اسلامیات

سلام مومن کی پہچان اور باہمی استحکام کی بنیاد

اسلامی احکامات اور اس کی تعلیمات پوری انسانیت کے لئے ضابطہ حیات ، آب حیات ، نعمت غیر مترقبہ ،دولت عظمیٰ ،سکون جاں،زاد راہ ِ زندگی اور راہ نجات ہیں،اسلامی احکامات ،ربانی فرمودات اور نبوی تعلیمات کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ فطرت کی آواز اور انسانی مزاج ومذاق کا آئینہ ہیں ،ایک سچا وسیدھا اور صاف وشفاف زندگی گزارنے کا خوہش مند شخص جس چیز کو پسند کر تا ہے بعینہ انہیں چیزوں کا اسلام حکم دیتا ہے اور جن چیزوں سے وہ بچنا چاہتا ہے ان تمام چیزوں سے بچنے کی وہ تعلیم دیتا ہے، اسلامی احکامات اور اس کی گراں قدر تعلیمات کا جب کوئی گہرائی سے جائزہ لیتا ہے اور اس کی ورق گردانی کرتا ہے تو اسے پڑھ کر اس کا دل زور سے دھڑکتا اور مسرت سے مچلتا ہے اور وہ بے ساختہ پکار اٹھتا ہے کہ اسلام تو فطرت کی آواز اور انسانیت کی پہچان ہے ،اسلام کی خوبی یہ ہے کہ اس کے پاس انسانی زندگی گزارنے کے تمام اصول وضوابط منظم ومرتب انداز میں موجود ہیں ،انسانی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جس میں اسلام نے اس کی رہنمائی نہ کی ہو بلکہ اسلام ببانگ دہل اعلان کرتا ہے کہ ’’ لحد سے مہد ‘‘ تک وہ انسانوں کی رہنمائی ورہبری کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے ،ماحول کی تبدیلی ،ماہ وسال کی گردش ،جغرافیائی اونچ نیچ ،شہر وصحراء کے حدود اور مزاج ومذاق کا تفاوت اس کے اصول وقوانین پر اثر انداز نہیں ہوتا بلکہ اس کے تعلیمات میں ایسا لچک ہے کہ دنیا کے آخری دن تک انسانوں میں جو کچھ تبدیلیاں رو نما ہوتی رہیں گی وہ اسی کے مطابق ان کی رہنمائی کا کام انجام دیتا رہے گا۔
اسلام نے اپنے ماننے والوں کو قدم قدم پر جو ہدایتیں دی ہیں اور زندگی کے جو طور وطریق سکھائے ہیں ان میں ایک اہم چیز ’’سلام ‘‘ ہے جو آپس میں ایک دوسرے سے ملاقات ، بوقت ملاقات اورآغاز گفتگو پر نہایت مبارک ومسعود ،معنیٰ خیز اور سلامتی پر مبنی دعائیہ کلمات ہیں ،سلام دراصل اسلامی شعار ،اس کی تہذیب کی روشن دلیل اور مومن کی پہنچان ہے ، ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت اسلام نے جو کلمات تجویز کئے ہیں اور جن کلمات کا یہ تبادلہ کرتے ہیں یہ صرف اسلام ہی کی خصوصیت اور اسی کی انفرادیت ہے دیگر مذاہب اس سے خالی ہیں ،دیگر مذاہب والے بوقت ملاقات جن الفاظ کا تبادلہ کرتے ہیں نہ اس میں جاذبیت ہے ،نہ خصوصیت اور نہ ہی معنویت بلکہ صرف رسم ہے جسے وہ ادا کرتے ہیں ،مثلا ً زمانہ جاہلیت میں لوگ آپس میں ملاقات کے وقت انعم صباحا( یعنی تمہاری صبح خوشگوار ہو)، کہا کرتے تھے ،ہندو دھرم کے ماننے والے نمستے یا نمسکار (جس کے معنی فخر سے بھرا ہوا سر تمہارے سامنے جھک گیا ،احترام سے جھکنے والا )، کے الفاظ ادا کرتے ہیں ، زمانہ قدیم میں یہود ونصارا سلام وجواب سلام کے لئے اشاروں کا استعمال کرتے تھے ،رومی لوگ سلام کے وقت سر کھول کر جھگ جاتے تھے ،بعض بادشاہوں کے دربار میں سلام کے لئے رکوع کی طرح جھکنا لازمی تھا ، اس وقت مغرب کے یہاں سلام کے لئے گڈمارنگ ،گڈ ایونگ اور گڈ نائٹ جیسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں اور ان کے نقال انہیں کی تقلید کرتے ہوئے بطور سلام انہیں الفاظ کا استعمال کرتے ہیں ، ان سب سے ہٹ کر اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لئے ایسے الفاظ متعین کئے ہیں جن کے الفاظ ومعانی دونوں ہی میں بلا کی جاذبیت ،خصوصیت ،انفرادیت اور ایک دوسرے کے لئے سراپا دُعا ہے،دراصل سلام کے الفاظ انسانوں کے بنائے ہوئے نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کئے گئے ہیں ، چنانچہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو پیدا فرمایا تو اُن سے کہا: جاؤ اور فرشتوں کی بیٹھی ہوئی اس جماعت کو سلام کرو اور سنو کہ وہ تمہیں کیا جواب دیتی ہے وہ( جو جواب دے گی) وہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا جواب ِ سلام ہوگا ،چنانچہ حضرت آدم ؑ گئے اور کہا’’ السلام علیکم ‘‘ فرشتوں نے جواب دیا’’ السلام علیکم ورحمۃ اللہ ‘ ‘ (رسول اللہؐ نے فرمایا)فرشتوں نے حضرت آدمؑ کے سوال کے جواب میں ’’ورحمۃ اللہ ‘‘ کا اضافہ کیا(بخاری) ، اس حدیث شریف کی تشریح میں علماء کرام ؒ فرماتے ہیں کہ یہاں اگر چہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو سلام کے الفاظ نہیں بتائے تھے بلکہ یہ امر ان کی رائے پر چھوڑ دیا تھا پس حضرت آدمؑ نے حق کو پالیا یعنی اللہ تعالیٰ کو جو الفاظ پسند تھے انہیں لفظوں سے حضرت آدم ؑ نے سلام کیا،اس حدیث شریف سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ مسلمانوں کا سلام حضرت آدم ؑ سے ہی چلا ارہا ہے ،یہ فرشتوں کا آپسی سلام ودعا ہے اور اہل جنت کا سلام بھی انہیں الفاظ سے ہوگا، بلکہ ایک حدیث میں سلام کو امت محمدیہ ؐ کی خصوصیت بتائی گئی ہے ، اللہ تعالیٰ نے بطور خاص یہ تحفہ اس امت کو عطا فرمایا پچھلی کسی امت کو نہیں دیا گیا ،حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ یہودیوں نے سلام اور آمین پر جتنا حسد کیا ہے اتنا کسی اور چیز پر حسد نہیں کیا(ابن ماجہ) ۔
سلام اسلامی تعلیمات کا اہم ترین حصہ ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ تو بجا ہوگا کہ یہ اسلامی معاشرے کی اولین تعلیم ہے ،رسول اللہ ؐ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو سب سے پہلے صحابہؓ کو جن باتوں کی تلقین فرمائی ان میں سے ایک ’’سلام‘‘ ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ؐ مدینہ منورہ تشریف لائے تو میں آپ کی زیارت کے لئے آیا،جب چہرہ انور پر نظر پڑی تو یقین ہوگیا کہ یہ کسی دروغ گو(جھوٹے) کا چہرہ نہیں ہو سکتا ،اس وقت آپ ؐ نے سب سے پہلی جو بات ارشاد فرمائی وہ یہ تھی : اے لوگو! سلام کو عام کرو ،کھانا کھلاؤ ،صلہ رحمی کرو اور جب لوگ سو جائیں تو اٹھ کر نماز(تہجد) پڑھا کرو (اگر تم نے ایسا کر لیا )تو تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے(شعب الایمان) ، ابن سلام ؓ یہود کے ایک بڑے عالم تھے ،یہود یوں میں ان کا ایک خاص