں؟ (تہترویں یوم آزادی کے موقعہ پر ایک خصوصی تحریر)

ابو عبد اللہ محمد الادریسی القرطبی بارہویں صدی عیسوی کے مشہور جغرافیہ داں،نقشہ نویس، سائنس داں اور مصنف ہیں، یہ سن 1100 عیسوی میں موجودہ اسپین کے شہر سیوتا میں پیدا ہوئے جسے عربی زبان میں سبتہ بھی کہا جاتا ہے، زندگی کا ابتدائی حصہ اپنے جد امجد کے ساتھ ملکوں کی سیاحت میں گذارا، اسلامی اندلس کے تاریخی شہر قرطبہ میں تعلیم حاصل کی، یہ وہ دور تھا جب اندلس میں قیادت افرا تفری کا شکار تھی، مرابطین اور موحدین نامی دو حکمران خاندانوں کے درمیان اندلس کا تخت رسہ کشی کا شکار تھا، اپنے وطن میں شورش اور غیر مستحکم حکومت کے نتیجہ میں الادریسی نے اٹلی کے شہر سسلی میں سکونت اختیار کی ، اس وقت اٹلی کا یہ شہرفرانس کے عیسائی خاندان نارمنس کے قبضہ میں تھا،سن 1130 عیسوی میں یہاں کی حکومت راجر دوم کے ہاتھ آئی ، سن 1148ء تک اس خاندان کی حکومت افریقہ تک پہونچ چکی تھی اور اس وقت کی مضبوط مرکزی حکومتوں میں اس کا شمار ہونے لگا تھا۔
اپنی حلف برداری کے آٹھ سال بعد راجر دوم کو دوسرے عظیم بادشاہوں کی طرح یہ خیال آیا کہ کیوں نہ مکمل زمین کا نقشہ بنایا جائے تاکہ پتہ چلے کہ اپنی سلطنت زمین کے کتنے حصہ پر قائم ہے، اس نازک اور اہم کام کے لئے راجر دوم کی نظر اپنی وسیع و عریض سلطنت میں ایک مسلمان ماہر جغرافیہ داں الادریسی پر پڑی، مہارت اپنا لوہا منوا کر رہتی ہے، حالانکہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان پہلی صلیبی جنگیں ہوئے زیادہ وقت نہیں گذرا تھا، اور جن دنوں راجر دوم نے الادریسی کو یہ کام سونپا ان دنوں مسلم حکمران عماد الدین زنگی اور عیسائیوں کے مابین عراق میں جھڑپیں چل رہی تھیں جو بعد میں دوسری صلیبی جنگوں کا پیش خیمہ بنیں، ان ساری تفاصیل سے قطع نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ راجر دوم کو الادریسی کے علاوہ کوئی جچا ہی نہیں جسے یہ ذمہ داری دی جاسکے۔
الادریسی بھی اپنے کام کے کچے نہیں تھے، اپنے سے غیر مذہب کے حکمران کے اعتماد کو انہوں نے ٹھیس نہیں پہونچائی اور اپنے کام میں لگ گئے، تیز رفتار وسائل سفر کی قلت کے باوجود الادریسی نے وہ شاہکار تیارکیا جس کو آج کی جدید دنیا بھی فراموش نہ کرسکی، پندرہ سال بعد سن 1158 میں مسلسل محنت اور جدو جہد، تحقیق و تفتیش کے بعد الادریسی نے تین چیزیں راجر دوم کی خدمت میں پیش کیں، ایک؛ چاندی کی تختی پر بنایا گیا دنیا کا اجمالی نقشہ دوسرے ؛دنیا کو سات منطقوں میں تقسیم کرکے ستر حصوں میں واضح کیا گیا تفصیلی نقشہ اور تیسری چیز عربی اورلاطینی زبان میں تحریر کردہ ایک کتاب، الادریسی نے کتاب کا نام ”نزھة المشتاق فی اختراق الافاق“ رکھا، ایس پی اسکاٹ اپنی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ تین صدیوں تک جغرافیہ داں الادریسی کے نقشوں اور کتاب سے فیض یاب ہوتے رہے (ہسٹری آف مورش ایمپائر)الادریسی نے اس غیر مشینی دور میں دائرہ زمین کی گولائی کی وسعت کااندازہ 37000 سینتیس ہزار کلو میٹر کا لگایا جبکہ جدید تحقیق میں زمین کا قطر (گولائی)چالیس ہزار پچھتر 40,075 کلو میٹر کی ہے یعنی نو سو سال بعد بھی صعف دس فیصد سے بھی کم فرق، نقشہ کی تیاری میں الادریسی نے عرب کے علاقہ کو درمیانی حصہ میں رکھا جو کہ اسلامی نقطہ نظر سے زمین کا مبدا بھی ہے، یعنی عیسائی بادشاہ کی زیر نگرانی کام کرتے ہوئے بھی الادریسی کی اسلامی روح فنا ہرگز بھی نہ ہوئی تھی۔
