سیاسی و سماجی

بنت حواء درندوں کے نرغے میں

اسلام نے عورت کی ذات کو سرتاپا محترم اور معظم گردانہ ہے، صنف نازک کا لحاظ اسلام نے جس قدر کیا ہے کسی دوسرے مذہب میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ،اسلام نے عورت کو اس کے حقیقی عزت سے نوازا ہے ، قدم قدم پر اس کی دستگیری کی ہے ،اس کے مقام ومرتبہ کا خیال کیا ہے اور ہر عمر میں اسے اُن مرتبوں سے نوازا ہے جس کی وہ حقیقی مستحق تھی، اسلام کی نگاہ میں عورت ہر روپ اور ہر عمر میں قابل قدر اور لائق تکریم ہے،بنیادی اعتبار سے اس کے چار روپ ہیں ، بیوی،ماں ،بیٹی اور بہن ،ان میں سے ہر ایک رشتہ اپنی جگہ بڑا ہی محترم اور اہمیت کا حامل ہے ،اسلام نے ہر رشتہ کی اہمیت کو واضح کیا ہے اور ان کے احترام کی تلقین کی ہے،چونکہ قدرت نے عورت کو نہایت پُر کشش بنایا ہے ، وہ پیکر حسن وجمال ہے ، اپنی ذات میں حسن کا خزانہ ہے ،اس کی ہر ادا نرالی اور اس کا ہر انداز اپنے اندر مقناطیسی کیفیت رکھتا ہے ، چنانچہ کسی نے اسے چاند سے تشبیہ دی ہے تو کسی نے قیمتی ہیرا کہا ہے تو کسی نے اسے انمول موتی بتایا ہے لیکن اسلام کی نظر میں وہ ان سب سے بلند وبالا ہے بلکہ وہ تو خالق کی تخلیق کا ایک عظیم شاہکار ہے ، جس طرح اسلام کی نظر میں عورت باعث عظمت ہے اسی طرح اسی کی نگاہ میں اس کی عزت و پاک دامنی کی بڑی قدر وقیمت ہے ، اس پر کسی اجنبی مرد کی نگاہ کو بھی اسلام گواراہ نہیں کرتا چہ جائے کہ کسی اجنبی سے اس کا اختلاط ہوجائے ، اسی وجہ سے اسے مردوں سے پردہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ کسی اجنبی کی نظر اس پر نہ پڑے اور کسی درندہ صفت کی درندگی کا وہ شکار نہ ہو ،ایک طرف عورتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ پردہ کریں تو دوسری طرف مردوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی نظروں کو جھکائے رکھیں ، اسلام نے مردوں کو تعلیم دی ہے کہ وہ اجنبی عورت پر نظر اٹھاکر نہ دیکھے ،کسی بھی اجنبی عورت کو دیکھنا مردوں کے لئے جرم اور گناہ اور کسی پاک دامن پر تہمت لگانا موجب پکڑ اور سخت ترین سزا کا باعث ہے ، اسلام نے ہر اجنبی اور اجنبیہ کو ایک دوسرے سے بلا کسی شدید ضرورت کے بات چیت کرنے سے بھی منع کیا ہے تاکہ آگے چل کر وہ کسی فتنہ میں مبتلا نہ ہو ،جس طرح عورت سراپا عورت ہے اسی طرح اس کی آواز بھی اجنبیوں کے لئے عورت ہے ،اسلام چاہتا ہے کہ صنف نازک کی عزت محفوظ رہے اور اس کی عصمت پر کسی طرح کا داغ نہ آنے پائے ،اگر کوئی پاک دامن پر بلا تحقیق اور کسی شرعی ثبوت کے بغیر تہمت لگاتا ہے تو ایسے مرد پر قانون اسلامی کی رو سے اسّی کوڑے لگائے جائیں گے ، قرآن مجید میں ہے’’ اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ پیش کر سکیں تو انہیں اسّی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو ،یہ فاسق لوگ ہیں ‘‘ (النور:۴) ۔
