اسلامیات

شب قدر کی تلاش میں کمر بستہ ہوجائیں!

شب قدر خدا کی طرف سے امت محمدیہ ؐ کو عطا کردہ ایک قیمتی بلکہ بیش قیمت تحفہ اور ایسا انعام ہے جو پچھلی کسی امت کے حصہ میں نہیں آیا ، شب قدر دراصل شب رحمت اور شب عنایت ہے، یہ شب برکتوں ،عظمتوں اوررحمتوں سے معمور ہے ، پوری رات رحمتوں کی بارشیں برستی رہتی ہیں ،فیضان کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور خدا کے لامحدود خزانوں سے بے حساب بندے نوازے جاتے ہیں ،شب قدر قدردانوں کے لئے نیکیوں کے خزانے بھر لینے اور نامہ ٔ اعمال میں ہزاروں مہینوں کے نیکیاں جمع کر لینے کا سنہری موقع ہے، شب قدر کی عبادت کا ثواب ایک ہزار مہینوں سے بڑھ کر دیا جاتا ہے یعنی تراسی برس چار مہینے دس دن ، یہی وہ باعظمت رات ہے جس میں مقدس کلام قرآن مجید اُتا را گیا ، اس رات میں ملائکہ کے سردار سیدنا جبرئیل ِ امین ؑ فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ زمین پر اتر تے ہیں اور عبادت گزاروں کے حق میں دعائے خیر کرتے ہیں (مظہری بحوالہ معارف القرآن ج۸ ) ، یہی وہ شب ہے کہ جس میں بندوں کے متعلق لوح محفوظ میں لکھے گئے احکامات لے کر فرشتے زمین پر اتر تے ہیں ، یقینا شب قدر چشمۂ رحمت اور قدردانوں کے لئے نعمت غیر مترقبہ ہے اور یہ ایسی مبارک رات ہے کہ جس میں صرف خیر ہی خیر ہے ،قدر کے معنیٰ عظمت وشرافت کے ہیں ،اس رات میں بندے کثرتِ عبادت ،توبہ واستغفار ،دعا والتجا اور تعلق مع اللہ کے ذریعہ اپنے مولیٰ اور کریم آقا کے نزدیک عظمت وشرافت اور قدر ومنزلت کا مقام حاصل کر لیتے ہیں اس لئے اس رات کو ’’شب قدر‘‘ کہا جاتا ہے۔
امت محمدیہ ؐ کو دیگر امتوں پر کئی لحاظ سے خصوصیت و فضیلت اور بزرگی و بر تری حاصل ہے ،جس کا ذکر قرآن وحدیث دونوں میں موجود ہے ،اس امت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اسے خدا کا محبوب ، نبیوں کا مام اور سب سے برگزیدہ پیغمبر عطا ہوا،قرآن مجید جیسا عظیم الشان کلام جسے ام الکتاب کہا جاتا ہے عنایت ہوا ،نیز امت مرحومہ کے نیکیوں کے اضافہ کے لئے ایک ایسی رات عطا ہوئی جس میں عبادت کا ثواب ایک ہزار مہینوں سے بھی زیادہ ہے ،چنانچہ خادم رسول حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایاکہ: اللہ تعالیٰ نے شب قدر میری امت ہی کو عطا فرمائی پچھلی کسی امت کو نہیں دی گئی(کنز العمال :۸؍۵۳۶)، علماء امت نے اس امت کو شب قدر عطا ہونے کی بہت سی وجوہات بیان کی ہیں منجملہ ان میں سے ایک یہ کہ : مؤطا امام مالک میں ہے کہ آپ ؐ کو سابقہ امتوں کی طویل عمر یں بتلائی گئیں ان کے مقابلہ میں اپنی امت کی قلیل عمر کو دیکھ کر آپ کو رنج ہوا کہ اگر یہ نیک اعمال میں ان کی برابری کرنا چاہیں تو بھی ناممکن ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۂ قدر نازل فرما ئی ( مؤطا امام مالک: ۷۰۶) ،ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ؐ نے حضرات صحابہ ؓ کے سامنے بنی اسرائیل