سیاسی و سماجی

پرائیویسی پالیسی

انگریزی کہاوت ہے "اگر آپ کسی پروڈکٹ سے بلا معاوضہ مکمل مفت مستفید ہورہے ہیں تو سمجھ لیجئے کہ پروڈکٹ آپ ہیں” اب یوٹیوب کو ہی لے لیجئے، یوٹیوب سے آپ لذت سمع و بصر کا کام لیتے ہیں یہ آپ کا خیال ہے اور خیالِ خام ہے، آپ یوٹیوب سے نہیں بلکہ یوٹیوب آپ کی قوتِ سماعت و بصارت سے فائدہ اٹھاتا ہے، ویڈیو سے پہلے اشتہار آتے ہیں، پہلے نہیں آتے تھے، بعد میں پانچ سیکنڈ پر اشتہارروکنے کا آپشن تھا اب آہستہ آہستہ یہ آپشن ختم ہوتا جارہا ہے، بعض ویڈیوز پر تو پندرہ سے بیس سیکنڈ کا اشتہار دیکھنا پڑ رہا ہے، طویل ویڈیوز کے درمیان کہیں بھی اور کسی بھی قسم کا اشتہار آسکتا ہے، چاہے آپ تنہا ہوں یا مع اہل، بعض اصلاحی بیانات کے شروع ہونے سے پہلے اشتہار دکھا کریوٹیوب گناہ کرواتا ہے پھر خطاب کے ذریعہ توبہ کا راستہ بھی بتلاتا ہے، مفت اشیاءایسی ہی ہوتی ہیں، پہلے مزہ لگتا ہے پھر لَت لگتی ہے پھر انسان بلا سوچے سمجھے غلام بھی بن جاتا ہے…

یاہو، جی میل، ریڈیف وغیرہ جو ہمارے ای میلز کو دنیا کے کسی بھی کونے میں پلک جھپکنے کی دیری میں پہونچادیتے ہیں کیا یہ اپنی خدمات کا کچھ صلہ نہیں لیتے؟ ہر ایندرائڈ موبائل کے لئے ایک عدد جی میل آئی ڈی لازمی ہے لیکن شاید ہی کسی نے جی میل کی پرائیویسی پالیسی پڑھی ہوگی، ای میل سرویس کے علاوہ جی میل پندرہ جی جی بی تک بھیجی یا موصول ہونے والی ای میلز کے ڈیٹا یعنی تصاویر، ڈاکیومنٹس، ویڈیوز وغیرہ محفوظ رکھنے کی مفت سہولت دیتا ہے، اسی پر طلبہ و طالبات، آفیسرس وغیرہ اپنے ضروری دستاویزات ای میل کی شکل میں رکھتے ہیں تاکہ کہیں بھی اور کبھی بھی ڈاون لوڈ کرسکیں، اگر کسی کی ایک ای میل آئی ڈی کا اتنا ڈیٹا پُر ہوجائے تو وہ دوسری ای میل آئی ڈی بنا لیتا ہے لیکن آج تک کسی نے جی میل کو ان سرویسس پر پیمنٹ نہیں کی ہوگی…

اسکائپ ویڈیو کالنگ کی سہولت دینے والی اولین اور اب تک کی بہترین ویڈیو کوالٹی دینے والی اپلیکیشنس میں سرفہرست ہے، بشمول اہل علم دنیا بھرکے لاکھوں بلکہ کروڑوں افراد اس سے روزانہ نہ صرف مستفید ہوتے ہیں بلکہ بعض کے روزگار کا راستہ اسی اسکائپ سے ہوتا ہوا جاتا ہے، آج تک اسکائپ بھی تنخواہ یا معاوضہ سے محروم ہے، گوگل میپ جو راہ گم کردگان کا راہبربنا ہواہے اور جس کی راہنمائی میں پیچیدہ راہیں بھی سلجھ جاتی ہیں ، پہلے کی طرح سیدھے جاکر الٹے ہاتھ والی تیسری گلی میں کسی پان والے یا کرانہ والے کو فلاں صاحب کا مکان پوچھنے کی زحمت باقی نہیں رہی، آپ میزبان کے بھیجے گئے ایڈریس پر انگشت شہادت سے ٹچ کریں سارا راستہ کھل جا سم سم کی طرح نظروں کے سامنے آجاتا ہے، بدلے میں گوگل میپ نے کبھی پیسے نہیں مانگے، ہاں وہ آپ کی نقل و حرکت کو محفوظ رکھ لیتا اور بسا اوقات کسی شاپنگ سینٹر یا ریسٹورنٹ جہاں آپ وزٹ کئے ہیں اس کے بارے میں آپ کی رائے لینا چاہتا ہے تاکہ دوسروں کو آپ کی پسند نا پسند کی روشنی میں مشورہ دے ، بس یہی اس کی قیمت ہے جو اپنے ڈیٹا کی صورت میں آپ دیتے ہیں…

