اسلامیات

قربانی عبادت اور صفائی نصف ایمان

اسلام نے اپنے ماننے والوں کو صفائی ستھرائی اور نظافت وپاکیزگی کا بڑا تاکیدی حکم دیا ہے اور باربار اس کی جانب توجہ دلائی ہے بلکہ اس کے نزدیک صفائی ستھرائی کو نصف ایمان کا درجہ حاصل ہے، اس کے برعکس اسلام نے نجاست وگندگی اور ناپاکی وغلاظت سے بچنے کی سخت کید کی ہے کیونکہ طہارت و نظافت کا اثر انسان کے ظاہر کے ساتھ باطن پر بھی پڑتا ہے اور غلاظت وگندگی باہر کے ساتھ انسان کے اندر کو بھی پراگندہ کر دیتی ہے، نظافت ونفاست ،صفائی وستھرائی اور طہارت وپاکیزگی سلیم الطبع انسان کی پہچان اور شخصیت کا آئینہ ہوتی ہے ، پاکیزگی ونظافت سے انسان کے مزاج ومذاق اور ذوق سلیم کا اندازہ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے پاکی وصفائی میں انسان کی صحت مند ی وتندرستی رکھی ہے ، نظافت وطہارت کی وجہ سے اس شخص کو ایک گونا فرشتوں سے مشابہت ہوجاتی ہے ،کیونکہ فرشتے پاک وصاف مخلوق ہیں، پاکی صفائی اللہ کو بہت پسند ہے ،ذات الٰہی خود پاک وصاف اور ہر طرح کے عیوب سے پاک ہے اور وہ پاک صاف رہنے والے کو پسند بھی کرتے ہیں ۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ؐ کی نسبت امت مسلمہ کو صاف ستھرا رہنے اور اپنے لباس وپوشاک کو پاک و صاف رکھنے کا واضح حکم دیا گیا ہے ،ارشاد ربانی ہے :وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ oوَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ( سورۂ مدثر:۴،۵)’’اے میرے حبیب ؐآپ اپنے کپڑوں کو صاف رکھئے ،گندگی سے دور رہئے‘‘قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے پاک صاف رہنے والوں سے اپنی پسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے ،ارشاد ربانی ہے: إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ (البقرہ:۲۲۲) ’’بے شک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے اور پاک صاف رہنے والوں کو پسند فرماتے ہیں‘‘قرآن مجید میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے صاف ستھرا رہنے والوں کو اپنا دوست قرار دیا ہے ،ارشاد ربانی ہے:ْ وَاللّہُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِیْن(التوبہ:۱۰۸)’’اللہ تعالیٰ پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘ نیز احادیث شریف میں رسول اللہ ؐ نے صفائی ،ستھرائی اور نظافت وپاکیزگی کو نصف ایمان کہا ہے ، ارشاد فرمایا :الطہور شطر الایمان(مسلم :۲۸۲۲) ’’پاکی صفائی آدھا ایمان ہے‘‘ چنانچہ محدثین ؒ فرماتے ہیں کہ اس جگہ آپ ؐ نے ایمان وعمل کے ذریعہ باطن کی پاکیزگی کو نصف ایمان اور طہارت ونظافت کے ذریعہ جسم کی ظاہری گندگی کی پاکیزگی کو ایمان کا بقیہ نصف قرار دیا ہے ،گویا ایمان کی تکمیل کے لئے ظاہری وباطنی دونوںطرح کی پاکیزگی ضروری ہے ،ایک حدیث میں آپ ؐ نے اسلام کو نہایت پاکیزہ مذہب بتاتے ہوئے اس کے ماننے والوں کو پاک صاف رہنے کی تلقین فرما ئی اور آگے ارشاد فرمایا کہ جنت میں داخلہ کا حقدار تو وہی شخص ہو سکتا ہے جس میں پاکی صفائی کی صفت پائی جاتی ہے ،ارشاد فرمایا : الاسلام نظیف ،فتنظفوا فانہ لا یدخل الجنۃ الا نظیف( کنز العمال :۲۶۰۰۱)۔
