اسلامیات

دَور فتن کی چند نشانیاں

فتن جمع ہے فتنہ کی اس کے معنیٰ آزمائش و فساد کے ہیں ، لفظِ فتنہ اور آزمائش بیک وقت کئی چیزوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ، مثلاً شر و فساد اور وبائی امراض کا دور بھی فتنہ ہے،مسلمانوں کا آپسی انتشار بھی فتنہ میں داخل ہے اورشریعت حقہ کے مقابلہ میں اپنی خواہشات کے مطابق عقائد وعبادات کے طریقے نکالنا بھی فتنہ ہی ہے ، چونکہ رسول اللہ ﷺ انسانوں کے سب سے بڑے ہمدرد اور خیر خواہ تھے ، آپ ﷺ انسانوں کیلئے انکے ماں باپ سے بھی زیادہ شفیق و مہربان تھے، ایک باپ اپنی اولاد کی فلاح وکامیابی کیلئے جو کچھ سوچتا ہے آپ ﷺ اس سے کہیں زیادہ انسانوں کی صلاح وفلاح کیلئے سوچا کرتے تھے ، آپ ﷺ کوہر وقت ،ہر لمحہ اور ہر لحظہ یہی فکر کھائی جاتی تھی کہ کسی طرح انسانوں کا ہر ہر فرد عذاب الیم سے بچ کر ہمیشگی کی نعمتوں کا حقدار بنجائے، قرآن مجید میں ہے کہ آپ ﷺ کی دلی خواہش تھی کہ ہر انسان ایمان کی دولت سے مشرف ہوکر خدا کا مقرب بن جائے اور آخرت میں جنت اور اس کی نعمتیں اسے میسر ہوں اور اس قدر سمجھانے اور واضح دلائل کے باوجود ان کے ایمان نہ لانے سے آپ ﷺ کو جو کڑھن اور شدید تکلیف پہنچتی تھی اسی جذبہ کا اظہار اس طرح کیا گیا ہے ،ارشاد ہے ’’فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰی آثَارِہِمْ إِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِہٰذَا الْحَدِیْثِ أَسَفًا‘‘پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیا آپ ان کے پیچھے اسی رنج وغم میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے؟(کہف ،۶) بلاشبہ تمام انسانوں کے ساتھ یہی غیر معمولی محبت وخیر خواہی کا نتیجہ تھا کہ آپ ﷺ نے آئندہ کے احوال وکیفیات سے باخبر کرتے ہوئے عالم برزخ ،قیامت کے مناظر اور جہنم کے عذابات اور اس میں نافرمانوں کیلئے مقرر کردہ سزائیں سنا کر باخبر کیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ انہیں نصیحت ہو اور موت اور قیامت کے آنے سے پہلے ان کی تیاری کر سکیں،اسی طرح آپ ﷺ نے اپنی امت کو مستقبل میں واقع ہونے والے تغیرات اور امت میں پیدا ہونے والے فتنوں سے آگاہ بھی کیا اور اس سلسلہ میں انہیں ضروری ہدایات بھی دیں تا کہ یہ ایسے حالات وواقعات کے رونما ہونے پر اپنے دین وایمان کی حفاظت کرسکیں ، ذخیرہ احادیث میں اس سلسلہ کی بہت سی احادیث موجود ہیں ، حدیث کی کتابوں میں ان تمام روایات کو ’’کتاب الفتن‘‘ کے عنوان سے جمع کیا گیا ہے ،چنانچہ یہاں ان میں سے چند کو ذکر کیا جا رہا ہے تاکہ ان فتنوں سے باخبر ہوکر ان کے اثرات سے تحفظ کا داعیہ پیدا کر سکیں۔
٭ حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’یقینا میری امت کے لوگ پچھلی امت کے لوگوں کے طریقوں پر بالشت برابر یعنی بالکل ان کے نقش قدم پر چلیں گے ،یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کے بل میں گُھسے ہوں گے تو یہ بھی ان کی پیروی میں اس میں گُھسنے کی کوشش کریں گے ،ـــــــــــــــ۔۔۔۔۔۔پوچھا گیا اے اللہ کے رسول ؐ کیا پچھلی امتوں سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تو اور کون ہیں؟ یعنی بالکل یہی لوگ مراد ہیں۔