اسلامیات

سال نو کی آمدپریہ جشن کیسا

یہ کائنات اور اس کی ہر ایک چیز خالق کائنات کی تخلیق کردہ اور اس کے قدرت کی عظیم شاہکار ہے، زمین وآسمان ،چاند و سورج ،ہوا وپانی ،شجر وحجر ، جن وانس اور دیگر مخلوقات کو اسی نے اپنی قدرت اور کلمہ کن سے پیدا کیا ہے ،دنیا کا نظام ، دن ورات کی آمد اورشمس وقمر کی گردش اسی کے تابع اور مطیع ہے ،جن کاموں کا انہیں پابند بنایا گیا ہے تخلیق سے لے کر آج تک اسی کام میں لگے ہوئے ہیں اور جب تک وہ چاہے گا اسی میں لگے رہیں گے ، لمحہ بھر کے لئے بھی اس سے غافل نہیں ہیں، چاند وسورج جو خالق کائنات کی عظیم ترین مخلوق ہیں روز اول ہی سے اپنی اپنی رفتار سے گھوم رہے ہیں ، اربوں اور نہ جانے کتنے سال گزر ے ہیں لیکن ان کے رفتار میں ذرہ برابر کمی بیشی واقع نہیں ہوئی ہے ،سائنس کا کہنا ہے کہ سورج کو اپنے مدار میں آکر گردش کی شروعات کئے ہوئے لگ بھگ 5.4 ارب سال ہوئے ہیں ،اس پوری مدت میں سورج نے کبھی بھی اس قانون قدرت کے خلاف اپنے مدار سے ہٹنے کی کوشش نہیں کی ہے،اسی طرح چاند اور زمین کی گردش کی رفتار بھی طے کردی گئی ہے یعنی زمین اپنے محور پر 1670 کیلو میٹر اور مدار پر 108000 کیلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بغیر کسی انحراف کے گھومتی ہے ،ہر ذی عقل وشعور رکھنے والا یہ سوچ سکتا ہے کہ 5.4 ارب سالوں سے سورج اور چاند اپنے اپنے مدار میں نہایت پابندی سے گردش کر ر ہے ہیں ،مگر کبھی اس گردش کے قانون میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکتے ،آخر وہ کون ہے جو سورج وچاند کو 5.4 ارب سالوں سے اس قدر پابند کئے ہوئے ہے ، دنیا کی کسی طاقت نے آج تک دعویٰ نہیں کیا ہے اور نہ قیامت تک کوئی کر سکے گا کہ اس کے حکم سے سورج وچاند گردش کرتے ہیں ،مگر ایک ذات ہے جس نے اعلان کیا ہے کہ سورج وچاند ہی نہیں بلکہ پوری کائنات اور اس کی ہر ایک چیز اسی کے دم سے ہے ،اسی کے حکم کی پابند ہے اور اسی کی تخلیق کردہ ہے ،وہ خدا ئے وحد ہ لاشریک لہ کی ذات ہے ،قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے : تَبَارَکَ الَّذِیۡ بِیَدِہِ الۡمُلۡکُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیۡۡء ٍ قَدِیۡر(المک:۱)’’بڑی شان ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں ساری بادشاہت ہے اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے‘‘،چونکہ اللہ ہی نے زمین وآسمان اور ان دونوں کے درمیان جتنی چیزیں ہیں سب کو پیدا کیا ہے اسی لیئے یہ کہنے کا حق صرف اسی کو ہے کہ چاند وسورج اسی کے حکم کو بجالاتے ہیں ، قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے: وَالشَّمۡسُ تَجۡرِیۡ لِمُسۡتَقَرٍّ لَّہَا ذَلِکَ تَقۡدِیۡرُ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ O وَالۡقَمَرَ قَدَّرۡنَاہُ مَنَازِلَ حَتَّی عَادَ کَالۡعُرۡجُونِ الۡقَدِیۡمِ O لَا الشَّمۡسُ یَنبَغِیۡ لَہَا أَن تُدۡرِکَ الۡقَمَرَ وَلَا اللَّیۡۡلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَسۡبَحُون(یسین:۳۸،۴۰)اور سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جارہا ہے ،یہ سب اس ذات کا مقرر کیا ہوا نظام ہے جس کا اقتدار بھی کامل ہے ،جس کا علم بھی کامل ہے ،اور چاند ہے کہ ہم نے اس کی منزلیں ناپ تول کر مقرر کردی ہیں ،یہاں تک کہ وہ جب (ان منزلوں کے دورے سے) لوٹ کر آتا ہے تو کھجور کی پرانی ٹہنی کی طرح (پتلا) ہو کر رہ جاتا ہے،نہ تو سورج کی مجال ہے کہ وہ چاند کو جاپکڑے اور نہ رات دن سے آگے نکل سکتی ہے اور یہ سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں‘‘،اللہ ہی نے ماہ سال بنائے ہیں ،قرآن حکیم میں ارشاد ہے: إِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوۡرِ عِنۡدَ اللّٰہِ اِثۡنَا عَشَرَ شَہۡرًا فِیۡ کِتَابِ اللّٰہِ یَوۡمَ خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرۡضَ (التوبہ:۳۶)’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے ،جو اللہ کی کتاب (یعنی لوح محفوظ) کے مطابق اس دن سے نافذ چلی آرہی ہے جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا‘‘، اسی ماہ وسال کے ذریعہ انسان کی عمر کا اندازہ لگایا جاتا ہے ،اسی کے گزرنے سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کو پیدا ہوئے کتنے سال ہوئے ہیں اور اس وقت اس کی عمر کتنی ہے ،چونکہ اللہ نے انسان کو ایک مقررہ وقت دے کر دنیا میں بھیجا ہے اور اس کے اختتام پر اسے چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے دنیا چھوڑ کر جانا پڑتا ہے ،جیسے جیسے دن ورات اور ماہ وسال گزرتے ہیں اس کی زندگی کم ہونے لگتی ہے اور اس کے دنیا سے رخصت ہونے کا وقت قریب آتا چلاجاتا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ وقت کسی کا تابع ومطیع نہیں ہے اور نہ کسی جن و انس کا پابند و غلام ہے کہ اشارہ کرنے پر آجائے ،روکنے پر ٹہر جائے اور کہنے پر چلاجائے بلکہ وہ تو خالق کائنات کے حکم کا محتاج ہے اور اسی کا پابند ہے ، خدا وند قدوس نے انسانی زندگی کے سانسوں کو وقت کی رفتار کے ساتھ جوڑ دیا ہے ،جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے انسان کی عمر بھی بڑھتی بلکہ صحیح معنوں میں گھٹتی جاتی ہے ، خطیب امت حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی ؒنے انسانی زندگی کو برف سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ:انسان کا اس سے بڑھ کر ٹوٹا کیا ہوگا کہ برف بیچنے والے دُکاندار کی طرح اس کی تجارت کا راس المال جسے ’’عمر عزیز کہتے ہیں‘‘دم بدم کم ہوتا جارہا ہے ،اگر اس رواروی میں کوئی ایسا کام نہ کر لیا جس سے یہ عمر رفتہ ٹھکانے لگ جائے ،بلکہ ایک ابدی اور غیر فانی متاع بن کر ہمیشہ کیلئے کار آمد بن جائے تو پھر خسارہ کی کوئی انتہا نہیں ،زمانے کی تاریخ پڑھ جاؤ اور خود اپنی زندگی کے واقعات پر غور کرو تو ادنی غور وفکر سے ثابت ہوجائے گا کہ جن لوگوں نے انجام بینی سے کام نہ لیا اور