اسلام ہی کا طرہ ٔ امتیاز ہے کہ اس نے نہ صرف عورت کو اس کا مستحقہ مقام دلایا ،عزت وعظمت کی چوٹی پر پہنچایا ،عصمت کا لباس اسے پہنایا بلکہ ہر روپ میں اس کا مقام ومرتبہ بتایا اور اس کے حقوق گناکر اس کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ اگر عورت ماں ہے تو اس کی خد مت موجب جنت ہے ،اگر وہ بیٹی یا بہن ہے تو اس کی پرورش ،تعلیم وتربیت دخول جنت کا سبب ہے ،اوراگر وہ بیوی ہے تو اس سے محبت وخوش اخلاقی سے پیش آنا بہترین ہونے کی علامت ہے ، رسول اللہ ؐ نے ماں کی عظمت بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا’’ ماں کی قدموں میں جنت ہے ،اور ایک جگہ فرمایااللہ تعالیٰ کی رضامندی والدین کی رضامندی میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے‘‘ ( شعب الایمان للبیہقی )، رسول اللہؐ نے ماں کے بعد بیٹی کا مقام اور اس کے ساتھ حسن وسلوک کے متعلق ارشاد فرمایا’’جس شخص کے یہاں لڑکی پیدا ہو،پھر وہ نہ تو اسے کوئی ایذا پہنچائے اور نہ اس کی توہین اور ناقدری کرے اور نہ محبت اور برتاؤ میں لڑکوں کو اس پر ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اس لڑکی کے ساتھ حسن سلوک کے بدلے اس کو جنت عطا فرمائے گا‘‘ (:مسند احمد )،ایک حدیث میں بیٹی اور بہن کی عمدہ پرورش پر جنت کی خوشخبری دی گئی ہے ،آپ ؐ کا ارشاد ہے ’’ اگر کسی کے تین لڑکیاں ہوں یاتین بہنیں ہوں یا دو لڑکیاں ہوں یا دو بہنیں ہوں اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے ،ان کی ذمہ داری اٹھائے اور ان کی اچھی تربیت کرے اور پھر ان کا نکاح بھی کرے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لئے جنت کا فیصلہ ہے‘‘ ( ابوداؤد) اور پھر آپؐ نے مردوں کو اپنی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’ تم میں بہترین خا وند وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہو‘‘ (ترمذی) ،اسلام نے عورتوں کے لئے سفر شرعی میں محرم کو لازم قرار دے کر اس کی عزت وعصمت کی حفاظت کا سامان فراہم کیا ہے،اسلام نہیں چاہتا کہ عورت بغیر کسی محافظ کے سفر پر تنہا جائے اور کسی درندہ صفت اور شہوت پرست انسان کا شکار ہوکر اپنی قیمتی دولت عزت وعصمت سے ہاتھ دھو بیٹھے جس سے اس کی محترم شخصیت داغدار ہو اور ہمیشہ کے لئے اس کی ذات پر حرفدار ہو جائے۔
خوبصورت معاشرہ کی تشکیل کے لئے افراد کی تربیت ضروری ہے اور فرد کی تربیت سے ہی افراد بنتے ہیں اور افراد سے معاشرہ جنم لیتا ہے ،انسانیت کی عزت ،آپسی میل جول ، دکھ درد میں شرکت ،انسانی بنیاد پر بھائی چارگی کا فروغ ،جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت کسی بھی معاشرہ کی بنیاد ہیں ،اس کے بغیر انسانیت کا استحکام اور معاشرہ کے سکون کا تصور محال ہے ،جان ومال اور عزت وآبرو کا تحفظ عمدہ معاشرہ کی پہنچان ہوا کرتا ہے ،جس معاشرہ میں جان ،مال اور عزت محفوظ نہیں ہیں وہ بد ترین معاشرہ کہلاتا ہے اور جو لوگ اس طرح کی انسانیت سوز اور اخلاق سے عاری کاموں میں ملوث ہیں وہ انسانوں کے ساتھ رہنے کے لائق نہیں ہیں اور معاشرہ کے معتبر یا ذمہ دار اشخاص جو ان مجرموں کی پکڑ نہیں کرتے اور چشم پوشی سے کام لیتے ہیں وہ بھی مجرموں کے ساتھ جرم میں برابر کے شریک ہیں ۔