مقام تھا ، یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ دولت سلام سے مالامال نہیں ہوئے تھے ،رسول اللہ ؐ کی زیارت کی غرض سے آئے تھے ،آپ ؐ کے چہرہ اقدس کو دیکھتے ہی پہچان گئے کہ یہ تو حق وصداقت کا پیکر ہے ، کیونکہ چہرہ انسان کی حقیقت کا پتا دیتا ہے ،آپ ؐ کا رخ انور ہی نبوت کی دلیل ہے ،اس کے بعد آپ ؐ نے جن باتوں کی تلقین فرمائی یہ وہ باتیں تھیں جس سے انسانیت کی قدر معلوم ہوتی ہے،یہ وہی شخص کہہ سکتا تھا جو انسانیت سے ہمدردی ،پیار اور محبت رکھتا ہو ،جو آپسی میل ملاپ کا جذبہ رکھتا ہو اور جس کے دل میں پیار کا یک دریا بہتا ہو ،مذکورہ چار باتوں میں سے ایک سلام بھی ہے ، سلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنوں کو مزید اپنا بناتا ہے ،غیروں میں محبت کا بیج بوتا ہے اور نفرتوں کی دیوار گراتا ہے اور الفتوں کے پل تعمیر کرتا ہے ، جو شخص مذکورہ چاروں چیزوں کو اپنا لیتا ہے وہ یقینا بہت کچھ پالیتا ہے ،کیونکہ سلام سے سلامتی حاصل ہوتی ہے،طعام سے قلب مطمئن ہوتا ہے ،صلہ رحمی سے رحمن خوش ہوتا ہے اور قیام الیل سے رب کی نزدیکی عطا ہوتی ہے ۔
سلام اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے ، یہ دعائیہ کلمہ ہے ،حسن معاشرت و اخلاق وکردار کا اعلیٰ نمونہ ہے اور آپسی محبت ومودت کے پروان چڑھنے اور دلوں کے جوڑ نے کا اہم ترین بلکہ ربانی نسخہ ہے ، چنانچہ مسلمانوں کو تعلیم دی گئی ہے کہ وہ سلام کو رواج دیں اور جب کوئی سلام کرے تو اس کا جواب اس سے بہتر دے اور اگر بہتر طور پر نہ دے سکے تو کم ازکم اسی کے الفاظ میں جواب دیں ،قرآن مجید میں ارشاد ہے: وَإِذَا حُیِّیۡۡتُم بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّواۡ بِأَحۡسَنَ مِنۡہَا أَوۡ رُدُّوہَا( النساء: ۸۶)’’ اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹادو‘‘،اس ایت مبارکہ میں اہل ایمان کو حسن معاشرت کی تعلیم دی گئی ہے اور انہیں آپس میں سلام وجواب سلام کی تلقین کی گئی ہے اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ سلام کرنے والا مسلمان جو بھی ہو اس کے سلام کا جواب دینا چاہیے ،تمہارے اخلاق کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اسے جواب میں اس سے بہتر الفاظ کہنا چاہیے جو اس نے کہے ہیں ،اگر ایسا نہیں ہے تو کم ازکم ایمانی رشتہ کا تقاضہ ہے کہ وہی الفاظ لوٹادے جو اس نے تمہارے لئے ادا کئے ہیں ، چونکہ سلام اسلامی شعار ،مومن کی پہنچان اور محبت ومودت کا ذریعہ ہے اس لئے اس کے آپس میںخوب پھیلانے کی تعلیم دی گئی ہے ،رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے : افشو ا السلام بینکم( مسلم)’’ آپس میں خوب سلام پھیلاؤ‘‘،حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ؐ سے دریافت کیا کہ :اہل اسلام کی کونسی خصلت بہتر ہے ؟ آپؐ نے فرمایا: کھانا کھلانااور جنہیں پہچانتے ہو اور جنہیں نہیں پہچانتے ہر دو کو سلام کرنا(بخاری)،اس حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ سلام صرف ان کے لئے نہیں ہے جنہیں آپ پہچانتے ہیں بلکہ ہر مسلمان کو سلام کرنا ہے جنہیں آپ جانتے ہیں یا نہیں جانتے ،جنہیں آپ جانتے ہیں انہیں سلام کرنے سے محبت میں اضافہ ہوگا اور جنہیں نہیں جانتے سلام کرنے سے تعلقات بہتر ہوں گے اور ایک دوسرے کے قلوب میں محبت ونرمی پیدا ہوگی اور آگے چل کر یہ اجتماعی نظام کے مستحکم ہونے کا ذریعہ بنے گا ،اس سلسلہ میں معاشرہ میں عموماً کوتاہی نظر آتی ہے، ہم لوگ صرف انہیں کو سلام کرتے ہیں جن سے جان پہچان رہتی ہے بلکہ بعضے حضرات تو کسی غرض ومقصد کے حصول ہی کے لئے سلام کرتے ہیں ،اس پر عوام وخواص ہر دو کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ،عوام تو عوام بلکہ خواص بھی اس مرض میں مبتلا ہے ،حافظ ابن حجر ؒ جاننے اور نہ جاننے والوں کو سلام کرنے کے فوائد بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس سے اخلاص وللہیت کا اظہار ہوتا ہے،تواضع وانکساری ظاہر ہوتی ہے اور شعائر اسلام کی اشاعت ہوتی ہے ،صرف جان پہچان والوں کو سلام کرنا اور انجان مسلمانوں کو سلام نہ کرنا قیامت کی علامت اور نشانی بتائی گئی ہے ،حضرت ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا: قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ آدمی مسجد کے پاس سے گزرے گا لیکن مسجد میں نماز نہیں پڑھے گا اور یہ کہ آدمی صرف جان پہچان کے لوگوں کو سلام کرے گا(المعجم الکبیر للطبرانی)، آج مسلم معاشرہ کا جائزہ لینے پر کچھ یہی صورت حال سامنے نظر آتی ہے اور علامات قیامت کا ظہور ہوتا دکھائی دیتا ہے ،جن علامتوں کا حدیث میں ذکر کیا گیا ہے ان کا نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے ،لوگ مسجدکے سامنے سے گزرتے ہیں لیکن رک کر نماز نہیں پڑھتے ،بعضے لوگ تو ضروریات سے فارغ ہوکر مسجد سے نکل جاتے ہیں جب کہ جماعت کھڑی ہوتی ہے ، امت مسلمہ کی حالت زار پر رونا آتا ہے ،یہی کچھ حال سلام کا بھی ہے دن بھر میں سینکڑوں کی تعداد میں مسلمانوں کا ایک دوسرے سے سامنا ہوتا رہتا ہے مگر خال خال ہی ایک دوسرے کو سلام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، اگر کسی اجنبی کو سلام کیا جاتا ہے تو وہ تعجبانہ نگاہوں سے دیکھتا ہے اور زبان حال سے کہتا ہے جان نہ پہچان پھر کس لئے سلام ، بعض لوگ تو تشویش میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور نہایت تعجب سے سلام کی غرض وغایت جاننے کی کوشش کرتے ہیں ،جب انہیں بتایا جاتا ہے کہ محض مسلمان ہونے کی وجہ سے اور رشتہ ایمانی کی بناپر انہیں سلام کیا گیا ہے تو یہ سن کر بھی سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے گزر جاتے ہیں ،یہ اس وجہ سے کہ معاشرہ میں سلام کا رواج کم سے کم ہوتا چلاجارہا ہے اور لوگوں نے سلام کو صرف جاننے پہچاننے والوں تک ہی محدود کر دیا ہے،حالانکہ ماضی قریب تک بھی لوگوں کے درمیان کافی سلام کا رواج تھا اور لوگ چلتے پھر تے جانے انجانے لوگوں کو کثرت سے سلام کیا کرتے تھے ،خیر القرون اور دور صحابہ ؓ میں بہت سے حضرات تو محض سلام ودعا کی غرض سے بازار اور عوامی