(بخاری ،مسلم)آپ ﷺ کے ارشاد عالی کا مطلب بالکل واضح ہے کہ امت محمدیہ جسے اللہ تعالیٰ دیگر امتوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے اور اسے بہت سی خصوصیات وانعامات سے نوازا ہے ، یہ وہ خوش نصیب امت ہے کہ جسے امام الانبیاء خاتم المرسلین ،رحمۃ للعالمین اور محبوب کبریاء عطا ہوئے،آپ ؐ کی لائی ہوئی تعلیمات سراپا رحمت ہی رحمت ہیں اور آپ ؐ کی زندگی کا ہر گوشہ مینارۂ نور ہے جو انسانیت کیلئے سامان ہدایت اور نجات دہندہ ہے ، اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبؐ کی اداؤں کی نقل پر دنیا میں سرخُروئی اور آخرت میں نجات کا وعدہ فرمایا ہے ،لیکن اس کے باوجود امت میں بعض نادان بلکہ احمق اور بصیرت سے محروم لوگ وہ ہوں گے جو تعلیمات نبوی کو چھوڑ کر یہود ونصاریٰ کی تقلید کریں گے اور وہ جن گمراہیوں میں مبتلا ہوئے تھے یہ بھی انہیں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نہ صرف گمراہ ہوں گے بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے، بلکہ آپ ؐنے تو یہاں تک فرمادیا کہ اگر یہود ونصاریٰ میں سے کسی پاگل اور سر پھرے نے گوہ کے بل میں گھسنے کی حماقت کی ہوگی تو میری امت میں بھی بعض نکمے اور پاگل قسم کے لوگ انکی اس میں بھی پیروی کریں گے اور انکی نقالی کریں گے،یقینا آج آپؐ کی یہ پیشن گوئی صد فیصد سچ ثابت ہو رہی ہیں،ہم دیکھ رہے ہیں کہ بعض بدبخت قسم کے لوگ ہوس پرستی ،فیشن پرستی اور عقلی گمراہیوں میںمبتلا ہوکر اسوۂ حسنہ سے دور ہوکر یہود ونصاریٰ کے فریبی جال میں پھنستے جا رہے ہیں جس کے نتیجہ میں بد بختی ان کا مقدر بنتی جا رہی ہے ، آج امت کا ایک بڑا طبقہ کھانے پینے سے لے کر معاملات ومعاشرت تک سب چیزوں میں غیروں کی نقل کرنے لگا ہے حتیٰ کے بعض مغربیت سے متأثر جنونی فیشن پرست اسوۂ حسنہ کو دقیانوسی کانام دینے لگے ہیں(العیاض باللہ) ، حقیقت میں آپؐ کا اپنی امت کو ان فتنوں سے آگاہ کرنے کا مقصد انہیں خبر دار کرنا ، گمراہ ہونے سے بچانا اور اپنے دین وایمان کی حفاظت کی طرف توجہ دلانا ہے۔
٭ حضرت علی بن ابی طالبؓ فرماتے ہیں ایک مرتبہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مصعب بن عمیرؓ اس حالت میں تشریف لائے کہ ان کے جسم پر بس ایک (پھٹی پُرانی) چادر تھی جس میں کھال کے ٹکڑوں کے پیوند لگے ہوئے تھے ،انہیں اس حالت میں دیکھ کررسول اللہ ﷺ کو رونا آگیا ،انکا وہ وقت یاد کرکے جب اسلام لانے سے پہلے وہ مکہ میں نہایت عیش وعشرت کی زندگی گذارا کرتے تھے،۔۔۔۔۔۔۔اس کے بعد آپ ﷺ نے (ہم لوگوں سے مخاطب ہوکر) فرمایا :(بتلاؤ ) اس وقت تمہاری کیا کیفیت ہوگی جب (دولت اور سامان تعیش کی ایسی فراوانی ہوگی کہ) تم میں کے لوگ صبح کو ایک جوڑا پہن کر نکلیں گے اور شام کو دوسرا جوڑا پہن کر ،اور (کھانے کیلئے) ان کے آگے ایک پیالہ رکھا جائے گا اور دوسرا اُٹھایا جائے گا اور تم اپنے مکانوں کو اس طرح لباس پہناؤگے جس طرح کعبۃ اللہ پر غلاف ڈالا جاتا ہے (آپ ؐ کا یہ ارشاد سن کر حاضرین میں سے بعض ) لوگوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ؐ اُس وقت ہمارا حال تو آج کے مقابلہ میں بڑا اچھا ہوگا ،ہم معاش کی محنت سے آزاد ہو ں گے تو اللہ کی عبادت کیلئے پوری فراغت حاصل ہوگی ،رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا نہیں ! تم لوگ آج( فقر وفاقہ اور تنگدستی کے اس دور میں عیش وآرام والے) اس دن کے مقابلہ میں بہت اچھے ہو(ترمذی) حضرت عبدری اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ صحابی رسول حضرت مصعب بن عمیرؓ مکہ مکرمہ کے سب سے زیادہ خوبصورت نوجوان تھے ،مکہ کے نوجوانوں میں ان کے سر کے بال سب سے زیادہ عمدہ تھے،یہ اپنے والدین کے بہت ہی چہیتے تھے،ان کی والدہ بہت مالدار خاتون تھیں وہ اپنے لڑکے کو نہایت خوبصورت اور باریک کپڑے پہنایا کرتی تھیں،آپؓ مکہ والوں میں سب سے زیادہ عطر کا استعمال کرتے تھے اور لباس کے ساتھ جوتے بھی بڑے عمدہ اور خاص کر حضر موت کے بنے ہوئے پہنا کرتے تھے،جب انہیں رسول اللہ ﷺ کے نبی ہونے کا علم ہوا تو یہ خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر مشرف بہ اسلام ہو گئے ،ابتداء میں والدہ سے ڈر کر اسلام لانے کو مخفی رکھا ،جب انکی والدہ اور قبیلہ والوں کو پتہ چل گیا تو انہوں نے آپ کو پکڑ کر قید کر دیا چنانچہ آپ مسلسل قید وبند میں رہ کر سخت صعوبتوں کو برداشت کر تے رہے ،،پہلی ہجرت کے موقع پر حبشہ چلے گئے پھر مسلمانوں کے ساتھ واپس مکہ آگئے ، اب انکی حالت بالکل بد ل چکی تھی ، ناز ونعمت کی جگہ خستہ حالی نے جگہ لے لی تھی ،چنانچہ جب یہ پھٹے پرانے اور جگہ جگہ پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنکر آپ ؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو انکی سابقہ عیش وعشرت کی زندگی یاد کرکے آپ ؐ کے آنکھوں میں آنسو آگئے ،پھر آپ ؐ نے صحابہ ؓ کے سامنے مسلمانوں کے آئندہ حالات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ عیش وعشرت اور مال ودولت کی فراوانی ہوگی ،لوگ صبح ایک جوڑا پہنیں گے تو شام کو ایک جوڑا پہنیں گے ،دستر خوان پر ہمہ اقسام کے لذیز کھانے لگائے جائیں گے ، آپ ؐ نے حاضرین سے پوچھا کہ وہ وقت تمہارے لئے کیسا ہوگا؟ تو لوگوں نے عرض کیا وہ تو بہت بہتر وقت ہوگا کہ فراغت ہی فراغت ہوگی اور ہم اللہ کی عبادت میں مشغول رہیں گے،یہ سن کر آپؐ نے فرمایا ایسا نہیں ہے بلکہ آج تم لوگ جس حال میں ہویہ آئندہ کے حالات سے کہیں بہتر ہے،مطلب یہ ہے کہ آج اگر چہ لوگوں کے پاس مال ودولت کی کمی اورکھانے و پینے کی تنگی ہے ،نہایت عسرت کے ساتھ معمولی مکانوں میں زندگی بسر کی جا رہی ہے ،لوگ مسافرانہ زندگی گذار رہے ہیں ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ عسرت وتنگی کا یہ دور ان کے حق میں عشرت وفراوانی سے کہیں بہتر ہے ، اس لئے کہ مال دولت انسان کیلئے سخت آزمائش کی چیز ہے ،عموماً دنیا کی دولت آدمی کو یاد الٰہی سے غافل کر دیتی ہے ، دولت دنیا کی دلدل میں پھنس کر آدمی دین سے دور اور آخرت سے غافل ہوجاتا ہے، دنیا دار آدمی طرح طرح کے گناہوں میں ملوث ہوجاتا ہے اور گناہوں کی نحوست اس کے دل کو سیاہ کر دیتی ہے ،پھر آگے چل کر اس سے حلال وحرام کی تمیز چھین لی جاتی ہے ،نتیجتاً وہ خدا کا باغی اور نافرمان کہلاتا ہے ،آج جن مسلم ملکوں میں مال ودولت کی فراوانی ہے وہاں کے حالا ت محتاج بیاں نہیں ہیں،اسی طرح جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے مال ودولت اور جاہ ومنصب عطا کیا ہے وہ اس نشے میں خدا ئی احکامات اور نبوی تعلیمات بھول بیٹھے ہیں، بس انکی نظر میں دنیا ہی دنیا بسی ہوئی ہے ،جس فرد اور جس قوم کی یہ حالت ہوجائے اس کی تباہی وبربادی میں کیا تردد ہے ،آپ ﷺ نے اسی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اُس عیش وعشرت اور مال کی فراوانی کے دور سے یہ عسرت وتنگی کا دور کہیں زیادہ بہتر اور عافیت والا ہے کہ بندہ خدا کی عبادت اور اس کی اطا عت میں ہمہ وقت مشغول ہے ،درحقیقت انسان کی کامیابی کا مدار خدا کی عبادت واطاعت میں ہے نہ کہ اس مال ودولت کی فراوانی میں جو کہ انسان کو اپنے خالق ومالک سے غافل کردے۔
