اسلامیات

قربانی :احکام ومسائل

قربانی اسلام کی ایک اہم عبادات ہے، خدا سے محبت کی علامت ہے،ربانی خواہش پر سر تسلیم خم کرنے کا نام ہے ،تقرب الٰہی کا وسیلہ ، خدا سے چاہت کا نرالہ انداز ، مضبوط ارادہ کا عملی اظہار ، تسلیم ورضا کا پیکر ،باپ کی تربیت اور بیٹے کی سعادت مندی کا مظہر اور خلیل اللہ ؑ اور ذبیح اللہ ؑ کی عظیم یاد گار اور خدا تعالیٰ سے انکی محبت و اطاعت اور فرماں برداری کی نقل ہے جس کا اظہار انہوںنے بارگاہ خداوندی میں اپنے اکلوتے فرزند ارجمند کے گلے پر چھری چلاتے ہوئے کیا تھا ۔
’’قربانی عظیم جذبہ ٔ محبت کی عملی نقل ہے‘‘قربانی سیدنا ابراہیم ؑ ؑ کے اس عمل کی نقل اور یادگار ہے جو انہوں نے ذبح اسماعیل ؑ کی شکل میں خدا کے دربار میں پیش کرکے اپنی محبت وچاہت کا اظہار کیا تھا اور اس کے ذریعہ بتایا تھا کہ وہ خدا کی محبت واطاعت میں سب کچھ قربان کرنے تیار ہیں ،ان کے نزدیک خدا کی محبت تمام محبتوں پر مقدم اور اعلیٰ وارفع ہے ۔’’قربانی سنت ابراہیمی ہے‘‘ قربانی سیدنا ابراہیم ؑ کی سنت ہے ،یہ خدا تعالیٰ سے بے انتہا تعلق و محبت کا عظیم نمونہ اور اس سے قربت کا خاص زینہ ہے ، رسول اللہ ؐ خود بھی قربانی فرمایا کرتے تھے اور اپنی امت کو بھی اس کی تاکید فرمائی ہے جس کا ذکر احادیث میں موجود ہے ، ایک موقع پر حضرات صحابہ ؓ نے قربانی کے متعلق آپ ؐ سے سوال کیا کہ : اے اللہ کی رسول ؐ! یہ قربانی کیا ہے؟ تو جواب میں آپ ؐ نے ارشاد فرمایا:سنۃ ابیکم ابراہیمؑ ( یہ تمہارے جد اعلیٰ سیدنا ابراہیم ؑ کی سنت ہے) (مسند احمد:۱۹۲۸۳)،’’قربانی شعائر اسلام میں سے ہے‘‘ قربانی کو اسلامی شعار اور اس کی اہم ترین نشانی وعلامت کا درجہ حاصل ہے ، جس کی حفاظت کرنا ہر صاحب ایمان پر اس کی طاقت کے مطابق لازم ہے ، یہی وجہ ہے کہ چودہ سوسال سے مسلمان ہر سال قربانی کرتے ہیں اور اپنے اس عمل کے ذریعہ خدا کی بندگی اور شعار اسلام کی حفاظت کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور بزبان حال وقال اور عملی اقدام کے ذریعہ اس کی اہمیت کو دنیاکے سامنے واضح کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ مسلمان خدائی احکام وشرائع کے کس قدر پابند ہیں اور ان کے نزدیک شعائر اسلام کی کس قدر قدر وقیمت ہے ،’’قربانی وجوب کا درجہ رکھتی ہے‘‘ اسلام میں قربانی ایک مہتم بالشان عبادت کہلاتی ہے ، بندوں کی طرف سے قربانی کا عمل اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے ،چنانچہ ایام قربانی میں قربانی سے بڑھ کر کوئی عمل افضل نہیں ہے ،رسول اللہ ؐ نے پوری زندگی مواظبت کے ساتھ اس پر عمل کیا ہے ،چنانچہ جمہور علماء کے نزدیک قربانی واجب ہے اور ہر صاحب استطاعت پر اسے انجام دینا لازم ہے ،استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والا شخص گناہگار ہوگا (رد