مقبول ترین ایپلیکیشین ”ٹرو کالر“ جس پر کسی کا بھی نمبر ٹائپ کریں وہ آپ کو اس بندے یا بندی کا وہ نام بتادے گا جس نام کے ذریعہ وہ نمبر مختلف موبائل فونس میں محفوظ کیا گیا ہے، ٹرو کالر جس موبائل میں انسٹال کیا جاتا ہے سب سے پہلے وہ اس موبائل کے "کانٹیکٹس” کواس کے مالک ہی کی اجازت سے کاپی کرلیتا ہے، جیسے ہی کسی اجنبی نمبر سے کال آتی ہے ٹرو کالر لمحوں کے اندر اپنے ڈیٹابیس میں اس نمبر کو تلاش کرتا ہے اور اس نمبر کے ممکنہ مالک کا نام آپ کی اسکرین پر جگمگانے لگتا ہے،کبھی آپ اپنا نمبر بھی ٹرو کالر پر تلاش کرکے دیکھیں پتہ چلے گا کہ لوگوں نے آپ کا نمبر اپنے موبائل میں کیسے سیو کیا ہے، آپ ٹرو کالر کو اس عظیم خدمت کا صلہ کیا دیتے ہیں؟

مذکورہ سبھی ایپلیکیشنس استعمال کنندہ سے اس کا ڈیٹا لیتے ہیں،اینڈرائڈ ہو یا ایپل سبھی کا چولہا اسی سے جلتا ہے، جی میل ہو یا یاہو ان کی دال ہمارے ہی ڈیٹا سے گلتی ہے، ہاں عالمی قانون یہ بنایا گیا کہ جو بھی لینا ہو استعمال کنندہ کی اجازت سے لیا جائے، ورنہ مواخذہ ہوگا، سوفٹ ویرس اور ایپلیکیشنس کو انسٹال کرتے ہی ایک اجازت نامہ نمودار ہوتا ہے جس کو مانے اور تسلیم کئے بغیر گاڑی آگے نہیں بڑھتی اور چونکہ ہمیں ضرورت بھی ہوتی ہے تو مان بھی لیتے ہیں ، آج کل تقریبا ہر ایپلیکیشن استعمال کنندہ سے اس کی لوکیشن مانگ رہی ہے، وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ آپ کے محل وقوع کے سامنے رکھتے ہوئے آپ کو بہتر سرویس دی جائے، کئی ایپلیکیشنس لوکیشن کی اجازت ملتے ہی آپ کے علاقہ اور زبان وغیرہ امور کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کے مزاج عالی تک رسائی حاصل کرلیتی ہیں اور وہی ذائقہ آپ تک پہونچایا جاتا ہے جس کے آپ متلاشی رہتے ہیں…

واٹس ایپ جس کے یوزرس ایک محتاط اندازے میں پانچ بلین یعنی پانچ سو کروڑ سے زیادہ ہیں وہ اب اپنی آمدنی بڑھانا چاہتا ہے، انیس فروری دو ہزار چودہ کو فیس بک کے ہاتھوں فروخت ہونے کے بعد اس میں کئی تبدیلیاں آئیں، ہر تبدیلی کا خیر مقدم کیا گیا، غلطی سے بھیجے گئے پیغام کو ڈیلیٹ کرنے سے لیکر گروپ ویڈیو کالنگ تک ہر سہولت کی پذیرائی کی گئ، ایک بڑی تبدیلی جس کا حال ہی میں اعلان کیا گیا کہ واٹس ایپ اپنے استعمال کنندگان کی معلومات ان کی اجازت کے ساتھ فیس بک سے شیئر کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کی آمدنی میں اضافہ ہوجائے، پہلی بات تو یہ کہ اسے ڈیٹا چوری نہیں کہا جاسکتا، چوری مالک کی لاعلمی میں کی جانے والی حرکت کا نام ہے، یہاں واٹس ایپ اجازت لیکر یہ عمل کرنا چاہتا ہے نیزواٹس ایپ کا اعلان یہ بھی بتاتا ہے کہ ہماری اس پالیسی سے ناراض ہوکراگر کوئی پانچ سات سو کروڑ "حساس” لوگ ہم سے بچھڑ بھی جائیں تو ہم سمجھیں گے کہ ہمارا ساتھ یہیں تک تھا، اب اسے واٹس ایپ کا غرور سمجھیں یا تکبر وہ استعمال کنندہ کی مرضی پر موقوف ہے…

