اگر محافظ ہی مجرم ۔۔۔۔۔۔۔۔
پولیس POLICE کا لفظ جوں ہی بولاجاتا ہے فوراً ذہن میں خاکی لباس میں ملبوس ایک تصو یر اُبھر کر سامنے آتی ہے، پولیس دنیا کے ہر ملک میں پائی جاتی ہے اور اس کا ایک باضابطہ محکمہ ہے ،پولیس میں بھرتی کے لئے باضابطہ شرائط وقاعد موجود ہیں ، اس کے لئے مستقل ٹرینگ دی جاتی ہے اور صلاحیت و قابلیت کی بنیاد پر اس میں عہدہ متعین کیاجاتا ہے ،پولیس لاطینی زبان کے لفظ Politia سے نکلا ہے ،جس کا حقیقی مطلب شہریت یا شہری ایڈمنسٹریشن ہے،یہ لفظ بذات خود Police سے نکلا ہے ،جس کا مطلب ہے ایک ایسی طاقت یافتہ فورس جس سے شہریوں میں قانون اور نظم وضبط کا بول بالا کیا جاسکے اور جس سے شہریوں کی جان ومال کا تحفظ یقینی بناکر انہیں ایک اچھا اور تہذیب یافتہ ماحول مہیا کیا جاسکے ،پولیس کا تصور رومن ،یونانی یاقدیم چینی بادشاہت میں کسی نا کسی صورت میں موجود تھا ، کہا جاتا ہے کہ پولیس فورس سب سے پہلے فرانس میں اور اس کے بعد انگلینڈ میں بنائی گئی ۔
اسلام کی تاریخ میں حضرت عمر فاروق ؓ کا زمانہ ایک ایسا عہد زریں ہے جو کہ رہتی دنیا تک تمام حکمرانوں کے لئے ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتا ہے،حضرت عمر فاروقؓ اسلامی تاریخ میں پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے ریاست کو باقاعدہ منظم شعبہ جات دئے اور بعد ازاں بہت سی اصلاحات نافذ کیں ،ان اقدامات سے جہاں لوگوں کو تحفظ اور امن وامان فراہم ہوا وہیں کئی لوگوں کو مستقل روزگار بھی فراہم ہوا ،حضرت عمر فاروقؓ نے قیام امن کی خاطر پولیس کے محکمے کی بنیاد رکھی اس سے پہلے شہروں اور قصبوں کی اندرونی حفاظت کا انتظام لوگ خود ہی کرتے تھے ،حضرت عمر فاروقؓ کے قائم کردہ محکمہ پولیس کے آفیسر کو ’’صاحب الاحداث‘‘ کہتے تھے ،حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت ابوہریرہ ؓ کو بحرین میں پولیس کے اختیارات دئے تاکہ دُکاندار ناپ تول میں دھوکہ نہ دیں ،کوئی آدمی سڑک پر مکان نہ بنائے ،جانوروں پر زیادہ بوجھ نہ لادا جائے ،اسی طرح حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت عبداللہ بن عتبہ ؓ کو بازار کی نگرانی کے لئے مقرر کیا (شبلی نعمانی ،الفاروق)،حضرت عمر فاروقؓ اور دیگر خلفاء راشدین ؓ کے دور میں امن وامان قائم تھا،ہر محکمہ نہایت ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ ملک وملت کی خدمت کیا کرتا تھا ، محکمہ پولیس کو عوام دوست ، ہمدرد اور خدمت گزار مانا جاتا تھا ،ان کی موجودگی میں لوگ شریروں کے شر سے بے خوف ہوکر اپنے کام دھندے میں مشغول رہتے تھے،پولیس درحقیقت عوام کے جان ومال کی نہ صرف محافظ تھی بلکہ وہ اپنی جان کی بازی لگا کر لوگوں کی جان بچایا کرتی تھی ۔
