اخلاقی شٹ ڈاؤن
مفتی عبدالمنعم فاروقی قاسمی‘ نبیرہ حضرت قطب دکن
’’انسان ‘‘صفاتِ حمیدہ اور بہت سی خوبیوں کا مجموعہ ہے ،یہی وہ صفات ہیں جس کی وجہ سے وہ تمام مخلوقات میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے ، خالق نے انسان کے سر پر ’’ اشرف المخلوقات‘‘ کا تاج رکھ کر اس کی عظمت ووقعت کو ثریا کی بلندی پر پہنچادیا ہے، اس کے نصیب پر دوسری مخلوقات انگشت بدنداں ہیںاور اسے نگاہ رشک سے دیکھتی ہیں ،انسان کو جو چیز دیگر مخلوقات سے ممتاز اور معززکرتی ہے وہ اس کی صفت’’ انسانیت‘‘ ہے ،بلاشبہ انسانیت ایک ایسی صفت وعلامت ہے کہ اگر انسان اس کا مظاہرہ کرنے لگے تو اسے وہ عروج و کمال حاصل ہوتا ہے جس پر فلک بھی فخر کرنے لگتا ہے اور اگر انسان انسانیت کو بالائے طاق رکھ کر زندگی گزارتا ہے تو اس کا عروج زوال میں بدل جاتا ہے ، وہ پہاڑ کی چوٹی سے سمندر کی تہہ میں پہنچ جاتا ہے اور انسانوں کی محترم صف سے نکل کر حیوانوں کی قطار میں کھڑا ہو جاتا ہے ،گویا انسانیت ہی وہ نایاب گوہر ہے جو انسان کو قیمتی بناتا ہے اور اس کی قدر ومنزلت کو سمندری لہروں کی مانند دور تک لے جاتا ہے جس کی وجہ سے انسان ہی نہیں بلکہ حیوان بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ،دراصل انسانیت ( Humanity ) بنیادی طور پر اس تصور کا نام ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے جوڑتا ہے جس کی وجہ سے اس کا دل خود کے علاوہ دوسرے انسانوں کے لئے دھڑکنے لگتا ہے،وہ دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دینے لگتا ہے، دوسروں کو سہولت وراحت پہنچاکر خوشی محسوس کرتا ہے اور اخوتِ انسانی کا محل تعمیر کرکے اس میں سارے انسانوں کو یکجا کرتا ہے اور بتاتا ہے انسانیت رنگ ونسل ، قبائل وخاندان، مذہب وملت اور علاقہ و ملک سے بالا تر ہو کر محض انسانی رشتوں کو جوڑ نے ، ان کے درمیان پیار ومحبت اورہمدردی وخیر خواہی کو پروان چڑھانے کا نام ہے ،رنگ ونسل اور ملک وملت سے انسان مقید ہوکر رہ جاتا ہے مگر انسانیت واخوت وہ پل ہے جو پورے انسانوں کو آپس میں ملانے اور جوڑ نے کا کام کرتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ محسن انسانیت ؐ نے پیام انسانیت کے ذریعہ قیامت تک پورے انسانوں کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ سارے انسان درحقیقت ایک ماں باپ ہی کی اولاد ہیں ،سب کی رگوں میں ایک ماں باپ ہی کا خون دوڑ رہا ہے اور ان کا یہ رشتہ سب رشتوں سے قدیم اور پرانا ہے ،اسی رشتے کے پاس ولحاظ کا نام انسانیت اور آدمیت ہے۔
انسانی رشتوں کا پاس ولحاظ انسانی نگری کو خوش حال ، مستحکم ،منظم اور عدل وانصاف کا آئینہ دار بناتا ہے اور انسانی رشتوں کی خلاف ورزی پورے معاشرہ کو بدحال ،سماج کو ظالم ،انسانی دلوں کو پتھر اور امن وآشتی کو متزلزل کرکے رکھ دیتا ہے ،جہاں انسانیت کے چشمے سوکھ جاتے ہیں ،محبت واخوت کے درخت مرجھائے جاتے ہیں ،اخلاق ومروت کے پھل کڑوے ہوجاتے ہیں اور پُر امن فضاء مکدر ہوجاتی ہے تو وہاں انسانیت کی دھجیاں اُڑتی نظر آتی ہیں ،نفرت کے اولے برستے ہیں ،انسانوں کے دل پتھر بن جاتے ہیں ،ظلم وستم کی آندھی طوفان ادھم مچاتی ہے ،انسانوں کے گلوں پر چھریاں