 الادریسی کی مذکورہ کتاب کے تین نسخے فی الحال تین ممالک فرانس، لندن اور استنبول میں موجود ہیں، استنبول والے نسخے کو مکمل نسخہ مانا جاتا ہے، 1529 عیسوی میں اس کتاب کا ایک نسخہ عربی زبان میں ”روم “ شائع کیا گیا، ابن بطوطہ (م 1369ء) اور ابن خلدون(م 1406ء) جیسے نامی سیاحوں نے بھی اس کتاب سے فائدہ اٹھایا ، کولمبس (م 1506ء) جس کے سر پر امریکہ کی دریافت کا تاج ہے ، اس نے بھی الادریسی کے نقشوں کو سامنے رکھ کر منزل طئے کی، واسکوڈی گاما (م 1525ء) سمندری راستے سے ہندوستان کی سرزمین پر آنے والا پہلا یورپین اسے بھی الادریسی کی کتاب اور نقشوں نے متاثرکیا۔1987ء میں کلارک یونیورسٹی نے جغرافیائی نظام کے ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کا ایک جی آئی ایس سسٹم بنایا جسے ”ادریسی“کا نام دیا گیا، اس سسٹم کو تقریبا 180 ممالک میں استعمال کیا جاتا ہے، الادریسی کی وفات 1165ء میں ہوئی اور سیوتا میں آج بھی الادریسی کا عظیم الشان مجسمہ اپنی تمام یادگاروں کے ساتھ ایستادہ ہے۔
الادریسی کی زندگی اور ایک عیسائی بادشاہ کا ناخوشگوار حالات میں بھی اس کی مہارت کا تسلیم کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ دنیا ہمیشہ دینے والوں کی قدر کرتی ہے ، لوگ ہوں یا چیزیں جب دینے کی صفت سے محروم ہوجاتے ہیں تو کوڑے دان میں پھینک دیئے جاتے ہیں، انسان اپنی فطرت میں انتہائی خود غرض واقع ہوا ہے، یہ اپنے سے علاوہ ہر چیز کی قدر اس وقت تک کرتا ہے جب تک کہ وہ چیز نفع پہونچاتی رہے یا نقصان سے بچاتی رہے…
ہمارا تعلق ہندوستان سے قدیم نہیں بلکہ قدیم ترین ہے، ہم نے اس ملک کو کیا نہیں دیا؟؟ آٹھ سو سالہ اقتدار میں یہ ملک سونے کی چڑیا بنا، انجینئرنگ کے شاہکار یہاں مسلم حکمرانوں نے تعمیر کروائے، تعلیم کا اعلی نظم یہاں موجود تھا، صرف دہلی و اطراف میں ہزار کے قریب تعلیمی ادارے چلا کرتے تھے، ان سب کے باوجود جب ہم نفع رسانی کی صفت سے محروم ہوئے یا محروم کردئے گئے آج بے وقعت ہوچکے ہیں، کل تک جن کے گھر کے چراغ ہمارے خزانوں سے روشنی پاتے تھے آج انہی کے سامنے ریزرویشن کی بھیک مانگ رہے ہیں، کل تک جن کی زندگیاں ہمارے ہاتھوں محفوظ تھیں آج انہی کے ہاتھ ہمارے خون سے رنگے ہوئے ہیں..
سوال یہ نہیں کہ ہم نے ماضی میں ہندوستان کو کیا دیا ہے؟؟ بلکہ سوال یہ ہے کہ ہم فی الحال کیا دے رہے ہیں؟ جواب بڑا سخت ہے، پدر من سلطان بود (میرا باپ بادشاہ تھا) کی رٹ لگانے والوں کو آج تک کچھ نہیں ملا، دنیا نسب نہیں صلاحیت مانگتی ہے،چڑھتے سورج کی پرستش انسانوں کی فطرت ہے، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ منصوبہ بند طریقہ سے ہمیں پیچھے ڈھکیلا گیا ہے، ریزرویشن کے لالچ میں ہماری قابلیتوں کو زنگ لگایا گیا اور مائناریٹی کے دلفریب عنوان کی پٹی ہماری آنکھوں پر باندھ دی گئی اور ایک پوری نسل اسی امید اور لالچ میں پڑی رہ گئی کہ نوکریاں گھر کے دروازے تک آئیں گی…