اسلام میں صفائی کا حکم صرف انسان کی ذات تک محدود نہیں ہے بلکہ انسان کا جس چیز سے بھی تعلق یا سابقہ پڑتا رہتا ہے ان تمام چیزوں کو صاف ستھرا رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ،جیسے مکان ودکان، مسجد ومکتب ،گلی ومحلہ اور بازار وسڑک وغیرہ ، نیز میلا کچیلا رہنے اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو گندہ کرنے والوں کو سخت انداز میں تنبیہ کی گئی ہے ،چنانچہ صحابی ٔ رسول حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ ہمارے یہاں کسی سے ملاقات کے لئے تشریف لائے تو دیکھا کہ ایک صاحب گرد وغبار میں اٹے ہوئے ہیں ،بال بکھرے ہوئے ہیں ،توآپ ؐ نے ارشاد فرمایا ان کے پاس کنگھا نہیں جس سے بال درست کر لیتے ،نیز آپ ؐ نے ایک شخص کو میلے کپڑوں میں ملبوس دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ : ان کے پاس کوئی ایسی چیز (صابن وغیرہ) نہیں ہے جس سے یہ اپنے کپڑے دھولیتے؟(ابودؤد :۴۰۶۲)، آپ ؐ نے نہ صرف خود کے صاف ستھرا رہنے کی طرف توجہ مبذول کروائی بلکہ اپنے ارد گرد کے ماحول کو بھی صاف و شفاف بنائے رکھنے کی تعلیم وترغیب دی اور ایسے ہر عمل سے دور رہنے کی تقلین کی کہ جس سے دوسروں کو تکلیف ہوتی ہو، خاص کر اپنے پڑوسیوں کو تکلیف دینے اور انہیں ایذا پہنچانے والوں کے لئے نہایت سخت لبو لہجہ استعمال کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :بخدا وہ ایمان نہیں رکھتا ،بخدا وہ ایمان نہیں رکھتا ،بخدا وہ ایمان نہیں رکھتا،صحابہ ؓ نے گھبراکر پوچھا اے اللہ کے رسول ؐکون ؟تو فرمایا:الذی لا یأمن جار ہ بوائقہ( بخاری :۵۶۷۰)’’وہ شخص جس کا پڑوسی اس کی ایذا کوشی اور تکلیف رسانی سے محفوظ نہ ہو‘‘ اسی طرح آپؐ نے راستے ، بازار ،سایہ دار درخت اور لوگوں کے بیٹھنے کے مقامات پر گند گی پھیلانے اور تکلیف دینے والی چیزوں کے ڈالنے کی سخت الفاظ میں ممانعت فرمائی ہے ،چناچہ آپ ؐ نے راستوں پر قضائے حاجت کرکے گندگی پھیلانے والوں پر لعنت فرمائی ہے ،ارشاد فرمایا: لعنت کی دوچیزوں سے بچو! ان میں سے ایک وہ ہے جو لوگوں کے راستے میں یا ان کے سایہ میں قضائے حاجت کرے (مسلم: ۲۶۹)، بر خلاف انسانیت کی مدد ونصرت اور ان سے درد و تکلیف دور کرنے کی کوشش کرنا نہایت عمدہ خصلت اور قابل قدر عمل ہے ،اسلام میں انسانیت کی خدمت ،مدد ونصرت اور تکلیف دہ چیزوں سے بچانے کی سعی کرنے والوں کی مدح سرائی کی گئی ہے ،ایک موقع پرآپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ ایمان کے ستر سے زیادہ شعبے ہیں ان میں سے اعلیٰ ترین شعبہ لا الٰہ الا اللہ کہنا اور ادنیٰ ترین شعبہ راستے سے تکلیف دینے والی چیزوں