اسلامیات

اگر چاہتے ہو نصرتِ الٰہی ۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ،بندوں کے لئے جن کا شمار کرنا مشکل ہی نہیں محال ہے، اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں میں وہ بندے بہت پسند ہیں جو اس کی نعمتوں کی قدر کرتے ہیں اور نعمتوں کے ملنے پر اس کا شکر ادا کرتے ہیں ، بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ’’شکر گزاری ‘‘ بھی ہے ،شکر گزا بندوں کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے رب کا شکریہ ادا کرتے رہتے ہیں جس سے خوش ہو کر اللہ تعالیٰ انہیں کبھی ختم نہ ہونے والے اپنے خزانوں سے مزید نعمتیں دیتے رہتے ہیں ،گویا شکرگزاری نعمتوں کے اضافہ کا ذریعہ ہے ،بر خلاف ناشکری اور ناقدری نعمتوں کے واپس لئے جانے کا ذریعہ ہے ، جو بندے نعمتوں کی ناقدری کرتے ہیں ، حصول نعمت کے بعد اس کا بے موقع،بے جا اور غلط استعمال کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے اپنی نعمتیں چھین لیتے ہیں ،نعمتوں کے دروازے ان پر بند کر دئیے جاتے ہیں ، بطور سزا تنگدستی کا پھندا ان کے گلے میں ڈالدیا جاتا ہے اور کفران نعمت کی وجہ سے وہ دربدر بھٹکتے رہتے ہیں اور پھر بے چین وبے قرار ہو کر ،مصیبتوں کو سر پہ اُٹھائے مارے مارے پھر تے رہتے ہیں ، بلا شبہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہر ایک نعمت بیش بہا قیمت بلکہ لاقیمت ہوتی ہے، شکر گزار بندے وہ ہیں جو ہر ہر نعمت کی قدر کرتے ہیں اور نعمت کے حاصل ہونے کے بعد اس کا صحیح استعمال کرتے ہیں ،یقینا نعمت کا صحیح استعمال ہی شکران نعمت ہے ،شکر گزاری انبیا ء ؑ کی خاص وصف ہے اور ناشکری شیطان کی نشانی ہے ، حضرات انبیاء ؑ ہر حال اور ہر حالت میں اپنے رب کا شکر بجالاتے تھے،اپنی زبانوں کو شکوہ سے پاک اور شکر سے تر رکھتے تھے، مقربین ، خاصان خدا اور ولی اللہ بننے کے لئے نعمتوں پر شکر وتعریف اور مصیبتوں پر صبر وقرار بہت ضروری ہے ، اس کے بغیر مقامات عالیہ کا حصول ممکن نہیں ہے، مگر بڑی عجیب بات ہے کہ شکر جتنی بڑی دولت ہے شکر گزاری کا عمل اتنا ہی آسان ہے ، ایک مرتبہ حضرت سیدنا موسیٰ ؑ نے بارگاہ الٰہی میں پہنچ کر عرض کیا کہ الٰہی :آپ نے حضرت آدم ؑ کو اپنے دست کرم سے بنایا،اپنی روح ان میں ڈالی ،اپنی جنت میں انہیں رکھا اور فرشتوں سے ان کو سجدہ کرایا ،اتنے احسانات کا حضرت آدم ؑ نے کس طرح شکریہ ادا کیا؟ ،تو جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :موسیٰ !آدمؑ نے یہ اقرار کیا کہ یہ ساری نعمتیں ہم ہی نے ان کو دی تھیں ، بس یہی شکر ہے،شکر گزار بندے دنیا وآخرت دونوں جگہوں پر خدا کی رحمت وعنایت کے مستحق قرار دئیے جائیں گے ،دنیا میں اس طرح کہ خدا کی نظر عنایت ان پر ہوگی جس کی وجہ سے ان کی زبان یاد الٰہی سے تر اور ان کے دل معرفت خداوندی سے لبریز ہوں گے اور آخرت میں اس طرح کہ بلا حساب وکتاب جن لوگوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا ان میں یہ بھی شامل رہیں گے۔
حضرت سیدنا حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ ا گرچہ خدا کی نعمتیں بے حساب وشمار ہیں مگر ان میں پانچ نعمتیں بہت عظیم الشان اور نہایت خاص ہیں ، خدا کی طرف سے عطا کردہ یہ وہ نعمتیں ہیں اگر بندہ اس پر خوش اور راضی رہے گا تو خزانہ ٔ خدا سے وہ چیزیں اسے عطا ہوں گی جس کا اسے گمان بھی نہیں ہوگا ،(۱)قرض حسنہ: خدا نے اپنے فضل وعنایت سے دنیا عطا فرمائی ،پھر بطور قرض کے اس کو طلب کیا،اگر بندے خدا کے اس مطالبہ پر راضی برضا ہوتے ہوئے راہ خدا میں مال ودولت خرچ کریں گے تو اس کے بدلے انہیں دس گنا سے سات سو گنا تک بدلہ ملے گا بلکہ اخلاص وللہیت کی وجہ سے بعضوں کو بے گنتی اوربے حساب دیا جائے گا،قرآن مجید میں خدا کا ارشاد ہے :وَأَقْرِضُوا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا وَمَا تُقَدِّمُوْا لِأَنْفُسِکُمْ مِّنْ خَیْْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ ہُوَ خَیْْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا ٌ (المزمل:۲۰)’’اور جو نیکی تم اپنے لئے آگے بھیجو گے اسے اللہ تعالیٰ کے یہاں بہتر اور ثواب میں بہت زیادہ پاؤگے‘‘ ،اس آیت میں خدا نے راہ خدا میں خرچ کو قرض حسنہ سے تعبیر کیا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ خدا کی ذات غنی وبے نیاز ہے اسے کسی قرض ورقم کی ضرورت نہیں ہے مگر جو کچھ تم اس کی راہ میں خرچ کروگے اس کے بدلے میں تمہیں زیادتی کے ساتھ لوٹایا جائے گااور کسی بھی حال میں تمہارا حق مارا نہیں جائے گا، خدا کا لطف وکرم کے انسان اور اس کامال ودولت دونوں اسی کی عطا وبخشش ،انسان تو صرف اس کا امین ومحافظ ہے ،اپنی ہی چیز کو اپنے ضرورت بندوں پر خرچ کو قرض حسنہ سے تعبیر کرکے اس کے بدلے بہت کچھ دینے کا وعدہ کر رہا ہے ،یہ اس کی عطا وبخشش، جود وسخا کی انتہا ء ، اپنے بندوں سے بے پناہ محبت وچاہت اور معمولی انفاق پر غیر معمولی نوازنے کا بہانا ہے ،خوش نصیب ہیں وہ بندے جو خدا کی طرف سے ملی ہوئی اس نعمت کی قدردانی کرتے ہوئے اپنے لئے سامان آخرت تیار کرلیتے ہیں اور معمولی خرچ پر خدا کی طرف سے غیر معمولی انعام پاتے ہیں ،اپنی زندگی میں خرچ کر کے اُسے اپنے لئے آخرت میں زخیرہ کرنے والا ہی دراصل دانشمند اور سمجھ دار ہے اور حقیقی معنیٰ میں اپنے مال سے محبت رکھنے والا ہے ،ایک موقع پر رسول اللہ ؐ نے اپنے اصحاب ؓ سے سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ: تم میں ایسا کون ہے جو اپنے وارث کے مال سے بہ نسبت اپنے مال کے زیادہ محبت رکھتا ہو،صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو اپنے وارث کے مال کی محبت خود اپنے مال سے زیادہ رکھے،آپ ؐ نے ارشاد فرمایا سوچ سمجھ کر کہو ،صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ اس کے علاوہ کوئی صورت ہمیں معلوم نہیں،آپ ؐ نے ارشاد فرمایا (جب یہ بات ہے تو پھر خوب سمجھ لو کہ) تمہارا مال وہ ہے جو تم نے اپنے ہاتھ سے اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا اور جو رہ گیا وہ تمہارا مال نہیں بلکہ تمہارے وارثوں کا مال ہے (بخاری)،ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک بکری ذبح کی گئی (اور اس کا گوشت راہ خدا میں تقسیم کر دیا گیا،آپ ؐ تشریف لائے اور )دریافت کیا کہ بکری میں سے کیا باقی ہے؟ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا کہ صرف ایک دست باقی ہے (باقی سب ختم ہوگیا )آپ ؐ نے ارشاد فرمایا اس دست کے علاوہ جو راہ خدا میں تقسیم کیا گیا دراصل وہی سب باقی ہے اور کام آنے والا ہے (یعنی آخرت میں بندہ کو اس کا ثواب حاصل ہوگا )۔
(۲ ) صبر :تم سے دنیا کی بعض چیزیں لے لی گئیں تمہارے ناپسند یدگی کے باوجود لیکن تمہارے صبر کرنے پر اس کے بدلے آخرت میں بے انتہا اجر وثواب کا وعدہ کیا گیا ،قرآن مجید میں خدا کا ارشاد ہے:إِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُوْنَ أَجْرَہُمْ بِغَیْْرِ حِسَابٍ(الزمر:۱۰)’’ صبر کرنے والوں ہی کو ان کا پورا پورا بے شمار اجر دیا جائے گا‘‘صبر بھی خدا کی طرف سے ایک قسم کی نعمت ہے ،جو شخص ناموافق حالات میں جزع وفزع نہیں کرتا بلکہ ان حالات کو خدا کے سپرد کرتے ہوئے راضی برضا رہتے ہوئے صبر وتحمل کا مطاہرہ کرتا ہے ،زبان کو تالا لگاکر مجسم صبر بن کر اجر وثواب کی امید رکھتا ہے ،اس کا یہ عمل اسے خدا کا مقرب بنادیتا ہے اور آخرت میں خزانہ ٔ خدا سے اسے بے حساب ولامتناہی نوازا جاتا ہے ، بعض چیزیں وہ ہیں جن کا حساب ممکن ہے لیکن صبر ایک ایسی چیز ہے جس کا حساب ممکن نہیں ،جب بندہ نامساعد حالات پر صبر وضبط کرتا ہے تو اس پر خدا کے انعامات کی بارش برستی ہے اور وہ رحمت خدا وندی میں نہا نے لگتا ہے،صبر وضبط انبیاء ؑ کی خاص صفت ہے ،جتنا انبیاء ؑ کو آزمایا گیا اتنا کسی اور کو نہیں ازمایا گیا اور جس طرح سے انبیاء ؑ نے صبر کا مظاہرہ کیا اتنا کسی اور نے نہیں کیا ،ایک حدیث میں رسول اللہ ؐ نے صبر کو نیکی کا خزانہ بتایا ہے،مصائب وتکالیف انبیائؑ کا راستہ ہے اور اس پر صبر انبیاء ؑ وصلحاءؒ کی سواری ہے ،انہی لوگوں کو انبیاء وصلحاء کا قرب نصیب ہوگا جو ناموافق حالات میں صبر وتحمل اور برداشت کا مظاہرہ کریں گے،ایک موقع پر آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ و گھونٹ خدا کو بہت پسند ہیں ایک غصہ کا گھونٹ دوسرے صبر کا گھونٹ ،یقینا حالت غصہ میں اور ناموافق حالت میں انسان کا بڑا امتحان ہوتا ہے کہ کامیاب آدمی پہچان یہ ہے کہ وہ حالت غضب میں غصہ پی جاتا ہے اور مصیبت کی حالت میں صبر سے کام لیتا ہے۔
