اسلامیات

زکوٰۃ کے چند ضروری مسائل

زکوٰۃ اسلام کا بنیادی فریضہ: حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا’’ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور گواہی دینا کہ محمد ؐ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ،نماز قائم کرنا ،زکوٰۃ ادا کرنا ،بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا(بخاری وسلم)زکوٰۃ کا منکر کافر: اسلام کی جن بنیادی چیزوں کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار آدمی کو کافر بنادیتا ہے ،لہذا ہر صاحب استطاعت مسلمان مرد وعورت پر سال میں ایک مرتبہ زکوٰۃ کا اداکرنا فرض ہے ۔
نماز اور زکوٰۃ کا مساوی درجہ: قرآن مجید میں ستر سے زائد مقامات پر زکوٰۃ اور نماز کا اکھٹا ذکر موجود ہے،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز اور زکوٰۃ کا درجہ ایک دوسرے کے برابر ہے، جس طرح ہر مسلمان پر نماز پنجگانہ فرض ہے اسی طرح ہر صاحب نصاب مسلمان پر سال میں ایک مرتبہ زکوٰۃ فرض ہے ،جس طرح تارک صلات سخت گناہگار ہے اسی طرح استطاعت کے باوجود زکوٰۃ نہ نکالنے والا بھی سخت گناہگار ہوگا۔زکوٰۃ خدا کی خوشنودی کا باعث: قرآن مجید اور احادیث شریف میں زکوٰۃ کی ادائیگی کو خدا کی خوشنودی ورضامندی کا بہترین ذریعہ بتایا گیا ہے، اور زکوٰۃ نہ نکالنے والے کو عذاب آگ کی وعید سنائی گئی ہے، زکوٰۃ ادا کرنے والے سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں ، اس سے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں اور اس ادائیگی کے بدلے میں مزید مال ودولت سے نوازتے ہیں برخلاف جو زکوٰۃ کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرتا ہے یا صحیح ڈھنگ سے ادا نہیں کرتا یا نکالتا تو ہے مگر مکمل نہیں نکالتا تو اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوتے ہیں اور اس کے لئے مال کو آزمائش بنادیتے ہیں یا پھر اس نعمت کو اس سے چھین لیتے ہیں۔زکوٰۃ مال کی پاکیزگی کا ذریعہ: زکوٰۃ دراصل مال کی تطہیر،مال میں اضافہ وخیر وبرکت، مرض حب ِ مال سے حفاظت ، مال کے شر سے حفاظت، غریبوں کی اعانت اور آخرت میں بے حساب اجر وثواب کا ذریعہ ہے، رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے کہ’’اپنے مالوں کو زکوٰۃ کے ذریعہ محفوظ کرو،اپنے بیماروں کا صدقہ سے علاج کرو اور مصیبتوں کا دعا سے مقابلہ کرو( ابوداؤد)۔ زکوٰۃ نہ نکالنے پر سخت عذاب کی وعید: مالدار اور صاحب حیثیت ہونے کے باوجود زکوٰۃ نہ دینا سخت ترین جرم ہے ،یہ دراصل غربا ومساکین کی حق تلفی اور مال سے محبت کی دلیل ہے ،قیامت کے دن ایسے شخص کو اسی کے مال کے سخت ترین عذاب دیا جائے گا ، ایک حدیث میں آپ ؐ نے ارشاد فرمایا’’ جس شخص کو اللہ نے مال دیا اور وہ اس کی زکوٰۃ نہیں نکالتا تو یہ مال قیامت میں سانپ بن کر اس کے گلے میں ڈالا جائے گا اور وہ کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں ،تیرا خزانہ ہوں(بخاری:۱۴۰۳) ۔زکوٰۃ کا مقصد : اپنے مال میں سے شریعت کے قاعدہ کے مطابق متعین کردہ مال کو فقراء ،مساکین اور مستحقین کو دینا ہے تاکہ ان کی ضروریات پوری ہو سکے ،زکوٰۃ سے جہاں ایک طرف مال کی محبت کم کرنا ہے ،دوسری طرف مسکینوں کی اعانت ہے وہیں تیسری طرف مال کو پاک صاف کرنا ہے جس کے بعد مال میں زیادتی ،خیر وبرکت اور پاکیزگی پیدا ہوتی ہے۔
