’’حافظ قرآن‘‘ جس پر ناز کو بھی ناز ہے
ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہزاروں مدارس اسلامیہ میں سال کے تعلیمی اختتام پر رجب المرجب اور شعبان المعظم میں سالانہ جلسے منعقد ہوتے ہیں اور ان جلسوں میں اداروں کے منتظمین کی جانب سے قرآن مجید حفظ کی تکمیل کرنے اور عالمیت وفضیلت مکمل کرنے والے خوش نصیب طلبہ عزیز کو دستار حفظ اور دستار فضیلت سے نوازا جاتا ہے ،یہ مبارک سلسلہ دور اکابر ہی سے چلا آرہا ہے ،ان جلسوں کا مقصد جہاں طلبہ عزیز کے مجاہدوں سے پُر علمی محنتوں کی قدر کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہوتا ہے تو وہیں عوام الناس جن کے گراں قدر تعاون ہی سے مدارس اسلامیہ کا علمی سفر جاری وساری ہے کہ سامنے مدارس کی تعلیمی کارکردگی پیش کرنا ہوتا ہے نیز علماء وحفاظ کا مقام ومرتبہ، دینی تعلیم کی عظمت و اہمیت اور مدارس اسلامیہ کی ضرورت وافادیت سے عوام الناس کو آگاہ کرتے ہوئے ان سے وابستہ رہنے کی طرف ترغیب دلانا ہوتا ہے ،خدا کا شکر ہے اور ہمارے اکابر ؒ کے اخلاص وللہیت اور عظیم قربانیوں کا ثمرہ ہے کہ آج ملک کے چپہ چپہ میں ہزاروں مدارس قائم ہیں اور ان میں ملت اسلامیہ کے لاکھوں بچے اور بچیاں اپنی علمی پیاس بجھانے میں مصروف ہیں ،یقینا مدارس اسلامیہ کے سالانہ جلسوں کی شان ہی کچھ اور ہوتی ہے ،یہ جلسے نورانیت اور روحانیت سے بھر پور اور سادگی کا عملی نمونہ ہوتے ہیں ، گھروںسے دور سالہا سال کی محنت شاقہ کے بعد حفظ قرآن ،عالمیت یا فضیلت کی تکمیل کے بعد جب ان کے سروں پر دستار حفظ یا دستار فضیلت باندھی جاتی ہے تو اس وقت ان کی کیفیت کیا ہوتی ہوگی اسے الفاظ کا جامہ پہنانا مشکل بلکہ بہت ہی مشکل ہے ، یقینا انہیں دیکھ کر جن وبشر ہی نہیں بلکہ ارض وسماء بھی رشک کرتے ہوں گے اور کیوںنہ کریں اس لئے کہ ان حفاظ وعلماء کو جو مقام عطا ہو تا ہے دنیا کی اعلیٰ سے اعلیٰ ڈگری رکھنے والے بھی اس کی گرد کو پا نہیں سکتے،گر چہ ان کا لباس وپوشاک سادہ ہو تا ہے اور ان کے جیب مال ودولت سے خالی ہوتے ہیں مگر ان کے دل ایسی عظیم دولت سے مالامال ہوتے ہیںکہ پوری دنیا مل کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی ،یہ معمولی سادہ لباس میں ملبوس بچے فرش پر حفظ قرآن میں مصروف رہتے ہیں ادھر آسمانوں پر ملائکہ ان کا تذکرہ کر رہے ہوتے ہیں ، ادھر ان کی قرآن سے نسبت ہوتی ہے اور ادھر خالق کی طرف سے رحمت وشفقت کی چادر ان پر ڈالی جاتی ہے ۔
اس امت کی خوش قسمتی ہے کہ اسے آسمانی کتابوں کا تاج یعنی قرآن مجید عطا ہوا ، یہ صرف قرآن مجید ہی کی خصوصیت ہے کہ ایک طرف یہ کتاب اللہ ہے تو دوسری طرف کلام اللہ اور صفت رحمن بھی ہے ،حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے قرآن مجید کو رحمن کا دستر خوان بتایا ہے ، ارشادفرمایا کہ’’یہ قرآن ،اللہ تعالیٰ کا بچھا ہوا دستر خوان ہے ،تو جتنی بار ہوسکے خدا کے اس دستر خوان سے سیراب ہوتے رہو ،بلاشبہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے،یہ تاریکیوں کو ختم کرنے والی روشنی اور شفا دینے والی دواہے،یہ مضبوطی سے تھامنے والوں کا محافظ اور عمل کرنے والوں کیلئے ذریعہ نجات ہے،یہ کتاب کسی سے بے رخی اختیار نہیں کرتی کہ اسے منانے کی ضرورت پڑے،اس میں کوئی ٹیڑا پن نہیں کہ اسے سیدھا کرنے کی ضرورت پیش آئے،اس میں کبھی ختم نہ ہونے والے عجیب معانی کا خزانہ ہے اور یہ ایسا لباس ہے جو کثرت استعمال سے پُرانا نہیں ہوتا(مستدرک حاکم )۔
قرآن مجید جہاں انسانوں کے لئے ہدایت کا اہم ترین ذریعہ ،رشد وہدایت کا پیغام ،کامیابی کا زینہ ہے وہیں اس کا پڑھنا ،یاد کرنا ، سینہ میں محفوظ کرنا اور زبان سے اس کا ورد کرتے رہنا اہم ترین عبادت بلکہ اجر عظیم اور بلند یٔ درجات کا ذریعہ بھی ہے ،احادیث مبارکہ میں قرآن مجید پڑھنے ،یاد رکھنے اور اس پر عمل کرنے والوں کو آخرت کے جو انعامات اور خوشخبریاں سنائی گئیں ہیں جسے سن کر سچے ہر صاحب ایمان کا دل مچل جاتا ہے ،اس کے دل میں شوق وذوق کا داعیہ پیدا ہوتا ہے ،پھر وہ اس کے حصول کے لئے سر دھڑ کی بازی لگادیتا ہے ، سب سے پہلے وہ قرآن مجید کو کسی ماہر معلم کی نگرانی میں تجوید کے ساتھ سیکھنے کی کوشش کرتاہے ، دوم، اسے سینہ میں محفوظ کرنے کی سعی کرتا ہے ،سوم ،اسے سمجھنے کی فکر کرتا ہے اور چہارم ،اس کے مطابق عمل کرنے کی فکر کرتا ہے ،رسول اللہ ؐ نے قرآن مجید کی تلاوت کو افضل ترین عبادت قرار د یتے ہوئے ارشاد فرمایا :افضل عبادۃ امتی قرأۃ القرآن(الاتقان)’’ تلاوت قرآن میری امت کی سب سے بہترین عبادت ہے‘‘، تلاوت قرآن میں مشغول رہنے والوں کی قرآن مجید میں ان الفاظ سے تعرف کی گئی ہے ،ارشاد باری ہے:یَتۡلُونَ آیَاتِ اللّہِ آنَاء اللَّیۡۡلِ وَہُمۡ یَسۡجُدُونَ(اٰل عمران ؛۱۱۳)’’(اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے )وہ لوگ ہیں جو رات کی تنہائی میں تلاوت قرآن کرتے رہتے ہیں‘‘، قرآن مجید کی سماعت کو مومنین کے ایمان میں زیادتی کا سبب بتلایا گیا ہے ،ارشاد باری ہے : وَإِذَا تُلِیَتۡ عَلَیۡۡہِمۡ آیَاتُہٗ زَادَتۡہُمۡ إِیۡمَانًا (انفال:۲) ’’(کامل ایمان رکھنے والے وہ لوگ ہیں )کہ جب اللہ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔
جس کا طرح قرآن مجید کا پڑھنا عبادت ہے اسی طرح اسے حفظ کرنا بھی عبادت بلکہ عظیم سعادت ہے ،اللہ تعالیٰ حافظ قران کو دنیا واخرت میں جن خصوصیات سے نوازنے کا وعدہ فرمایا ہے ان میں سے چند یہ ہیں (۱) نماز کی امامت پر اسے دوسروں پر ترجیح دی جائے گی،چناچہ حضرت ابومسعود انصا ری ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا:لوگوں کی ا مامت وہ کرے جسے سب سے زیادہ قرآن یاد ہو (مسلم) ،(۲) اگر مجبوری کی بنا پر حافظ کے ساتھ کسی اور کو دفن کرنا پڑے تو قبلہ کی جانب حافظ کو اور اس کے پیچھے دوسری میت کو دفن کیا جائے گا،رسول اللہ ؐ غزوہ احد کے جانثاروں کو ایک کپڑے میں کفن دیا اور فرمایا ان میں سے قرآن کس کو زیادہ یاد تھا؟ پس جس کے بارے میں اشارہ کیا جاتا تو لحد میں اسے پہلے اتار تے(بخاری)،(۳) اگر امارت وسربراہی سنبھالنے کی استطاعت ہو تو حافظ قرآن کو ترجیح دی جائے گی،چنانچہ عامر بن واثلہ کہتے ہیں کہ نافع بن عبدالحارث سیدنا عمر فاروق ؓ کو غسفان نامی جگہ پر ملے ،حضر ت عمر ؓ نے انہیں مکہ کا گورنر بنایا ہوا تھا ،تو آپ ؓ نے ان سے پوچھا کہ اس وادی پر کسے سر براہ مقرر کیا جائے ؟ تو نافع نے کہا: ابن ابزی کو !حضرت عمرؓ نے پوچھا :وہ کون ہے؟ نافع نے جواب دیا: وہ ہمارے غلاموں میں سے ایک غلام ہے ،حضرت عمر ؓ نے کہا : تم نے غلاموں کو ان کا سر براہ بنایا ہے؟ ، یہ سن کر نافع نے کہا : وہ قرآن کا قاری یعنی حافظ ہے اور انہیں فرائض (میراث) کا علم بھی ہے ،اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا: تمہارے نبی ؓ نے سچ فرمایا ہے : بیشک اللہ تعالیٰ اس کتاب کی وجہ سے کچھ لوگوں کو عزت سے نوازتا ہے اور دوسروں کو ذلت سے(مسلم) (۴)حافظ قرآن کا جنت میں ٹھکانا وہاں ہوگا جہاں وہ آخری آیت پڑھے گا،حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا: صاحب قرآن (حافظ قرآن) سے کہا جائے گا ،پڑھتے جا اور چڑھتے جا ،اس طرح ٹہر ٹہر کر پڑھ جس طرح دنیا میں پڑھا کرتا تھا،کیونکہ تمہارا ٹھکانا وہیں ہوگا جہاں آخری آیت تو پڑھے گا(ترمذی) (۵) حافظ قرآن فرشتوں کے ساتھ اپنے گھروں میں ہوگا،حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا ؛ اس شخص کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اور قرآن کا حافظ بھی ہے تو وہ نیک محرر فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جو شخص قرآن پڑھتا ہے لیکن قرآن پڑھنا اس کے لئے مشکل ہوجائے تو اس کے لئے دہرا اجر ہے (بخاری) (۶) حافظ قرآن کو معزز تاج اور مکرم لباس پہنایا جائے گا،حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا:قرآن مجید قیامت کے دن آکر کہے گا :پروردگار ! اسے مزین فرمادے ،تو اسے معزز تاج پہنایا جائے گا پھر قرآن کہے گا: یارب! مزید مزین فرمادے ،تو اسے مکرم لباس پہنایا جائے گا ،پھر قرآن کہے گا؛ یارب! اس سے راضی ہوجا تو اس سے کہا جائے گا پڑھتا جا، چڑھتا جا اور ہر ایک کے پڑھنے پر اس کا حسن دوبالا ہوتا جائے گا(ترمذی) (۷)حافظ قرآن کے لئے شفاعت،حضرت ابومامہ باہلی ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا: قرآن پڑھا کرو؛ کیونکہ یہ اپنے پڑھنے والوں کے لئے قیامت کے دن سفارشی بن کر آئے گا( مسلم) (۸) حافظ قرآن کی خاندان والوں کے حق میں سفارش، حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا : جس نے قرآن پڑھا اور اسے پوری طرح حفظ کر لیا،جس چیز کو قرآن نے حلال ٹہرایا اسے حلال جانا اور جس چیز کو قرآن نے حرام قرار دیا اسے حرام جانا تو اللہ اسے اس قرآن کے ذریعہ جنت میں داخل فرمائے گا اور اس کے خاندان کے دس ایسے لوگوں کے بارے میں اس کی سفارش قبول کرے گا جن پر جہنم حرام ہو چکی تھی(ترمذی) (۹) حافظ قرآن کے والدین کا اعزاز،حضرت معاذ جہنی ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا : جس نے قرآن پڑھا (حفظ کیا)اور اس کی تعلیمات پر عمل کیا تو اس کے والدین کو قیامت کے دن ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی چمک سورج کی اس روشنی سے بھی زیادہ ہوگی جو تمہارے گھروں میں ہوتی ہے ،اگر وہ تمہارے درمیان ہوتا (پھر جب اس کے ماں باپ کا یہ درجہ ہے ) تو خیال کرو خود اس شخص کا جس نے قرآن پر عمل کیا(حفظ) کیا درجہ ہوگا(ابوداؤد)۔
بلاشبہ متعدد احادیث میں حفاظ کرام کی اہمیت و عظمت ،شان ومرتبہ اور دنیا آخرت میں ان کے لئے جو کچھ گراں قدر انعامات کا اعلان کیا گیا ہے اسے پڑھنے اور سننے کے بعد سمجھ میں آتا ہے کہ دنیا میں ان سے زیادہ کوئی اور معزز ومکرم نہیں ہے ،یقینا حفاظ کرام امت کے لئے قابل قدر ہی نہیں بلکہ قابل فخر ہیں ،ان کا جتنا بھی اعزاز واکرام کیا جائے کم ہے ،ان کی جتنی قدردانی کی جائے بہت تھوڑی ہے ،احادیث مبارکہ کے ذریعہ انہیں وہ مقام ملاہے جو کسی بھی بادشاہ کو حاصل نہیں ہے ،دنیا کی ڈگری حاصل کرنے والوں کو بطور انعام واکرام سونے چاندی کا تمغہ دیا جاتا ہے لیکن حفاظ کرام کو دنیا میں منصب امامت اور آخرت میں جنت کی لازوال نعمت سے نوازا جائے گا ،جسے دیکھ کر بڑے بڑے سربراہان مملکت بھی حیرت میں پڑجائیں گے ،چنانچہ ان کی عظمت وافضلیت بتانے اور عوام الناس کو ان کے مقام ومرتبے سے آگاہ کرنے کے لئے اہل مدارس دستار حفظ کے تاج ان کے سروں پر سجاتے ہیں اور عوام الناس کو بتاتے ہیں کہ جس طرح ان کے سروں پر دستار باندھی گئی ہے ہمیشہ انہیں اپنے سروں پر بٹھائے رکھنا ،درحقیقت ان کی عزت قرآن کی عزت ہے اور قرآن کی عزت اللہ کی عزت ہے ،نیز ان کی توہین کرنے سے بچنا کیونکہ ان کی توہین قرآن اور صاحب قرآن کی توہین کے مترادف ہے ،تکمیل قرآن کی مجالس میں شریک ہوکر حفاظ کی عظمت کا اظہار کرنا ہے باعث برکت ہے اور ایسی مبارک محفلوں سے اعراض کرنا نہایت محرومی کی بات ہے ،تکمیل قرآن کی مجالس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عوام کو کس درجہ قرآن سے لگاؤ ہے ،حفاظ کرام صرف اپنے گھر بار اور اعزا واقارب کے لئے ہی قابل فخر نہیں بلکہ پوری امت کے لئے قابل اعزاز ہیں ،سب کا دینی وایمانی فریضہ ہے کہ ان کی دستار بندی کے موقع پر ضرور شرکت کریں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں ،چونکہ تکمیل قرآن کے موقع پر دعا ئیں قبول ہوتی ہیں اس لئے اکابر ؒ اس کا بڑا اہتمام کرتے تھے اور عوام الناس کو ان میں شر یک کرتے تھے ، الحمد للہ یہ مبارک سلسلہ آج بھی جاری ہے ،عوام الناس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی محفلوں میں اپنی شرکت کو یقینی بنائیں ،دوست واحباب کو ساتھ لائیں اور اپنے بچوں کو ان میں شریک کریں تاکہ ان میں بھی قرآن یاد کرنے اور حفظ کرنے کا جذبہ پروان چڑھے ،اس طرح ہم قرآن سے جڑتے جائیں گے ، ہمارا مقدر سنور تا جائے گا ، ہم دنیا عزت پاتے رہیں اور دنیا ہماری گردپا حاصل کرکے خوش ہوتی رہے گی ۔
٭٭٭