(۳) شکر:خدا کی دی ہوئی نعمتوں پر شکر آدمی کے لئے مزید نعمتوں کے دروازہ کھول دیتا ہے ،صبر کی طرح شکر بھی خدا کی ایک عظیم نعمت اور خدا کی توفیق کا ایک خاص حصہ ہے،قرآن مجید میں خدا کا ارشاد ہے :لَئِنْ شَکَرْتُمْ لأَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ(ابراہیم:۷)’’اگر تم شکر گزاری کروگے میں تو میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کروگے تو میرا عذاب بہت سخت ہے‘‘ ،صبر کی طرح شکر گزاری بھی خدا کی عظیم نعمت اور انبیاء ؑ وصلحاء ؒ کی خاص پہچان ہے ،رسول اللہ ؐ نے بندوں کو خوشخبری سناتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ بندہ ٔ مومن کا معاملہ بھی بڑا عجیب ہے ،اس کے لئے ہر حال میں خیر ہی خیر ہے ،اگر وہ راحت وآرام پر رب کا شکر بجالاتا ہے تو یہ اس کے لئے موجب خیر ہے اور اگر دکھ پہنچنے پر صبر کرتا ہے تو یہ اس کے لئے موجب رحمت ہے(مسلم)،رسول اللہ ؐ کی سیرت طیبہ میں دونوں پہلو نمایا تھے ،آپ ؐ نے ناموافق حالات میں جہاں صبر وثبات کے ذریعہ عملی نمونہ پیش کیا وہیں موافق حالات میں شکر بجا لاکر اپنے عمل سے بتایا کہ خدا کا شکر کس طرح بجا لایا جاتا ہے ،رسول اللہ ؐ کثرت سے قیام الیل فرمایا کرتے تھے،بسااوقات پوری رات قیام وقعود میں گزار دیتے تھے جس کی وجہ سے پائے اقدس میں ورم آجایا کرتا تھا،یہ دیکھ کر ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی ؐ ! آپ تو خدا کے سب سے زیادہ بر گزیدہ اور محبوب بندہ ہیں،خدا نے آپ کو معصوم بنایا ہے اور آپ کی شان میں ماتقدم من ذبک کے الفاظ اترے ہیں پھر بھی آپ اس قدر طویل قیام وقعود کیوں فرماتے ہیں؟ اس کے جواب میں آپ ؐ نے ارشاد فرمایا : یاعائشہ افلا اکون عبدا شکورا(مسلم:۷۳۰۴)’’اے عائشہ ! کیا میں اپنے رب کا شکر گزار بندہ نہ بنوں‘‘ ،مطلب یہ ہے کہ خدا نے جب مجھے اس قدر اونچا مقام عطا فرمایا،اپنی محبوبیت کا تاج سر پر رکھا اور اپنی رضا ومحبت کو میری رضا ومحبت کے ساتھ جوڑ دیا تو یہ طویل ترین قیام وسجود درحقیقت اسی کے شکرانے میں ہے،خدا کی نعمتوں پر شکر بجالانا عبدیت کی دلیل اور حصول نعمت پر شکر یہ کا اظہار ہے، بہت سے لوگ ایسے ہیں جو مصیبت پر واویلا مچاتے ہیں ، جزع فزع کے ذریعہ آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں اور اپنی زبان پر حرف شکایت لاتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے صبر پر ملنے والے انعام سے محروم ہوجاتے ہیں ،اسی طرح بہت سے بندہ وہ ہیں جو نعمتوں کے ملنے پر منعم حقیقی کو ہی بھول جاتے ہیں ، خدا کا شکر بجالانا تو درکنار اس کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کی مرضی کے خلاف استعمال کرتے ہیں ،بہت کم لوگ ہیں جو خدا کی نعمتوں کا اظہار کرتے ہیں اور لمحہ بلمحہ اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں ،قرآن مجید میں خدا کا ارشاد ہے: وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُور(سبا: ۱۳)’’(نعمتیں تو بہت لوگوں کو عطا ہوتی ہیں ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں ) شکر گزار بندہ بندے بہت تھوڑے ہیں‘‘۔
