توکل اور تدبیر مومن کا عظیم سرمایہ
’توکل علی اللہ‘‘ ایمان کی روح اور توحید کی بنیاد ہے،اسباب اختیار کرکے نتیجہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر چھوڑ دینے کا نام توکل ہے ،اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان لانے کے بعد اہل ایمان کو جس کی تعلیم دی گئی ہے وہ اس پر توکل وبھروسہ ہے ،بلاشبہ توکل علی اللہ ایمان کا جزو ہے،توکل بہت عظیم صفت ہے ،جس شخص میں یہ صفت پائی جاتی ہے وہ کبھی نامراد اور مایوس نہیں ہوتا،درحقیقت متوکلین ہی سچے موحدین ہیں، توکل خدا سے ملاتا ہے ، اس کی مدد ونصرت کا در کھلاتا ہے ، اعتماد جگاتا ہے اور حوصلہ بڑھاتا ہے ،توکل آدمی کو مایوسی کے دلدل سے نکال کر امید کی چوٹی پر پہنچا تا ہے،اندھیرے سے روشنی کی طرف لاتا ہے اور یقین کامل پیدا کرتا ہے،قرآن مجید میں توکل کی تعلیم دی گئی ہے، یہ انبیاء ؑ کی صفت ،اولیاء ؒ کی علامت اور نیک بندوں کی نشانی ہے، جو شخص اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کرتا ہے تو یقینا ذات خداوندی اس کے لئے کافی ہوجاتی ہے ، قرآن مجید میں ہے : وَمَن یَتَوَکَّلْ عَلَی اللَّہِ فَہُوَ حَسْبُہُ إِنَّ اللَّہَ بَالِغُ أَمْرِہِ قَدْ جَعَلَ اللَّہُ لِکُلِّ شَیْْء ٍ قَدْراً(الطلاق:۳)’’اور جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرے تو اللہ اس (کاکام بنانے)کے لئے کافی ہے،یقین رکھو کہ اللہ اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے ،البتہ اللہ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھاہے‘‘ ،یعنی جو اللہ پر بھروسہ کریں گے تو اللہ اپنی قدرت سے ان کے کام بنائیں گے ،لیکن کام بنانے کی نوعیت اور اس کا وقت وہ خود مقرر فرماتے ہیں کیونکہ انہوں نے ہر چیز کا ایک نپا تلا اندازہ طے کر رکھا ہے ،اس لئے بندہ مومن کو چاہیے کہ اپنی بساط کے مطابق کام کرے اور باقی معاملہ اللہ کے سپرد کردے اور یقین کامل و مکمل بھروسہ رکھیں ،اللہ اپنے علم وحکمت سے اسے ضرور پورا کرکے رہیں گے، قرآن مجید کی ایک دوسری آیت میں مؤمنین کو ان الفاظ کے ذریعہ توکل کی تاکیدی تعلیم دی گئی ہے :ِ وَعلَی اللّہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُونَ(ابراہیم:۱۲)’’اور جن لوگوں کو بھروسہ رکھنا ہو انہیں اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے ‘‘ ، مذکورہ آیات کے علاوہ دیگر مقامات پر اہل ایمان کو توکل کی تاکید کی گئی ہے ۔
رسول اللہ ؐ نے صحابہ ؓ کے واسطے سے امت مسلمہ کو توکل کی تعلیم وتلقین فرمائی ہے ، حدیث کی کتابوں میں ایسی بہت سی احادیث موجود ہیں جن میں اللہ کی ذات پر توکل وبھرسہ کی تعلیم دیتے ہوئے بندوں کو ذات واجب الوجود پر یقین کامل رکھنے اور مکمل بھروسہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے ، توکل ایک ایسی چیز ہے جو آدمی کو دنیا میں کامیاب اور آخرت میں نجات دلانے کے لئے کافی ہے ،رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے :یدخل الجنۃ من امتی سبعون الفاً بغیر حساب ،قالوا من ہم یا رسول اللہ ؟ قال ہم: الذین لا یسترقون ،ولا یتطیرون ،ولا یکتوون ،وعلیٰ ربہم یتوکلون (مسلم:۳۲۱)’’ میری امت کے ستر ہزار آدمی بلا حساب وکتاب جنت میں داخل ہوں گے ،صحابہ ؓ نے عرض کیا :اے اللہ کے رسول ؐ !وہ کون لوگ ہیں ؟ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: یہ وہ لوگ ہوں گے جو (ناجائز اور غیر شرعی) جھاڑ پھونک نہیں کرواتے ،بد فالی نہیں لیتے ،آگ سے نہیں دغواتے اور(یہ وہ لوگ ہیں جو یقین کامل کے ساتھ) اپنے رب پر توکل کرتے ہیں ، اسباب اختیار کئے بغیر سارا کام اللہ کی ذات پر چھوڑ دینا توکل کے منافی ہے ،درحقیقت یہ توکل نہیں بلکہ غیر ذمہ دارانہ عمل اور عقل وفہم سے دوری کا نتیجہ ہے ،انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ نے دنیا کو اسباب کی جگہ بنائی ہے اور اس کے فعل کا ظہور اسباب کے پردوں سے ظاہر ہوتا ہے مگر وہ اسباب کا پابند نہیں ہے بلکہ ہم کو اسباب کاپابند بنایا گیا ہے ،ایک موقع پر آپ ؐ سے کسی نے توکل کے متعلق پوچھا کہ کیا اونٹ کو رسی سے باندھ کر توکل کرنا ہے یا کھلا چھوڑ کر ؟ تو جواب میں آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: اعقلھا وتوکل( ابن حبان:۷۳۱) ’’ اسے باندھ لو پھر اللہ پر توکل کرو‘‘۔
یقینا توکل سے اللہ کی مدد شامل حال ہوجاتی ہے ،اللہ تعالیٰ متوکل کی مددونصرت فرماتے ہیں اور معمولی اسباب رکھنے والے کے لئے وہ غیبی راستوں سے مدد ونصرت فرماتے ہیں جس کا گمان نہیں کیا جاسکتا ،لیکن شرط یہ ہے کہ توکل اس طرح ہونا چاہیے جس طرح اس کا حق ہے ، رسول اللہ ؐ نے حقیقی توکل کا ثمرہ بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا :لو انکم تتوکلون علی اللہ حق توکلہ لرزقکم کما یرزق الطیر تغدوا خما صا وتروح بطانا(مشکوٰۃ :ص ۴۵۲) اگر تم اللہ پر توکل کرو جیسا کہ توکل کرنے کا حق ہے تو تم کو اللہ اس طرح رزق دے گا جس طرح وہ چڑیا کو رزق دیتا ہے ،چڑیا خالی پیٹ نکلتی ہے اور بھرے پیٹ کے ساتھ واپس جاتی ہے، ایک نظر حضرت ہاجرہؓ زوجہ سیدنا ابراہیم ؑ کے اس واقعہ پر نظر ڈالئیے کہ انہوں نے توکل کا کس قدر اعلی نمونہ پیش کیا تھا ،جس وقت سیدنا ابراہیم ؑ بحکم خداوندی انہیں اور شیر خوار بیٹے اسماعیل ؑ کو چٹیل میدان اور غیر آباد سنسان وادی میں چھوڑ کر جانے لگے تھے ،ان کے پاس ایک مشکیزہ میں پانی اور کچھ کھجوریں تھیں ،انہوں نے بطور اسباب اسے اختیار کیا تھا ، اس موقع پر حضرت ہاجرہؓ نے حضرت ابراہیم ؑ نے پوچھا تھا کہ آپ ہمیں اس غیر آباد وادی میں چھوڑ کر کہاں جارہے ہیں جبکہ یہاں انسانی وسائل کا دور دور تک نام ونشان نہیں ہے ،حضرت ابراہیم ؑ یہ سن کر بھی خاموش چلنے لگے پیچھے مڑکر بھی نہیں دیکھا ،حضرت ہاجرہؓ نے سوال کیا کہ کیا یہ بحکم خداوندی ہے ؟ حضرت ابراہیم ؑ نے اثبات میں سر ہلایا ،اتنا سنا تھا کہ حضرت ہاجرہؓ نے بھر پور توکل اور اعتماد ویقین کے بھر پور لہجے میں کہا تھا ! تب تو اللہ ہم ماں بیٹے کو ضائع نہیں کرے گا ،حضرت ہاجرہؓ کا توکل اپنی مثال آپ تھا ،اسی توکل کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے زمزم کا پانی جاری فرمایا اور دنیا کو بتایا کہ جو توکل کرتے ہیں ان کے ساتھ ایسی ہی مدد آتی ہے،حضرت سیدنا ابراہیم ؑ وسیدہ ہاجرہؓ کے اس واقعہ پر غور کریں کہ ایک طرف سیدنا ابراہیم ؑ نے اپنی بساط وگنجائش کے مطابق اسباب اختیار کئے ہیں ،وہ جانتے تھے کہ یہ کھجور وپانی زیادہ دن چلنے والا نہیں ہے لیکن ان کی نظر اسباب کے بعد مسبب الاسباب پر تھی ،وہ جانتے تھے کہ توکل غیبی دروازہ کی کنجی ہے ،ادھر جب حضرت ہاجرہؓ کو معلوم ہوا کہ یہاں چھوڑ جانا بحکم خداوندی ہے تو فوراً ان کی زبان سے جو جملہ نکلا وہ توکل کی اعلی مثال تھا ،اسی توکل نے انہیں قیامت تک کے لئے حیات جاودانی عطا کی ،اسی طرح پیغمبر سیدنا ایوب ؑ کا واقعہ قرآن مجید میں مذکور ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں بیماری کے ذریعہ آزمایا اور وہ صبر وضبط کی مورت بنے رہے ، بیماری پر صبر کرتے ہوئے بقیہ نعمتوں پر شکر بجالاتے رہے اور خدا کی یاد کے ذریعہ دن گزارتے رہے ،جس وقت ان کی دعا قبول ہوئی تو انہیں حکم دیا گیا جس کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح کیا گیا ہے کہ :ارْکُضْ بِرِجْلِکَ ہَذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَشَرَابٌ(ص:۴۲)’’(ہم نے ایوبؑ سے کہا)اپنا پاؤں زمین پر مارو ،لو!یہ ٹھنڈا پانی ہے نہانے کے لئے بھی اور پینے کے لئے بھی‘‘، سیدنا ایوب ؑ کے زمین پر پیر مارتے ہی اس جگہ جشمہ نکل آیا ،اسے پینے اور نہانے سے ان کی ساری بیماری جاتی رہی اور وہ پہلے کی طرح صحت مند اور تندرست ہوگئے ،حضرت سیدنا ایوبؑ کا صبر وضبط اور تحمل وبرداشت مثالی تھا ،ان کے توکل کا انداز عجب اور نرالہ تھا، انہیں بھر پور یقین اور مکمل بھروسہ تھا کہ ایک دن خدا کی مدد ونصرت کا ظہور ہوگا اور اس بیماری سے انہیں نجات حاصل ہوگی ،وہ یاد الٰہی میں بدستور لگے رہے اور اللہ پر کامل توکل کرتے رہے،جب انہیں خدا کی جانب سے شفا یاب ہونے کی خوشخبری سنائی گئی تو انہیں حکم دیا گیا کہ اپنے پیرو کو زمین پر ماریں ،اس سے پانی ابل پڑے گا اور اسے پئیں اور نہائیں جس سے بیماری دور ہوجائے گی ، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا دار الاسباب ہے اور بندہ اسباب کا پابند ہے ،اپنی بساط وکوشش کے مطابق بندوں کو اسباب اختیار کرنا چاہیے لیکن بھروسہ اسباب پر نہیں بلکہ مسبب الاسباب پر رکھنا چاہیے ،کیونکہ اسباب بھی اذن الٰہی کے محتاج ہوتے ہیں ۔