چلتی ہیں ،ان کا خون پانی سے بھی زیادہ سستا ہوجاتا ہے اور انسانی نفرتوں کو دیکھ کر حیوان بھی شرمسار ہوکر آنسو بہانے پر مجبور ہوجاتے ہیں،انسان بڑا عجیب وغریب ہے اور اس کا مزاج ومذاق بھی بڑا ہی عجیب اور نرالہ ہے ، ایک طرف اس کی ہمدردی مثالی ہوتی ہے تو دوسری جانب اس کی خود غرضی کا بھی کوئی جواب نہیں ہوتا ، جب وہ محبت کرنے پر آتا ہے تو ساری مٹھاس سمیٹ لیتا ہے اور جب نفرت پر اُتر آتا ہے تو اس کی کڑواہٹ سے کریلا پھیکا پڑجاتا ہے ،عالمی وباء کورونا وئارس کے پیش نظر اس وقت ملک میں لاک ڈاؤن نافذ ہے ،مہلک بیماری اور اس کے تباہ کن اثرات سے محفوظ رہنے کے لئے لوگ گھروں میں بند ہیں ،ملاقاتوں سے مکمل اجتناب برت رہے ہیں بلکہ مصافحہ سے تک گریز کر رہے ہیں ،صرف اجنبیوں سے ہی نہیں بلکہ اپنوں کے ساتھ بھی ملنے جلنے سے پرہیز کر رہے ہیں ، لاک ڈاؤن کی وجہ سے تجارتی سرگرمیاں بالکل بند ہیں جس کی وجہ سے ملک میں معاشی بحران پیدا ہو گیا ہے ،بہت سے لوگ نان شبینہ کو تک ترس رہے ہیں اور بے شمار بیمار افراد اپنی بیماری کو لے کر پریشان ہو رہے ہیں ، گھروں سے نکلنے پر پابندی لگادی گئی ہے،پولیس کی بے جا سختی اور اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی عدم موجود گی کی وجہ سے صورت حال مزید ابتر ہوتی جارہی ہے،ایسے نازک ترین حالات میں کئی لوگ انسانیت کے نام پر انسانوں کی مدد ونصرت اور ان کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں تو چند لوگ موقع کا فائدہ اٹھا کر مذہبی منافرت پھیلانے اور انسانیت کو شر مندہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں ، سوشل میڈیا کے ذریعہ دل ہلادینے اور آنکھیں بہادینے والے واقعات دیکھنے اور پڑھنے کو مل رہے ہیں ، سوشل میڈیا پر حیوانوں کو انسانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور انسانوں کو سطح حیوان سے بھی نیچے کا کام کرتے ہوئے بتایا جارہا ہے ، کورونا ٹسٹ میں مثبت پائے جانے کے بعد ایک صاحب کے اسپتال منتقل کئے جانے کا منظر کس قدر عجیب تھا کہ صاحب خانہ کے اپنے رشتے دار ماسک لگائے دومیٹر کے فاصلے پر کھڑے ہیں ، مریض پُر نم آنکھوں ، حسرت بھری نگاہوں سے اور گفتگو کی امید لئے ان کی طرف متوجہ ہے مگر کوئی بھی ایک قدم آگے بڑھنے کے لئے تیار نہیں اور دور ہی سے ہاتھ لہراکر ایمبولنس میں بیٹھنے کا اشارہ کر رہے ہیں ،مریض کے باہر نکلتے ہی گیٹ بند کر دیا جاتا ہے ،پاس میں کتا کھڑا تھا جونہی اس کی نظر مالک پر پڑھتی ہے وہ دوڑتا ہوا اس کے قدموں میں گر کر مالک سے اپنی محبت وچاہت کا اظہار کرنے لگتا ہے ،طبی عملے کو کافی جد جہد کے بعد اسے وہاں سے ہٹا نے میں کامیابی ملتی ہے ،کتا ایمبولنس کے دور جانے تک بھونکتا رہتا ہے گویا وہ اپنی زبان میں مالک کا حوصلہ بڑہا تا ہے اور کہتا ہے کہ گھبراؤ نہیں تم ٹھیک ہو کر ضرور گھر آؤگے ، اس منظر کو دیکھ کر وہاں کھڑے انسان یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کتا تو حیوان ہے مگر اس کا یہ عمل انسانیت کچھ کم نہیں ہے اور اس میں درندہ صفت انسانوں کے لئے ایک سبق ہے ، دوسری طرف ملک کے مختلف علاقوں میں مذہبی منافرت کے کئی واقعات رو نما ہوئے ہیں اور ہوتے ہی جارہے