سیاسی و سماجی

حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی قبر کی بے حرمتی گھناؤنی حرکت

مئی ۲۰۲۰ء کے اواخر میں ملک شام کے صوبہ ’’اِدلب‘‘ کے علاقہ ’’معرۃ النعمان‘‘ کے ’’دیر شرقی‘‘ گاؤں میں عدل وانصاف کے پیکر حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ، ان کی اہلیہ اور ان کے خادم کی قبر مبارک کو مسمار کرنے کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ بعد میں یہ خبر قطر کے مشہور چینل ’’الجزیرہ‘‘ اور عرب کے دیگر مشہور چینلوں نے نشر کی۔ ویڈیو اور فوٹو سے معلوم ہورہا ہے کہ تینوں قبروں کی بے حرمتی بھی کی گئی ہے، جو نہ صرف قرآن وحدیث کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے بلکہ کسی بھی مذہب کی تعلیم اور دنیاوی قوانین میں قابل قبول نہیں ہے کہ آج سے ۱۳۴۰ سال پہلے وفات پانے والے اُس شخص کی قبر کو مسمار کیا جائے جو صرف پانچ ہزار آبادی والے گاؤں میں مدفون ہو اور جس نے اپنے عہد خلافت میں عوام کو پیار ومحبت کا پیغام دیا ہو، جس نے حتی الامکان خلیفہ بننے سے انکار کیا ہو، جس نے امت کو جوڑنے کا کام کیا ہو، جس نے اپنی ساری دولت بیت المال کے لئے وقف کردی ہو اور جس کے پاس انتقال کے وقت پیوند لگے کپڑوں کے علاوہ کوئی لباس موجود نہ ہو۔ اس اندوہ ناک واقعہ کی ہر طرف مذمت کی جارہی ہے، لیکن انسانیت سوز اِس حادثہ کی ذمہ داری کے لیے ایک دوسرے پر الزام تراشی جاری ہے، لیکن اصولی طور پر ملک میں قوانین کے نفاذ اور ملک میں امن وسلامتی کے قیام کی مکمل ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے، اس صوبہ میں بشار الاسد کی حکومت ہے۔ ملک شام کے احوال سے واقف حضرات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ’’دیر شرقی‘‘ علاقہ پر بشار الاسد کی حکومت کا فروری ۲۰۲۰ء سے مکمل کنٹرول ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ بھی معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ لہٰذا یہی کہا جائے گا کہ اس المناک حادثہ اور بربریت کا اصل ذمہ دار بشار الاسد اور اس کی حکومت ہے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒخلفاء اسلام میں مثالی کردار کے خلیفہ شمار کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے عدل وانصاف سے ہر شخص کا دل جیت لیا تھا، اس لئے آج ان کی وفات کے ۱۳۴۰ سال گزرنے کے باوجود اُن کی قبر مبارک کے مسمار ہونے پر ہر مسلمان غمزدہ ہے، خواہ وہ عرب ہو یا غیر عرب، سنی ہو یا شیعہ۔ ایک ہفتہ کے دوران میں نے متعدد مضامین پڑھے اور خبریں سنیں مگر سبھی نے اس واقعہ کی مذمت کی، جو حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے بہترین خلیفہ ہونے کے واضح دلیل ہے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ حضور اکرم ﷺ کی وفات کے صرف ۵۰ سال بعد ۶۱ ہجری میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی پوتی تھیں، یعنی آپ کی رگوں میں فاروقی خون تھا۔ آپ کے والد مسلسل ۲۱ برس مصر کے گورنر رہے۔ بچپن سے ہی گھر میں دولت وثروت کی فراوانی تھی۔ آپ خوبصورت لباس اور خوشبو کو بہت پسند کرتے تھے، لیکن صحابۂ کرام کی سرپرستی میں دینی تربیت ہونے کی وجہ سے خلیفہ بننے کے بعد بیت المال کے نظام کو صحیح کرکے اپنی ساری دولت بیت المال میں جمع کردی تھی۔ مدینہ منورہ کے گورنر کی حیثیت سے انہوں نے مدینہ منورہ میں بے شمار کام کرائے خاص کر مسجد نبوی میں عمدہ تعمیرات کرائیں۔ ابتدا میں آپ خلافت کی ذمہ داری سنبھالنے کے لئے تیار نہیں تھے ، مگر لوگوں کے اصرار پر بنو امیہ کے آٹھویں خلیفہ کے طور پر ذمہ داری کو اس طرح قبول کیا کہ اس کا حق ادا کردیا۔
۹۹ھ سے ۱۰۱ھ تک تقریباً ڈھائی سال ایسی خلافت پیش کی کہ انہیں اسلام کا پانچواں خلیفہ کا لقب دیا گیا۔ مختصر وقلیل مدت میں لوگوں نے ایسا محسوس کیا کہ زمین وآسمان کے درمیان ترازو کھڑا ہوگیا ہو۔ آپ کے عہد خلافت میں لوگ ہاتھوں میں زکوٰۃ وصدقات لئے پھرتے تھے مگر کوئی محتاج نہیں ملتا تھا۔ امیر المؤمنین ہونے کے باوجودہ لباس کا صرف ایک ہی جوڑا آپ کے پاس رہتا تھا، وہی دھوکر پہن لیا کرتے تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے اپنے دورِ خلافت میں مسلم وغیر مسلم کے شہری حقوق کو یکساں کردیا تھا۔ ۱۰۱ھ میں انتقال کے وقت حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کی عمر صرف ۳۹ سال کی تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×