سیاسی و سماجی

کیرالہ کی تین عیسائی لڑکیاں اور سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ

یہ سن 1985 کی بات ہے، کیرالہ کے شہر "کوٹایم” کے ایک چھوٹے سے قصبے "ایٹومانور” میں رہنے والے ایک عیسائی خاندان کی تین لڑکیوں کو "قومی ترانہ” نہ پڑھنے کی پاداش میں اسکول سے نکال دیا گیا، یہ خاندان؛ عیسائیت کے فرقہ Jehovah’s Witnesses سے منسلک تھا، اس فرقہ کا عقیدہ عام عیسائیوں کی طرح تثلیث کا نہیں ہے بلکہ وہ تثلیث کے مقابلہ وحدانیت پر یقین رکھتے ہیں لیکن ساتھ ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جسمانی وفات کے قائل ہیں…

بِیجُوائے، بِینو اور بِندھو نام کی یہ لڑکیاں قومی ترانہ جب پڑھا جاتا تھا تو سب کے ساتھ کھڑی رہتیں لیکن کبھی ترانہ گنگناتی نہیں تھیں، سالوں سے یہی معمول تھا بلکہ ان کی بڑی بہنیں جو اسی اسکول سے تعلیم مکمل کرکے نکل چکی تھیں انہوں نے کبھی قومی ترانہ کے پڑھنے میں حصہ نہیں لیا کیونکہ عقیدتاً قومی ترانہ کے کچھ الفاظ ان کے عقیدے سے متصادم تھے…

اُس خاندان کے اِن طالب علموں کے اس عمل سے نہ کسی کو کچھ پریشانی تھی اور نہ ہی کسی قسم کا خلل؛ نظامِ امن وضبط میں آرہا تھا کہ اچانک جولائی 1985 کی ایک صبح کیرالہ کا ایک "رکن اسمبلی” اسکول کے دورے پر آیا، اُس نے یہ بات نوٹس کی کہ طالبات مہر بہ لب ہیں، اسکول انتظامیہ سے استفسار پر انہوں نے جواب دیا کہ اِس فرقہ کے افراد کبھی قومی ترانہ کے پڑھنے میں شریک نہیں ہوئے، اُس رکن اسمبلی کو یہ بات "حب الوطنی” اور "قومیت” کے اِتنی خلاف لگی کہ اس نے کیرالہ کے اسمبلی سیشن میں یہ مسئلہ اٹھادیا…

کارکنانِ اسمبلی عموما قانون اور دستور کی گہرائی کا علم نہیں رکھتے بلکہ بعضے تو تعلیم و تعلم کے جھمیلوں سے بھی دور رہ چکے ہوتے ہیں، اسبملی نے ایک تفتیشی کمیٹی بٹھائی، کمیٹی نے رپورٹ پیش کی کہ مذکورہ طالبات قانون پسند شہری ہیں، سوائے قومی ترانہ نہ پڑھنے کے؛ یہ کوئی خلاف قانون کام نہیں کرتی ہیں، تمام بہتر اوصاف کے باوجود مذکورہ نقص اسمبلی اور متعلقہ ارکان کو سب سے بُرا لگا، کمیشن کی اس رپورٹ کے بعد "ڈپٹی انسپکٹر آف اسکولس” کی ہدایت مذکورہ طالبات کو بتاریخ 26 جولائی 1985 اسکول سے خارج کردیا گیا…

لڑکیوں کے والد نے اسکول کی صدر مدرس جو کہ ایک خاتون تھیں ان سے داخلہ بحال کرنے کی درخواست کی لیکن انتظامیہ نے "اوپر کے آرڈرز” کی بنا پر اپنی بے بسی ظاہر کی، والد نے لڑکیوں کی جانب سے کیرالہ ہائی کورٹ میں "رِٹ پیٹیشن” دائر کی، جہاں پہلے ایک رکنی بنچ نے اور بعد ازاں وسیع تر بنچ (ڈیوزن بنچ) نے لڑکیوں کی اپیل مسترد کردی، یعنی قومی ترانہ پڑھنے جانے کے اقرار اور اس پر عمل کے وعدے اور اظہار پر ہی داخلہ بحال ہوگا ورنہ نہیں، ہائی کورٹ کی دونوں بنچس کا یہ فیصلہ ہمت شکن تھا، ایک طرف لڑکیوں کا مستقبل اور دوسری طرف عقیدہ اور مذہب، لڑکیوں کے والد نے حوصلہ نہیں ہارا اور سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کیا…

