اسلامیات

یومِ عاشورہ تاریخ ،فضیلت اور پیغام

’’محرم الحرام‘‘ اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے ،محرم کے معنی حرمت وعظمت کے ہیں، اگرچہ ماہ وسال ،دن ورات ،گھنٹہ وساعت تخلیق میں سب برابر ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ان میں بعض کو بعض پر فضیلت وعظمت عطا کی ہے،جس طرح دنوں میں جمعہ ، راتوں میں شب قدر اور خطہ زمین میں کعبۃ اللہ کو فضیلت وبرکت حاصل ہے اسی طرح مہینوں میں رمضان المبارک اور محرم الحرام کو فضیلت وبزرگی حاصل ہے ،قرآن کریم میں جن چار مہینوں کو اشہر حرم کہا گیا ہے جن میں جنگ وجدال اور قتل وقتال سے منع کیا گیا ہے ، ان محترم اور مبارک مہینوں میں ایک ماہ محرم الحرام بھی ہے، اس لحاظ سے بھی یہ مہینہ نہایت معظم ومکرم اور محترم وبابرکت ہے کہ اس میں وہ بے مثال اور مہتم بالشان واقعات وقوع پزیر ہوئے ہیں کہ جسکی انسانی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ،مستندومعتبر کتب سیر اور بعض شروح حدیث میں ان تاریخی واقعات کا ذکر موجود ہے ،محدثانہ حیثیت سے ان میں کلام بھی کیا گیا ہے مگر بہت سے واقعات صحیح طور پر ثابت ہیں ،چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ (۱) عاشورہ کے دن ابوالبشر سیدنا حضرت آدم ؑ کی توبہ بارگاہ رب العالمین میں قبول ہوئی ، (۲)اسی دن کشتی نو ح ؑسیلابی عذاب سے بحفاظت جودی پہاڑ پر آکر ٹہری، (۳) سیدنا یونس ؑ کواسی روز مچھلی کے پیٹ سے خلاصی ملی اور اسی دن آپ ؑ کی امت کا قصور معاف کیا گیا،(۴)اسی دن سیدنا یوسف ؑ کنوئیں سے نکالے گئے ، (۵)سیدنا ایوب ؑ کو اسی روز مشہور مرض سے صحت عطا ہوئی،(۶)اسی دن سید نا ادریس ؑ آسمان پر اُٹھا ئے گئے،(۷)سیدنا ابراہیم ؑ کی ولادت اسی دن ہوئی ،(۸)سیدنا سلیمان ؑ کو اسی روز ملک وحکومت عطا ہوئی اور (۹) اسی دن سیدنا موسیٰ ؑ کو فرعون سے نجات ملی اور فرعون کو اسی دن غرق کیا گیا۔(خصائل نبوی شرح شمائل ترمذی ص ۴۱۷) ۔اسی طرح امام عبدالرحمن بن عبدالسلام ؒ اپنی کتاب’’ نزہت المجالس‘‘ میں عاشورہ کے دن واقع ہونے والے اہم ترین واقعات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس دن حضرت ابراہیم ؑ کو خلیل بنایا گیا (۲) اسی دن حضر ت داؤد ؑ پر تمغہ مغفرت سجایا گیا(۳) اسی دن حضر ت سلیمان ؑ کو حکمرانی عطا ہوئی ( ۴) اسی دن اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر حضرت محمد مصطفی ؐ کے ساتھ ام المؤمنین حضرت خدیجہ ؓ کا نکاح فرمایا (۵) اسی دن آسمان ،زمین ،لوح وقلم کی تخلیق کی گئی (۶) اسی دن حضرت آدم ؑ اور حضرت حواء ؑ کو پیدا کیا گیا (۷) اور اسی دن قیامت قائم ہو گی ( نزہت المجالس ج۱؍ص ۴۹۶)،اسلام کی آمد سے قبل عرب کے لوگ بھی ماہ محرم کو مکرم ومعظم جانتے تھے اور اسی وجہ سے قریش یوم عاشورہ کو کعبۃ اللہ پر نیا غلاف چڑھا تے تھے اسی دن و ہ روزہ بھی رکھا کرتے تھے ، خود رسول اللہ ؐ بھی ہجرت سے پہلے مکہ معظمہ میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے (بخاری۱۷۹۴)مذکورہ واقعات یوم عاشورہ کی فضیلت اور اس کے شان کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں اور ان واقعات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عاشورہ کے دن کو دیگر ایام پر کس قدر فضیلت اور غیر معمولی اہمیت حاصل ہے ،علاوہ ازیں رسول اللہ ؐ نے بھی مختلف احادیث میں اس دن کی فضیلت بیان فرمائی ہیں چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ؐ کو