کے ایک مجاہد کی عبادت کا ذکر فرمایا کہ وہ ایک ہزار مہینوں تک مسلسل جہاد میں مشغول رہا ،کبھی ہتھیار نہیں اُتارے ،یہ سن کر حضرات صحابہ ؓ کو رشک ہوا اور پچھلی امتوں کی عمروں کے مقابلہ میں اپنی کم عمر (ساٹھ ،ستر سال) دیکھ کر رنج وغم ہوا کہ اگر ہم ساری زندگی بھی عبادت میں گز ار دیں تب بھی اس عابد کے ثواب کو پانا ممکن نہیں ،اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۂ قدر نازل فرما ئی( جامع البیان فی تفسیر القرآن)۔
شب قدر کی قدردکرنے اور اسے ذکر وتلاوت اور دعا و عبادت کے ساتھ گزارنے والوں کے لئے بشارت اور انعام خداوندی کی خوشخبری سناتے ہوئے آپ ؐ ارشاد فرمایا کہ : من قام لیلۃ القدر ایمانا واحتسا با غفرلہ ما تقدم من ذنبہ( بخاری ۲؍ ۶۷۲) ’’جو شخص شب قدر میں ایمان اور ثواب کی امید کے ساتھ عبادت کیلئے کھڑا ہو گا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئے جائیں گے‘‘،اس حدیث میں ’’غفرلہ ماتقدم من ذنبہ‘‘ میں امت کے گنہگاروں کیلئے عظیم الشان خوشخبری ہے، گرچہ اس میں گناہ سے صغیرہ گناہ مراد ہیں لیکن گناہگار اگر سچی توبہ کر یں تو کیا بعید کہ اللہ تعالیٰ صغیرہ اور کبیرہ سب گناہ معاف فرمادیں ،کیونکہ قرآن کریم میں کبیرہ گناہ کیلئے ’’الا من تاب ‘‘ کی شرط لگائی گئی ہے یعنی گناہ کبیرہ کا مرتکب اگر سچی تو بہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے کبیرہ گناہ بھی معاف فرما دیتے ہیں ۔
شب قدر رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں مخفی رکھی گئی ہے ،یہ بھی حکمت خداوندی اور مصلحت ربانی کا حصہ ہے ،اہل ایمان کا ایمان وایقان ہے کہ خدا کا ہر حکم کسی نہ کسی حکمت پر مبنی ہوتا ہے اور اس میں بھی بندوں ہی کا فائدہ پیش نظر ہوتا ہے ،اسی وجہ سے علماء امت فرماتے ہیں کہ شب قدر کے مخفی رکھے جانے کا اہم فائدہ یہ ہے کہ اسے تلاش کرنے کے بہانے بندوں کو زیادہ سے زیادہ عبادت کر کے اپنے لئے نیکیوں کا ذخیرہ کر نے کا موقع ملتا ہے ،مگر اس رات کو اس قدر مخفی بھی نہیںرکھا کہ تلاش بے حد مشکل ہوجائے بلکہ اسے رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں رکھا گیا کہ اگر کوئی اسے پانا چاہے تو بآسانی پا لے ، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ: تحروالیلۃ القدر فی الوتر من العشر الا واخر من رمضان (بخاری ۲ ؍ ۷۱۰) شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلا ش کرویعنی اکیسویں(۲۱) ،تیٔسویں(۲۳) ،پچیسویں(۲۵)،ستائیسویں(۲۷) اور اُنتیسویں(۲۹)، اکثر لوگ صرف ستا ئیس ویں شب کو ہی شب قدر سمجھتے ہیں حالانکہ اس حدیث میں رسول اللہ ؐ نے نہایت واضح الفاظ میں اپنی امت کو رمضان کے عشرۂ اخیرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کا حکم دیا ہے اور رسول اللہ ؐ خود بھی آخری عشرہ میں تلاش شب قدر کا اہتمام فرمایا کرتے تھے اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے ،حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ : اذا دخل العشر شد میز رہ واحیا لیلہ وایقظ اھلہ( بخاری:۲۰۲۴)’’ جب رمضان کا اخیر عشرہ شروع ہوتا تو رسول اللہ ؐ ( شب قدر کی تلاش اور عبادتوں میں مزید زیادتی کیلئے پوری طرح ) کمر کس لیتے تھے اور اپنے افراد خانہ (ازواج مطہرات ودیگر متعلقین ) کو بھی اس جانب توجہ دلاتے تھے( تاکہ انہیں بھی شب قدر اور اس کی برکتیں حاصل ہوجائے )‘‘، ایک روایت میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ آپؐ کے عشرۂ اخیرہ کے معمولات بتاتے ہوئے فرماتی ہیں : کان رسول اللہ ﷺ یجتھد فی العشرالا واخر ما لا یجتھد فی غیرہ ( مسلم ۱۱۷۵ )’’ آپ ؐ رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت وغیرہ میں وہ مشقت فرماتے جو دوسرے دنوں میں نہیں فرماتے تھے‘‘ ۔
شب قدر کی تعین اُٹھائے جانے کی وجہ احادیث میں دوشخصوں کا جھگڑا بتایا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جھگڑا وفساد اور نزاعات کس قدر قبیح اور بُرا عمل ہے ، جھگڑا وفساد رحمت اور خیر کے دروازہ کو بند کر دیتا ہے ،یہ خالص شیطانی عمل اور اس کا پسندیدہ مشغلہ ہے ،جو لوگ لڑتے جھگڑتے ہیں گویا وہ شیاطین کے کارندے ہیں ،حضرت عبادہ ابن صامت ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ ہم کو شب قدر کی اطلاع دینے کے لئے باہر تشریف لائے اس وقت دومسلمانوں میں جھگڑا ہو رہا تھا ، (یہ دیکھ کر)آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں شب قدر کی خبر دینے کے لئے آیا تھا مگر فلاں فلاں شخص میں جھگڑا ہو رہا تھا جس کی وجہ سے اس کی تعین اُٹھا لی گئی کیا بعید ہے کہ یہ اُٹھا لینا اللہ کے علم میں بہتر ہو لہذا اب اس رات کو انتیسویں ،ستائیسویں اور پچیسویں شب میں تلاش کرو(بخاری: ۱۹۱۹)اس حدیث میں شب قدر کی تعین اُٹھا لئے جانے کا سبب مسلمانوں کا آپسی جھگڑ ا بتلایا گیا ہے ،اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کا آپسی جھگڑا و اختلاف کس قدر نقصان دہ ہے کہ بسااوقات آپسی جھگڑے بڑی بڑی نعمتوں سے محرومی کا سبب بھی بن جاتے ہیں ، ایک روایت میں جھگڑا و فساد برپاکرنے کو سحر (جادو ) کا حصہ اور آپس میں صلح صفائی کو نبوت کا حصہ قرار دیا گیا ہے ،اور حضرت ابوذر غفاری ؓ کی روایت میں دومسلمانوں کے درمیان صلح کر ادینے کو صدقہ کہا گیا ہے ،ایک روایت میں تو صلح صفائی کو روزہ اور صدقہ سے بھی افضل بتایا گیا ، لہذا مسلمان آپسی اختلافات ونزاعات سے بچنے کی مکمل کوشش کریں کیونکہ بعض وقت اس قبیح عمل کے سبب بندہ بڑی بڑی نعمتوں سے محروم اور خدا کی نظر عیات سے دور ہوجاتا ہے۔
