اسلامیات

’’مقدس سفر کے معزز مسافر ‘‘

اسلام خدا کا پسندیدہ دین ہے ،یہ دین حنیف اور دین فطرت ہے ،اس میں داخلہ خالق سے تعلق اور دنیا وآخرت میں کامیابی کی علامت بلکہ ضمانت ہے ، کیونکہ اسلام خالق ومالک سے وفاداری کے اقرار کا نام ہے ، جب کوئی اسلام قبول کرتا ہے اور زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کرتا ہے کہ میرا خالق ومالک ’’ اللہ ‘‘ ہے ،میں اس کا غلام ہوں اور وہ میرا آقا ہے ،اس کے حکم کی تعمیل میرا فرض ہے ،میرا جینا مرنا سب اسی کے لئے ہے ، تو دراصل قبول اسلام محبت کا پہلا درجہ ہے ،اسلام قبول کرنے کے بعد ہر مسلمان اور صاحب ایمان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض ہوجاتی ہیں ،جن کا ہر حال میں اداکرنا ضروری ہوتا ہے، نماز اسلام کا دوسرا اہم اور بنیادی رکن ہے جو بندہ کا اپنے معبود سے مضبوط رابطہ اور والہانہ محبت اور تعلق کا اظہار ہے ،پانچ وقت دربار خداوندی میں حاضر ہوکر بندہ اپنے رب سے بے پناہ محبت وچاہت کا اظہار کرتا ہے ، دراصل نماز محبت کا دوسرا درجہ ہے ،زکوٰۃ اسلام کا تیسرا اہم اور بنیادی رکن ہے جس کا تعلق مالداروں سے ہے ،بحکم خداوندی مال خرچ کرکے بندہ رب سے اپنی مزید چاہت اور غیر معمولی محبت کا اظہار کرتا ہے اور مال کو اس کے نام پر نچھاور کرکے اپنی عملی محبت کا ثبوت دیتا ہے ، دراصل زکوٰۃ محبت کا تیسرا درجہ ہے، روزہ اسلام کا چوتھا بنیادی اور اہم رکن ہے ،اہل ایمان پر رمضان میں پورے مہینے کے روزے فرض ہیں ،روزہ دراصل خدا سے بے پناہ محبت وچاہت کا نرالہ انداز ہے ، وہ اپنے محبوب کی چاہت ومحبت میں اس قدر گم ہوجاتا ہے کہ اسے کھانے پینے کا بھی خیال نہیں رہتا ہے ،صبح سے شام تک وہ بھوکا پیاسا رہ کر اپنے محبوب سے غیر معمولی محبت وچاہت کا اظہار کرتا ہے ، دراصل روزہ محبت کا چوتھا درجہ ہے ،حج اسلام کا پانچواں بنیادی اور اہم ترین رکن ہے ،جو صاحب استطاعت پر پوری زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے ،بندہ جب سفر حج پر نکلتا ہے تو وہ محبت وچاہت کے حدود پار کرکے دیوانگی کی وادیوں میں قدم رکھتا ہے جہاں صرف وہ اور اس کا محبوب ہوتا ہے،وہ گھر بار ،دوست احباب ،مال ودولت اور ملک ووطن کو چھوڑ کر تن پر معمولی چادر ڈالے ،کھلا سر محبوب سے ملاقات کے لئے نکل پڑتا ہے ،اس کی زبان پر بس محبوب کے نام کی رٹ ہوتی ہے ،وہ زور زور سے لبیک لبیک کہتا رہتا ہے ،اس کی یہ محبت وچاہت قابل دید بلکہ قابل رشک ہوتی ہے ،دراصل حج محبت کی انتہا ء کا نام ہے۔
قرآن مجید میں حج کے متعلق باری تعالیٰ کا ارشاد ہے :الۡحَجُّ أَشۡہُرٌ مَّعۡلُوۡمَاتٌ فَمَنۡ فَرَضَ فِیۡہِنَّ الۡحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوۡقَ وَلاَ جِدَالَ فِیۡ الۡحَجِّ وَمَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡۡرٍ یَعۡلَمۡہُ اللّٰہُ (البقرہ:۱۹۷)’’حج کے چند متعین مہینے ہیں،(شوال سے لے کر ذی الحجہ کی دسویں رات تک)پس جو شخص ان مہینوں میں (احرام باندھ کر)اپنے اوپر حج لازم کر لے تو اس کو حج کے دوران فحش بات کرنا، کوئی گناہ کرنا اور جھگڑا کرنا جائز نہیں اور تم جو نیکی کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے ‘‘، یوں تو ماہ شوال شروع ہوتے ہی حج کی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہوتی ہیں ،جگہ جگہ عازمین حج کے تربیتی اجتماعات منعقد کئے جاتے ہیں اور