عرب اور یورپ کے بہت سے ممالک میں آج بھی پولیس کو عوام کا دوست ماناجاتا ہے ، ان کے اور عوام کے درمیان دوستانہ تعلقات ہیں ،عوام پولیس کو دیکھ کر ایسے خوش ہوتی ہے جیسے کسی قریبی دوست احباب سے ملاقات کے وقت آدمی مسرت کا اظہار کرتا ہے ،وہ عوام کے جان ومال کا مکمل تحفظ کرتی ہے اور ہر طرح کی تکلیف میں ان کی مدد وخدمت کرتی ہے ، وہاں پر عوام وپولیس کو ا یک دو ایک دوسرے کا ہر طرح سے تعاون کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے ،وہاں چھوٹے چھوٹے بچے اپنی مدد کے لئے انہیں بلاتے ہیں اور وہ بلا کسی تاخیر کے ان کی خدمت میں ایک سچے خادم کی حیثیت سے حاضر ہوتے ہیں ،برخلاف ہمارے ملک اور بعض دیگر پڑوسی ممالک کے، یہاں پولیس کا نام لے کر بچوں کو ڈرایا جاتا ہے ،پولیس کی وردی دیکھ کر بچے سہم جاتے ہیں اور گھروں کے باہر کھیلتے ہوئے بچے جب پولیس کو دیکھتے ہیں تو ڈر تے ہوئے دوڑ کر گھر آجاتے ہیں ، ہمارے یہاںمحکمہ پولیس اور اس میں کام کرنے والوں کو اکثر اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے ،انہیں رشوت خور اور عوام پر بے جا ظلم کرنے والے سمجھتے ہیں ،اسی وجہ سے شریف طبیعت کے لوگ اپنے ہونہار بچوں کو اس میں بھرتی کرنے سے گریز کرتے ہیں ،بعض تو یہاں تک کہتے ہیں کہ لوگوں کی ہائے بدعا سب سے زیادہ پولیس ہی کھاتی ہے ،ایسا نہیں ہے کہ پورا محکمہ اور اس کے سارے ہی ملازموں کا انداز ایک جیسا ہے اور ان سب کی عادتیں یکساں ہیں ،چھوٹے بڑے ایسے بہت سے عہدیدار ہیں جنہوں نے عوامی خدمت کا ایک ریکاڈ قائم کیا ہے ، ان کی امانت ودیانت داری کے چرچے بھی ہوئے جس کی وجہ سے محکمہ پولیس کو بلندی عطا کی ہوئی اور اس کا نام روشن ہوا ، ان میں ایسے بھی جانباز گزرے ہیں جنہوں نے ملک وملک کی خاطر ہر خطرہ کا مقابلہ کیا اور جان ہتھیلی پر لے کر ان کی خدمت انجام دی، وہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے مگر ہمیشہ اپنے آپ کو عوام کا خادم ہی تصور کیا،انہوں نے کبھی بھی اپنی وردی کا ناجائز استعمال نہیں کیا ،کسی کی مجبوری کا فائدہ نہیں اٹھایا اور نہ ہی اپنے جیب وپیٹ کو مال حرام سے آباد کیا بلکہ ان میں ایسے بھی ایماندار اور جذبہ خدمت سے سرشار گزرچکے ہیں اور اب بھی موجود ہیں جن کے دل میں انسانیت درد رہتا ہے ،ظرف کشادہ اور مزاج سادہ رکھتے ہیں ،وہ حرص وہوس سے دور رہ کر خدمت کرتے ہیں ،بعض تو وہ ہیں جنہوں نے خاص مواقع بلا لحاظ مذہب وملت عوام کی اپنے جیب خاص سے مدد کی ہے اور انہیں دکھ سے نکال کر سکھ پہنچانے کا کام کیا ہے لیکن یہ وہ لوگ ہیں جنہیں انگلیوں پر شمار کیا جاسکتا ہے ، اس محکمہ میں ایسے خاصی تعداد میں لوگ موجود ہیں جو وردی پہن کر غیر ضروری رعب جھاڑتے ہیں اور عوام سے دوستی اور قربت کے بجائے دوری اختیار کرتے ہیں اور مصیبت میں کام آنے کے بجائے ان کے لئے مصیبت بن جاتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ لوگ انہیں خوش نگاہوں سے نہیں دیکھتے اور ان کے متعلق اچھی رائے نہیں رکھتے ۔
محکمہ پولیس کے لئے ہمارے بزرگوں اور دانشوروں نے جس رنگ کی وردی کا انتخاب کیا تھا وہ اتفاقی نہیں بلکہ نہایت غور وفکر کے بعد ہی اسے منتخب کیا تھا ،خاکی وردی ، خاک یعنی مٹی کے رنگ جیسی ہے ،جس کا مطلب یہ تھا کہ وردی والے ملک کے شہریوں کے ساتھ رنگ ونسل سے بالا تر ہوکر صرف انسانی بنیادوں پر خدمت ومدد کریں گے اور اس سلسلہ میں کسی بھی طرح کا امتیازی سلوک نہیں برتیں گے ، مگر حالات وواقعات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ غیر جانبدار ہوکر کم اور جانبدار ہوکر زیادہ کام کرتے ہیں ، مظلوموں کی