المحتار:۵؍۲۰۰)، ’’ قربانی تقرب الٰہی کا ذریعہ ہے‘‘ قربانی خدا کی خوشنودی اور اس کے تقرب کا اہم ترین ذریعہ ہے ، قربانی حکم الٰہی ہے ، جب بندہ اسے بجالاتا ہے تو وہ قربانی کرتے وقت صرف جانور قربان نہیں کرتا بلکہ رب کے حکم پر اپنی تمام خواہشات قربان کرنے کا عہد وپیمان کرتا ہے اور زندگی کے ہر موڑ پر خواہشات کو قربان کرتے ہوئے حکم ربی بجالاتا ہے اور اس کے ذریعہ تقرب الٰہی کی منزلیں طے کرتا جاتا ہے ،یقینا جو رب کا تابع ہوگیا وہ رب کا مقرب ہوگیا ،بلا شبہ قربانی عبد کو معبود کا قرب دلاتی ہے اور اس کی محبت میں سب کچھ قربان کرنے کا سلیقہ عطا کرتی ہے ،’’قربانی کی مقبولیت بارگاہ الٰہی میں‘‘ قربانی کس قدر پسندیدہ عمل ہے اس کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے جس میں آپ ؐ نے فرمایا کہ: قربانی کے دنوں میںاللہ تعالیٰ کو قربانی سے زیادہ کوئی عمل پسند نہیں ہے اور یہ کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے خدا کی بارگاہ میں مقبول ہوجا تا ہے ،مزید یہ کہ قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی لکھی جاتی ہے(ترمذی:۱۴۹۳)، ’’قربانی نہ کرنے پر سخت وعید‘‘ جیسا کہ قربانی اہم ترین عبادت ہے جو ہر صاحب استطاعت پر واجب ہے ،جس طرح قربانی کرنے پر غیر معمولی اجر وثواب کی خوشخبری سنائی گئی ہے وویسے ہی استطاعت کے باوجودقربانی نہ کرنے پر سخت وعید بھی بتائی گئی ہے،ایسے شخص پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے آپؐ نے ارشاد فرمایاکہ : استطاعت کے باوجود جولوگ قربانی نہیں کرتے انہیں چاہئے کہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے،( مسند احمد: ۸۲۷۳) ’’قربانی رسم نہیں عبادت ہے‘‘ قربانی صرف ذبحِ جانور کا نام نہیںاور نہ ہی کوئی سالانہ رسم ہے کہ جیسے تیسے ادا کرکے بری ہو جائیں جیسے آج کل اکثر وبیشتر کا معمول بن گیا ہے بلکہ قربانی کی حقیقت اور اس کا حاصل یہ ہے کہ جب کبھی خدا تعالیٰ کی مرضیات کے مقابلہ نفسانی خواہشات سر اُٹھانے لگے تووہ اپنی تمام تر خواہشات کو خدا کی مرضیات پر قربان کر دے اور اسی میں اپنی سعادت ،دنیوی کامیابی اور اُخروی نجات سمجھے ،یہی اصل میں قربانی کا نچوڑ اور اس کی روح ہے ، سیدنا ابراہیم ؑ کو دیکھئے کہ کس طرح انہوں نے تعمیل حکم پر سرخم تسلیم کرتے ہوئے اپنے نور نظر کے گلے پر چھری چلائی تھی اور بزبان حال وقال کہا تھا اے پروردگار عالم تیرے حکم پر ایک اسماعیل کیا سیکڑوں اسماعیل ہوتے تو وہ بھی قربان کر دیتا ، قربانی کرنے والا اسی جذبہ اور اسی تصور کے ساتھ قربانی کرے کہ اے پروردگار عالم آپ نے ہم کو صرف جانور کی قربانی کا حکم دیا ،اگر آپ کی اطاعت اور فرماں برداری اور دین کی سربلندی کی خاطر اپنی جان کی قربانی دینی پڑے تو ان شاء اللہ اس کیلئے بھی ہم تیار ہیں ۔ کتب فقہ میں قربانی سے متعلق مسائل نہایت تفصیل کے ساتھ مسائل بیان کئے گئے ہیں ،قربانی کرنے والے کیلئے جن کا جاننا بے حد ضروری ہے ، ان میں سے چند کو ہم یہاں نقل کر رہے ہیں ۔
