صدقۃ الفطر ؛ فضائل ومسائل
اسلام کا یہ وصفِ امتیاز ہے کہ اس نے اپنے متبعین کو مواسات و مواخات کا درس دیا ؛ عید ہو یا خوشی کا کوئی اور موقع؛ اس نے صرف امیروں کے دولت کدہ ہی میں خوشی کے چراغ جلنے نہیں دئے؛ بلکہ اس موقع پر امیروں کو سماج کے غریب و نادار افراد کے درد وکسک ، دکھ وغم کو بانٹنے اور خوشی میں شریک کرنے کی تلقین بھی کی ؛چنانچہ بقرعید کی قربانی میں ایک تہائی غریبوں کا حق قرار دیا گیا ، ولیمہ کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا کہ بدترین ولیمہ وہ ہے ، جس میں سماج کے امیر لوگوں کو بلایا جائے اور غریبوں کو نظر انداز کردیا جائے ، اسی طرح عید الفطر کی خوشی میں بھی غرباء کو شریک کرنے کے لئے "صدقۃ الفطر” کا ایک بہترین نظام مقرر کیا گیا۔
صدقۂ فطر کی اہمیت وفضیلت:
حضرت جریرؓ سے روایت ہے کہ الله کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
”صومُ شهرِ رمضانَ معلَّقٌ بين السَّماءِ والأرضِ ولا يُرفعُ إلَّا بزكاةِ الفطرِ“[الترغيب والترهيب: 2/157]
(رمضان کے روزے آسمان اور زمین کے درمیان معلق (لٹکے) رہتے ہیں، جنہیں (الله کی طرف) صدقہٴ فطر کے بغیر نہیں اٹھایا جاتا۔)
صدقۂ فطر کی شرعی حیثیت:
مالکیہ کے یہاں صدقۂ فطر سنت ہے، ان کے علاوہ باقی ائمہ کرام کے یہاں صدقۂ فطر واجب ہے، مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺنے ہر آزاد، غلام، مرد، عورت مسلمان پر صدقۂ فطر واجب کیا۔(صحيح مسلم، عن عبد الله بن عمر: 984)
حکمت:
صدقہٴ فطر کی ادائیگی صرف حکمِ شرع ہی نہیں ؛ بلکہ اس کے جلو میں بے شمار دنیوی واخروی فوائد مضمر ہیں؛چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں:
فَرَضَ رَسُولُ اللَّہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ طُهْراً لِلصَّيَامِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ ، وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ”. ( رواه ابوداؤد1609)
اس حدیث میں صدقۂ فطر کی دو حکمتیں بیان کی گئی ہیں:
۱۔ مسلمانوں کے جشن و مسرت کے اس دن میں صدقۂ فطر کے ذریعہ محتاجوں مسکینوں کی بھی شکم سیری اور آسودگی کا انتظام ہو جائے ۔
۲۔ زبان کی بے احتیاطیوں اور بے باکیوں سے روزے پر جو برے اثرات پڑے ہوں گے یہ صدقۂ فطر ان کا بھی کفارہ اور فدیہ ہو جائےگا۔
نیز علماء کرام فرماتے ہیں: وفی إخراجھا قبول الصوم، والنجاح، والفلاح، والنجاة من سکرات الموت، وعذاب القبر“ (طحطاوی علی مراقی الفلاح)
( صدقہٴفطر کی ادائیگی سے روزے قبول ہوتے ہیں اور مشکل آسان ہوتی ہے اور کامیابی ملتی ہے اور موت کی سختی اور قبر کے عذاب سے نجات حاصل ہوتی ہے۔)
صدقۃ الفطر کس پر واجب ہے؟
جس پر زکوۃ واجب ہے اس پر صدقۃ الفطر بھی واجب ہے،( ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے 52 تولے چاندی یا اس کی موجودہ قیمت کے برابر رقم موجود ہو) البتہ دو معمولی فرق ہیں ،زکاۃ کے نصاب میں مال نامی اور سال گزرنا ضروری ہے؛ جبکہ صدقۃ الفطر میں مال نامی اور سال گزرنا بھی ضروری نہیں،عید کی صبح تک اتنی مالیت کا مالک ہوگیا تو صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے.