1985 ختم ہوچکا تھا اور لڑکیوں کی تعلیم میں آدھے سال کا حرج بھی، 1986 میں سپریم کورٹ میں مقدمہ پیش ہوا، جسٹس "چِنَّپَّا ریڈی” (متوفی 14 اپریل 2013 بمقام حیدرآباد) اس مقدمہ کی سماعت کررہے تھے، عرضی گذار لڑکیوں کی جانب سے اس وقت کے قابل وکلاء "ایف ایس ناریمان، ٹی ایس کرشنا مورتی، کے جے جان اور ایم جھا” نے مقدمہ اور طالبات کا عندیہ اور نظریہ پیش کیا، مذکورہ وکلاء نے دستور کی شق (a)(1)19 (حقِ تقریر و اظہار رائے) اور شق (1)25 (سبھی شہریوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی کا حق) کو بنیاد بنا کر مختلف قانونی نظیروں ساتھ بڑی مضبوطی سے اپنا مطالبہ رکھا…

11 اگست 1986 کو جسٹس "چِنَّپَّا ریڈی” نے کیرالہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے تاریخ ساز فیصلہ سنایا کہ لڑکیوں کو قومی ترانہ پڑھنے پر مجبور کرنا ان کے دونوں حقوق کو متاثر کرتا ہے لہذا فورا سے پیشتر ان کا داخلہ بحال کیا جائے اور انہیں باقی تمام طلبہ کی ہی طرح تعلیمی سہولیات میسر کی جائیں، فیصلہ کی آخری سطور میں جسٹس ریڈی نے درج ذیل یادگار الفاظ کا اضافہ کیا کہ
"our tradition teaches tolerance; our philosophy preaches tolerance; our constitution practices tolerance; let us not dilute it.”
"ہماری تہذیب ہمیں رواداری کا درس دیتی ہے، ہمارا فلسفہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا کا سبق سکھاتا ہے اور ہمارا آئین رواداری پر عمل کرتا ہے، ہمیں اسے کمزور نہیں کرنا چاہئے…”

مقدمہ کی روداد ختم ہوئی، یہ مقدمہ آج بھی حقوق کی لڑائی میں ایک سنگ میل مانا جاتا ہے اور عیسائیوں کا یہ فرقہ اس بات پر خوشی کا اظہار بھی کرتا ہے کہ ملک میں اقلیتوں کے دستوری حقوق کی لڑائی میں اس کو قابل قدر حصہ ادا کرنے کا موقعہ ملا اور انہوں نے اس موقعہ کا فائدہ بھی اٹھایا، ان لڑکیوں کا باپ اگر ہمت ہار جاتا یا وہ لڑکیاں مذہب پر تعلیم کو مقدم رکھتیں تو تاریخِ ہند کے اس ورق پر کبھی ان کا نام امر نہ ہوتا…

اس مقدمہ کا مکمل فیصلہ انٹرنیٹ پر موجود ہے جو اپنے اندر مزید باریکیاں اور نکات لئے ہوئے ہے، جن مسائل کا ہم بحیثیت مسلم اب سامنا کررہے ہیں دوسری بعض قومیں اس کو پہلے جھیل چکی ہیں اور ان کا مقابلہ بھی کرچکی ہیں، کرناٹک ہائی میں "حجاب” پر چل رہے مقدمہ کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ معاملہ یاد آگیا تو قارئین کی معلومات میں اضافہ کے لئے اس کا خلاصہ سپرد قلم کردیا، باقی اس سے حاصل ہونے والے اسباق و تاثرات کو قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ وہ اپنے ذوق و مزاج کے مطابق اس سے نکتہ آفرینی کرلیں۔

 

برائے رابطہ
مفتی محمد نوید سیف حسامی ایڈووکیٹ
9966870275
muftinaveedknr@gmail.com
تاریخِ تحریر: *۱۱ فروری ۲۰۲۲*

Related Articles

One Comment

  1. بھارت ایک جمہوری نظام والا مُلک ہے یہاں آباد سارے مذاھب کو قانون میں اپنے مذہب کے کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حق حاصل ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×