’’قربانی کن پر واجب ہے‘‘:قربانی ہر اس مسلمان عاقل بالغ مقیم پر واجب ہے جس کی ملکیت میں ساڑھے سات تولے سونا،یا ساڑے باون تولے چاندی یا ان میں سے کسی ایک کی قیمت کا سامان اس کی ضروری حاجت سے زائد ہو ،یا پھر مال ہو ،یاد رہے کہ قربانی کے معاملہ میں اس مال پر سال گزرنا شرط نہیں ہے( شامی ۹؍۴۵۸)’’ قربانی کے جانوراور انکی عمر یں‘‘ : بکرا ،بھیڑ،دُنبہ،گائے،بھینس،اونٹ ،،مادہ ہویانر سب درست ہے ،بکرا اور بھیڑ ایک سال سے کم نہ ہو،دُنبہ چھ ماہ کا بھی درست ہے جب کہ خوب فربہ ہو اور دیکھنے میں پورے ایک سال کا معلوم ہوتا ہو،گائے اور بھینس پورے دوسال کے ہوں،اور اونٹ پورے پانچ سال کے ہوں ،ان کے علاوہ کسی اور جانور کی قربانی درست نہیں ہے(عالمگیری ۵؍۲۹۷،درمختار مع الشامی ۹؍۴۶۶)’’عیب دار جانور وں کا حکم‘‘ : جو جانور اندھا،کانا،لنگڑا ،پوپلا،مکمل دم کٹا ہوا،تھن سوکھے ہو یا تہائی یا پھر اس سے زائد روشنی سے محروم ہو،یا تہائی کان کٹا ہو،یا اتنا لنگڑا ہو جو چل کر مذبح تک بھی نہ جاسکے ،یا دم کاا کثر حصہ کٹا ہو، بکری کے دونوں تھن میں سے ایک خشک ہوجائے یا کٹ جائے،گائے اور اونٹ کے چار تھن میں سے دومکمل خشک ہو جائے یا پھر کٹ جائے ،زبان اتنی کٹ جائے جس سے وہ چرنے پر قادر نہ ہو،سینگ ٹوٹ جائے اور اس کا اثر دماغ تک پہنچ جائے ،کان کا اکثر حصہ کٹ جائے یا پھر اتنا لاغر ہو کہ جس کی ہڈیوں میں گودا تک نہ رہے تو ان میں سے کسی کی بھی قربانی درست نہ ہوگی(عالمگیری ۵؍۲۹۸،۲۹۷،۲۹۸،۲۹۹، مسائل قربانی) ’’خصی اور گابھن جانور کا حکم‘‘ : خصی کیا ہوا جانور عیب دار نہیں بلکہ صحت مند کہلاتا ہے اس لئے اس کی قربانی نہ صرف جائز بلکہ افضل ہے،گابھن جانور کی قربانی اس وقت مکروہ ہے جبکہ ولادت کا وقت قریب ہو ورنا مکروہ بھی نہیں(۵؍۲۸۷،۵؍۲۹۸) ’’بوقت قربانی جانور میں عیب پیداہوجائے تو ؟‘‘: قربانی کا جانور پہلے بے عیب تھا لیکن قربانی کرتے وقت اچھل کود کی وجہ سے عیب دار ہوگیا تو اس کی قربانی میں کوئی حرج نہیں ،ایسے جانور کی قربانی شرعاً درست ہے( ہندیہ ۵؍۲۹۹) ’’قربانی کا وقت‘‘: عید الاضحی کی دسویں تاریخ کی صبح سے لے کر بارہویں تاریخ کی شام تک قربانی کا وقت ہے ،لیکن ان میں پہلا دن افضل ہے ،پھر دوسرا ،پھر تیسرا ،ان دنوں کی راتوں میں بھی قربانی جائز ہے لیکن بہتر نہیں ،شہر میں کسی ایک جگہ نماز عید پڑھنے کے بعد اور ایسے دیہات جہاں عید کی نماز نہ ہوتی ہو وہاں صبح صادق کے بعد قربانی کر نا درست ہے اگر کسی وجہ سے نماز عید نہ پڑھ سکے تو ایسی صورت میں بعد زوال یعنی ظہر کا وقت شروع ہونے کے بعد قربانی کرے،اگر کسی نے شہر میں نماز عید سے پہلے قربانی