رمضان المبارک کا مقام اور خصوصی اہتمام
رمضان المبارک اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے ۔اس مبارک مہینے میں مسلمان قرآن مجید کے سایے میں زندگی گزارتے اور اپنے پروردگار سے رحمت ومغفرت طلب کرتے ہیں۔ تمام آسمانی کتابیں اسی ماہ میں نازل ہوئی ہیں۔ صحفِ ابراہیم علیہ السلام رمضان کی تیسری تاریخ میں، تورات چھٹی تاریخ میں،انجیل تیرہویں تاریخ میں، زبور اٹھارہویں تاریخ میںاور قرآن مجید چوبیس تاریخ میں نازل ہوا۔(الغنیۃ،مسند احمد ابن حنبل)
وجہِ تسمیہ
شیخ عبد القادر جیلانی ؒ رمضان کی وجہ تسمیہ کے متعلق فرماتے ہیں:اس کی وجہ تسمیہ میں اختلاف ہے۔حضرت عبداللہؒ اور حضرت جعفر صادقؒ اپنے بزرگوں سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:رمضان اللہ تعالیٰ کا(خاص)مہینہ ہے۔بعض کہتے ہیں کہ اس ماہ کو رمضان اس لیے کہا گیا کہ اس میں گناہ جل جاتے ہیں۔حضرت نبی کریم ﷺ کا ارشاد بھی یہی ہے اور کہا گیا ہے کہ اس ماہ میں آخرت کی فکر اور نصیحت کی گرمی سے دل متأثر ہوتے ہیں،بالکل اسی طرح جس طرح سورج کی گرمی سے ریگستان اور پتھر گرم ہو جاتے اور جل اٹھتے ہیں۔
حضرت خلیلؒ کا ارشاد ہے کہ’رمضان‘ لفظِ ’رمض‘سے مشتق ہے۔رمض اس بارش کو کہتے ہیںجو خریف کے موسم میں ہوتی ہے۔کیوں کہ ماہِ رمضان لوگوں کے دلوں اور جسم کو گناہوں سے پاک کر دیتا ہے،اس لیے اسے بھی رمضان کا نام دے دیا گیا۔(الغنیۃ)
رمضان کے حروف کی مراد
لفظِ رمضان میں پانچ حروف ہیںاور ان تمام میں ایک خاص اشارہ ہے:’ر ‘سے مراداللہ کی رضا،’م ‘ سے مراد اللہ کی محبت،’ض‘سے مراداللہ کی ضمانت،’ا‘سے مراداللہ تعالیٰ کی الفت و محبت اور’ن‘سے مراد اللہ کا نور ہے۔اس طرح رمضان المبارک کا مہینہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی، محبت، ضمانت،الفت اور اس کے نور کا جامع ہے۔یہ بہت بڑی بزرگی اور بخشش کی علامت ہے،ان لوگوں کے لیے جو اللہ تعالیٰ کے اولیاء اور نیک کردار ہیں۔(الغنیہ)
مومنوں کے لیے غنیمت
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مومنین پر ماہ ِ رمضان سے بہتر اور منافق پر رمضان سے سخت کوئی مہینہ سایہ فگن نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اس کے شروع ہونے سے پہلے (ہی اپنے علم ِ ازلی سے) اس کا اجر وثواب لکھ دیتے ہیں اور منافقین کا گناہوں پر اصرار اور بدبختی بھی پہلے سے لکھ دیتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مومنین اس مہینے میں عبادت کے لیے طاقت جٹاتے ہیں اور منافقین لوگوں کی غفلتوں اورعیوب کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں۔ یہ مہینہ مومنین کے لیے غنیمت ہے، جس پر فاسق وفاجر رشک کرتے ہیں۔( مسند أحمد)
رمضان کے استقبال میں خطبۂ نبویؐ
ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ماہِ رمضان کے قریب ارشاد فرمایا:رمضان کا مہینہ آگیا ہے،جو برکت والا ہے۔اللہ تعالیٰ اس ماہ میں (خصوصیت سے)تمھاری طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اپنی رحمت نازل فرماتے ہیں۔خطاؤں کو بخش دیتے ہیں۔دعائیں قبول فرماتے ہیں۔تمھارے تَنافُس کو دیکھتے ہیں اور فرشتوں سے فخر فرماتے ہیں،تو تم اللہ تعالیٰ کو اپنی نیکیاں دکھلاؤ۔شقی وبدبخت ہے وہ شخص جو اس مبارک مہینے میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم رہ جائے۔(مجمع الزوائد)
تنافس کے معنی
’ تَنافُس‘ اس کو کہتے ہیں کہ دوسرے کی حرص میں کام کیا جائے اور مقابلے پر دوسرے سے بڑھ چڑھ کر کام کیا جائے ۔تفاخر و تقابل والے آئیں اور یہاں اپنے جوہر دکھلائیں ۔(فضائلِ رمضان)