مدد کر نے کے بجائے ظالموں کی پشت پناہی بلکہ مدد کرتے ہوئے دکھائے دیتے ہیں ،کمزوروں کی مدد کے بجائے ان کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں ، کسی کی مدد کے لئے مذہب ومشرب دیکھ کر آگے آتے ہیں ،امن وامان قائم کرنے کے بجائے نقض امن کو ہوا دیتے ہیں ، پرنٹ میڈیا اور بہت سے الکٹرانک میڈ یا کے اقتباسات اور تبصرے اس کی گواہی دے رہے ہیں ،محافظوں کا یہ مزاج بہت ہی تشویش ناک ہے ،یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پہلی وردی پہنتے وقت حلف اٹھایا تھا کہ ملک کا تحفظ اور اس میں بس نے والے تمام باشندگان کی بلا لحاظ مذہب وملت حفاظت کریں گے چاہے اس کے لئے ان کی جان ہی چلی جائے ، وہ قوم کے خدمت گزار ہیں اور قوم میں ہر مسلک ومذہب کے لوگ شامل ہیں ،پیر وجوان ،مرد وعورت اور قوم کے مستقبل معصوم بچے اور بچیاں بھی ہیں ،مدد کے وقت مذہب دیکھ کر قدم آگے پڑھانا وردی کے ساتھ ناانصافی اور مجرمانہ حرکت ہے،اگر آپ مذہب کے پابند ہیں تو بہت اچھی بات ،جو شخص جس مزہب کو مانتا ہے اس پر اس مذہب کی پابندی لازم ہے ،ہمارا آئین بھی ہمیں اس کی بھر پور اجازت دیتا ہے اور بلا شبہ کوئی بھی مذہب اپنے ماننے والوں کو کسی کے ساتھ بھی ظلم اور ناانصافی کی تعلیم نہیں دیتا ،اس کے باوجود اگر کسی پر ظلم ہوتا ہے اور مردی پہن کر وہ خاموش کھڑا رہتا ہے یا وہ خود کسی پر ظلم زیادتی کرتا ہے اور کمزور پر اپنی وردی کی طاقت آزماتا ہے تو وہ شخص خو اپنے مذہب کی نظر میں ظالم وجابر اور گناہ گار ہے ۔
ابھی حال ہی میں راجدھانی دہلی میں جو کچھ انسانیت سوز فسادات ہوئے ہیں اس پر سوشل میڈیا ،پرنٹ میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے پولیس کے رول پر زبردست سوالیہ نشان لگائے ہیں ،سوشل میڈیا پر ایسے بہت سے تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہوئے ہیں جن میں دکھایا گیا ہے کہ پولیس کی موجودگی میں غنڈہ عناصر دکانات ،مکانات جلانے میں مصروف ہیں اور ٹولیوں کی شکل میں غنڈہ گرد غنڈہ گردی میں مصروف ہیں، جامعہ ملیہ میں فائرنگ ہوتی ہے اور شاہین باغ میں ایک بدمعاش بندوق کے ساتھ دندناتے ہوئے پھرتا ہے اور پولیس کا ایک جم غفیر اس کے پیچھے کسی حفاظتی دستے کی طرح چل رہا ہے ،تصویروں میں دیکھ ایسا لگ رہا تھا کہ کسی فلم کی شوٹنگ ہورہی ہے ، بدمعاش قسم کے لوگ اور فسادات کی آگ بھڑکانے والے کھلے عام ،ٹی وی شوز میں قتل وغارت گری کی بات کرتے ہیں اور پولیس یہ کہہ کر دامن جھاڑ لیتی ہے کہ انہیں اس کا علم نہیں ہے ،کیا یہ بدمعاشوں کی حوصلہ فزائی نہیں ہے؟،کیا یہ غنڈہ عناصر کی پشت پناہی نہیں ہے ؟ کیا یہ امن کے بگاڑ نے میں تعاون نہیں ہے ؟ ملک کا متحرک محکمہ اس سے اس طرح کیسے غافل رہ سکتا ہے ؟ بلکہ ، بعض تصاویر دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ خودپولیس والوں کے ہاتھوں میں پتھر ہیں اور بعض مقامات پر وردی میں ملبوس لوگوں کو سڑکوں پر لگے سی سی کیمرے توڑ پھوڑ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور ان تصاویر کے نیچے کسی لکھنے والے نے یہ لکھا ہے کہ ’’وردی میں غنڈہ گردی ،اگر محافظ ہی مجرم بن جائیں تو پھر مظلوم کس سے فریاد کریں ‘‘ ،یہ کس قدر تشویش ناک بات ہے کہ پولیس پر سے عوام کا اعتماد اٹھتا جارہا ہے اور لوگ انہیں قدرکی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں ، یہ حقیقت ہے کہ جس جگہ کی پولیس عوام کا حقیقی درد رکھتی ہے اور ان کی حفاظت کو اپنا فریضہ سمجھتی ہے اسے عوام دوست کہا جاتا ہے اور ان مقامات پر دیگر کے مقابلہ میں جرائم کم ہوتے ہیں اور امن وسکون کو بالادستی حاصل رہتی ہے ، دہلی فساد کو دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ جب ملک کی راج دھانی میں اس طرح کے دنگے اور فساد ہوسکتے ہیں جس نے لگ بھگ پچاس گھنٹوں میں دہلی کا نقشہ ہی بدل کر رہ دیا تو پھر دیگر علاقوں میں کیا کچھ نہیں ہو سکتا جہاں پولیس کو پہنچنے میں لگ بھگ دوچار گھنٹے لگتے ہیں ،لاکھوں کی املاک کا نقصان اور دودرجنوں جانوں کا تلف ،چاہے نقصان کسی کا بھی ہو اور مرنے والا چاہے کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو ،افسوس کی بات ہے کہ مرنے والا تو ہندوستانی تھا اور مارنے والا بھی ہندوستانی ہی تھا ، یہ ملک کا نقصان نہیں تو اور کیا ہے ،دنیا جہاں ہندوستانی رہتے ہیں ان کا تو سر شرم سے جھگ گیا ہوگا ،وہ مقامی لوگوں کو کیا جواب دیتے ہوں گے ،جن کے دکانات جل کر خاکستر ہو گئے ،جن کے مکانات تباہ وبرباد ہوگئے اور جن کے باپ ،بھائی ،بیٹا یا پھر شوہر ہمیشہ کی نیند سوگئے ان کا کیا حال ہوا ہوگا اور ان پر کیا بیت رہی ہوگی ، معصوم بچے اپنے باپ کے انتظار میں تھے انہیں کیا پتہ کہ ان کا باپ گھر سے بہت دور جا چکا ہے ،ماں باپ جس لخت جگر کے سہارے زندگی کے دن گن رہے تھے اس بڑ ھاپے میں ان کے لخت جگر نے انہیں داغ مفارقت دے گیا ،جوان عورت کا سہاگ چھن گیا اور اس کے آنکھوں سے بہنے والے آنسو ؤں کو کوئی پوچھنے والا نہ رہا ،ذرا تصور تو کیجئے بدن میں کپکپی ،آنکھوں میں اندھیری اور دل غم سے بوجھل ہو جائے گا ، اگر بالفرض مجرمین بچ بھی جائیں لیکن ضرور ان معصوموں کی آئیں اور بدعائیں انہیں کیفر کردار تک پہنچا کر رہے گی ،کاش پولیس چوکس رہتی اور نہایت مستعدی کے ساتھ حالات پر قابو پاتی،پولیس کی ذمہ داری تھی کہ ایسے حالات ہی پیدا نہ ہونے دیتی اور اگر ہوتے بھی تو اس پر جلد ازجلد قابو پالیتی اور مجرموں کو سخت اور جلد عبرتناک سزائیں دیتی تاکہ آئندہ درندگی کی کسی کی ہمت نہ ہو تی ،وزارت داخلہ اور محکمہ پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں امن وامان برقرار رکھنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائیں ، آئندہ کے لئے لائحہ عمل تیار کریں ،امن وامان بر قرار رکھیں ،مجرموں پر سخت نظر رکھیں ، زہریلی زبان رکھنے والوں پر لگام لگائیں ، عوام کے حقیقی ہمدرد بن کر کام کریں ، جو کچھ ہوا وہ آئندہ نہ ہو ورنہ تو مجرمین کے ساتھ یہ بھی شمار کئے جائیں گے اور عوام کا ان پر سے اعتماد اٹھ جائے گا ،جان تو بہرے حال جان ہی ہے چاہے جس کی ہو ،انسان تو بہرے حال انسان ہی ہے چاہے جو ہو اور شہری تو بہرے حال اسی ملک کا باشندہ ہے چاہے کسی دیہات ،شہر یا صوبے کا ہو، اگر قانون وامن کے محافظ ہی اپنے ہاتھ پیر پاندھ لیں تو پھر عوام کا خدا ہی حافظ ہے ۔
٭٭٭٭