رسول اللہ ؐ کی پوری حیات طیبہ پر نظر ڈالئیے تو پتہ چلے گا کہ آپ ؐ نے قدم قدم پر اسباب اختیار فرمائے ہیں مگر نظر مسبب الاسباب پر رکھ کر مکمل توکل وبھروسہ اسی ذات پر فرمایا جو اسباب کی بھی خالق ہے ،آپؐ نے نہ صرف اسباب اپنایا بلکہ ساتھ ہی توکل کی تعلیم بھی دی بلکہ امت کے سامنے توکل کا وہ اعلی نمونہ پیش فرمایا جس کی تاریخ میں مثال ونظیر نہیں ملتی، کتب سیرت توکل کے واقعات سے بھرے پڑے ہیں ، حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ ہم ایک جنگ میں رسول اللہ ؐ کے ساتھ تھے ،جب ہم ایک گھنے سایہ دار درخت کے پاس آئے تو اس درخت کو ہم نے رسول اللہ ؐ کے لئے چھوڑ دیا ،مشرکین میں سے ایک شخص آیا اور رسول اللہ ؐ کی درخت سے لٹکی ہوئی تلوار لے لی اور سونت کر کہنے لگا : کیا تم مجھ سے ڈر تے ہو؟ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا نہیں،اس نے کہا کہ تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ ؐ نے فرمایا : اللہ ، یہ سنتے ہی تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی ،آپ ؐ نے وہ تلوار اٹھالی اور فرمایا: تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ اس نے کہا تم بہتر تلوار پکڑ نے والے بن جاؤ ،آپ ؐ نے فرمایا : کیا تم لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دوگے ؟ اس نے کہا نہیں ،لیکن میں آپ سے عہد کرتا ہوں کہ نہ میں آپ سے لڑوں گا اور نہ میں ان لوگوں کا ساتھ دوں گا جو آپ سے لڑتے ہیں ،آپ ؐ نے اس کا راستہ چھوڑ دیا ،وہ شخص اپنے ساتھیوں کے پاس گیااور کہنے لگا میں ایسے شخص کے پاس سے آیا ہوں جو لوگوں میں سب سے بہتر ہے( مسند احمد )،آپ ؐ کے توکل اور بے مثال ایقان نے دشمن کو کمزور کر دیا ،اس کی طاقت وجرأت جاتی رہی اور اسے اپنی شکست نظر آنے لگی ،چنانچہ اس نے ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے آپ سے معافی کی درخواست کی ،رسول اللہ ؐ کے بے مثال توکل نے دشمن کو نامراد کر دیا ،آپ ؐ نے اس کے ذریعہ یہ پیغام دیا کہ توکل اور بھروسہ آدمی کو کامیابی سے ہمکنار کراتا ہے اور خدا کی ذات کو بندہ کے طرف متوجہ کراتا ہے ،بسا اوقات دور دور تک کہیں بھی اسباب نظر نہیں آتے تو بندہ کو چاہیے کہ اس نازک حالت میں مایوس نہ ہو، خدا سے نصرت طلب کرے ،اسے جاننا چاہیے کہ اسباب بے جان ہیں جب تک اس میں حکم الٰہی شامل نہ ہوجائے ، خدا تو بلا اسباب کے بھی کامیابی عطا کرنے پر قادر ہے ، پھر وہ توکل کرتا ہے تو اس کے یقین کامل اور مکمل بھروسہ پر خدا کی نصرت کا نزول اس طرح ہوتا ہے جس طرح بارش کا پانی زمین پر گرتا ہے ، متوکلین کے لئے اللہ نے ہر زمانے میں کامیابی کے راستے دکھائے ہیں اور ان کے ساتھ مدد ونصرت کا معاملہ فرمایا ہے،وہ کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوئے کیونکہ ان کی نظر اسباب پر نہیں بلکہ صاحب قدرت وکمال مسبب الاسباب پر تھی ،مگر ایسا بھی نہیں ہوا کہ انہوں نے اسباب کے بغیر مددطلب کی ہو بلکہ اسباب اختیار کیا اور پھر نتیجہ اللہ کے سپرد کردیا ۔