مستقبل سے بے پرواہ ہوکر محض خالی لذتوں میں وقت گزار دیا وہ آخر کار کس طرح ناکام ونامراد بلکہ تباہ وبرباد ہوکر رہے ،آدمی کو چاہئے کہ وقت کی قدر پہنچانے اور عمر عزیز کے لمحات کو یونہی غفلت وشرارت یالہو ولعب میں نہ گنوائے جو اوقات تحصیل شرف ومجد اور اکتساب فضل وکمال کی گرم بازاری کے ہیں اگر غفلت ونسیان میں گزاردئیے گئے تو سمجھو کہ اس سے بڑھ کر آدمی کے لئے خسارہ نہیں ہوسکتا ،بس خوش نصیب اور اقبال مندانسان وہی ہیں جو اس عمر فانی کو باقی اور ناکارہ زندگی کو کار آمد بنانے کیلئے جد وجہد کرتے ہیں ،اور بہترین اوقات اور عمدہ مواقع کو غنیمت سمجھ کر کسب سعادت اور تحصیل کمال کی کوشش میں سر گرم رہتے ہیں۔
اکثر لوگوں کا حال بڑا عجیب بلکہ تعجب خیز ہے کہ باربار اور ہر بار مشاہدہ کرنے کے باوجود بھی عمر عزیز کے قیمتی لمحات کو کسی بے قیمت شے کی طرح یوں ہی گنوانتے رہتے ہیں اور قیمتی اوقات کے گزر نے اور زندگی کے کم ہونے پر احتساب کے بجائے خوشی مناتے ہیں ،آپ بھی ٹیلی وژن پر دیکھا ہوگا اور اخبارات کے ذریعہ پڑھا ہوگا کہ سال گزرنے پر لوگ کس طرح جشن مناتے اور خوشی سے سرشار ہوتے ہیں ، در حقیقت یہ لوگ زندگی کی حقیقت سے نا آشنا اور اسکی قدر وقیمت سے ناواقف ہیں تب ہی تو رقص وسرور کی محفلیں سجاتے ہیں اور ایک دوسرے کو گلے مل مل کر مبارک بادیاں دیتے ہیں ، آپ دیکھتے ہوں گے کہ نئے سال کی آمد پر کس طرح طوفان بدتمیزی برپا ہوتی ہے ،سڑکوں پر گاڑیاں دوڑا ئی جاتی ہیں ،بازار رنگ ونور میں نہلائے جاتے ہیں ،نائٹ کلبس میں دھوم مچی ہو تی ہے اور پارکوں میں ایک شور بپا ہے ،ہر طرف ایک طوفان ِ بدتمیزی برپا ہوتی ہے ،پٹاخے ،ہارن اور گاڑیوں کے شور اور چیخوں کی آواز سے زمین دہل جاتی ہے ،آسمان لرز جاتا اور فضاء تھرا جاتی ہے ، کیا بچے ،کیا بڑے اور کیا بوڑھے سب ہی چیختے چلاتے،نغمے گاتے اور ہیپی نیوائیر کے گیت گاتے ہوئے نظر آتے ہیں ، سال نو کے موقع پر شرافت کی تمام حدیں پار کردی جاتی ہیں ، بے حیائی اور بے شرمی کا ننگا ناچ ہوتا ہے ، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بے شرمی کے ساتھ باہوں میں باہیں ڈالے موسیقی کی دھن پر تھرکنے لگے ہیں ، لگتا ہے آج انہوں نے حیا کا زیور اورشرافت کی چادر اتار دی ہے، اس طرح بے ہودہ حرکتیں اور شور وشرابا دراصل مغربی تہذیب وتمدن کا حصہ ہے اور انہیں کی دین ہے ،سال نو پر جشن منانا ، بے ہودگی کا مظاہرہ کرنا اور رقص وسرور کی محفلیں سجانا مغربی کلچر کا حصہ ہے ،اس کا اسلامی تہذیب وتمدن سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اسلام ان بے ہودہ ،اخلاق سوز اور شرم وحیا سے عاری چیزوں سے بے زار ہے،مگر افسوس کہ بہت سے مسلم گھرانے اسی تہذیب جدید کی جال میں پھنستے جارہے ہیں اور ان کی دیکھا دیکھی اس طرح کی بے ہودہ حرکتیں کئے جارہے ہیں ،سال نو کے جشن پر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اکھٹے ہوکر ناچ گانے میں اور رقص میں مصروف ہوتے ہیں