کرلی تو اسکی قربانی درست نہ ہوگی(عالمگیری۵؍۲۹۵، البحر الرائق ۹؍ ۳۲۲)’’ کس جانور میں کتنے حصے درست ہیں‘‘:بکرا اور دُنبہ میں ایک آدمی کی طرف سے ،گائے اور اونٹ میں زیادہ سے زیادہ سات آدمی کی طرف سے ،اگر سات سے کم ہوتو بھی درست ہے(ابوداؤد حدیث ۲۸۰۸،عالمگیری ۵؍۳۰۴)’’حصہ افضل ہے یا بکرا‘‘مستقل بکرے کی قربانی زیادہ افضل اور بہتر ہے ،جب کہ اس کی قیمت بڑے جانور کے ساتویں حصہ کے برابر یا اس سے زیاد ہو،(فتاوی محمودیہ ۲۶؍۲۵۷)’’قربانی کے بجائے قیمت صدقہ کرنا کیسا ہے؟‘‘ قربانی کے ایام میں صاحب استطاعت پر قربانی کرنا ہی واجب ہے ،رقم صدقہ کرنے سے قربانی ادا نہ ہوگی،اگر کسی نے ایام قربانی میں کسی وجہ سے قربانی نہ کر سکا تو پھر قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہوگا(عالمگیری ۵؍۲۹۴،الدرالمختار مع الشامی ۶؍۳۲۱) ’’ وبائی مرض کے خوف سے قربانی کے بجائے اس کی رقم کا صدقہ کرنا کیسا ہے؟‘‘: اس وقت پوری دنیا میں کورونا وائرس کا قہر برپا ہے ، وائرس کے پھیلنے کے ڈر سے لوگ گھروں میں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں اور آپسی میل ملاپ سے گریز کر رہے ہیں ، گندگی اور تعفن کے خوف اور عدم صفائی کا بہانہ بناکر بعض لوگ قربانی کے بجائے اس کی رقم صدقہ کرنے کی بات کر رہے ہیں جو کہ بالکل غیر شرعی ہے ،جب مکمل احتیاط کے ساتھ دیگر ضروری کام انجام دئے جا سکتے ہیں تو پھر اسی احتیاط کے ساتھ قربانی کیوں نہیں کی جا سکتی ہے ،قربانی کے دنوں میں ہر صاحب استطاعت پر قربانی ہی لازم ہے ،قربانی نہ کرتے ہوئے اس کی رقم کا صدقہ کرنا جائز نہیں ہے اور یہ قربانی کا بدل نہیں ہو سکتا(فتاوی دارالعلوم دیوبند)’’ جن مقامات پر لاک ڈاؤن نافذ ہے وہاں کا حکم‘‘: وبائی مرض کو پھیلنے سے روکنے کے لئے ملک کے کئی صوبوں میں لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے مویشی بازار بند ہیں ،قربانی کے جانوروں کا ملنا دشوار ہو کر رہ گیا ہے ایسی صورت میں صاحب استطاعت اپنی قربانی کس طرح انجام دے ؟ اگر ان مقامات پر حکومت کی جانب سے سخت پابندی ہے جس کی وجہ سے قربانی کرنا ناممکن ہو جائے تو انہیں چاہئے کہ دوسرے ان مقامات پر قربانی کرے جہاں اس کی اجازت ہے اور اگر پوری کوشش کے باوجود وہاں پر بھی قربانی کا بندوبست نہ ہو سکے تو پھر قربانی کے ایام گزرنے کے بعد اس کی رقم صدقہ کردے ۔’’ موجودہ وبائی بحران میں نفلی قربانی کا کیا حکم ہے؟‘‘:ہر سال بہت سے مسلمان واجب قربانی کے علاوہ مرحومین کی طرف سے نفلی قربانی دینے کا اہتمام کرتے ہیں ،سوال یہ ہے کہ اس وقت وبائی مرض میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے بہت سارے لوگ مالی مشکلات سے دوچار ہو چکے ہیں ، کئی لوگوں کا کاروبار ٹھپ ہو چکا ہے تو کئی لوگ نوکریوں سے محروم ہو چکے ہیں اور کئی لوگ اپنے متعلقین کے علاج ومعالجہ کی وجہ سے ہزاروں کے مقروض ہو چکے ہیں ،کیا ان حالات میں نفلی قربانی نہ کرکے ان مجبور ولاچار لوگوں کی مدد کرنا درست ہے؟ یقیناموجودہ حالات کی وجہ سے بہت سے لوگ مالی پریشانی میں مبتلا ہو چکے ہیں ، بلاشبہ ان کی ضرورتوں کو پورا کرنا اور ان کی مدد واعانت کرنا افضل ترین عمل اور باعث اجر وثواب ہے ،بہتر یہ ہے کہ ایام قربانی سے پہلے یا بعد میں نفلی قربانی کی رقم سے ان کی مدد کی جائے کیونکہ ایام قربانی میں سب سے افضل عمل قربانی ہی کا ہے ،نفلی صدقات میں افضل انفع للفقراء کی رعایت ہے اور اس وقت انفع للفقراء یہ ہے کہ نفلی قربانی کی جگہ رقم کا صدقہ کیا جائے ۔’’ کیا پورے گھر کی طرف سے ایک بکرے کی قربانی درست ہے؟‘‘ : ہر صاحب نصاب مردو عورت پر الگ الگ قربانی واجب ہے ،ان سب کی طرف سے علاحدہ قربانی دینا واجب ہے، پورے گھر کی طرف سے ایک قربانی دینے سے قربانی ادا نہ ہوگی (الدر المختار علی رد المحتار ۵؍ ۲۰۰) ’’رسول اکرامؐ اور دیگر مرحومین کی طرف سے قر بانی کرنا کیسا ہے؟‘‘: صاحب نصاب پہلے اپنی قربانی ادا کرے ،کیونکہ یہ اس پر واجب ہے ، اگر گنجائش ہو تو دیگر مرحومین کی جانب سے قربانی دینا جائز ہے اور رسول اللہ ؐ کی طرف سے قربانی دینا مستحب اور بڑے اجر کی بات ہے اور بہتر طریقہ یہ ہے کہ آدمی مستقلاً ایک حصہ اسی نیت سے لے،لیکن اگر اسکی بھی گنجائش نہ ہوتو چھ آدمی مل کر بھی ایک حصہ آپ ؐ کی طرف سے دے سکتے ہیں(فتاوی محمودیہ ۲۶؍ ۳۱۰- ۳۱۴) ’’قربانی کے جانور میں عقیقہ کا حصہ رکھنا جائز ہے؟‘‘:قربانی کے دنوں میں بڑے جانور میں عقیقہ کی نیت سے حصہ رکھنا جائز ہے (فتاویٰ محمودیہ ۲۶؍ ۴۱۲)’’ ایک مُلک والے کی دوسرے مُلک میں قربانی دینا کیسا ہے؟‘‘: اگر ایک ملک کا شخص دوسرے ملک میں اپنی قربانی کا کسی کو وکیل بنائے توقربانی کے وقت میں تو جانور کی جگہ کا اعتبار ہوگا لیکن تاریخ میں قربانی کرانے والے شخص کے ملک کی تاریخ کا اعتبار ہوگا(کتاب المسائل ۲؍۳۰۱)’’ قربانی کرنے ولا اگر وفات پاجائے تو کیا حکم ہے ؟‘‘ : دس ذوالحجہ سے قبل یا قربانی کے دنوں میں جانور ذبح کرنے سے پہلے اگر صاحب قربانی کا انتقال ہو جائے تو قربانی ساقط ہو جائے گی اور خریدا ہوا جانور وارثوں کا ہوگا (فتاویٰ ہندیہ) ’’شہرت کی خاطر گراں قیمت جانور خریدنا کیسا ہے ؟‘‘:آج کل بعض لوگ محض ناموری اور دکھاوے کیلئے گراں قیمت جانور خریدتے ہیں اور پھر اس کا خوب چرچا کرتے ہیں ،تو اس ریاکاری کے ساتھ ثواب کی امید رکھنا محض فریب ہے ،اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی عمل مقبول ہے جو خالص اللہ کی رضا کیلئے کیا جائے ،ریا کاری کا جانور کتنا ہی قیمتی ہو اللہ کی نظر میں اس کی کوئی قیمت نہیں ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُم(الحج ۳۷)’’ کیاجانور ذبح کرتے وقت تمام شرکا ء کا نام لینا لازم ہے؟