موجود حالات سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں ،عالمی وبا ء نے پوری دنیا کو پوری طرح جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے ، پوری دنیا کو گویا سانپ سونگھ گیا ہے،اچھے اچھوں کی زبانیں گم ہوگئیں ہیں ،بڑے بڑے عقلمندوں کی عقلیں جواب دے چکی ہیں ،طبی ماہریں سر پکڑ کر بیٹھے ہیں ،بڑے بڑے طاقتور ممالک کے سربراہان بند کمروں میں بند ہیں ،ہزاروں تدبیروں کے باوجود وبائی مرض تیزی سے پھیلتا جارہا ہے ،کروڑوں لوگ اس سے متاثر ہو چکے ہیں اور اب تک لاکھوں لوگ اس کا شکار بن چکے ہیں ، ہر روز پوری دنیا میںہزاروں کی تعداد میں اموات واقع ہو رہیں ہیں ، آبادیاں ویران اور قبرستان آباد ہوتے جارہے ہیں، قبر ستانوں میں جنازوں کی لین لگی ہوئی ہے، لوگ جنازوں میں شرکت سے گریز کر رہے ہیں ،ٹیلی فون ،واٹس ایپ اور دیگر جدید آلات کا سہارا لے کر لواحقین سے اظہار ہمدردی کر رہے ہیں،ہر طرف غم کے بادل چھائے ہوئے ہیں ، دنیا ماتم کدہ بن چکی ہے ،لوگ بے انتہا ڈرے سہمے ہوئے ہیں ،مارے خوف کے گھروں میں مقید ہو نے کو ترجیح دے رہے ہیں ،معیشت بُری طرح تباہ ہو چکی ہے ،غریب اور متوسط طبقہ کا بہت بُرا حال ہے ، کوئی بیماری سے مر رہے ہیں تو کوئی غربت وافلاس کی وجہ سے ابدی نیند سو تے جارہے ہیں ،ہر طرف بدحوواسی اور مایوسی چھائی ہوئی ہے ، بہت سے لوگ ذہنی انتشار کا شکار ہیں تو بہت سے لوگ وبائی مرض کے ڈر سے اعصابی تناؤ کا شکار ہورہے ہیں اور بہت سے لوگوں کے دل محض خوف کے مارے بند ہورہے ہیں اور وہ مارے خوف کے مرتے جارہے ہیں، مگران حالات میں مومن کبھی مایوس ، پژمردہ اور ناامید نہیں ہوتے بلکہ ہر حالت میں صبر وشکر کا مظاہرہ کرتے ہیں ، اسی سے فریاد کرتے ہیں اور اسی سے حالات کی درستگی کی درخواست کرتے ہیں ، ان کا ایمان وایقان ہے کہ حالات کا اُلٹ پھیر سب اسی کے قبضہ قدرت میں ہے ،وہ چاہتا ہے تو لمحہ بھر میں حالات پلٹ کر رکھ دیتا ہے ،جو دن کو رات میں اور رات کو دن میں بدلنے کی قدرت رکھتا ہے وہ ضرور بالضرور مصیبت کو راحت میں اور بیماری کو صحت میں تبدیل کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے ،مومن کو اللہ نے دو عظیم چیزوں سے نوازا ہے جن کے ذریعہ وہ ہر حالت کا مقابلہ کر سکتا ہے (۱) تدبیر اور (۲) توکل،چونکہ دنیا دارالاسباب ہے ،یہاں اسباب سے حالات بنتے اور بگڑتے ہیں اور اسباب ہی کے ذریعہ خدا کی مدد ونصرت حاصل کی جاسکتی ہے اور حالات کو قابو میں کیا جاسکتا ہے ،اللہ نے اپنے بندوں کو اسباب اختیار کرنے اور اس کے ذریعہ اس کی مدد حاصل کرنے کا حکم دیا ہے ،اسباب اختیار کرنے کے بعد حالات جیسے بھی ہوں ایک مومن کو اس پر اجر وثواب دیا جاتا ہے کیونکہ وہ اسباب کے ذریعہ خدا کا حکم بجالاتا ہے اور اس کی ذات کو اپنے طرف متوجہ کرتا ہے ، مومن اور غیر مومن میں فرق یہ ہوتا ہے کہ مومن اسباب کے اختیار کے بعد اس لئے بھی مطمئن ہوتا ہے کہ اسے معلوم ہے کہ وہ اپنا معاملہ اللہ کے سپر کردیا ہے ،اب وہی ہوگا جو اس کے حق میں مفید اور بہتر ہوگا ، بساوقات جس چیز کو وہ اپنے حق میں بہتر سمجھتا ہے مگر حقیقت میں وہ اس کے حق میں بدتر ہوناہوتا ہے اس لئے اللہ اسے وہ نہیں دیتے جو وہ چاہتا ہے بلکہ وہ دیتے ہیں جو اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے،برخلاف غیر مومن کے وہ اسباب ہی کو سب کچھ سمجھ لیتا ہے چونکہ وہ انجام سے بے خبر رہتا ہے اس لئے مرضی کے مطابق ہونے پر خوش اور نہ ہونے پر نا خوش ہوتا ہے،بساوقات دونوں حالتیں اس کے لئے نقصان کا سبب بن جاتی ہیں ،مومن کے پاس دوسری اہم ترین چیز توکل ہے بلکہ توکل اس کا عظیم سرمایہ ہے ،یعنی ذات الٰہی پر مکمل اعتماد اور بھروسہ ،یقینا جو شخص ذات الٰہی پر جیسا بھروسہ رکھتا ہے تو اللہ بھی اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتے ہیں ،اس لئے مومن کو تعلیم دی گئی ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ پر بھروسہ رکھیں اور اس سے اچھائی کی توقع رکھیں ،حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں اور جب وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور جب وہ مجھے مجلس میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اس سے بہتر فرشتوں کی مجلس میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے ایک بالشت قریب آتا ہے تو میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہوجاتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب آتا ہے تو میں اس سے دو ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کے پاس دوڑ کر آجاتا ہوں (بخاری ،کتاب التوحید:۷۴۰۵)۔
موجودہ حالات میں اہل ایمان کو وبائی مرض سے بچنے کے لئے ہر ممکن احتیاطی تدابیر اختیار کرنا چاہیے ،یہ بات رکھنی چاہیے کہ احتیاط ایمان کا حصہ اور توکل کی روح ہے ،بد احتیاطی نافرمانی اور ایک طرح کا سنگین جرم ہے ،جن میں بہت سے لوگ اب بھی ملوث ہیں ،وہ احتیاط کو یا تو توکل کے خلاف سمجھ رہے ہیں یا پھر جرأت وبہادری تصور کر رہے ہیں ،حالانکہ سخت آندھی اور طوفان میں اسی کی طرف رخ کرنا حماقت اور ہلاکت کا سبب ہوتا ہے اسی طرح وبائی مرض کے دوران احتیاط نہ کرنا اوربد احتیاطی کا مظاہرہ کرنا بھی حماقت ،جہالت اور خود کُشی کے مترادف ہے، تدبیروں کے اختیار کرنے کے بعد باقی معاملہ اللہ کی ذات پر چھوڑ دینا توکل ہے اور توکل سے قلب میں اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے ،یعنی معاملہ اللہ کے سپرد کردینا اور اس کے فیصلہ پر راضی برضا رہنے سے سکون قلب کی دولت حاصل ہوتی ہے اور سکون واطمینان سے وہ آرام حاصل ہوتا ہے جس کا انسان تصور نہیں کر سکتا ،اس لئے ان حالات میں گھبرانے ،مایوسی کا شکار ہونے اور خوف ہراس میں مبتلا ہونے کے بجائے ظاہری اسباب کے ساتھ قدم بڑھاتے ہوئے توکل کی رسی کو مضبوط پکڑ کر رہیں ،ان شاء اللہ تدبیر اور توکل کے بہتر نتائج ظاہر ہوں گے اور اس کے بدلے میں خدا کی قدرت کا ظہور ہوگا مشکلیں آسان ہوں گی،بیماریاں رفع ہوں گی اور خدا کی مہربانی پوری انسانیت پر ابر کرم بن کر برسے گی ؎
تدبیر کے دست زریں سے تقدیر درخشاں ہوتی ہے
قدرت بھی کرم فرماتی ہے جس کوشش انساں ہوتی ہے