اس کے ذریعہ انہیں مناسک حج کی تربیت دی جاتی ہے ،رمضان المبارک ہی سے مختلف مقامات پر علماء کرام اور مفتیان عظام کی رہنمائی میں عازمین حج مناسک حج سیکھنے میں مصروف ہوچکے ہیں، رمضان المبارک کے بعد ماہ شوال اور پھر ماہ ذی قعدہ شروع ہوکر جیسے جیسے دن گزر تے جارہے ہیں دن بدن عازمین حج کی تیاریوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ، خوش نصیب عازمین حج دن رات مقدس سفر کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں ،کوئی احرام خرید نے میں مصروف ہے تو کوئی سازوسامان جمانے میں لگا ہوا ہے تو کوئی رشتہ دار ،دوست احباب اور متعلقین سے ملاقات کرتے ہوئے جانی انجانی غلطیوں کی معافی تلافی ،سفر کی کامیابی اور حج کی قبولیت کے لئے دعا کی درخواست میں لگا ہوا ہے ، حج بیت اللہ کے بلاوے کے ساتھ ہی عازمین حج کی کیفیت ہی بدل جاتی ہے ، چہرہ خوشی سے دمک اٹھتا ہے ، آنکھیں چمک اٹھی ہیں،دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہیں، زبان شکر میں تر نظر آتی ہے ، لب حمد باری میں ہلنے لگتے ہیں اور پورا وجود سر زمین مقدس کی زیارت اور دیدار بیت اللہ کے لئے بے تاب نظر آتاہے ،یہ کیفیت دراصل ایمانی حرارت اور غیر معمولی محبت وتعلق کی نشانی ہے ، سرزمین مقدسہ کا قیام ،حرمین شریفین کی زیارت ، دیدار بیت اللہ شرف اور دربار رسالت مآبؐ میں حاضری بندہ ٔ مومن کے زندگی کی سب سے بڑی خواہش وآرزو ہوتی ہے،عازمین حج دنیا کے وہ خوش نصیب ،قابل قدر بلکہ قابل رشک لوگ ہیں جنہیں حج بیت اللہ ،روضۂ اطہرؐ اور مقامات مقدسہ کی زیارت کا شرف حاصل ہوتا ہے ،یقینا حج بیت اللہ خدا سے عشق ومحبت بلکہ دیوانگی کی حد تک تعلق کے اظہار کا ذریعہ ہے ،حاجی دوران سفر ، قیام حرمین شریفین اور اپنے گھر واپسی تک جس کیفیت سے دوچار رہتا ہے اس کے اظہار کے لئے الفاظ ناکافی ہیں،سمجھنے کے لئے بس اتنا کافی ہے کہ جس طرح سحرائی مسافر شدت پیاس میں پانی کے ایک ایک بوند سے حلق تر کر کے جو لذت محسوس کرتا ہے مناسک حج اور خدا کے گھر کا طواف کرنے والے کو اس سے کہیں زیادہ روحانی مزا اور قلبی لطف حاصل ہوتا ہے ،وہ جانتا ہے کہ آج وہ سب اعلیٰ وارفع ، سب سے بلند وبالا اور کائنات کے رب کا مہمان بناہے ،یہ وہ سعادت اور خوش بختی ہے جس پر ساری خوشی ومسرت قربان ہے۔
دنیا میں حج کی عبادت کا سلسلہ سید نا ادم ؑ کے زمانہ سے جاری ہے ،روایات میں ہے کہ سیدنا آدمؑ نے ہندوستان سے مکہ معظمہ آکر اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتوں کی رہنمائی میں بیت اللہ شریف کی بنیاد یں قائم فرمائیں اور حج ادا فرمایا اور اس کے بعد برابر حجاز مقدس کے اسفار فرماتے رہے جن میں سے ۳۰۰ سو اسفار حج کے لئے تھے اور ۷۰۰ سو اسفار عمرے کے لئے تھے ( کتاب المسائل بحوالہ اعیان الحجاج) حج اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے ،یہ دین کا اہم فریضہ ہے ، سن ۹ ہجری میں حج فرض کیا گیا ، حج کی فرضیت کے متعلق قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے: وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الۡبَیۡۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ إِلَیۡۡہِ سَبِیۡلاً وَمَنۡ کَفَرَ فَإِنَّ اللّٰہ غَنِیٌّ عَنِ الۡعَالَمِیۡنَ(ال عمران ۹۷)’’اور جو لوگ بیت اللہ تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں ،ان پر اس کا حج فرض ہے ،اور جو انکار کرے تو یقینا اللہ پوری دنیا سے بے نیاز ہیں‘‘،صاحب استطاعت پر پوری زندگی میں صرف ایک مرتبہ حج فرض ہے ،اگر کوئی اس کے بعد بھی حج کرنا چاہے تو یہ اس کے لئے نفل ہوگا، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرم ؐ ہم کو خطا ب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:اے لوگو!