ادائیگی کا وقت:
بہتر یہ ہے عیدالفطر کے دن نمازِ عید کے لئے جانے سے پہلے پہلے صدقۃ الفطر ادا کردیا جائے، یہ افضل وقت ہے، اس سے پہلے بھی ادا کرنے کی گنجائش ہے:
أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ كانَ يأمرُ بإخراجِ الزَّكاةِ قبلَ الغدوِّ للصَّلاةِ يومَ الفطرِ۔( صحيح الترمذي: 677) اگر کوئی ادا نہ کرسکے تو بعدرمضان ادا کرے لیکن اس وقت اتنا ثواب نہیں ملے گا۔
صدقۂ فطر کا مصرف:
جن لوگوں کو زکات دینا جائز ہے ان کو صدقۃ الفطر بھی دینا جائز ہے۔الفتاوى الهندية – (5 / 181)
مقدار
فقہاء حنفیہ کے نزدیک گیہوں یا اس کے آٹا سے نکالنا ہو تو نصف صاع اور کھجور،کشمش اور جو سے نکالنا ہو تو ایک صاع دینا چاہیے. نصف صاع کی مقدار ایک کلو پانچ سو چھہتر گرام چھ سو چالیس ملی گرام. جبکہ ایک صاع کی مقدار تین کلو ڈیڑھ سو گرام ہوتی ہے. صاحبِ حیثیت ووسعت اور مالداروں کی لئے بہتر یہ ہے کہ نصف صاع پہ تکیہ نہ کریں! آگے بڑھ کے ہر صنف میں ایک صاع یا اس کی قیمت صدقۂ فطر میں ادا کریں تاکہ غریبوں کا بھلا ہوسکے۔ بذل المجہود میں ہے: قوله صاعًا من كل شيئ أي من الحنطة وغيرها لكان أحسن (454/6. ط بيروت)
متفرق مسائل
۱۔اگر عورت صاحبِ نصاب ہو تو اس پر بھی صدقۂ فطر واجب ہے ،مگر عورت پر کسی اور کی طرف سے فطرہ نکالنا ضروری نہیں، نہ بچوں کی طرف سے ، نہ ماں باپ کی طرف سے، نہ شوہر کی طرف سے( رد المحتار : ۳؍۳۷۰)
۲۔جس نے کسی وجہ سے رمضان کے روزے نہیں رکھے اس پر بھی صدقۂ فطر واجب ہے ، اور جس نے روزے رکھے اس پر بھی واجب ، دونوں میں کچھ فرق نہیں ( فتاوی رحیمیہ: ۵؍۱۷۲)
۳۔غیر مسلم کو زکٰوۃ، عُشر اور دوسرے صدقاتِ واجبہ (صدقۂ فطر، نذر، کفارہ) دینا جائز نہیں ہے؛ البتہ نفلی صدقات دینےکی گنجائش ہے؛ لیکن کسی مسلمان فقیر کودینازیادہ بہترہے۔(الدرالمختار 2 / 351)
۴۔آپ اگر دوسرے ملک مثلا امریکہ میں ہے اور اہلیہ ، بچے ہندوستان میں ہیں تو آپ پر امریکہ کے حساب سے اور اہلیہ بچوں پر ہندوستان کے حساب سے صدقۃ الفطر ادا کرنا پڑے گا۔ (رد المحتار2/ 355)
۵۔مردوں پر جس طرح اپنی طرف سے صدقۂ فطر دینا ضروری ہے، اس طرح نابالغ اولاد کی طرف سے بھی صدقۂ فطر ادا کرنا ضروری ہے۔والدین، بالغ اولاد اور بیوی کی طرف سے دینا واجب نہیں.(الاختیار لتعلیل المختار: ج1 ص123 باب صدقۃ الفطر)۔