واٹس ایپ ہی نہیں بلکہ موبائل اور کمپیوٹر کے کسی بھی سوفٹ ویر کو استعمال کرتے وقت آپ کو یہ علم رہنا چاہئے کہ کس حد تک آپ اپنی باتیں ان پلیٹ فارمس پر کہہ سکتے ہیں اور کیا کہنا نامناسب ہے، ہر بات ہر جگہ نہیں کہی جاتی اور نہ کہنی چاہئے، باری تعالیٰ نے زبان و آنکھیں انسان کواسی لئے دی ہیں کہ وہ ان کے استعمال سے بالراست اپنے مافی الضمیر کو اداکرے، ٹکنالوجی زمانے کی دَین ضرور ہے لیکن رازداری کی باتوں میں اپنے سائے سے بھی بچنے کی تلقین کی گئی ہے، اگر آپ خود اپنی پرائیوسی پالیسی کے تعلق سے ڈھیلے واقع ہوئے ہیں تو آپ واٹس ایپ سے ہجرت کرتے ہوئے چاہے کہیں بھی چلے جائیں آپ کی پرائیویسی محفوظ نہیں ہے…

عرصہ تین چار یوم سے جب سے یہ بحث چھڑی ہوئی ہے مجھے جس کمنٹ کی توقع تھی وہ ایک گروپ میں کل نظر آہی گیا، لکھا تھا "آٹھ فروری کو واٹس ایپ کی نئی پالیسی سے مسلمانوں کا بہت بڑا نقصان ہورہا ہے، توجہ دیں” یہ اور اس جیسی باتیں کہ بعض احباب کو ہر اُڑتا تیر اپنے اوپر ہی آتا نظر آتا ہے، ہر آنکھ ہمیں ہی گھورتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، ہر زبان ہمارے ہی خلاف زہر اگلنے والی لگتی ہے، اس بیماری کا کوئی علاج نہیں، واٹس ایپ کی نئی پالیسی کے بارے میں بھی کچھ افرادکچھ زیادہ ہی متفکر نظر آرہے ہیں حالانکہ اس کا اثرسبھی یوزرس پر ہوگا صرف مسلمانوں پر نہیں…

راقم کا ارادہ فی الحال کسی اور ایپلیکیشن کو واٹس ایپ کے متبادل کے طور پر زیر تجربہ لانے کا نہیں ہے، یہ وضاحت اس لئے کی گئی ہے تاکہ آپ بھی جذبات میں آکر قدم اٹھانے سے پہلے ایک بار سوچ ضرور لیں، آپ کو جن سے کام پڑتا رہتا ہے یا جن کی آپ کو ضرورت ہے اور وہ ہنوز مذکورہ ایپ کو زیر استعمال رکھ رہے ہوں تو لازما آپ کو بھی اس کا خیال رکھنا پڑے گا، آپ وہاں پرائیوسی کا لمبا چوڑا سبق نہیں سنا سکیں گے،یاد رکھئے آپ سے کام ہو تو آپ کی سنی جائے گی ورنہ آپ کو سننا پڑے گا…

خلاصہ یہ کہ اپنی پرائیویسی کا آپ خود خیال رکھیں، واٹس ایپ ہو یا ٹیلی گرام، سگنل لال ہو یا ہرا، ایپلیکیشن ترکی کا ہو یا سعودی کا، وہی باتیں ان کے ذریعہ کریں جن کے افشاءسے آپ کو کوئی فرق نہیں پڑے گا..

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×