اللہ تعالیٰ نے تم پر حج کو فرض فرمایا ہے ،تو ایک صحابی حضرت اقرع بن حابسؓ نے کھڑے ہوکر عرض کیا کہ: اے اللہ کے رسولؐ! کیا ہر سال میں حج فرض ہے؟تو نبی ا کرمؐ نے ارشاد فرمایا’’اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال حج فرض ہوجاتا اور اگر ایسا ہوتا تو تم اس پر عمل نہ کرپاتے اور تمہارے بس میں بھی نہیں تھا کہ تم اس پر عمل کرتے ،حج تو بس ایک مرتبہ فرض ہے اور اس سے زیادہ نفل ہے‘‘(مسند احمد:۲۶۴۲)،جس شخص پر حج فرض ہوجائے تو اسے اداکرنے میں عجلت سے کام لینا چاہیے ،حج کی ادائیگی میں کسی بھی چیز کو بہانا بناکر تاخیر کرنامناسب نہیں،نبی اکرمؐ کا ارشاد ہے کہ:فریضہ ٔ حج کے ادا کرنے میںجلدی کرو؛کیونکہ تم میں سے کسی کو نہیں معلوم کہ آئندہ کیا رکاوٹ پیش آجائے(مسند احمد:۸۲۶۷)،ایک دوسری حدیث میں آپؐ نے فریضہ ٔ حج کی ادائیگی میں جلدی کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اشاد فرمایا :من اراد الحج فلیتعجل(ابوداؤد:۱۷۳۲ )،عموماً دیکھا جاتا ہے کہ حج فرض ہونے کے باوجود بھی لوگ اس کی ادائیگی میں تاخیر کرتے ہیں ،بعض لوگ اولاد کی شادیوں کی وجہ سے ،تو بعض حضرات وظیفہ ہونے کا انتظار کرتے ہیں،بعضے لوگ جائداد کی تقسیم کے بعد تو بعض حضرات مکان کی تعمیر یا پھر کاروبار کے جمنے کا انتظار کرتے ہیں ،لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ ان وجو ہات کو بنیاد بناکر فریضہ ٔ حج کی ادائیگی میں تاخیر کرنا شرعاً درست نہیں ،نبی اکرم ؐ نے اس شخص کو سخت الفاظ میں وعید سنائی ہے جو استطاعت کے باوجود حج کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہے اور مختلف بہانے بناتا رہتا ہے، نبی اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا کہ:جو شخص زاد راہ اور بیت اللہ شریف تک پہنچانے والی سواری پر قادر ہو پھر بھی حج نہ کرے تو اس پر کچھ نہیں کہ یہودی ہوکر مرے یا عیسائی ہوکر،اور یہ بات اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’ وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الۡبَیۡۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ إِلَیۡۡہِ سَبِیۡلا(ال عمران:۹۷)اور اللہ کے لئے لوگوں پر بیت اللہ کا حج کرنا ہے جو شخص وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو‘‘(ترمذی :۸۱۷)،اس حدیث میں استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والے کو کس قدر سخت وعید سنائی گئی ہے کہ وہ یہود ی یانصرانی ہوکر مر ے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،یہود ونصاریٰ وہ قومیں ہیں جن پر اللہ نے اپنی پھٹکار اور لعنت فرمائی ہے،ان کے بُرے کرتوت ،ہٹ دھرمی ،بدسلوکی ،حد سے تجاوز ، اور کھلے عام شریعت کی نافرمانی کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان پر ذلت و رسوائی کو مسلط کر دیا گیا ہے ۔