کسی فضیلت والے دن کے روزہ کا اہتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا سوائے اس دن یعنی عاشورہ کے دن اور سوائے اس ماہ یعنی ماہ رمضان المبارک کے (مسلم : ۳۴۱؍۱) ،حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا : لیس الیوم فضل علیٰ یوم فی الصیام الا شہر رمضان ویوم عاشوراء ’’ روزہ کے سلسلہ میں کسی بھی دن کو کسی دن پر فضیلت حاصل نہیں مگر ماہ رمضان المبارک کو اور عاشورہ کو (کہ ان کو دوسرے دنوں پر فضیلت حاصل ہے) (الترغیب والترہیب:۲۱۱۵) ،جیسا کہ اوپر گزرچکا ہے کہ مکہ والے عاشورہ کا دن روزہ رکھتے تھے اور خود رسول اللہ ؐ بھی ہجرت سے قبل مکہ مکرمہ میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے ، عاشورہ کے دن اہل مکہ کے روزہ رکھنے اور اس کا احترام کرنے کے متعلق معروف عالم دین وعظیم محدث حضرت مولانا منظور نعمانی ؒ لکھتے ہیں کہ :’’قیاس یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ واسماعیل ؑ کی کچھ روایات اس دن کے بارے میں اُن تک پہونچی ہوں گی اور رسول اللہ ؐ کا دستور تھا کہ قریش ملت ابراہیمی کی نسبت سے جو اچھے کام کرتے تھے اُن میں آپ ؐ ان سے اتفاق اور اشتراک فرماتے تھے اسی بنا پر حج میں بھی شرکت فرماتے تھے ،پس اپنے اس اصول کی بنا پر آپ ؐ قریش کے ساتھ عاشورہ کا روزہ بھی رکھتے تھے ،لیکن دوسروں کو اس کا حکم نہیں دیتے تھے‘‘، لیکن جب رسول اللہ ؐمدینہ منورہ تشریف لائے اور یہاں کے یہود یوںکو عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا اور ان سے آپ کو یہ معلوم ہوا کہ یہ وہ مبارک دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ اور قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم وستم سے نجات دی تھی اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرقاب کیا تھا ، چنانچہ حضرت موسیٰ ؑ نے اس انعام خداوندی پر شکر بجالاتے ہوئے روزہ رکھا تھا اس لئے ہم بھی انکی پیروی میں اس دن روزہ رکھتے ہیں ، یہ سن کر رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایاکہ:اللہ تعالیٰ کے پیغمبر حضرت موسیٰ ؑ سے ہمارا تعلق تم سے زیادہ ہے اور ہم اس کے زیادہ حقدار ہیں ،پھر رسول اللہ ؐ نے خود بھی عاشورہ کا روزہ رکھا اور اپنی امت کو بھی نہایت تاکید کے ساتھ اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا، بعض احادیث میں ہے کہ آپ ؐ نے عاشورہ کے روزہ کیلئے ایسا تاکیدی حکم دیا جیسے فرائض وواجبات کیلئے دیا جاتا ہے مگر جب رمضان کے روزے فرض کئے گئے تو اس کی تاکیدی حیثیت ختم ہوگئی لیکن فضیلت اور اجر وثواب ویسا ہی باقی رہا (ابن حبان ۳۶۲۱)۔
رسوال للہ ؐ ہجرت سے پہلے بھی مکہ مکرمہ میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور جب مدینہ منورہ تشریف لائے اور یہود کو روزہ رکھتے ہوئے دیکھا اور اس کے متعلق معلوم ہوا تو پھر آپ ؐ نے حضرات صحابہ ؓ کو اس دن روزہ رکھنے کا تاکیدی حکم فرمایا ،چنانچہ عاشورہ کے روزہ کی فضیلت وبرکت بیان کرتے ہوئے رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ:مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اس کی برکت سے پہلے ایک سال کے گناہوں کی صفائی ہو جائے گی(مسلم ۱۱۶۲)، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ؐ کو (نفلی روزوں میں) عاشورہ کے روزہ سے زیادہ کسی اور روزہ کا اہتمام کرتے نہیں دیکھا (بخاری ۱۹۰۲) چونکہ یوم عاشورہ کو یہود ونصاریٰ بڑا عظیم دن مانتے تھے