زکوٰۃ کی افادیت :زکوٰۃ میں نیکی وثواب کے علاوہ افادیت کے بہت سے پہلو ہیں جس پر علماء نے تفصیلی روشنی ڈالی ہے ،ماضی قریب کے معروف بلند پایہ ،بزرگ عالم مولانا محمد منظور نعمانی ؒ نے زکوٰۃ کی افادیت کے بنیادی تین پہلو ؤں کا کچھ اس طرح ذکر کیا ہے ، لکھتے ہیں کہ’’ایک یہ کہ مومن بندہ جس طرح نماز کے قیام اور رکوع وسجود کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنی بندگی اور تذلل ونیازمندی کا مظاہرہ جسم وجان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی رضا ورحمت اور اس کا قرب حاصل ہو اسی طرح زکوٰۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنی مالی نذر اسی غرض سے پیش کرتا ہے اور اس بات کا عملی ثبوت دیتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسے اپنا نہیں بلکہ خدا کا سمجھتا اور یقین کرتا ہے اور اس کی رضا اور اس کا قرب حاصل کر نے کے لئے وہ اس کو قربان کرتا اور نذرانہ چڑھاتا ہے،دوسرا پہلو زکوٰۃ میں یہ ہے کہ اس کے ذریعہ اللہ کے ضرورت مند اور پریشان حال بندوں کی خدمت واعانت ہوتی ہے ،اس پہلو سے زکوٰۃ اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے،اور تیسرا پہلو اس میں افادیت کا یہ ہے کہ حب مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کُش اور نہایت مہلک روحانی بیماری ہے ،زکوٰۃ اس کا علاج اور اس کے گندے اور زہریلے اثرات سے نفس کی تطہیر اور تزکیہ کا ذریعہ ہے(معارف الحدیث ۴؍۲۰) ۔
زکوٰۃ کی فرضیت:زکوٰۃ کی فرضیت کے لئے مالدار شخص یعنی صاحب نصاب کا مسلمان ،آزاد،عاقل ،بالغ اور زکوٰۃ کی فرضیت کا علم رکھنا ضروری ہے (درمختار)۔ زکوٰۃ کا نصاب:سونا ساڑے سات تولہ یعنی ۸۷؍ گرام ۴۸۰؍ ملی گرام اور چاندی ساڑھے باون تولہ یعنی ۶۱۲؍گرام ۳۶۰ملی گرام یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت موجود ہو ، اگر کسی کے پاس تھوڑا سونا ،تھوڑا چاندی ہے اور دونوں کو ملانے سے ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت بن جاتی ہے تو اس پر بھی زکوٰۃ فرض ہے ،یا کسی کے پاس کچھ سونا ،چاندی اور روپئے ہیں اور ان سب کو ملانے سے ساڑھے باون تولہ چاندی کی رقم بن جاتی ہے تب بھی اس پر زکوٰۃ فرض ہے(ایضاح المسائل)۔زکوٰۃ کے واجب ہونے کی شرطیں :نصاب کے بقدر مال کا ہونا،ضرورت اصلی سے زائد ہونا،قرض سے خالی ہونا،مال نامی کا ہونا(یعنی ایسا مال جس میں بڑھنے کی صلاحیت کا ہونا چاہے اپنی خلقت کے اعتبار سے ہو جیسے سونا چاندی یا پھر فعلی اعتبار سے جیسے مال تجارت وغیرہ)۔وہ مال جن پر زکوٰۃ فرض ہے: روپئے پیسہ ،سونا چاندی اور مال تجارت۔ زکوٰۃ کی مقدار:کل مال کا چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی فیصہ دینا ضروری ہے(شامی)۔