حاجی کے لئے حج خدا کی طرف سے انعامات کا تحفہ ،سابقہ گناہوں سے معافی کا وصیلہ اور مغفرت کا عظیم ذریعہ ہے،اللہ تعالیٰ نے اس اہم ترین عبادت کو اپنے بندوں کے لئے مغفرت کا وصیلہ اور بہانہ بناکر زندگی میں ایک مرتبہ فرض فرمایا ہے تاکہ اس کی ادائیگی کے ذریعہ بندے اپنے گناہوں سے دھل کر پاک وصاف ہوجائیں اور ان کی گردن پر گناہوں کا بوجھ باقی نہ رہے ،نبی اکرم ؐ نے حج کو مغفرت کا بڑا ذریعہ بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا:من حج فلم یرفث ولم یفسق رجع من ذنوبہ کیوم ولدتہ امہ( مسلم:۲۴۰۴)’’جو شخص اس طرح حج کرے کہ اس میں کوئی گناہ کا کام اور بے حیائی کی بات نہ کرے تو وہ گناہوں سے ایسے پاک ہوکر واپس ہوتا ہے جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے‘‘ ،یہی نہیں بلکہ حج اس قدر مبارک عبادت ہے کہ جس میں حاجی کے لئے بلاتوقف رحمتوں کی بارشیں برستی رہتی ہیںاور یہ سلسلہ ان کے گھر سے نکلنے سے ہی شروع ہوجاتا ہے اور حج کے افعال تکمیل کرنے تک جاری رہتا ہے ، حاجی کے لئے ہر قدم پر نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور ہر رکن کی ادائیگی پر خصوصی انعام دیا جاتا ہے ،ایک حدیث میں نبی اکرم ؐ نے حاجی کے لئے خدا کی طرف سے انعام واکرام کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:حاجی کے لئے ہر قدم پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور ایک غلطی معاف کی جاتی ہے،اور طواف کے بعد دورکعت پڑھنے پر بنی اسماعیل ؑ کے غلام آزاد کر نے کا ثواب دیا جاتا ہے،اور صفا ومروہ کی سعی کا ثواب ستر غلاموں کو آزاد کرنے کے برابر ہے،اور جب بندہ میدان عرفات میں وقوف کرتا ہے تو اس دن اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماکر فرشتوں کے سامنے فخر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ میرے پراگندہ بالوں والے بندے دنیا کے کونے کونے سے میری جنت کی امید لگا کر میرے پاس آئے ہیں،لہذا ان کے گناہ اگر چہ ریت کے ذرات ،بارش کے قطرات اور سمندر کے جھاگ کے برابر بھی ہوں پھر بھی میں انہیں بخش دوں گا ،پس اے میرے بندو! جاؤ بخشے بخشائے واپس جاؤ تم بھی بخش دئیے گئے اور جس کے لئے تم نے بخشش کی سفارش کی ان کی بھی مغفرت کردی گئی ہے،اورشیطان کو کنکری مارنے کے بدلے ہر کنکری پر کسی بڑے گناہ کی معافی ہوتی ہے ،اور قربانی کا ثواب آخرت کے ذخیرہ میں جمع کیا جاتا ہے،اور احرام کھولنے کے وقت سر منڈانے پر ہر بال کے بدلے ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور ایک بُرائی مٹائی جاتی ہے،اور طواف زیارت کے بعد گناہوں سے بالکل پاک وصاف کر دیا جاتا ہے اور فرشتہ حاجی کے دونوں شانوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر کہتا ہے کہ اب آئندہ کے لئے ازسر نو اعمال کرو،تمہارے گزشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں(مسند البزار:۶۱۷۷) ۔
یہی وجہ ہے حاجی جب ادائیگیٔ فرض کے بعد لوٹتا ہے تو گناہوں سے پاک صاف اور دھلا دھلایا ہوا ہوتا ہے ،اس کانامۂ اعمال گناہوں سے خالی ہوتا ہے ،رحمت خداوندی کا اس پر سایہ ہوتا ہے ، جب وہ دعا کرتا ہے تو اس کی دعا قبول کی جاتی ہے ، نبی اکرم ؐکا ارشاد ہے کہ حج وعمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں ،اللہ نے انہیں بلایا جس پر انہوں نے لبیک کہا اور یہ لوگ جو مانگیں گے اللہ تعالیٰ انہیں عطا کریں گے(ابن ماجہ: ۲۸۹۲)،حضرت ابن عباس ؓ کی روایت جن میں پانچ لوگوں کی دعائیں قبول ہونے کا ذکر ہے ان میں سے ایک حاجی بھی ہے (البحر