شب قدر کا طاق راتوں میں سے کسی ایک میں ہونا یقینی ہے اور بکثرت احادیث اس پر دال بھی ہیں اور اس میں اہل ایمان ہی کا فائدہ بھی ہے تو پھرمسلمانوں کو چاہیے کہ وہ پورے انہماک ، توجہ اور بشاشت کے ساتھ طاق راتوں میں عبادتوں کا اہتمام کرتے ہوئے شب قدر پانے کی کوشش کریں ،زندگی کے لمحات بڑے قیمتی ہیں اسے اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی میں خرچ کریں ،اگر کسی کوزندگی میں شب قدر کی دس راتیں مل جائے تو گویا اسے آٹھ سو تیس سال عبادت کا ثواب حاصل ہو گیا ، اور جو شخص پندرہ سال کی عمر سے لے کر ساٹھ سال تک برابر ہر رمضان اس رات کے حصول کے لئے عبادت کا اہتمام کرتا ہے تو یقینا اسے تین ہزار سات سو پینتیس سال سے زائد عبادت کا ثواب حاصل ہوجاتا ہے، یہ وعدہ اُس شہنشاہ کا ہے جس کی حکومت زمین وآسمان ،چاند وسورج ،خشکی وتری اور شجر وحجر سب پر ہے ،ارشاد رب العالمین ہے :لِلّہِ مَا فِیۡ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیۡ الأَرۡضِ وَإِلَی اللّہِ تُرۡجَعُ الأُمُورُ(اٰل عمران ۱۰۹) ،لوگ دنیا کے فانی خزانوں کے مالک اور کمزور قوتوں کے حامل بادشاہوں کے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں لیکن خداوند عالم تو ساری کا ئنات کا بادشاہ اور اس کے لا محدود خزانوں کا مالک ہے، وہ ہر گز وعدہ خلافی نہیں کرتا ، ہمیںاس کے وعدوں پر ایمان وایقان رکھتے ہوئے ثواب کی امید کے ساتھ تلاش شب قدر کیلئے کمر بستہ ہوجانا چاہیے کیا بعیدہے کہ رب رحمن ورحیم ہماری معمولی عبادتوں کو غیر معمولی بنادے اور اپنے لا محدود خزانوں سے ہمیں بے حساب نیکیاں عطا فرمادے ،یقینا جس نے شب قدر کی قدر کی اسے خیر کثیر حاصل ہوا اور جس نے اس نعمت عظمی کی ناقدری کی وہ بڑی نعمت سے محروم رہ گیا ۔
آپ ؐ نے رمضان المبارک شروع ہوتے ہی اپنی امت کو نہایت محبت وشفقت کے ساتھ اس رات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ارشادفرمایا:الشھر قد حضرکم فیہ لیلۃ خیر من الف شھر من حر مھا فقد حرم الخیر کلہ ولا یحرم خیرھا الا محروم (ابن ماجہ ۲؍ ۱۲۰) ’’تم پر یہ مبارک مہینہ آچکا ہے جس میں ایک رات ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے ،جو اس رات (کی خیر وبرکت )سے محروم رہ گیا وہ گویا ساری ہی بھلائی سے محروم رہ گیا اور اس کی بھلائی سے وہی محروم ہوتا ہے جو واقعی محروم ہی ہو‘‘۔ اس میں آپ ؐ نے نہایت مشفقانہ انداز میں اپنی امت کو شب قدر کی اہمیت سے آگاہ فرمایا کہ یہ نیکیوں ،بھلائیوں اور خیر وبرکت کے حصول کی رات ہے ،اس میں عبادت کے ذریعہ بندہ ٔ مومن اپنے لئے آخرت میں نیکیوں کے انبار لگا سکتا ہے ،یہ خیر وبھلائی کے حاصل کرنے کی رات ہے ،جو شخص اس عظیم نعمت کی ناقدری کرتا ہے وہ اپنے پیر پر خود کلہاڑی مار تا ہے ،ایسے شخص کی قسمت پر جتنا رویا جائے اتنا کم ہے ،حقیقت میں اس شخص کی محرومیت میں کیا شک ہے کہ وہ ایسے قیمتی مواقع ضائع کرکے خزانۂ خداوندی کی بیش بہا نعمتوں سے خود کو محروم کر رہا ہے ۔