اسلام نے جہاں معاشرہ کے استحکام ، امن وامان اور انسانی عزت وشرافت کے تحفظ کے سلسلہ میں توجہ دلائی ہے اور اس کے اصول واحکام بیان کئے ہیں وہیں معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرنے ،سکون وچین کو چھیننے اور جان ومال اور عزت وآبرو سے کھیلنے والوں کے لئے سخت ترین ،عبرت ناک اور فطرت پر مبنی قوا نین نافذ کئے ہیں ، قانونِ اسلامی کا نفاذ چودہ صدی قبل اسلامی چھاونی مدینہ منورہ میں محسن انسانیت ؐ کی راست نگرانی میں شروع ہوچکا تھا ،تاریخ گواہ ہے کہ اس دور میں انسا نوں کے درمیان پیار ومحبت ،عزت وعفت اور مال ودولت جس طرح محفوظ تھے اس کی نظیر نہ اس قبل نظر آتی ہے نہ بعد میں ،جن ملکوں نے اسلامی قوانین نافذ کئے اور اس کے مطابق مجرموں کو سزائیں دی اگر وہاں کا جائزہ لیا جائے تو جرائم کی شرح نہ کے برابر نظر آتی ہے ،اسلام کی خوبی یہ ہے کہ اس نے نہ صرف مجروموں کے لئے مناسب سزائیں مقرر کی ہے بلکہ اسباب جرم پر نظر ڈال کر اس پر بھی روک لگایا ہے تاکہ جرائم کا خاتمہ جڑ سے ہو سکے ، بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ اسلام کی نظر میں چار بدترین قسم کے جرم ایسے ہیں جس کا مرتکب خدا ،رسول خدا اور معاشرہ کی نظروں میں گرجاتا ہے ایک مشرک ،دوسرا قاتل،تیسرا ماں باپ کا نافرمان اور چوتھا زانی ،امام احمد بن حنبل ؒ فرماتے ہیں میں نہیں جانتا کہ قتل کے بعد زنا سے بڑھ کر کوئی اور گناہ ہو۔
انسان میں شہوت کے بر انگیختہ ہونے کی وجہ سے زنا وجود میں آتا ہے اور شہوت کے بے لگام ہونے کی سب سے بڑی اور اہم وجہ بے حیائی ،بے پردگی اور فحش بینی ہے ،یہی وجہ ہے کہ اسلام نے نہایت تاکید کے ساتھ عورتوں کو پردے میں رہنے کا حکم دیا ہے تاکہ کسی شہوت پرست اور درندہ صفت کا وہ شکار نہ ہو ،اسی طرح مرد وزن کا اختلاط بھی بے حیائی اور زناکاری کا سبب ہے نیز فحش تصویریں اور بے حائی پر مبنی فلمیں معاشرہ کے لئے زہر قاتل سے کم نہیں ہیں ،انہیں چیزوں سے بے حیائی کو فروغ ملتا ہے ،نوجوانوں کے جذبات ابھر تے ہیں ، ان سے بے حیائی کے افعال سرزد ہوتے ہیں اور معصوموں کی عزتیں سرے بازار نیلام ہوتی ہیں جس سے پورا معاشرہ تباہ وبرباد ہوجاتا ہے ،تجربات شاہد ہیں کہ جن مقامات پر پردے کا معقول اہتمام کیا جاتا ہے ،عورت ومرد کے باہم ملنے کے مواقع پر پابندی ہے اور فحش نظاروں پر سختی سے پابندی عائد ہے وہاں کے معاشرہ میں کافی سدھار پایا جاتا ہے اور جرائم