(۴) توبہ: خدا کی جانب سے گناہ گاروں کے لئے توبہ بہت بڑی سوغات ہے ،یہ ایسی عظیم چیز ہے کہ پل بھر میں بندہ کو ذلت سے عزت ،فرش سے عرش اور نافرمانوں سے فرما بردار بنادیتی ہے،بلکہ خدا تو توبہ کرنے والے بندوں سے بہت محبت کرتا ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ جب بندہ صدق دل اور خلوص سے توبہ کرتا ہے تو نہ صرف اس کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں بلکہ گناہوں کے انبار کو نیکیوں میں تبدیل بھی کر دیا جاتا ہے، بندوں کو تعلیم دی گئی ہے کہ وہ ہمیشہ خدا سے بخشش طلب کرتے رہیں اور بخشش کی امید بھی رکھیں ، خدا سے ناامید ومایوس ہونا ایک طرح کا کفر ہے ، وہ تو ہر عاصی کو اپنی چادر رحمت میں لپیٹنا چاہتا ہے ،عفو ودر گزر کے نہر میں غوطہ دے کر گناہوں کے میل کچیل سے اسے پاک کرنا چاہتا ہے اور معاف کرکے اپنی صفت غفاری کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہے ،وہ تو ہر وقت اپنے عاصی بندوں کا منظر ہے کہ وہ آجائیں تو انہیں رحمت میں ڈھانپ لیں ،قرآن مجید میں خدا کا ارشاد ہے کہ :إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ (البقرہ:۲۲۲)’’ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں سے محبت رکھتا ہے‘‘قرآن مجید کی دوسری آیت میں مغفرت کا اعلان ان الفاظ کے ذریعہ سے کیا گیا ہے،خدا کا ارشاد ہے:قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوْا عَلٰی أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا إِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیْم(الزمر:۵۳)’’ کہہ دیجئے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے تم رحمت الٰہی سے ناامید نہ ہو جاؤ ،یقینا اللہ تعالیٰ ساسرے گناہوں کو معاف کرنے والا ہے ،واقعی وہ بڑی بخشش بڑی رحمت والا ہے‘‘،یہ آیت کافروں ومشرکوں کے لئے قبول اسلام کے بعد سابقہ سارے گناہوں کی معافی کا اعلان کرتی ہے وہیں گناہگاروں کے لئے سچی توبہ پر معافی و مغفرت کی خوشخبری بھی سناتی ہے کہ خدا کی جناب میں سچی توبہ سے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں کیونکہ تم جس کے سامنے ندامت کے آنسو بہارہے ہو،عاجزی وذلت کا اظہار کر رہے ہو ،جس سے بخشش کی بھیک مانگ رہے ہو اور جس سے توبہ ومغفرت مانگ رہے ہو وہ خدا تو اپنے بندوں پر بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے ،اس کی شان کریمی سے بعید ہے کہ بندہ توبہ کرے اور وہ معاف نہ کرے،مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے اس کے غضب کو دعوت دے اوراس کی رحمت کا سہارا لے کر گناہ پر گناہ کر تے جائیں اور پھر خدا سے معافی کی امید رکھے ،یہ تو ایک طرح کی جرأت و حماقت ہے ،ایسے لوگوں کو جان لینا چاہیے کہ وہ عزیز ذو انتقام بھی ہے ،آدمی حتی الامکان