حضرات علماء اور اکابر امت ؒ فرماتے ہیں کہ طاق راتوں کو عبادت کے لئے تین حصوں میں تقسیم کر لینا زیادہ مناسب ،ایک حصہ نوافل کے لئے ،دوسراتلاوت قرآن کے لئے اور تیسرا حصہ استغفار ،درود شریف ،ذکر اور دعاؤں کے لئے ، حضرات علماء نے اس طریقہ کو قرآن مجید کی اس آیت سے اخذ کیا ہے ارشاد خداوندی ہے : اتۡلُ مَا أُوحِیَ إِلَیۡۡکَ مِنَ الۡکِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاۃَ إِنَّ الصَّلَاۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَائِ وَالۡمُنۡکَرِ وَلَذِکۡرُ اللّٰہِ أَکۡبَرُ وَاللّٰہُ یَعۡلَمُ مَا تَصۡنَعُوۡنَ (العنکبوت ۴۵) ’’جو کتاب آپ پر وحی کی گئی ،آپ اس کو پڑھا کیجئے ،نماز کی پابندی رکھئیے ،بے شک نماز بے حیائی اور برے کا موں سے روکتی ہے اور اللہ کی یاد بہت بڑی چیز ہے (لہذا خوب ذکر کیجئے)‘‘،چنانچہ اس آیت میں ان تین چیزوں کو جمع کیا گیا ہے اس لئے ان چیزوں کا اہتمام زیادہ بہتر ہے، رسول اللہ ؐ نے شب قدر کی ایک خاص دعا بھی بتلائی ہے ، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے پوچھا کہ یارسول اللہ ؐ! شب قدر کا پتہ چل جائے تو کیا دعا مانگوں؟ : یارسول اللہ ﷺ ارایت ان علمت ای لیلۃ لیلۃ القدر ما اقول فیھا؟قال: اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی(ترمذی ۳۵۲۸)’’ آپ ؐ نے فرمایا( اے عائشہ اگر تمہیں شب قدر مل جائے تو اس میں یہ دعا مانگنا) اے اللہ ! آپ تو معاف کرنے والے ہیں اور معاف کرنے کو پسند فرماتے ہیں لہٰذا مجھے بھی معاف فرمادیجئے‘‘ ۔ رسول اللہ ؐ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور ان کے واسطے سے امت کو نہایت جامع دعا بتلائی ہے اگر اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے ہماری خطا ئیں معاف فرمادیں تو اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیے ،شب قدر میں نوافل ،تلاوت قرآن ،ذکر واذکار ،تسبیح وتہلیل کے علاوہ دعائیں مانگنے کا خاص اہتمام کرنا چا ہیے کیا بعید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری ٹوٹی پھوٹی عبادتوں کو اپنے فضل سے قبول فرماکر ایک ہزار سے زائد مہینوں کا ثواب عنایت فرمادیں اور عاجزانہ دعاؤں کو شرف قبولیت عطا کردے ،دنیا میں لوگ معمولی چیز وں کے حاصل کرنے کیلئے غیر معمولی کو ششیں ، محنت اور لگن کا مظاہرہ کرتے ہیں ، آدمی چند رو پیوں کی خاطر موسمِ گرما کی سختیوں کا مقابلہ کرتا ہے ، سردی کی مشقتوں کو جھیلتا ہے ،رات بھر جاگ کر میٹھی نیند کی قربانی دیتا ہے ،لیکن افسوس کہ بہت سے مسلمان شب قدر کی قدر وقیمت جاننے کے باوجود بھی اسے لہو ولعب ،کھانے پینے اور بازاروں میں گھوم کر ضائع کر دیتے ہیں اور اپنی لاپرواہی سے لا قیمت سکۂ آخرت (نیکیوں ) سے محروم ہو جا تے ہیں ،ا تعالیٰ تمام مسلمانوں کو شب قدر کی قدردانی نصیب کرے،ان راتوں کو عبادات کے ساتھ گزارنے کی توفیق بخشے اور اس کی برکتوں و رحمتوں سے مالا مال فرمائیں اور زندگیوں میں اتنی وسعت دے کہ رمضان آتا رہے ،شب قدر ملتی رہے اور ہم اس کی رحمتوں ،برکتوں اور نعمتوں سے مالا مال ہوتے رہیںآمین ۔
٭٭٭٭

muftifarooqui@gmail.com
9849270160

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×