ہیں جسے سن کر اور دیکھ کر انسان کا دل پس کر رہ جارہا ہے اور اس کی آنکھیں آنسو بہانے پر مجبور ہو رہی ہیں ،وہ ان حالات کو دیکھ کر روتا جاتا ہے اور مارے شرم کے اس کا سر جھگتا جاتا ہے ، جمشید پور میں جمعرات 16 اپریل کو ایک ایسا ہی دل ہلا دینے والا واقعہ پیش آتا ہے : رضوانہ نامی ایک مسلم حاملہ خاتون مسلسل خون بہنے اور درد میں اضافہ سے پریشان ہو کر M G M اسپتال جمشید پور پہنچتی ہے پھر اس کے ساتھ وہاں پر جو کچھ ہوتا ہے اسی کی زبانی سنئے ،وہ کہتی ہے کہ : میں درد سے بے حال اور مسلسل خون کے اخراج سے پریشان ہوکر ایک بجے اسپتال پہنچی ،وہاں بھی خون بہنے کا سلسلہ جاری تھا اور خون بہہ کر زمین تک پہنچ چکا تھا ،یہ دیکھ کر وہاں کھڑی ایک خاتون نرس یا ڈاکٹر نے میرا نام اور مذہب پوچھا اور اس کے بعد مذہب کی بنیاد پر گالیاں دیں ،اور زمین پر گرے ہوئے خون کو مجھ ہی سے صاف کرنے کو کہا ،چونکہ مجھے شدت کا درد تھا اور میری حالت بالکل خراب تھی اس لئے اس خون کو صاف کرنے میں دیر لگی ،اس وقت میرا پورا بدن کپکپا رہا تھا ،یہی نہیں اسپتال کی ایک خاتون نے مجھے چپل سے بھی پیٹا ،مریض کے ساتھ اسپتال کا یہ رویہ دیکھ کر میں ہکا بکا رہ گئی ،اس پر میرے بھائی نے شدید احتجاج بھی کیا لیکن ان پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوا، حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے میں فوراً TKHAN نرسنگ ہوم پہنچی جہاں ڈاکٹروں نے میری جانچ کی اور پیٹ میں پل رہے بچے کی موت کی خبر دی،رضوانہ پر گزری ہوئی یہ وحشت نا ک واردات سرکاری مراحل سے گزر کر جھار کھنڈ کے وزیر اعلیٰ تک پہنچی ہے ،اسے انڈیا کے معروف میڈیا ہاوز انڈین ایکسپریس نے کور کیا ہے،مسلم دشمنی اور مذہبی تعصبیت پر مبنی یہ واقعہ نہیں ہے بلکہ متعدد واقعات پیش آچکے ہیں انہی میں سے ایک راجستھا ن کا بھی ہے ۔
ایک طرف نفرت کے سودا گر نفرت پھیلانے میں مصروف ہیں تو دوسری طرف امت مسلمہ اپنی بساط و حیثیت کے مطابق بلا لحاظ مذہب وملت انسانوں کی مدد ونصرت اور ان کی خدمت میں دن ورات مصروف ہیں ، دینی ،مذہبی ،رفاہی اور نوجوانوں کی مختلف تنظیمیں مستحق وضرورت مند افراد میں تینوں وقت کا طعام ،ضروری غذائی اشیاء اور روز مرہ کے دیگر سامان تقسیم کرنے میں لگے ہوئے ہیں ، بہت سے مسلمان اپنے اپنے طور پر اڑوس پڑوس اور محلے کے لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں ، کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو شور شرابے سے دور ،تصویر کشی سے احتیاط کرتے ہوئے اور بلا اعلان چپکے چپکے گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں ،یہی نہیں بلکہ ایسی خبریں اخبارات کی زینت بن چکی ہیں جہاں فوت شدہ کو کورونا وائرس کے شبہ میں ان کے افراد خاندان نے کندھا دینے سے انکار کر دیا ،اس کی اطلاع پاکر مسلم نوجوان ہندو میت کے گھر پہنچ کر تعاون کرتے ہوئے کندھا دے کر اسے شمشان گھاٹ تک پہنچاتے ہیں بلکہ ہندوانہ طریقہ پر آخری رسومات بھی انجام دیتے ہیں ،اخبارات اور سوشل میڈیا پر ایسی تصویریں موجود ہیں جن میں دکھایا گیا ہے کہ باریش مسلم نوجوان کرتا پاجامہ اور ٹوپی لگائے ہوئے ہیں ،ہندو میت کو شمشان گھاٹ پہنچارہے