کوشش کرے کہ کوئی عمل اس سے خلاف شرع نہ ہو اور خدا ورسول خداؐ کی مرضی کے خلاف اس کا کوئی کام نہ ہو،اس کے باوجود نفس وشیطان کے دھوکہ میں آکر کوئی جرم سرزد ہوجائے تو اسے فوراً باب خدا وندی کو کھٹکھٹا کر معافی مانگنا چاہیے اور خدا سے معافی کی امید بھی رکھنی چاہیے ،گناہ ہوجانے کے بعد مایوس ہوجانا اور ناامید ہوکر توبہ نہ کرنا یہ بھی ایک طرح کا جرم اور خدا کے غضب کا موجب ہے۔
(۵) دعا:دعا بہت بڑی نعمت اور خدا کے خزانۂ لامحدود سے لینے کا اہم ترین ذریعہ ہے،جس شخص کو دعا کی توفیق مل گئی تو سمجھو کہ اسے بہت کچھ مل گیا،دعا خدا سے مانگنے کا وصیلہ ہے ،اس کے خزانوں سے پانے کا ذریعہ ہے اور اس کی رحمت کو متوجہ کرنے کا آسان طریقہ ہے،احادیث میں دعا کو مومن کا ہتھیار ،مومن کا گم شدہ خزانہ اور عبادت کا حاصل کہا گیا ہے،دعا سے بے رخی وبے اعتنائی کو بد بختی کہا گیا ہے،جو دعا کرتا ہے وہ بہت کچھ پاتا ہے اور دعا سے اعراض کرتا ہے سب کچھ کھو دیتا ہے، دعائیں مانگنا انبیاء ؑ کی سنت ہے اور ان کا خاص عمل ہے، دعا عبدیت کا مظہر اور خدا کی خوشنودی کا اہم ذریعہ ہے،بندہ کی پکار پر رب جواب دیتا ہے بلکہ مانگنے والوں کو اس سے بڑھ کر دیتا ہے ،قران مجید میں خدا کا ارشاد ہے: وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ْ(البقرہ:۸۶)’’اور اے پیغمبر ؐ تم سے میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں تو آپ بتادیجئے کہ میں( تمہارا رب) تو تمہارے پاس ہوں،جب کوئی پکار نے والا پکار تا ہے تو اس پر جواب دیتا ہوں (یعنی دعا قبول کرتا ہوں)‘‘ ،یہ وہ خدا ہے جو ہر ایک کی سنتا ہے ،ہر ایک کو دیتا ہے ، وہ تو اپنے بندوں کی زبانی اور دلی پکار تک سنتا ہے،یہ ایسا مہربان ہے جو نہ مانگنے والوں کو بھی دیتا ہے تو بھلا مانگنے والوں کسے محروم کر سکتا ہے ،وہ تو مانگنے پر خوش اور نہ مانگنے پر ناراض ہوتا ہے ،وہ بندوں سے کہتا ہے کہ اسے صبح وشام یاد کریں اور اسی سے مانگ کر اپنی ضرورتیں پوری کریں کیونکہ ہر چیز اسی کے قبضہ قدرت میں ہے اور دینا ولینا اسے کے ہاتھ میں ہے ، خدا کا ارشاد ہے :وَاذْکُر رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعاً وَخِیْفَۃً وَدُونَ الْجَہْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالآصَالِ وَلاَ تَکُن مِّنَ الْغَافِلِیْن(الاعراف: ۲۰۵)’’اور اپنے پروردگار کو دل ہی دل میں عاجزی اور خوف سے اور پست آواز سے صبح وشام یاد کرتے رہو اور (یاد رکھنا کہ اسے پکار نے سے کبھی بھی) غافل نہ ہوجانا‘‘،دعا جیسی عظیم نعمت سے بہت سے لوگ غافل ہیں،بعض وہ ہیں جو صرف مصیبت میں ہی پکار تے ہیں اور بعض وہ ہیں جو کبھی کبھی پکار تے ہیں اور بعضے تو وہ ہیں جو دربدر بھٹکتے پھرتے ہیں لیکن خدا کے
سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے ،حالانکہ دعا رحمت خداوندی کے متوجہ ہونے کا اہم ذریعہ اور سبب ہے ،اس سے غفلت تکبر کی علامت اور بندگی کے منافی عمل ہے ۔