اور اس میں بڑے اہتمام سے روزہ رکھتے تھے ، گویا یہ ان کیلئے قومی ومذہبی دن سے کم نہ تھا،ادھر آپ ؐ نے بھی صحابہ کو اس دن روزہ رکھنے کی ترغیب دی تھی جس سے یہود ونصاریٰ کے ساتھ ایک گونا مشا بہت ہو رہی تھی، یہ دیکھ کر صحابہؓ نے آپ سے اس صورت حال کا ذکر کیا تو آپ ؐ نے ارشاد فرمایا : ان شاء اللہ! جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو روزہ رکھیں گے ،حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اگلے سال کا ماہِ محرم آنے سے پہلے ہی رسول اللہ ؐ کی وفات واقع ہوگئی (مسلم ۱۱۳۴) ، اس ارشاد عالی کی بنیاد پر علماء کرام نے عاشورہ کے روزہ کے ساتھ ایک اور روزہ کو چاہے نویں کا ہو یا دسویں کا ملانے کو بہتر قرار دیا ہے ،تاکہ ہمارے اور یہود کے طرز عمل میں مشابہت نہ ہو۔
مسلمانان عالم ماہ محرم الحرام کی عظمت اور یوم عاشورہ کی فضیلت کے پیش نظر اس ماہ میں اور خصوصیت کے ساتھ یوم عاشورہ کو نفلی روزہ رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں اور کرنا بھی چاہئے ،کیونکہ فضیلت والے ماہ ودن اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت اور خصوصی عنایتوں میں سے ایک ہوتے ہیں ،بندوں کو چاہئے کہ وہ ان کی قدردانی کریں اور ان میں جن عبادات کا حکم دیا گیا ہے انہیں انجام دیتے ہوئے اپنے لئے نیکیوں کا ذخیرہ تیار کریں ،بہت سے لوگ فضیلت وبرکت والے ماہ ودن کی ناقدری کرتے ہوئے نیکیوں سے محروم ہوجاتے ہیں تو بہت سے لوگ ان دنوں کی عبادتوں کو نفلی جان کر اسے انجام نہیں دیتے حالانکہ کوئی بھی عبادت چاہئے وہ فرض ہو یاواجب یا پھر نفل ، اس کا تعلق حکم سے ہوتا ہے مگر ثواب اور نیکی تو جذبہ عمل کی بنیاد پر دیا جاتا ہے ،بسااواقات نفلی عبادت رضاء الٰہی اور تقرب الٰہی کا ذریعہ بن جاتی ہیں اور بندہ کو محض اس نفلی عبادت کی بنیاد پر نجات کا پروانہ دے دیا جاتا ہے اس لئے نفلی عبادتوں کو معمولی سمجھ کر بلا کسی وجہ کے ترک کر دینا مناسب نہیں ہے ، مسلمان مرد و ں اور عورتوں کو چاہئے کہ وہ عاشورہ کے روزوں کا اہتمام کریں ،دو دن روزہ نہ رکھ سکیں تو کم از کم ایک دن یعنی عاشورہ ہی کا روزہ رکھ لیں ۔
کم علمی یا پھر دیگر مذاہب ومعاشرہ کے لوگوں سے میل جول کی بنیاد پر مسلمان گھرانوں میں بہت سے کام دین سمجھ کر انجام دئے جانے لگے ہیں جن کا دین وشریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے،خصوصاً شادی بیاہ ،وفات ،پیدائش اور محرم وصفر کے متعلق بہت سے مسلمان گھرانے اور ان کی خواتین توہمات ،بد شگونی اور خرافات میں مبتلا ہیں ، ان میں سے بعض کا تعلق تو ہندو مذہب اور بعض کا شیعہ فرقہ سے ہے ، مسلمانوں میں بہت سے لوگ وہ ہیں جو ماہ محرم الحرام کو ماہ محترم ماننے کے بجائے ماہ غم تصور کرتے ہیں ، اس میں شادہ بیاہ اور دیگر خوشی کی تقریبات منانے سے اجتناب کرتے ہیں ، کیونکہ اس مہینہ میں اور اس کی دسویں تاریخ کو نواسہ رسول سیدنا حسین ؓ کی شہادت کا قعہ پیش آیا تھا اس لئے اہل تشیع اس ماہ کو غم کا مہینہ قرار دیتے ہیں اور اس میںماتمی مجلسیں قائم کرتے ہیں ،سیاہ لباس پہنتے ہیں ،نوحہ خوانی کرتے ہیں اور دسویں تاریخ کو جلوس کی شکل میں سڑکوں پر ماتم کرتے ہوئے نکلتے ہیں ، حالانکہ یہ اسلامی تصور نہیں ہے بلکہ خود ساختہ ہے جسے شیعوں نے گھڑ لیا ہے ، جو لوگ نواسہ ٔ رسول سیدنا حسین ؓ کی شہادت کے پیش نظر اس ماہ کو اور خاص کر یوم عاشورہ کو یوم غم سمجھتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ شہادت ایک غیر معمولی اعزاز اور فضیلت والا عمل ہے ،بلاشبہ سیدنا حسین ؓ نے حق کے لئے اور اسلام کی سر بلندی کی خاطر اپنی اور اپنے اہل خانہ کی جان قربان کرد ی مگر باطل کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے ، شہادت تو ایسا افضل ترین عمل ہے جس کی خواہش خود رسول اللہ ؐ نے کی تھی اور شہادت کی آرزو کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں راہ خدا میں شہید ہو جاؤں ،پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید ہوجاؤں اور پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر شہید ہو جاؤں ، حقیقت یہ ہے کہ شہادت تو مؤمن کا مطلوب ومقصود ہے ،علامہ اقبال ؒ نے شہادت کو مومن کا مقصود ومطلوب بتاتے ہوئے کہا ہے ؎
شہادت ہے مطلوب ومقصودِ مومن

نہ مالِ غنیمت نہ کِشور کشائی
جب شہادت مومن کا مقصود اور اس کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہے توپھر اس کے حصول پر ماتم کیسا؟ ، حقیقت یہ ہے کہ مسلمان شہادت پر ماتم نہیں بلکہ رشک کرتے ہیں اور ہر دم اپنے دل میں اس کی تمنا اور آرزو رکھتے ہیں ،اسلام کی نظر میں شہادت عظیم عمل ہے اور شہید قابل قدر بلکہ قابل رشک ہوتا ہے،اسلام میں نوحہ و ماتم کی اجازت نہیں ہے ،رسول اللہ ؐ نے اسے جاہلیت کا عمل قرار دے کر اس سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے ، مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ماتم اور ان کی مجالس سے دور رہیں اور ہر قسم کی بدعات وخرفات سے اپنے کو دور رکھیں ، محرم الحرام کے سلسلہ میں مسلمان مجموعی طور پر چھ باتوں کو یاد رکھیں (۱) محرم الحرام ماہ محترم ہے ماہ ماتم نہیں ، یہ اشہر حرم میں سے ایک ہے لہذا اس میں کثرت عبادات کا اہتمام کریں (۲) شہادت سیدنا حسینؓ ناحق اورظلم کے خلاف حق کا اعلان جنگ ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ ؓ کو شہادت کے ذریعہ بلند ترین مقام عطا کیا ہے جو قابل عمل اور قابل رشک ہے نہ کہ قابل غم وماتم(۳) ماتمی محفلیں سجانا اور اس میں شہداء کربلا کو یاد کرکے توحہ کرنا غیر شرعی عمل ہے اس سے بچنا لازمی ہے(۴)پنجتن کے نام سے علم بٹھانا اور اس کے ذریعہ منت مانگنا شرکیہ عمل ہے اس سے اجتناب ضروری ہے(۵) ماتمی جلوسوں میں شریک ہو کر ان کی حوصلہ افزائی کرنا شرعی جرم ہے ،یہ درحقیقت گناہ کی حوصلہ افزائی ہے جس میں کرنے والا اور دیکھنے ولا دونوں برابر کے مجرم اور گناہ گار ہوتے ہیں(۶) اس ماہ میں اور خصوصیت کے ساتھ اس کے پہلے عشرہ میں شادہ بیاہ اور دیگر خوشی کی تقریبات سے محض اس تصور سے اجتناب کرنا کہ یہ نواسہ رسول ؐ کی شہادت کا مہینہ ہے جس میں غم کرنا چاہئے بے بنیاد اور بے اصل ہے ،دین کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ،ماہ محرم اور یوم عاشورہ کا پیغام یہ ہے کہ یہ مہینہ خدا سے بے حد محبت کرنے اور اس کے حکم پر ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے تیار رہنے کا جذبہ پروان چڑھاتا ہے اور سیدنا حسین ؓ نے اپنے جانثاروں کے ساتھ میدان کربلا میں جان عزیز کا نذرانہ پیش کرکے امت کو بتادیا کہ ظلم کے غلاف صدائے احتجاج بلند کرنا ،حق کی خاطر سر کٹانا اور دین متین کی سر بلندی کے لئے جان دینا افضل ترین عمل ہے ، جو خدا کی مرضی پر اپنی مرضی قربان کرتا ہے اس کے لئے دنیا میں سربندی اور موت کے بعد ابدی کامیابی کی خوشخبری سنائی جاتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×