اور دوسری جانب ان کے ماں باپ بڑی بے شرمی کے ساتھ ان کی حیا سوز حرکتوں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں بلکہ انہیں شاباشی دے رہے ہوتے ہیں،اس منظر کو دیکھ کر شاید ہر غیرت مند کا سر شرم سے جھک جاتا ہوگا ا ور ان کاوجود پانی پانی ہوتا ہوگا ، اس طرح کی بے ہودہ اور اسلامی تہذیب سے دور تقریبات میں شرکت کرنا ایک مسلمان کے لئے ناجائز بلکہ حرام ہے ، اسلام کا پیروکار ،شریعت کے متبع اور رسول اللہ ؐ کے سچا غلاموں کو ہر گز ان محفلوں میں شریک نہیں ہونا چاہیے ۔
یہ بات ہر مسلمان کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ نئے سال کی آمد پر جشن منانا ،رقص وسرور کی مجالس میں شریک ہونا اور ایک دوسرے کو مبارک بادیاں دینا اسلامی تعلیم کے منافی اور اسکی تہذیب کے بالکل خلاف ہے بلکہ یہ جدید ذہنیت ،بے ہودہ رسومات ، پراگندہ خیالات اور آخرت میں جواب دہی کے احساس سے عاری لوگوں کا کلچر ہے ،اسلامی تعلیمات اور اس کے بنیادی عقائد میں یہ بات شامل ہے کہ انسان کی دنیوی زندگی فانی اور اُخروی زندگی باقی اور لا محدود ہے ،دنیا اور دنیا کی ہر شے خدا کی امانت ہے ، انسان کو روز قیامت زندگی اور اس کے شب وروز کا حساب دینا ہے کہ کہاں شب بسری کی اور کیسے کی ، زندگی خدا کی مرضیات پر چلنے اور اسکی منہیات سے رکنے کانام ہے،زندگی خالص خدا کی عبادت واطاعت کے لئے ہے اور زندگی کا ہر وہ کام جو خدا کی مرضی کے موافق ہو وہ عبادت میں داخل ہے، خدا کے دربار میں انسان سے زندگی کے قیمتی لمحات کے سلسلہ میں سخت باز پرس ہو گی ،رسول اللہ ؐنے ارشاد فرمایا : لاتزول قدما عبدٍ حتی یُساء ل عن خمسٍ عن عمرہ فیما افناہ ،وعن علمہ فیما فعل ،وعن مالہ من این اکتسبہ ،وفی ما انفقہ ،وعن جسمہ فیما ابلاہ (ترمذی)’’ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی عدالت سے آدمی اس وقت تک ہٹ نہیں سکتا جب تک اس سے پانچ باتوں کے متعلق حساب نہیں لے لیا جائیگا (چنانچہ) اس سے پوچھا جائے گا کہ عمر کن کاموں میں گزاری؟ دین کا علم حاصل کیا تو اس پر کہاں تک عمل کیا؟ مال کن ذرائع سے کمایا؟ کمایا ہوا مال کہاں خرچ کیا؟ جسم کو ( صحت وتندرستی میں ) کس کام میں لگایا‘‘،اس ارشادِ گرامی میں انسانیت کے سب سے بڑے محسن ومربی حضرت محمد ؐ نے وقت کی قدر وقیمت اور زندگی کی اہمیت کو بڑے ہی دلنشین انداز میں سمجھایا کہ زندگی خدا کی عظیم نعمت ہے جو ہر فرد بشر کو عطا ہوئی ہے ، بادشاہ ہو یا فقیر ،امیر ہو یا غریب ،آقا ہو یا غلام ،ہر ایک کیلئے رات و دن برابر ہے ، دن اور رات کی خصوصیت یہ ہے کہ جب یہ گذر جاتے ہیں تو پھر لوٹ کر نہیں آتے ،ہر دن اور ہر رات ہم سے رخصت ہوجاتی ہے ، جیسے جیسے دن گذر تے جاتے ہیں ویسے ویسے انسان موت کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے ، جوآدمی اپنی زندگی اور اس کے اوقات کو کام میں لاتا ہے وہی کامیابی پاتا ہے اور جو وقت کی ناقدری کرتا ہے وہ دنیا وآخرت دونوں جگہوں پر نقصان اٹھاتا ہے ۔