زکوٰۃ کی ادائیگی کا وقت:اگر صاحب نصاب پر پورا ایک سال گزرجائے تو اس کی زکوٰۃ کی ادائیگی واجب ہوجاتی ہے(ہندیہ)۔ درمیانی سال نصاب گھٹ جائے تو؟:اگر شروع اور اخیر سال میں نصاب پورا تھا مگر درمیان سال میں اس کی مقدار میں کمی ہوتی رہی تب بھی سال کے اختتام پر جتنا مال موجود رہے ان سب پر زکوٰۃ واجب ہے ،درمیانی سال میں کمی زیادتی کا اعتبار نہیں ہوگا (مرقی الفلاح)۔ زکوٰۃ کے وجوب کے لئے کس کیلنڈر کا اعتبار ہے: اداء زکوٰۃ کے وجوب کے لئے قمری سال کا اعتبار ہوگا نہ کہ شمسی سال کا (ہندیہ)۔مال ِقرض پر زکوٰۃ کا حکم ؟: اگر قرض لینے والا قرض سے انکار کردے اور قرض دینے والے کے پاس کوئی شرعی ثبوت نہ ہو تو ایسی صورت میں اس مال پر زکوٰۃ واجب نہیں ،اگر قرض کے واپسی کی قوی امید ہے تو پھر اس پر زکوٰۃ واجب ہے البتہ اختیار ہے کہ زکوٰۃ اداکردے یا پھر رقم ملنے کے بعد زکوٰۃ ادا کرے (ہندیہ) زکوٰۃ کے مال کس مقام کی قیمت کا اعتبار ہوگا؟: زکوٰۃ کی ادائیگی میں مال زکوٰۃ کی وہ قیمت معتبر ہوگی جہاں مال ہے( شامی) زکوٰۃ کا حکم :زکوٰۃ مسلمان مالدار سے لی جائے گی اور مسلمان غریب ہی کو دی جائے گی(ترمذی:۶۴۹)۔ زکوٰۃ کے مصارف:قرآن مجید میں زکوٰۃ کے آٹھ مصارف بیان کئے گئے ہیں ،ارشاد باری تعالیٰ ہے:إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوبُہُمْ وَفِیْ الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّہِ وَاللّہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ (توبہ :۶۰)’’ خیرات (زکوٰۃ ) کا مال تو صرف فقیروں اور مسکینوں اور زکوٰۃ کی وصولی کرنے والوں اور جن کا دل ملانا مقصود ہے اور غلاموں اور قرابت دا روں اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں اور مسافروں کے لئے ہے اور یہی اللہ کا قانون ہے بیشک اللہ سب کچھ جاننے والا حکیم ہے ۔‘‘ زکوٰۃ کے جملہ یہ آٹھ مصارف ہیں ، مالِ زکوٰۃ ان میں سے کسی ایک یا چند پر خرچ کرنا ضروری ہے ،چونکہ ’’غلام ‘‘ کا اب وجود باقی نہیں نیز حنفیہ کے یہاں ’’ مؤلفۃ القلوب‘‘ بھی منسوخ ہے،ان دونوں کو چھوڑ کر اب کل چھ مصارف باقی رہ جاتے ہیں ،وہ یہ ہیں (۱)’’ فقیر‘‘ وہ شخص جو بالکل نادار ہو۔ (۲)’’ مساکین‘‘جس کے پاس سامان ِ کفایت کا کچھ حصہ ہو ،لیکن پورا نہیں اور ابھی اس کی حاجت باقی ہو۔(۳)’’عاملین‘‘ جن کو زکوٰۃ وعشر وغیرہ کی وصولی کے لئے مقرر کیا گیا ہو۔(۴)’’ مقروض ‘‘ جو صاحب نصاب ہو لیکن اس پر لوگوں کے اتنے قرض ہوں کہ ان کو ادا کرے تو صاحب نصاب باقی نہ رہے۔(۵) ’’ فی سبیل اللہ ‘‘ احناف کے یہاں اس سے خصوصیت کے ساتھ وہ اہل حاجت مراد ہیں جو جہاد،دینی تعلیم کے حصول میں لگے ہوئے ہو ں ۔(۶)’’ مسافر ‘‘ وہ لوگ جو اصلاً زکوٰۃ کے حقدار نہ ہوں ،لیکن سفر کی حالت میں ضرورت مند ہو گئے ہوں ،یہ اتنا ہی لیں جتنا کہ کام چل جائے (کتاب الفتاویٰ :۳؍۲۸۴ تا ۲۸۶)۔
