سیاسی و سماجی

قضیہ بابری مسجد، مسلم پرسنل لا بورڈ اور کویتی وکیل

اس سال کے اوائل میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئیٹر کے افق پر چند عرب فکر مند چہرے طلوع ہوئے، یہ چہرے اُس وقت سرخیوں میں آئے جب انہوں نے ملک عزیز میں اکثریتی فرقہ کی جانب سے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر اپنی ناراضگی ظاہر کی، کشمیر کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف حصوں میں کی جانے والی وارداتوں کو انہوں نے آڑے ہاتھوں لیا، یہاں تک کہ اٹھارہ جون کو مُج٘بِل الشُرَیکہ نامی کویتی وکیل نے یہ تک ٹوئیٹ کردیا کہ "ہندوستانی مسلمان اپنے آپ کو تنہا ہرگز خیال نہ کریں، ہم ہندوتوا سے تعلق رکھنے والے سبھی اشرار کو عالمی عدالت میں گھسیٹیں گے، کسی کو بخشا نہیں جائے گا”، اس سے قبل تین مئی کو مذکورہ وکیل نے لکھا تھا کہ "ہندوتوا کی الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے، اب میرے ساتھ یو کے، یورپین یونین، کشمیر اور عالمِ عرب کے لیڈرس اور حقوق انسانی کے وکلاء شامل ہوچکے ہیں، عالمی برادری ہندوستان میں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کو مزید برداشت نہیں کرے گی”…

اس کے علاوہ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں سے اپیل بھی کہ وہ ہندوتوا ایجنٹس کے ہاتھوں ہونے والی زیادتیوں کو ان کے علم میں لائیں تاکہ وہ مواد سے لیس ہوکر کاروائی کر سکیں، نتیجہ میں اچھی خاصی معلومات بہم پہونچائی گئیں، ممبر آف پارلیمنٹ تیجسوی یادو کا ڈیلیٹ شدہ ٹوئیٹ جو عرب خواتین کی گستاخی پر مشتمل تھا، سونو نگم کا اذان کو لیکر بدنامِ زمانہ پیغام وغیرہ سب ان کے علم میں لایا گیا، جواب میں سوشل میڈیائی جنگ میں تیزی آتی گئی…

حال ہی میں بابری مسجد کی جگہ پر مندر کے سنگ بنیاد کو لیکر کویتی وکیل جذباتی ہوگئے، اور اسی جذبات کے دھارے میں بہہ کر انہوں نے ایک تحریر بشکل خط ٹوئیٹر پر بنام آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ دے ماری، جس میں انہوں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ پر بابری مسجد قضیہ کو عدالت میں Half-Hearted یعنی بے دلی سے لڑنے کا الزام لگایا اور کہا کہ اس بے دلی سے دفاع کے نتیجہ میں جیتا جانے والا مقدمہ شکست میں بدل گیا، ہندوتوا جنونیوں کے ہاتھوں بابری مسجد کی شہادت جیسے ہولناک اور مسلم برادری کے بنیادی حقوق کی پامالی جیسے مجرمانہ اقدام پر بورڈ کا رویہ کافی نرم رہا، جس کی بنا پر عالم عرب تکلیف کا شکار ہے، لہذا بورڈ ہنگامی میٹنگ کرے اور ہمیں مذکورہ مسئلہ کو عالمی عدالت میں لے جانے کی ذمہ داری دے…