‘‘:اگر بڑے جانور میں حصے دار متعین ہوچکے ہیں تو ذبح کے وقت ہر ایک کا نام لینا ضروری نہیں ،بلکہ مطلق ذبح سے سب کی قربانی درست ہو جائے گی(عالمگیری۵؍۲۹۴)’’ قربانی کے وقت تمام شرکاء کا عبادت کی نیت کرنا ضروری ہے‘‘: بڑے جانور میں حصہ لینے والے سبھی شرکاء کا قربت وعبادت کی نیت کرنا لازم ہے ،مثلاً اضحیہ،ولیمہ ،عقیقہ کی نیت ،اگر کسی شخص نے اس کی نیت نہ کی تو اس میں حصہ لینے والے کسی بھی شریک کی قربانی درست نہ ہوگی(شامی ۹؍۴۷۲) ’’بوقت قربانی بسم اللہ پڑھنا بھول جائے تو کیا حکم ہے؟‘‘:جانور ذبح کرنے والا شخص اگر مسلمان ہے تو اس کا ذبیحہ حلال ہے لیکن اگر اس نے جان بوجھ کر بسم اللہ چھوڑ دے تو پھر ذبیحہ حلال نہ ہوگا(ہندیہ۵؍۲۸۸) ’’عورت اور باشعور بچے کا ذبیحہ حلال ہے؟‘‘: مسلمان عورت اگر جانور ذبح کر ے تو بلاشبہ ذبیحہ حلال ہے ،اسی طرح نابالغ باشعور بچہ جو اللہ کا نام لے کر ذبح پر قادر ہے تو اس کا ذبیحہ بھی حلال ہے(درمختار ۹؍۳۵۹،ہندیہ۵؍۲۸۵) ’’قربانی کا مسنون طریقہ کیا ہے؟‘‘:قربانی خود اپنے ہاتھ سے کرے، اگر خود نہ کر سکے تو کم از کم قربانی کے وقت سامنے موجود رہے ،جانور کو لٹانے سے قبل چھری تیز کر لے،جانور کو بائیں پہلو پر قبلہ رُخ لٹائیں ،ذبح کے وقت قربانی کی نیت کرے، ’’دعائے قربانی‘‘:ذبح کرتے وقت یہ آیت پڑھے:انی وجھت وجھی للذی فطر السمٰوات والارض حنیفاً وما انا من المشرکین ،قل ان صلوتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین ،لا شریک لہ وبذٰلک امرت وانا اول المسلمین (ابوداؤد ۲؍۳۸۶)ذبح سے پہلے بسم اللہ ،اللہ اکبرپڑھے،ذبح کے بعد یہ دعا پڑھے :اللھم تقبل منی کما تقبلت من حبیبک محمد ﷺ ومن خلیلک ابراہیم علیھما السلام ( کتاب المسائل ۲؍ ۳۲۳ بحوالہ تاتار خانیہ ۱۷؍۴۰۰)’’قربانی کے گوشت کا حکم‘‘: قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنا مستحب ہے ،ایک اپنے لئے ،دوسرا حصہ رشتہ دار ،دوست و احباب کیلئے اور تیسرا حصہ غریب ونادارلوگوں کیلئے ،لیکن اگر خود ہی سارا گوشت کھالے تب بھی کوئی حرج نہیں ،اسی طرح قربانی کا گوشت غیر مسلم کو بھی دینا جائز ہے (عالمگیری ۵؍۳۰۰) ’’قربانی کی کھال کا مصرف کیا ہے؟ ‘‘:بہتر یہی ہے کہ قربانی کی کھال صدقہ میں دے دی جائے،اسی طرح مدارس میں پڑھنے والے نادار طلبہ کو دینا بھی درست ہے (مسائل قربانی وعقیقہ ،فتاوی محمودیہ ۱۷؍۴۶۲)’’قربانی کرنے والے کیلئے ناخن اور بال کاٹنے کا حکم‘‘:جب ذی الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہوجائے اور قربانی دینے کا ارادہ ہو تو مستحب ہے کہ بال اور ناخن نہ کاٹے جائیں جب تک کہ قربانی نہ دے دیں ،اور یہ استحباب صرف ان لوگوں کیلئے ہے جو قربانی کا ارادہ رکھے ہوں،(سنن نسائی ۴۳۶۶)۔
٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×