جگہوں پر تشریف لے جاتے تھے ،حضرت ابن عمر ؓ محض سلام کی سنت پر عمل پیرا ہونے کے لئے روزانہ بازار جایا کرتے تھے ، چنانچہ حضرت طفیل ابن اُبی ابن کعب ؓ کے ساتھ آپ ؓ بازار جاتے تھے اور راستہ میں ہر ایک کو سلام کرتے تھے چاہے وہ معمولی درجے کا دکان دار ہو یا بڑا تاجر ،خواہ غریب ہو یاکوئی بھی شخص ،ہر ایک کو سلام کرتے تھے ، ایک روز حضرت طفیلؓ نے بازار آنے کی وجہ پوچھتے ہوئے کہا کہ آپ کہیں رکتے نہیں ہیں ،نہ خرید وفروخت کرتے ہیں ،پھر بازار جانے کا سبب کیا ہے؟ بازار جانے سے بہتر ہے کہ ہم کہیں بیٹھ جاتے( تاکہ احادیث اور دیگر علمی کام کر سکیں) یہ سن کر ابن عمر ؓ نے فرمایا :میں بازار صرف اس لئے جاتا ہوں تاکہ ہر ملنے والے کو سلام کر سکوں (موطا امام مالک)،حضرات صحابہ ؓ ،علماء اور بزرگان دین متینؒ تو سلام کی سنت پر عمل پیرا ہونے کے سلسلہ میں اس قدر حرص اور شوق رکھتے تھے ،برخلاف دور حاضر کے لوگ ایک دوسرے سے محض اس وجہ سے ملاقات کرنے سے گریزکرتے ہیں کہ کہیں سلام نہ کرنا پڑجائے اور اگر کبھی آمنا سامنا بھی ہوتا ہے تو سلام میں پہل کرنے کے بجائے دوسروں کے سلام کا انتظار کرتے ہیں اور سلام میں پہل نہ کرنے پر طعنے دیتے ہیں ، حالانکہ سنت یہ ہے کہ سلام میں پہل کرے ،خود رسول اللہ ؐ ہر چھوٹے بڑے کو سلام کرنے میں پہل فرمایا کرتے تھے،بلکہ سلام میں پہل کرنا تقرب الٰہی کا ذریعہ ہے ، رسول اللہ ؐ سے پوچھا گیا کہ دوشخص ایک دوسرے سے ملیں تو ان میں پہلے سلام کون کرے؟ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا پہل وہ کرے جو دونوں میں اللہ سے زیادہ قریب ہے (ترمذی) ،گویا سلام میں پہل کرنے والے کو نیک کہا گیا ہے اور جو نیک ہوگا یقینا وہی سلام کرنے میں پہل بھی کرے گا اور نیک آدمی خدا کے زیادہ نزدیک ہوتا ہے اور اسی کو تقرب الٰہی حاصل ہوتا ہے ،حضرت عمر بن خطاب ؓ کی روایت میں تو سلام میں پہل کرنے والے کو نناونے رحمتوں کا حقدار کہا گیا ہے۔
ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے ساتھ انسانی ،نسبی ،ملکی ،شہری ،پڑوسی رشتہ ہو سکتا ہے مگر ان تمام رشتوں میں اسلامی ودینی رشتہ سب سے مضبوط ،محترم اور اٹوٹ رشتہ مانا جاتا ہے، یہی وہ رشتہ ہے جو دنیا کے ہر مسلمان کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھتا ہے اور اسی اسلامی ودینی رشتے کو رسول اللہ ؐ نے جسد واحد سے تعبیر فرمایا ہے،اسلام نے بحیثیت مسلمان ایک دوسرے پر چند حقوق عائد کئے ہیں ،متعدد احادیث میں ان حقوق کا ذکر کیا گیا ہے منجملہ ان میں سے ایک سلام بھی ہے ،حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا: مسلمان پر مسلمان کے چھ حقوق ہیں (۱) بیمار ہونے پر عیادت کرنا(۲)فوت ہونے پرنماز جنازہ میں شرکت کرنا(۳) دعوت دے تو اسے قبول کرنا(۴)ملاقات پر سلام کرنا(۵)چھینکنے کے بعد الحمد للہ کہنے پر یرحمک اللہ کے ذریعہ اس کا جواب دینا(۶) اور موجود گی وغیر موجود گی میں اس کی خیر خواہی کرنا(مسلم)،ایک حدیث میں تین آسان ترین کاموں کے انجام دینے پر دخول جنت کی خوشخبری سنائی گئی ہے (۱) رحمن کی عبادت(۲)بندوں کی خدمت (کھانا کھلانا)اور(۳) کثرت سے سلام کرنا(الادب المفرد)،سلام کے جہاں بہت سے فوائد ہیں وہیں اس کا ایک اہم ترین فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ آپسی خلوص ومحبت میں اضافہ ہوتا ہے ،دوستی وپیار بڑھتا ہے اور رشتہ اخوت مضبوط ہوتا ہے ،حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا: جب تک تم ایمان نہیں لاؤ گے جنت میں داخل نہ سکو گے اور تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکے گا جب تک تم ایک دوسرے سے محض اللہ کی رضا کے لئے دوستی قائم نہ کرو ،اور کیا میں تم کو ایسا ذریعہ نہ بتاؤں کہ جس سے تمہارے درمیان دوستی پیدا ہوجائے اور ( پھر خود ہی فرمایا ) وہ سلام ہے ( اس لئے اسے خوب رواج دو)(مسلم)۔
سلام کا رواج دینا اور اسے خوب پھیلانا جہاں ایمان کی علامت اور مومن کی نشانی کہا گیا ہے وہیں سلام سے گریز کرنا اور ایک دوسرے کو سلام نہ کرنا رحمت الٰہی سے دور ی اور دینی بخل کی علامت بتایا گیا ہے ،حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ سب سے بڑا بخیل وہ ہے جو سلام کرنے میں بخل کرتا ہے (الادب المفرد)، اسلام میں چونکہ سلام وجوابِ سلام پر دونوں ہی شخص اجر وثواب کے مستحق ہوتے ہیں ،دنیا میں برکت اور آخرت میں نیکیوں کے حقدار ہوتے ہیں اور یقینا اہل ایمان کی نظر میں ایک نیکی پوری دنیا اور سامان دنیا سے افضل ہے،اسی نیکی سے وہ آخرت میں کامیاب اور سر خرو ہو سکتا ہے ، سلام میں بخل کرنا گویا خود بھی نیکیوں سے محروم ہونا اور دوسروں کے لئے بھی حصول نیکیوں میں مانع بننا ہے ،بخیل کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دولت کو نہ تو خود اپنے لئے خرچ کرتا ہے اور نہ ہی دوسروں کو اس سے فائدہ پہنچاتا ہے ، سلام میں بخل سے کام لینے والا بھی کچھ ایسا ہی بخیل ہوتا ہے ،مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ سلام کے معاملہ میں بخیل نہ بنیں ،نیکیوں سے محروم نہ ہوں ،نہ ہی دوسروں کو دعاؤں سے محروم کریں بلکہ آپس میں سلام کا ماحول پیدا کریں، معاشرہ میں سلام کا کثرت سے رواج دیں،چھوٹے بڑے کی تفریق نہ کریں ،دوسروں کے سلام کا انتظار نہ کریں ،ہر ایک کو سلام کریں ،یقینا سلام اپنے اندر سلامتی کی تاثیر رکھتا ہے ،اس کے ذریعہ دلوں میں جوڑ پیدا ہوتا ہے ،نفرتوں کا خاتمہ ہوتا ہے، دل میں نرمی آتی ہے، رنجشیں کافور ہوتی ہیں ،رشتوں میں مضبوطی پیدا ہوتی ہے ، صفوں میں اتحاد پیدا ہوتا ہے ،دشمنوں پر رعب طاری ہوتا ہے اور سب سے بڑی بات خدا کی طرف سے سلامتی نصیب ہوتی ہے ،امت میں افتراق اور صفوں میں دراڑ کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ سلام سے دوری وغفلت بھی ہے ، تعلقات میں بہتری ،آپسی قربت اور ملت میں اتحاد ومضبوطی اور خداکی نصرت و مد د سلام کے پھیلانے میں مضمر ہے اور ان شاء اللہ اس کی برکت سے امت ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کو امن وسکون اور سلامتی حاصل ہوگی ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×