مُج٘بِل الشُرَیکہ کا یہ پیغام کافی اَن پروفیشنل رہا، خط پر نہ تو تاریخ درج تھی اور نہ ہی دستخط، نیز اتنے اہم معاملہ کے لئے انہیں چاہئے تھا کہ وہ براہ راست بورڈ کے ذمہ داروں سے رابطہ کرتے، انہیں اپنے اعتماد میں لیتے، مسئلہ کی نزاکت اسی کا تقاضہ کرتی ہے اور سمجھداری کا مقتضی بھی یہی تھا لیکن سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اس ایشو کو چھیڑنا یا تو ان کی ناقابلیت کو ظاہر کرتا ہے یا پس پردہ سستی شہرت حاصل کرنے کی نیت، مزید برآں جو الزام انہوں نے بورڈ اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی پر لگایا وہ ناقابل برداشت تھا، ہر پیشے کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں، مذکورہ کویتی وکیل ان پیشہ وارانہ تقاضوں سے لاعلم معلوم ہوتے ہیں، ہندوستانی تاریخ میں سب سے طویل لڑی گئی قانونی جنگ کو انہوں نے بے دلی سے لڑی گئی جنگ بتایا، یہ وہ الزام ہے جو ایک چھوٹے سے معاملہ میں بھی شکست کھانے پر کوئی وکیل برداشت نہیں کرتا چہ جائیکہ جان ہتھیلی پر رکھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑی جانے والی لڑائی پر یہ الزام لگایا جائے…

خیر جو بھی ہو، بورڈ جواب دے تو کسے دے اور کیسے دے؟ نہ رابطہ نمبر درج نہ ای میل آئی ڈی کا پتہ؟ پرسوں دو اگست کو بورڈ کے وکیل ظفر یاب جیلانی نے مذکورہ خط کا منھ توڑ جواب دیا لیکن مکمل پیشہ وارانہ لیاقت کے ساتھ، جیسا کہ جواب میں مذکور ہے یہ جوابی خط کسی عام پلیٹ فارم پر نشر کرنے کے بجائے مُج٘بِل الشُرَیکہ کے ای میل آئی ڈی کو اپنی جانب سے ڈھونڈھ کر روانہ کیا گیا، خط میں منجملہ چار باتیں لکھی گئیں:

1) سن انیس سو بانوے میں بابری مسجد کے انہدام سے لیکر اب تک عرب مفکرین کہاں تھے کہ اب اچانک (مندر کے سنگ بنیاد پر) انہیں ہمدردی آگئی؟ ان اٹھائیس سالوں میں کسی عرب ملک نے ہندوستانی حکومت کے ساتھ اس مسئلہ پر تبصرہ تک نہیں کیا…

2) بابری مسجد کی شہادت اور بابری مسجد ملکیت مقدمہ دو الگ الگ چیزیں ہیں، پہلا فوجداری یعنی کریمنل اور دوسرا دیوانی سول معاملہ ہے، ملکیت کا فیصلہ آیا ہے انہدام و شہادت کا قضیہ ابھی چل رہا ہے…(کویتی وکیل نے ان دونوں کو خلط ملط کردیا تھا، جس سے ان کی قابلیت مزید نکھر کر سامنے آرہی ہے)

3) بورڈ کو بتایا جائے کہ مذکورہ وکیل کس قانون کی کس دفعہ کے تحت بابری مسجد کا مقدمہ عالمی عدالت میں لے جائیں گے اور ہندوستانی عدالت عظمی کے فیصلہ کو چیلنج کریں گے؟

4) مُج٘بِل الشُرَیکہ مذکورہ جوابی خط کا اگر جواب لکھنا چاہیں تو اپنی لیگل اسٹانڈنگ (وکالت کے تجربہ کو بتانے والی ایک اصطلاح) کو ضرور واضح کریں تاکہ ان کی جانب سے بورڈ اور بی اے سی کے وکلاء پر لگائے گئے نیچ گھٹیا اور غیر ضروری الزام کو سراہا جاسکے…

یہ جوابی خط حالانکہ ذاتی ای میل پر بھیجا گیا، بورڈ چاہتا تو خود اس کی تشہیر کرسکتا تھا لیکن بورڈ نے مناسب نہ سمجھا، لیکن اگلے ہی دن تین اگست کو مُج٘بِل الشُرَیکہ نے یہ خط ٹوئیٹر پر ڈال دیا جس میں انہوں نے بالعموم عالم اسلام اور بالخصوص اسلامیان ہند کے سامنے بورڈ کی جانب سے ان کی حوصلہ شکنی کا رونا رویا اور خود فیصلہ کرنے کی اپیل کی یعنی بورڈ جنگ لڑ کر بھی غلط اور یہ صاحب لڑائی کے بعد مُکا مارنے کے شوق میں آکر بھی صحیح…