سعادات کیلئے زکوٰۃ کاحکم :رسول اللہ ؐ نے بنوہاشم یعنی سادات پر زکوٰۃ حرام قرار دیا ہے ،آپ ؐ نے فرمایا’’ان الصدقۃ لا تحل لنا‘‘ (ترمذی :۶۵۷) اس لئے سادات کو زکوٰۃ نہیں دی جائے گی،نیز زکوٰۃ صرف مسلمانوں کو ہی دی جائے گی ،غیر مسلموں کو نہیں (بخاری :۱۴۹۶)، ان رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینا زیادہ بہتر ہے اگر وہ محتاج اور زکوٰۃ لینے کے حقدار ہیں ،اس صورت میں دوہرا اجر حاصل ہوگا ،ایک زکوٰۃ کی ادائیگی کا ،دوسرے صلہ رحمی کا،لیکن بعض لوگ زکوٰۃ کو صرف اپنے رشتے داروں تک ہی محدود کر لیتے ہیں یہ نا مناسب اور اسلامی اخوت کے خلاف ہے ۔گداگری کا پیشہ اختیار کرنے والوں کو زکوٰۃ دنیا؟ : غرباء ومساکین میں بعض تو وہ ہیں جنہوں نے گدا گری کو پیشہ بنالیا ہے ، صحت مند وتندرست ہیں اورقوت بازو سے کماکر کھا نے کی قوت رکھتے ہیں پھر بھی بھیک مانگتے رہے ہیں ،ایسے لوگوں کے لئے زکوٰۃ حلال نہیں،رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا:زکوٰۃ حلال نہیں ہے غنی( مالدار) اور تندرست وتوانا کے لئے(ترمذی:۶۵۴) اور دوسرے وہ فقیر اور مسکین ہیں جو شرم وحیا کی وجہ سے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے گریز کرتے ہیں ،در اصل یہی حقیقی فقیر ومسکین ہیں اور امداد کے صحیح حقدار بھی ہیں ،رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا’’اصل مسکین وہ نہیں جو لوگوں کے پاس سائل بن کر جاتا ہے اور ایک دو لقمے یا ایک دو کھجور لے کر لوٹتا ہے بلکہ حقیقی مسکین وہ ہے جس کے پاس ضرورت پوری کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں اور لوگ اس کے حال کو جانتے بھی نہیں اور اس کا حال یہ ہے کہ غیرت وشرم کی وجہ سے لوگوں سے سوال بھی نہیں کرتا (بخاری:۱۴۷۹) ۔ حقیقی مستحق تک زکوٰۃ کا پہنچانا ضروری :مالدار اور صاحب نصاب لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ رشتہ داروں،پڑوسیوں ، محلہ کے مستحق لوگوں پر نظر ڈالیں ساتھ ہی ان محلوں کا جائزہ لیں جہاں باضمیر مستحق غرباء ومساکین رہتے ہیں اور ان تک امداد پہنچانے کی کوشش کریں، سہولت کی خاطر کسی بھی فرد کو زکوٰۃ دے دینا غیر ذمہ دارانہ عمل ہے ،اس سے حقیقی مستحق محروم ہوجاتے ہیں ،اگر تلاش کے باوجود حقیقی مستحق تک رسائی ممکن نہ ہو تو پھر ان دینی ،فلاحی اور رفاہی تنظیموں کے حوالے کر سکتے ہیں جن کی امانت داری ودیانت داری پر آپ کو اطمینان حاصل ہے،چونکہ یہ حضرات محلہ محلہ سروے کر تے رہتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں حقیقی مستحقین کا بخوبی علم رہتا ہے۔زکوٰۃ دے کر احسان نہ جتائیں: زکوٰۃ دے کر ہر گز احسان نہ جتائیں بلکہ لینے والے کا احسان مانیں کہ اس کی وجہ سے آپ کا ایک اہم فریضہ ادا ہوا ہے، زکوٰۃ دے کر احسان جتانا گویا مال کماکر دریا میں ڈالنا ہے ،بعض لوگ بڑا شور شرابہ کر کے زکوٰۃ تقسیم کرتے ہیں ، یہ غریبوں کے ساتھ ایک طرح کا مذاق ہے ،گرچہ صدقات واجبہ علانیہ دینے کی بھی اجازت ہے ،اس سے دوسروں کو ترغیب اور حوصلہ ملتا ہے، بد گمانی دور ہوتی ہے ، لیکن زکوٰۃ دیتے وقت کوئی ایسا طریقہ اپنا نا نہیں چاہیے کہ جس سے ریا ونمود کی بو مہکنے لگے ،اس سے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں ،دراصل اعمال کی قبولیت کا مدار اخلاص وللہیت پر ہی موقوف ہے۔