٭حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: (عنقریب ) وہ زمانہ آئے گا کہ وقت قریب قریب ہو جائے گا،اور علم اُٹھا لیا جائے گا ،اور فتنے نمودار ہوں گے،اور (انسانی طبیعتوں میں ) بخل ڈال دیا جائے گا اور بہت حرج ہوگا،صحابہ ؓ نے عرض کیا (اے اللہ کے رسول ﷺ) حرج سے کیامراد ہے؟ تو آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کشت وخون( بخاری ومسلم) ،اس حدیث میں آپ ﷺ نے آگے چل کر امت میں پیدا ہونے والے پانچ فتنوں کی نشاندہی فرمائی اور امت کو آگاہ کیااور انکی توجہ اس جانب مبذول کر تے ہوئے فرمایا کہ جب اس طرح کے فتنے ظاہر ہونے لگیں تو سمجھو کہ یہ امت پر بڑ ا تباہ کن دور ہے ، (۱) ’’زمانہ قریب قریب ہوجائے گا ‘‘اگر چہ شارحین حدیث نے اس کے کئی مفہوم بیان کئے ہیں لیکن اکثر علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس سے مراد وقت میں بے برکتی ہے،یعنی اللہ تعالیٰ وقت سے برکت کو اُٹھالیں گے جس کی وجہ سے وقت جلدی جلدی گذرے گا، جتنے وقت میں پہلے والے جو کام کئے تھے اتنے ہی وقت میں اس دور والے اس کام کا آدھا بھی نہیں کر پائیں گے،یقینا آج تجربہ شاہد ہے کہ گھنٹہ منٹوں کی طرح ،دن گھنٹوں کی طرح ،مہینہ ،ہفتہ کی طرح اور سال مہینہ کی طرح گذرتا جا رہا ہے،(۲)’’ علم اُٹھا لیا جائے گا‘‘مطلب یہ ہے کہ علمائے ربانیین جو دراصل علم نبوت کے وارث اور امین ہیں اُٹھتے چلے جائیں گے اور ان کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوگا اسے پُر کرنے والے پیدا نہ ہوں گے،(۳)’’ طرح طرح کے فتنے نمودار ہوں گے‘‘مطلب بالکل واضح ہے کہ ہر دن اور ہر رات نئے نئے فتنے جنم لیں گے،کبھی مال فتنہ بن کر ابھرے گا تو کبھی قرآن وحدیث کی تشریح کے نام پر اس کی غلط تاویل کرنے والے پیدا ہوں گے اور اس کے ذریعہ لوگوں کو گمراہ کریں گے،تو کبھی نبوت کے جھوٹے دجال وکذاب پید ہوکر قصر نبوت پر ڈاکہ ڈالنے کی ناپاک وناکام کوشش کریں گے،تو کبھی تہذیب جدید کے نام پر امت کو نبوی تعلیمات سے دور کرنے کی احمقانہ کو شش کریں گے،(۴)’’ سخاوت وفیاضی لوگوں سے نکل جائے گی‘‘مطلب یہ ہے کہ سخاوت وفیاضی جو انسان کی ایک عمدہ صفت ہے اور اللہ کو بڑی محبوب ہے ،لوگوں کے دلوں سے نکل جائے گی ،لوگ مالدار تو ہوں گے لیکن بخل ان کی رگ وریشہ میں پیوست ہوجائے گا ،غریب اور ناداروں کو دیکھ کر وہ نظریں چرانے لگیں گے،(۵)’’کشت وخون عام ہوجائے گا‘‘مطلب یہ ہے کہ معمولی معمولی باتوں پر لوگ ایک دوسرے کا خون بہائیں گے،انسانوں کی قیمت جانوروں سے بھی کم تر ہوجائے گی، ہر روزہر طرف سے قتل وخون کی ہی خبریں آنے لگیں گی ،یقینا آج کے دور کا جائزہ لیا جائے تو یہ پیشن گوئی بھی صد فیصد سچ ثابت ہو رہی ہے ،ہر روز اخبارات کے صفحات قتل وخون کی خبروں سے بھرے دکھائی دیتے ہیں ،ایسا معلوم ہوتا ہے خونِ انساں پانی سے بھی زیادہ ارزاں ہوچکا ہے ’’اللہم احفظنا منہم‘‘اللہ تعالیٰ ہم کو ان تباکن ،ایمان کش فتنوں سے محفوظ فرمائے ،آمین۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×