رمضان کی پانچ خصوصیتیں
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:میری امت کو رمضان المبارک سے متعلق پانچ خصوصیتیں عطا کی گئی ہیں،جو سابقہ امتوں کو نہیں ملیں:(۱) پہلی یہ کہ ان کے منھ کی بو،اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہے(۲)دوسری یہ کہ ان کے لیے دریا کی مچھلیاں بھی دعا کرتی ہیں اور افطار تک کرتی ہی رہتی ہیں(۳)تیسری یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے ہر روز جنت کو سجاتے اور فرماتے ہیں کہ عنقریب میرے نیک بندے (دینا کی)مشقتیںاتار پھینک کر تیری طرف آئیں گے(۴)چوتھی یہ کہ اس مبارک ماہ میں سرکش شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں،پس وہ اس مبارک ماہ میں ان برائیوں تک نہیں پہنچ سکتے،جن تک رمضان کے علاوہ میں پہنچ سکتے ہیں(۵)پانچویں یہ کہ رمضان المبارک کی آخری رات میں روزے داروں کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا:اے اللہ کے رسول !کیا یہ شبِ قدر ہے؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:نہیں،یہ رات شبِ قدر نہیںبلکہ یہ اس لیے ہے کہ کام کرنے والے کو کام پورا کرنے پر مزدوری دی جاتی ہے۔(کشف الاستار عن زوائد البزار، مجمع الزوائد)
رمضان کا خصوصی اہتمام
ایک حدیث میںرسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :رمضان کی پہلی تاریخ میںآسمان اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ، جو مہینے کی آخری رات تک کھلے رہتے ہیں ۔ جو بندہ یا بندی ان راتوں میں نماز پڑھے ،اسے ہر سجدے کے بدلے ایک ہزار سات سو نیکیاں ملتی ہیں ۔ جنت میں اس کے لیے سرخ یاقوت کا محل بنایا جاتا ہے ، جس کے ستر ہزا ر دروازے ہوں گے۔ یہ سب دروازے سونے کے ہوں گے ، جن میں سرخ یاقوت جَڑے ہوں گے ۔جب کوئی بندہ پہلے دن روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ رمضان کے آخر تک اس کے تمام گناہ معاف کر دیتا ہے اور یہ دوسرے رمضان تک کا کفارہ ہوجاتا ہے۔ وہ جتنے روزے رکھتا ہے ، اس کے ہر روزے کے بدلے میںاس کے لیے جنت میں سونے کا ایک محل بنایا جاتا ہے ، جس کے ایک ہزار دروازے ہوں گے ۔ ستر ہزار فرشتے صبح سے شام تک اس کے لیے بخشش کی دعا مانگتے رہتے ہیں۔دن رات میں وہ جتنے سجدے کرتا ہے ، ہر ایک سجدہ کے بدلے میں جنت میں ایک درخت عطا ہوگا اور اس درخت کا سایہ اتنا وسیع ہوگا کہ ایک سوار سو برس تک اس میں چلتا رہے ، تب بھی وہ ختم نہ ہو۔(الغنیۃ ،مجمع الزوائد)
جہنم سے آزادی
رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: اللہ عز و جل رمضان کی ہر رات میں چھے لاکھ آدمیوں کو دوزخ کی آگ سے آزاد کرتے ہیںاور جب رمضان کی آخری رات ہو تی ہے تواتنے لوگوں کو جہنم سے آزاد کر دیتے ہیںجتنے لوگوں کو ایک رمضان سے آخر رمضان تک آزاد کیا ہے(یعنی تقریباً ایک کروڑ اسّی لاکھ لوگوں کو)۔(شعب الایمان للبیہقی)
عذابِ قبر میں تخفیف
حدیث شریف میںہے کہ جب رمضان المبارک شروع ہو جائے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔(مشکاۃ المصابیح)اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو گنہگار مسلمان رمضان شریف میں فوت ہوجائے ،وہ عذابِ قبر سے محفوظ رہتا ہے۔علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ’اگر کوئی گنہگار مسلمان ،رمضان المبارک میں یا (رمضان کے علاوہ کسی بھی مہینےمیں)جمعے کے دن فوت ہو جائے ، وہ قیامت تک عذابِ قبر سے محفوظ ومامون رہے گا ،البتہ کافر کا عذاب دائمی ہوگا۔صرف جمعےکے دن اور رمضان شریف میں اس سے عذاب ہلکا ہوگا۔ (الردالمحتار،فتاوی حقانیہ)