آج ہمارے ہاتھوں میں کیا ہے؟ سرکاری نوکریوں میں ہمارا تناسب، ہندوستان فوج میں ہماری گنتی، ملک کی اعلی ترین سول سرویسس میں ہماری تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے، اب یہ مت کہئے یہ سب غیروں کی سازش ہے، کوئی رہبر نہیں ہے، قیادت خاموش ہے وغیرہ وغیرہ…یہ سب بہانے ہیں، یہ بہانے ہیں محنت سے جی چرانے اور یہ حرکت ہے اپنا کچرا کسی اور کے سر ڈالنے کی…
الادریسی کا بھی کوئی رہبر نہیں تھا وہ تو اپنے ملک میں بھی نہیں تھے لیکن ایک چیز ان کے پاس تھی قابلیت، قابلیت نے ان کے دروازے پر ایک عیسائی بادشاہ کو پہونچایا اور ان کی صلاحیت ہی ان کا نام آج تک زندہ رکھے ہوئے ہے…
آپ ان سطروں کو اگر پڑھ رہے ہیں تو ان الفاظ کی حدت و شدت اپنے دل میں محسوس ضرور کریں گے، جنگ آزادی کی تفصیلات آج کوئی پوچھ ہی نہیں رہا ہے کہ ہم سنائیں، کسی کو یہ فکر نہیں ہے کہ کتنے مسلمان مارے گئے تھے، نظر بس اس پر ہے کہ آج کا مسلمان کیا کررہا ہے، ہمت ہو تو ایک پروگرام اس عنوان پر رکھئے کہ آزادی کے بعد ہم نے اپنے بل بوتے پر ہندوستان کو کیا دیا ہے؟؟ قومی خزانے نے ہماری دولت سے کیا فائدہ اٹھایا ہے؟؟ ہم نے کتنے ماہر تعلیم حکومتوں کو دیئے ہیں؟ ماہرین معاشیات کی کتنی تعداد ہمارے ہاں ہے؟ اعلی فوجی صلاحیتوں کے قابل کتنے افراد ہمارے ہاں ہیں؟ نئی نئی بیماریوں سے لڑنے والے کتنے ڈاکٹرز ہماری قوم میں ہیں؟ سائنسدانوں کی فہرست شائع کیجئے، قانون کے ماہرین کی لسٹ بنائیے…کرسکتے ہیں تو ضرور کرئیے…یہ بھی بتائیے کہ ملک کے تعلیمی اداروں میں حکومت سے اسکالرشپ لیکر پڑھنے والے کتنے نوجوان دوسرے ملکوں میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں…فرق واضح ہوجائے گا…
گذارش ان سطور کے قاری سے بس اتنی سی ہے کہ قیادت کی طرف مت دیکھئے علماء کی رہبری کا انتظار مت کیجئے بڑوں کی نااہلی کا رونا مت روئیے ریزرویشن کے انتظار میں اپنے آپ کو مت گھلائیے، اپنے آپ کو قابل بنائیے، ہر صلاحیت جو وقت کی ضرورت ہو اپنے اندر پیدا کیجئے، نت نئے مضامین پر عبور حاصل کیجئے، ہندوستان کے لئے ضروری بن جائیے، اتنے ضروری بن جائیے کہ آپ کے بغیر منصوبے ادھورے لگنے لگیں اور پلاننگ ناقص رہ جائے…
یاد رکھئے ہیرے تجوری میں رکھے جاتے ہیں اور کچرے کو جلادیا جاتا ہے…آپ فیصلہ کیجئے آپ کو بننا ہے؟؟؟
مضمون نگار سے رابطے یا اپنی رائے کے اظہار کے لئے:
+919966870275

Related Articles

One Comment

  1. ماشاء اللہ انتہائی فکر انگیز تحریر ہے اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو اس کے ذریعے سے آگے بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

محمد حبیب الرحمن قاسمی کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×