انسان یوں ہی پیدا نہیں کیا گیا کہ جس طرح چاہے جہاں چاہے اور جیسے چاہے زندگی گزار دے بلکہ یہ زندگی اور اس کے اوقات امانت ہیں اور قیامت میں سب کے سامنے اس سے پوچھا جائے گا ،ذرا حساب وکتاب کے دن یعنی روز محشر کا تصور کر کے دیکھئے کہ ہم نے دنیا میں جشن منایا ،خدا ئے بزرگ وبرتر کی خوب نافرمانی کی ،رسول اللہؐ کی سنتوں کو بے جھجک پامال کیا اور زندگی کے لیل ونہار کا بے دریغ استعمال کئے ،پیشی کے دن یہ سب سیاہ کاریاں دوست ودشمن سب کے سامنے لائی جائیں گی،اس وقت کسی کی تصدیق اور گواہی کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ خود کرتے ہوئے دکھائے جائیں گے ،مسلمان اگر آخرت کی رسوائی اور بڑی شرمندگی سے بچنا چاہتا ہے تو اُسے زندگی کی قدر کر نی چاہیے ، دنیوی کھیل کود اور لہو ولعب میں پڑ کر زندگی کے قیمتی لمحات گنوادینا عقلمندی نہیں ،سچا اور پکامسلمان وہ ہے جو اپنا دل دنیا میں نہیں لگاتابلکہ وہ تو ہر لایعنی اور فضول کام سے اپنے آپ کو بچائے رکھتا ہے اور یہی مومن کی خوبی ہے ، حضرت محمد ؐ نے ارشاد فرمایا:من حسن اسلام المرء ترکہ مالایعنیہ(ترمذی) آدمی کے اسلام کی خوبی اور اس کے کمال میں یہ بھی داخل ہے کہ وہ فضول اور غیر مفید کاموں اور باتوں سے پچا رہے۔محدث جلیل مولانا محمد منظور نعمانی ؒ نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : انسان اشرف المخلوقات ہے ،اللہ تعالیٰ نے اس کو بہت قیمتی بنایا ہے ،اللہ چاہتے ہیں کہ انسان کو وقت اور صلاحیتوں کا جو سرمایہ دیا گیا ہے وہ اسے بالکل ضائع نہ کرے ،بلکہ صحیح طور سے اسے استعمال کرے ،زیادہ تر اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا تقرب حاصل کرنے کی فکر کرے ،یہی دین کی تمام تعلیمات کا حاصل اور اس کا لب لباب ہے ،اس لئے جو آدمی یہ چاہتا ہے کہ اُسے کمال ایمان حاصل ہو اور اس کے اسلام کے حسن میں کوئی داغ اور دھبہ نہ ہو تو اسے چاہیے کہ کھلے گناہوں اور بد اخلاخیوں کے علاوہ تمام فضول اور غیر مفید کاموں اور باتوں سے اپنے کو بچائے رکھے اور اپنی تمام تر خدا داد
صلاحیتوں کو بس ان ہی کاموں میں لگائے جن میں خیر اور منفعت کا کوئی پہلو ہو ۔
اسلام کی اس قدر خوبصورت اور حسین تعلیمات کے باوجود بیشتر مسلمان اس سے دور ہیں اور اسے اپنی انفرادی واجتماعی،معاشرتی اور عائلی زندگی کا حصہ نہ بناتے ہوئے دردر کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں ،دنیا ، سامان دنیا اور لذت دنیا میں اس قدر کھو گئے ہیں کہ انہیں نہ اسلامی احکامات یاد ہیں اور نہ ہی اپنے نبیؐ کی مبارک تعلیمات ذہن نشین ہیں ،یاد رہے کہ دنیا کے خواہش مندوں کی کامیابی گرچہ دوسری اقوام کے طریقہ پر چلنے میں ہو مگر اہل ایمان اور جنت کے خواہش مندوں کی کامیابی اسلامی تعلیمات اور اسوۂ نبی ؐ پر چلنے میں ہی ہے کاش کہ یہ بات ہماری سمجھ میں آ جائے اور اس کے مطابق ہم عمل کرنے والے بن جائیں ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×