العمیق :۱؍۷۰)،انہیں احادیث کی وجہ سے حجاج سے دعا کی درخواست کی جاتی ہے ،حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا’’جب تم حاجی سے ملو تو اس سے سلام ومصافحہ کرو اور اس کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اپنے لئے استغفار کراؤ کیونکہ وہ بخشا بخشایا ہے‘‘(مسند احمد:۵۴۹۷)،یہ وہ عظیم خوشخبریاں ہیں جو صرف اور صرف حجاج کے لئے خاص ہیں ،ان کے ذریعہ صااحب استطاعت کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ اولین فرصت میں حج کا فریضہ انجام دے اور اس زمرہ میں اپنے کو شامل کر لے جنہیں رحمت وبرکت ،عنایت ونوازش اور بخشش ومغفرت کی سوغات سنائی گئی ہے ،اگر کسی نے موقع ملنے کے باوجود بھی حج ادانہ کیا اور خوش نصیبوں میں اپنا نام شامل نہ کروایا تو زمین کے اوپر اور آسمان کے نیچے اس سے بڑا بدبخت کوئی اور نہیں،عشق ومحبت کے متوالے ،حرم شریفین میں حاضری کے آرزو مند اور روضۂ اقدس پر حاضری کے دیوانے تو عازمین حج وعمرہ کو دیکھ کر ہی عشق ومحبت میں مچلنے لگتے ہیں ،احرام میں ملبوس عازمین حج کے قافلے کو دیکھ کر دل کی دھڑکنیں کروٹیں لینے لگتی ہے اور وہ دل سے رب کعبہ کو آواز دیتے ہیں ،رب سے اپنی حاضری کی درخواست پیش کرتے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ اے پروردگار جس طرح آپ نے انہیں اپنے گھر بلایا ہے ،اپنے گھر کے طواف کا موقع عنایت فرمایا ہے اور اپنے حبیب ؐکے روضہ کی حاضری کی سعادت مرحمت فرمائی ہے ،ہم کو بھی ان خوش نصیبوں میں شامل فرمالے گر چہ ہم ظاہری اسباب بھی نہیں رکھتے لیکن آپ کی قدرت سے کوئی چیز بعید نہیں ہے ،آپ مسبب الاسباب ہیں ،حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے رب سے جیسی امید رکھتا ہے تو رب بھی اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہے ، موسم حج شروع ہوچکا ہے ،عازمین حج سفر مقدس کی تیاریوں میں مصروف اور مگن ہیں ،جو استطاعت رکھتے ہیں انہیں کوشش کرنی چاہیے اور اولین فرصت میں سعادت حج بیت اللہ سے بہرور ہونا چاہیے اور جو ظاہری اسباب نہیں رکھتے ہیں انہیں کم ازکم دل میں حج بیت اللہ کی آرزو رکھنی چاہیے اور محبت وعقیدت عازمین حج سے ملاقات کرتے ہوئے دعاؤں کی درخواست کرنی چاہیے ،کیا بعید کہ آئندہ ہمارا نام بھی حجاج کی فہرست میں شامل ہوجائے اور ہم بھی سعادت حج بیت اللہ سے مشرف ہوجائیں ،یقینا حج بیت اللہ کی سعادت محض خدا کے فضل وکرم ،اس کی عنایت اور اس کے بلاوے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے ،وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے منتخب کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے اپنے گھر کے دیدار اور اپنے محبوب کے روضے کی زیارت کا شرف عطا کرتا ہے ،بہت سے وہ لوگ ہیں جن کے پاس مال ودولت بھی ہے ،صحت وتندرستی بھی ہے اور اسباب ووسائل بھی ہیں لیکن اس کے باوجود حج بیت اللہ کی سعادت سے محروم ہیں ،معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی طرف سے اجازت نہیں ہے اور جنہیں اجازت مل جاتی ہے اسباب خود بخود بن جاتے ہیں ،جنہیں عازمین حج کی فہرست میں جگہ مل جائے انہیں اپنے نصیب پر خوش ہونا چاہیے اور خدا کا شکر بجالانا چاہیے کہ

شکر ہے تیرا خدایا ،میں تو اس قابل نہ تھا
تونے اپنے گھر بُلایا،میں تو اس قابل نہ تھا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×