ہیں ،جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان مذہبی بنیاد پر نہ کسی سے نفرت کرتے تھے ،نہ کرتے ہیں اور نہ ہی ان کا مذہب انہیں اس کی تعلیم دیتا ہے ،اور یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ باشندگان ہند جس طرح یہاںصدیوں سے گنگاجمنی تہذیب کے ساتھ مل جل کر رہ رہے ہیں وہ آئندہ بھی اسی طرح رہنا چاہتے ہیں اور موجودہ حالات میں ایک دوسرے کی مدد ونصرت کے ذریعہ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ آپسی پیار ومحبت ہی میں زندگی کا سکون اور راحت ہے ۔
افسوس کی بات ہے کہ ملک میں مذہبی نفرت کی آگ بھڑکانے، عداوت کا طوفان برپا کرنے اور انسانیت کو شرمسار کرنے میں کٹر ہندو نظریات کی حامل جماعتوں کے ساتھ جھوٹی اور گودی میڈیا کا بھی اہم رول ادا کر رہی ہے، جھوٹی میڈیا نے تو انسانیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اور اخلاقی وصحافتی ساری حدوں کو پار کرتے ہوئے اس عالمی وباء کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑ نے کی مذموم اور بے ہودہ حرکت کر ڈالی ہے ،جس کے نتیجہ میں کئی ریاستوں میں مسلمانوں کو مذہبی تعصب کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ،کئی علاقوں میں ترکاری اور میوہ فروش مسلمانوں کو تجارت سے روک دیا گیا ہے اور انہیں ہندو اکثرتی آبادی میں جانے پر پابندی لگادی گئی ہے ،بلکہ کئی اسپتالوں میں نام اور مذہب پوچھ کر علاج کیا جانے لگا ہے حتی کہ کورونا سے متاثر مریضوں کے ساتھ بھی امتیازی سلوک برتا جارہا ہے بلکہ مذہب کی بنیاد پر انہیں الگ الگ رکھا جارہا ہے، ہمارے لئے اس سے بڑی شرم کی اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ پوری دنیا کورونا کے مہلک وباء سے لڑنے میں مصروف ہے اور وطن عزیز میں بعض کٹر قسم کے لوگ مذہب کے نام پر آپس میں لوگوں کو لڑانے اور بھڑانے میں مصروف ہیں ،سچ یہ ہے کہ یہاں کی عوام کو کورونا سے اتنا ڈر نہیں ہے جتنا کہ مذہبی تعصبیت پھیلانے والوں سے ڈر ہے،کورونا سے تو صرف متاثرہ شخص فوت ہوسکتا ہے اور مذہبی تعصبیت کے زہریلے وائرس سے نسلیں تباہ وبرباد ہوسکتی ہیں، لاک ڈاؤن میں جہاں لوگ گھروں میں مقید ہیں وہیں بعض شدت پسند عناصر مذہب کے نام پر اخلاقی شٹ ڈاؤن کرکے بد اخلاقی ،ظلم وستم ،جہالت اور مذہبی تعصبیت کو بھڑکانے ملک ومذہب کو بدنام کرنے میں لگے ہوئے ہیں ،قانون کے محافظ اور ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے لوگوں پر سخت قانونی کاروائی کرتے ہوئے انہیں سخت ترین سزا دیں تاکہ ائندہ کوئی ایسی گھناؤنی اور انسانیت سوز حرکت نہ کر سکے ،اگر اس وقت انہیں نظر انداز کیا گیا تو کل تعصبیت کا یہ وائرس اور پھیلے گا اور کورونا سے زیادہ تباہی مچائے گا اور اس کے اثرات سے امن وامان ،سکون وچین تباہ ہو گا ،ملک کی معیشت برباد ہوگی ، ملک بدنام ہوگا ،پھر اس کے بعد اس کا خمیازہ سبھی کو بھگتنا پڑے گا ،جس طرح پانچوں انگلیاں مل کر طاقت بنتی ہیں اسی طرح تمام مذاہب کے یکجا ویکتا ہونے ہی میں ملک طاقتور بن سکتا ہے ،کاش بیمار ذہنوں اور متعصب لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آجائے اور حکمرانوں کی آنکھیں کھل جائے ۔