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان عظیم نعمتوں کی ناقدری میں مبتلا ہے ،وہ دنیا داروں کو تو قرض دینے کے لئے تیار ہے مگر اپنے رب کو قرض حسنہ دینے کے لئے تیار نہیں ،حالانکہ ان کی جانب سے دیا ہوا قرض حسنہ انہیں اس وقت کام آنے والا جب اپنے پرائے اور رشتے دار سب کے سب اجنبی بن جائیں گے،رشتے دار ، دوست احباب ،اڑوس پڑوس ، اہل تعلق اور دینی و فلاحی کاموں میں لگایا گیا سرمایہ آخرت میں نیکیوں کے پہاڑ بن کر خرچ کرنے والے کے سامنے پیش کیا جائے گا جسے دیکھ کر وہ خواہش کرے گا کہ کاش میں اپنی پوری دولت قرض حسنہ میں دے دی ہوتی تو اچھا ہوتا ، صبر اور شکر یہ دونوں ہی عظیم نعمتیں ہیں ،یہ رضاء الٰہی کا بہترین ذریعہ ہیں، صبر اپنانے اور شکر ادا کرنے سے خدا کی رحمت متوجہ ہوتی ہے ، نعمتیں ملتی ہیں ، مصیبتیں ٹلتی ہیں اور ان کے ذریعہ خدا کی مدد ونصرت کا نزول ہوتا ہے ،دشمنوں پر غلبہ عطا ہوتا ہے اور ان جگہوں سے کامیابی حاصل ہوتی ہے جہاں کا گمان نہیں ہوتا ، اسی طرح توبہ اور دعا یہ وہ عظیم نعمتیں ہیں جن کے ذریعہ روٹھے ہوئے رب کو منایا جا تا ہے،قہر مہر میں بدل جاتا ہے ، خدا کا قرب حاصل ہوتا ہے، رحمتوں کی بارشیں برستی ہیں اور اسی توبہ ودعا کے طفیل ان کی ہر ضرورت پوری کی جاتی ہے اور ان جگہوں سے ان کی مدد کی جاتی ہے جہاں کا انہیںگمان بھی نہیں ہوتا ، مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ فراخی اور تنگی دونوں ہی حالتوں میں انفاق فی سبیل اللہ کا مظاہرہ کرتے رہیں اور راہ خدا میں اپنا مال خرچ کرکے خدا کی مدد ونصرت کو پانے اور اس کے غیض و غضب سے بچنے کی کوشش کرتے رہیں ،انہیں چاہئے کہ وہ ہر حال میں صبر وشکر کا مظاہرہ کرتے رہیں ،مصیبتوں پر صبر اور ہر چھوٹی بڑی نعمت پر اپنے قول وفعل سے شکر یہ ادا کرتے ر ہیں ،نعمت پر خوشی میں آپے سے باہر نہ ہواجائیں اور مصیبت پر شکوہ وشکایت زبان پر نہ لائیں اور ہر وقت اپنے گناہوں پر ندامت کا اظہار کرتے ہیں اور کثرت دعا کے ذریعہ رب کو آواز دے کر اس کی مدد ونصرت حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں ، جو بندے اس طرح کا مظاہرہ کرتے ہیں رب ان سے خوش ہوتے ہیں اور ان کی دستگیری فرماتے ہیں جس کے نتیجہ میں کامیابی ان کا مقدر بن جاتی ہے اور وہ دنیا میں کامیاب اور آخرت میں سر خرو ہوتے ہیں ۔
٭٭٭٭

Related Articles

One Comment

  1. آسلام وعلیکم و رحمت اللہ
    پرفتن زمانہ اور حالات حاضرہ ۔کے عنوان سے اک کتاب بقلم محمد ہدایت اللہ شاہ ھادی آدم اللہ فیوضہم میرے پیرو مرشد نے لکھی ہے اگر کوئی صاحب اس کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو بندہ حقیر حاظر خدمت ہے
    خدا حافظ

محمد عاقل الدین ولد محمد محمود الدین کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×