مدارس اسلامیہ کو زکوٰۃ دینا دوہرا ثواب : اسی طرح مصارف زکوٰۃ میں مدارس دینیہ بھی شامل ہیں ، مدارس دینیہ کی اہمیت ،ضرورت اور افادیت سے امت مسلمہ اچھی طرح وقف ہے ،یقینا مدارس کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے اور رہے گی ، مدارس دینیہ کی بڑی خوبی ہے کہ وہ بے حد کم وسائل اور نہایت قلیل آمدنی کے باوجود ان کالجس اور یونورسیٹیوں سے کہیں زیادہ بہتر خدمات انجام دے تے ہیں جن کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں،مدارس دینیہ اور ان میں پڑھنے ،پڑھانے والوں کو ملک کی سرحدوں اور اس کی حفاظت پر مامور سپاہیوں سے تشبیہ دی گئی ہے ،مدارس اور ان میں پرھنے ،پڑھانے والے دینی سر حدوں کے محافظ اور امین ہیں، یہ حضرات دین متین کی حفاظت میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیںاور دشمنان اسلام کا ہر محاز پر مقابلہ کر تے ہیں،آج ہر طرف اسلام دشمن طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں، جدید وسائل کی کنجی ان کے ہاتھوں میں ہے ،اسلام پرہر روز نیاوار کیا جا رہا ہے ،ان حالات میں تو مدارس دینیہ اور علماء کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے، امت کو ان مدارس اسلامیہ اور علماء کے شکر گزار ہونا چاہیے کہ وہ اتنی بڑی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لئے ہوئے ہیں ،یہ تعلیم دین، تبلیغ دین کے ساتھ حفاظت دین کا اہم فریضہ انجام دے رہیں ،یقینا غرباء ،مساکین،مستحقین اور دینی ضروریات میں مال ودولت کا خرچ کرنا بہت بڑی سعادت اور دنیا وآخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے ،خدا کی راہ میں اور اس کے حاجت مند بندوں پر خرچ کرنے والوں کے لئے خدا ئے بزرگ وبرتر کی طرف سے مسرت کا پیغام ہے ،رسول اللہؐ نے فرمایاکہ ’’ ہر بندے کو اللہ تعالیٰ کا پیغام ہے کہ اے آدم کے بیٹے !تو (میرے ضرورت مند بندوں پر) اپنی کمائی خرچ کر ،میں اپنے خزانہ سے تجھ کو دیتا رہوں گا( بخاری:۵۰۳۷)۔
رمضان میں زکوٰۃ کا حکم: چونکہ رمضان المبارک جسے نیکیوں کا سیزن کہا جاتا ہے ،ماہِ مبارک میں خدا ئے رحمن کی طرف سے بندوں کو نیکیاں کمانے کے خوب مواقع فراہم کئے جاتے ہیں، اعلان ہوتا ہے نفل پر فرض کا ثواب اور فرض پر ستر فرضوں کا ثواب دیا جائے گا ، ماہ مقدس میںاہل ایمان کے لئے روزہ اور نماز تراویح ،دیگر نوافل ، ذکر واذکار، تلاوت قرآن، مناجات کے علاوہ خیر خیرات کرتے ہوئے غریبوں ،مسکینوں اور بے کسوں وبے بسوں کی مددکے ذریعہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں کما ئی جاسکتی ہیں اور اس کے ذریعہ خدا کو راضی وخوش کیا جاسکتا ہے ۔