کو دور کرنا ہے( مسلم :۵۸)، اسلام اور پیغمبر اسلام ؐ کی یہی وہ اعلیٰ ترین اور حسین ترین تعلیمات ہیں جس نے انسانوں کے دلوں کو موہ لیا ہے ، خود دشمنان اسلام بھی اسلام کی خوبیوں اور اس کی بے مثال تعلیمات کے معترف ہیں ، وہ جب یہ منظر دیکھتے ہیں کہ مسلمان جب بھی نماز کے ذریعہ اپنے رب کے حضور حاضر ہوتا ہے تو ہاتھ ،منہ دھو کر اور باوضو ہوکر ہی حاضر ہوتا ہے اور جب اس کی وفات ہوجاتی ہے تو بھی پہلے اس سے گندگی دور کی جاتی ہے ،پھر نہلایا جاتا ہے اور پھر نہایت صاف ستھرا لباس پہناکر تب اسے قبر میں سلایا جاتا ہے،بہت سے لوگوں نے تو صرف مسلمان مردے کو نہلانے ،کفنانے اور دفنانے کے انداز کو دیکھ کر بے ساختہ بول پڑے کہ جو مذہب مرنے والوں کی اس قدر تکریم کرتا ہے تو وہ زندوں کی کس قدر تعظیم کرتا ہوگا اور دسرے ہی لمحے کلمہ پڑھ کر کفر وشرک کی گندگیوں سے نکل کر صاف ستھرے اور معطر ومحفوظ قصر اسلام میں داخل ہوگئے۔
عید الاضحی کے موقع پر پوری دنیا میں مسلمان حکم خداوندی کی تعمیل میں کثیر تعداد میں جانوروں کی قربانی دیتے ہیں اور قربانی کا سلسلہ تین دنوں تک جاری رہتا ہے ، لوگ بڑے شوق وذوق سے قربانی کے چھوٹے بڑے جانور خریدتے ہیں اور نہایت اہتمام اور خوش دلی سے اس کی قربانی کرتے ہیں ،یقینا قربانی ایک مہتم بالشان عمل ہے اور بلاشبہ بڑے شوق وذوق سے مسلمانوں کو قربانی کرنی بھی چاہئے ،مگر خصوصاً قربانی کے دنوں میں اکثر مسلم محلوں میں یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ قربانی تو کرتے ہیں لیکن صفائی ستھرائی کا بالکل بھی اہتمام نہیں کرتے جس کی وجہ سے گھروں کے باہر ،کوڑے دان کے اطراف ، گلی کوچوں کے کناروں پر اور سڑکوں پر قربانی کئے ہوئے جانوروں کا خون ،ہڈیاں اور ان کے اندر کی گندگی کا ڈھیر نظر آتا ہے ،جسے دیکھ کر سخت کراہیت اور ناگواری محسوس ہوتی ہے ،ان مقامات سے گزرنے والوں کا بُرا حال ہوتا ہے ،وہ اپنی ناک پر کپڑا رکھ کر تیزی سے گزرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ، راہگیروں کو بڑی اذیت ہوتی ہے مگر ان کی تکلیف کا کسی کو خیال تک نہیں ہوتا ،اگر کوئی ہمت کرکے دبے الفاظ شکایت کرتا ہے تو اُلٹا اس پر برہمی ظاہر کی جاتی ہے ،اسے مجرم سمجھاجاتا ہے ،قربانی کا مخالف ماناجاتا ہے اور اس پر سخت قسم کے فقرے کسے جاتے ہیں ،وہ بے چارہ ان نادانوں کی حرکتوں پر حیرت میں پڑ جاتا ہے اور وہاں سے سر جھکائے خاموشی سے نکل جاتا ہے ،اُسے سمجھ میں نہیں آتا کہ ان عقل کے اندھوں اور صفائی کے دشمنوں کو کس طرح سمجھائیں کہ جس طرح قربانی کرنا عبادت ہے اسی طرح صفائی ستھرائی بھی ایک عبادت ہے اور جس طرح قربانی کا عمل واجب ہے اسی طرح اس کے لئے لازم ہے کہ وہ لوگوں کو ایذا پہنچانے سے بچتا رہے ،یقینا یہ بات قابل توجہ ہے کہ ایک جانب تو صاحب قربانی کا عمل شریعت وسنت کے عین مطابق ہوتا ہے ،وہ قیمتی جانور خریدتا ہے اور نہایت اہتمام سے قربانی کرکے ڈھیر ساری نیکیاں حاصل کرتا ہے مگر دوسری طرف گندگی و تعفن پھیلا کر لوگوں کو تکلیف میں مبتلا کرکے خود کو گناہگار بنالیتا ہے ،اسے یہ بات سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ جہاں وہ قربانی کے ذریعہ نیکیاں کمارہا ہے وہیں گندگی پھیلا کر اپنے نیکیوں کو ضائع کر رہا ہے ۔