بابری مسجد قضیہ پر ملک کی تاریخ میں یوم اول سے آج تک جو کچھ ہوا ہے اور کس کس نے اپنی روٹیاں سینکی ہیں وہ اہل علم و دانش سے مخفی نہیں ہے، مختلف عناوین و موضوعات میں یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کی یاد سے ہر باغیرت مسلم کا خون جوش مارنے لگتا ہے دماغ کی نسیں پھڑپھڑانے لگتی ہیں، اس کیفیت کا کئی کم ظرفوں نے خوب فائدہ اٹھایا، اب جبکہ ہم اپنی کوشش تام کرچکے ہیں، فیصلہ مندر کے حق میں آچکا ہے، اب بھی کچھ لوگ چاہتے ہیں اس عنوان پر اپنا الو سیدھا کیا جائے…

میں بورڈ کا باضابطہ کیا بے ضابطہ بھی ممبر نہیں ہوں اور نہ ہی مؤقر کویتی وکیل پر میرا کچھ قرض باقی ہے، لیکن عرصہ دو سال سے وادی وکالت کی سیر کررہا ہوں، قانون سے عدم واقفیت کے سبب اچھے خاصے سمجھداروں کو اپنے سے کم عقل وکیل کے ہاتھوں بیوقوف بنتے دیکھا ہے، قانون دلیل ثبوت مانگتا ہے اور اسی پر فیصلہ کرتا ہے، ظفریاب جیلانی صاحب نے جو لکھا سولہ آنے سچ لکھا ہے، وہ Provisions بتائی جائیں جس کی بنیاد پر عالمی عدالت تک معاملہ جاسکتا ہے؟ یا کم از کم کویتی وکیل اپنی پیشہ وارانہ قابلیت ظاہر کریں جس سے پتہ چلے کہ ان کے عمیق اور گہرے تجربہ کی روشنی میں بابری مسجد کی لڑائی مسلم فریق نے کیسے دلچسپی سے کام نہیں لیا ہے…

جہاں تک غیرت و حمیت کا معاملہ ہے مُج٘بِل الشُرَیکہ ہندوستانی اسلامی قیادت سے شکوہ شکایت کے بجائے اپنے ملک پر دباو ڈالیں، ہندوستان سعودی عرب کے بعد سب سے زیادہ تیل کویت سے ہی لیتا ہے مذکورہ وکیل سوشل میڈیائی مجاہد بننے کے بجائے دلائل کی روشنی میں اپنی سرکار کی غیرت کو جگائیں، ان سے تیل کی سپلائی بند کرنے کی دھمکی دلوائیں تو ممکن ہے انہیں کچھ ہاتھ آئے…

رہی بات ان احباب کی جنہوں نے قلم پکڑا ہی اس لئے ہے تاکہ جب کبھی بورڈ، جمعیۃ، دیوبند، اکابر وغیرہ سے کچھ ایسا کام ہوجائے جو ان کے عظیم دماغ میں نہیں سما رہا تو فورا سے بیشتر چند سطریں گھسیٹ کر سوشل میڈیائی جہاد کا فریضہ دیں، ان کا قلم مُج٘بِل الشُرَیکہ کے لگائے گئے بیہودہ الزام پر نہیں چلا اور نہ چلے گا لیکن جیسے ہی بورڈ نے اصولی بات کی فورا نیند سے جاگے اور منتشر امت کو مزید منتشر کرنے کی ذمہ داری ادا کی اور پھر خاموش، ان حرکت ہائے انگشت کبھی اکابر کے اعتماد کو بڑھانے میں نہیں استعمال ہوگی…

مضمون نگار سے رابطے یا اپنی رائے کے اظہار کے لئے:
+919966870275
muftinaveedknr@gmail.com

Related Articles

2 Comments

    1. جی ہاں سہو ہو گیا، نشان دہی کا شکریہ،ویسے نام کی غلطی سے سیاسی شعور کا کیا تعلق؟؟؟

آبشارالددین کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×