رمضان میں رسول اللہؐ کی جود و سخاوت: خود رسول اللہ ؐ کا حال یہ ہوتا تھا کہ آپ ؐ باوجود لوگوں میں سب سے زیادہ سخی وفیاض ہونے کے رمضان المبارک آتے ہی سخاوت وفیاضی کے دریا بہا دیا کرتے تھے،حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ’’رسول اللہ ؐ نفع پہنچانے میں لوگوں میں سب سے آگے تھے،اور رمضان میں جبرئیل ؑ ملتے تو آپ ؐ اور بھی زیادہ سخی ہوجاتے تھے،اور جبرئیل ؑ آپ ؐ سے رمضان میں ہر روز ملاقات کرتے تھے،یہاں تک کہ پورا رمضان گزرجاتا تھا،جبرئیل ؑ آپ کے سامنے قرآن پڑھاکرتے تھے ،جب جبرئیل ؑ آپ ؐ سے ملتے تو آپ ؐطوفانی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوجاتے تھے(بخاری :۱۷۷۴)،گویا پورا رمضان آپ ؐ کے دولت کدہ سے کثرت کے ساتھ خیر خیرات کی جاتی اور غریب ونادار،مفلس و مستحق افراد کی بھر پور اعانت کی جاتی تھی ، حضرات صحابہ ؓ بھی اپنے محبوب ؐ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مستحقین کی دل کھول کر امداد کرتے تھے، تابعین رحمہم اللہ اور ان کے بعد سے لے کر آج تک ہر دور کے حاملین شریعت اور متبعین سنت رمضان المبارک میں بڑے اہتمام کے ساتھ اس عظیم سنت کو زندہ کرتے چلے آرہے ہیں ، الحمد للہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اس دور میں بھی اس کا سلسلہ بدستور جاری ہے ، اسی طرح اہل علم اور اکابرین امت کے توجہ و ترغیب دلا نے پر اس ماہ میں کثیر تعداد میں مسلمان نفلی صدقات سے ہٹ کر صدقات واجبہ (زکوٰۃ ) کی ادائیگی کا بھی خوب اہتمام کرتے ہیں ۔ رمضان میں زکوٰۃ ادا کرنے کے فائدے : اکابر امت نے رمضان المبارک میں زکوٰۃ نکالنے کے بہت سے فوائد بیان کئے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں (۱) چونکہ یہ مہینہ نیکیوں کا موسم بہار ہے ،ہر سو رحمتوں وعنایتوں کی ہوائیں چلتی رہتی ہیں ،جس میں صاحب ایمان کے لئے نیکیوں کی طرف بڑھنا دیگر مہینوں کے مقابلہ میں زیادہ سہل ہوجاتا ہے ، اور پھر مسلمان کے لئے ایک فرض (روزہ)کی ادائیگی کے ساتھ دوسرا فرض(زکوٰۃ) ادا کرنا بھی آسان ہوجاتا ہے ، (۲) زکوٰۃ کے سلسلہ میں سال متعین کرنے کے لئے یگر مہینوں کے مقابلہ میںرمضان المبارک زیادہ موضوع اور مناسب ہے ،کیونکہ اس مہینہ میں لوگ فرائض ،واجبات اور نوافل پر کثرت سے عمل پیرا ہوتے ہیں ،(۳) دیگر مہینوں کے مقابلہ میں اس ماہ میں زکوٰۃ کا ثواب ستر گنا بڑھ جاتا ہے ۔
ایک اہم گزارش: جن اشخاص کو اللہ تعالیٰ نے صاحب حیثیت ، صاحب ثروت بنایا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ انہیں دینے والوں میں سے بنایا ہے نہ کہ لینے والوں میں سے ،سال گزرنے پر سونا ،چاندی ،نقدی رقم یا جن مالوں میں تجارت کی نیت کی ہے اور اگر تاجر ہیں تو سامان تجارت کا مکمل حساب لگا
کر اس کی زکوٰۃ اداکریں ،بعض لوگ زکوٰۃ کی ادائیگی میں تاخیر کرتے ہیں جو کہ مناسب نہیں ہے ،بعض لوگ اندازے سے زکوٰۃ مکالتے ہیں یہ عمل بھی درست نہیں ہے ،بعض لوگ زکوٰۃ میں معمولی قسمکی چیزیں دیتے ہیں یہ بھی نامناسب ہے ،زکوٰۃ میں رقم دے دی جائے تو بہتر ہے کیونکہ اس سے ضرورت مند اپنی ضرورت کی چیزیں خرید سکتا ہے اور اگر سامان کی شکل میں دیں تو اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ ایسی چیزیں دی جائے جو ان کے لئے زیادہ ضروری ہو اور اس میں عمدہ چیزوں کا خیال رکھیں ،بعض لوگ ایسی چیزیں دیتے ہیں جس سے اس کی فی الفور ضرورت پوری نہیں ہوپاتی اور اس کے باوجود اس کی محتاج گی باقی رہتی ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×