بعض مقامات پر مسلم اور غیر مسلم دونوں مذہب کے لوگ ہوتے ہیں خاص کر ایسے مقامات پر تو بہت ہی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے ،ان کی رعایت کرنا ضروری ہے ،مگر دیکھنے اور سننے میں آتا ہے کہ مسلمان اپنے قول وفعل کے ذریعہ انہیں متاثر کرنے کے بجائے متنفر کر تے ہیں ، حالانکہ ایسے مواقع سے فائدہ اٹھا کر مذہب اسلام کی مبارک تعلیمات ان تک پہنچانے کی کوشش کرنا چاہئے اور اپنے اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں متاثر کرنا چاہئے تاکہ انہیں قریب سے اسلام کی مبارک تعلیمات اور مسلمانوں کے اخلاق دیکھنے کا موقع مل سکے ، عموماً خوشی اور غم دونوں موقع پر آپس میں ایک دوسرے سے قریب ہونے کا موقع ملتا ہے ،اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان تک اسلام کی حسین تعلیمات پہنچائی جاسکتی ہے ، چونکہ قربانی کا گوشت غیر مسلم کو دینا جائز ہے ،اگر وہ گوشت خور ہیں تو انہیں بطور ہدیہ گوشت دیا جاسکتا ہے جس سے دوریاں ختم ہوسکتی ہیں ،نفرتیں مٹائی جا سکتی ہیں اور نزدیکیاں بڑھائی جا سکتی ہیں ،وہ آگے چل کر مسلمان نہ بنیں تو کم از کم اسلام اور مسلمان مخالف تو نہیں بنیں گے ،افسوس کہ ہم اپنے طرز عمل اور خاص کر عید الاضحی کے موقع پر سڑک پر خون بہا کر ، ذبح شدہ جانور کی ہڈیاں ادھر اُدھر بکھیر کر ، جگہ جگہ جانور وں کے فضلات کا ڈھیر ڈال کر، پورے محلہ کو گند ہ کرکے ، اطراف واکناف کی فضا بدبودار کرکے اڑوس پڑوس کو یہ کہنے پر مجبور کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم وہ قوم ہیں جس کے پاس صفائی ستھرائی کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔
اس وقت پورا ملک کورونا وائرس کی لپیٹ میں ہے ،اس بدترین وباء نے لوگوں کی نیندیں اڑادی ہیں ،اس وباء نے جہاں ایک طرف ہزاروں لوگوں کی جانیں لے لی ہے ،لاکھوں لوگوں کو بستر مرض پر پہنچادیا ہے وہیں معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ،لاکھوں لوگوں کو بے روزگار کر دیا ہے ،متوسط گھرانوں کی جان نکال دی ہے تو غریبوں کے چولہے ٹھنڈے کر دئے ہیں ،اسی وباء کی وجہ سے دینی مدارس اور عصری ادارہ بند ہیں ،تجارتی سرگرمیاں ٹھپ ہیں،ملکی وغیرملکی سفر پر پابندی عائد ہے ،بہت سے علاقوں میں مکمل یا جزوی لاک ڈاؤن نافذ ہے ،اسی کی وجہ سے مسلمان رمضان میں مسجدوں میں عبادت سے محروم رہے اور عید الفطر کی نماز عید گاہوں میں نہ ادا کر سکے ، اسی وائرس کا اب براہ راست عیدالاضحی پر بھی اس کا اثر پڑرہا ہے ،بعض صوبوں میں قربانی پر پابندی عائد ہے تو بعض علاقوں میں جانوروں کی فروخت پر امتناع عائد ہے ،اسلام دشمن عناصر اس وباء کے دور میں بھی برابر اسلام دشمنی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور کچھ زہریلے قسم کے سیاسی قائدین اپنی زبان سے زہر اگل رہے ہیں ،قربانی کو لے کر طرح طرح کی باتیں کی جارہی ہیں ،بعض دشمن عناصر قربانی سے وباء کے مزید پھیلنے کی بات کرکے اس پر روک لگانے کی بات کر رہے ہیں ، مسلمانوں کے لئے یہ حالات ایک بڑی آزمائش اور امتحان سے کم نہیں ہیں ،اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہوش مندی کا مظاہرہ کریں ،سابق کی طرح نہایت اہتمام سے قربانی کا فریضہ اداکریں مگر پہلے کے مقابلہ اس بار صفائی پر زیادہ توجہ دیں ،کیونکہ اس بیماری سے بچنے کے لئے صفائی ضروری ہے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بد احتیاطی سے کام لیں اور دشمنوں کو ہم پر الزام رکھنے کا موقع ہاتھ آجائے اس لئے محلے کے بااثر لوگ مل کر صفائی کمیٹی تشکیل دیں اور نوجوانوں سے خدمات لیتے ہوئے اپنے اپنے محلوں میں صفائی کا اہتمام کریں ، جانور کے خون کو سڑکوں پر نہ آنے دیں،جانور کے زائد چیزوں کو ایک بڑی پالتھن میں ڈال کر بلدیہ کی جانب سے مختص کردہ کوڑے دن میں ڈالیں ، بلدیہ کے عملہ کی مدد کریں اور گندگی کے مقامات پر ادویہ کا چھڑکاؤ کرتے رہیں ،ان شاء اللہ ہمارا یہ عمل جہاں بیماری کے پھیلاؤ سے بچنے کا ذریعہ بنے گا وہیں دوسروں کے لئے قابل تقلید بھی ہوگا ۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اسلامی تعلیمات پر عمل کریں ، صفائی ستھرائی کا خوب خیال رکھیں، عید الاضحی کے دنوں میں اور خاص کر وباء کے دنوں میں صفائی کا خوب اہتمام کریں ،کم از کم اپنے اپنے محلوں میں اپنے اپنے طور پر صفائی ستھرائی کا اہتمام کرتے ہوئے ایک اچھی مثال قائم کریں ، ایک ایسی مثال جو دوسروں کے لئے ترغیب کا باعث بنے ،گرچہ اس موقع پر ریاستی حکومت نے بھی شہر میں صفائی ستھرائی کے وسیع پیمانہ پر انتظامات کا اعلان کیا ہے لیکن ہم اہلیان شہر کی بھی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی صفائی کا خاص خیال رکھیں اور صفائی کے ذریعہ خود کے ساتھ دوسروں کو بھی زحمت سے بچائیں ،یاد رکھیں کہ مسلمان اپنی عبادت سے غیروں کو متاثر تو کرتا ہے لیکن متنفر نہیں کرتا ،ہمیں انفرادی واجتماعی طور پر ،گھروں میں اور گھر وں کے باہر صفائی ستھرائی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اس سلسلہ میں جو کچھ ہم سے کوتاہیاں ہو رہی ہیں اس پر سنجیدگی سے غوروفکر کی ضرورت ہے ،بات یہ ہے کہ ہم اس جانب توجہ نہیں دیتے اگر کوئی توجہ دلاتا ہے تو اسے شکایت مان کر ناراض ہو جاتے ہیں ،شاعر کہتا ہے ؎
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں

ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
٭٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×