میں نمایاں کمی دیکھنے میں آتی ہے ،اور اگر کہیں غیر اخلاقی واقعہ پیش بھی آتا ہے تو اس مجرم کو جو سزادی جاتی ہے اس کے بعد پھر کسی میں اس حرکت کے کرنے کی ہمت نہیں رہتی اور اس سزا کو دیکھ کر ہی لوگ کانپ اٹھتے ہیں ،اسلام میں جنسی اور فطری تسکین کے لئے جائز ذریعہ یعنی نکاح کو قرار دیا گیا ہے اور ناجائز طریقہ سے جنسی تسکین یعنی زنا سے منع کیا گیا ہے ،ارشاد ہے : وَلاَ تَقۡرَبُواۡ الزِّنَی إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃً وَسَاء سَبِیۡلا(الاسراء:۳۲)’’ اور زنا کے پاس بھی نہ جاؤ وہ یقینی طور پر بڑی بے حیائی اور بے راہ روی ہے‘‘ ،جس طرح بد بو دار جراثیم پورے ماحول کو اپنے لپیٹ میں لے لیتے ہیں اسی طرح زنا وبدکاری کے بُرے اثرات بھی صاف ستھرے ماحول کو پراگندہ کرکے چھوڑتے ہیں ،اگر اس پر بروقت روک نہ لگائی جائے اور فی الفور گرفت نہ کی جائے تو آگے چل کر بے حیائی فروغ پاتی ہے ،عصمتیں نیلام ہوتی ہیں ،عزتیں پامال ہوتی ہیں ،معاشرہ پر ذلت چھاجاتی ہے اور پوری قوم پر خدا کا قہر نازل ہوتا ہے ،قرآن حکیم نے بدکاروں کے لئے جو سزا مقرر کی ہے وہ یہ ہے ،ارشاد ہے: الزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیۡ فَاجۡلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنۡہُمَا مِئَۃَ جَلۡدَۃٍ وَلَا تَأۡخُذۡکُم بِہِمَا رَأۡفَۃٌ فِیۡ دِیۡنِ اللَّہِ إِن کُنتُمۡ تُؤۡمِنُونَ بِاللَّہِ وَالۡیَوۡمِ الۡآخِرِ وَلۡیَشۡہَدۡ عَذَابَہُمَا طَائِفَۃٌ مِّنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ (النور:۲)’’زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد دونوں کو سو سو کوڑے لگائے ،اور اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو ،تو اللہ کے دین کے معاملہ میں ان پر ترس کھانے کا کوئی جذبہ تم پر غالب نہ آئے ،اور یہ بھی چاہیے کہ مومنوں کا ایک مجمع ان کی سزا کو کھلی آنکھوں سے دیکھے ‘‘،یہاں پراس آیت جو سزا متعین کی گئی ہے وہ غیر شادی شدہ زنا کار کے لئے ہے اور اگر اس جرم کا ارتکاب کسی شادی شدہ نے کیا ہے تو اس کے لئے نہایت سخت ترین سزا رجم یعنی سنگسار مقرر ہے جس کی تفصیلات احادیث میں بیان کی گئی ہیں ، حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے ایک عورت کے ساتھ زنا کیا ،رسول اللہ ؐ نے اس کے بارے میں حکم دیا کہ اس کو حد (سزا) کے کوڑے لگائے جائیں پھر آپ ؐ کو بتایا گیا کہ یہ تو شادی شدہ ہے تب آپ ؐ نے اسے رجم (سنگسار) کا حکم دیا ( ابوداؤد) ،اسلام میں بدکار اور زناکار کے لئے کس قدر سخت سزائیں مقرر کی گئی جسے سن کر روح کانپ جاتی ہے ،ان سزاؤں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ زنا وبدکاری کس قدر خطرناک جرم ہے،غیر شادہ شدہ کو سب کے سامنے سرے عام سو سو کوڑے لگائے جائیں اور ایک حدیث میں ہے کہ اسے ایک سال کے لئے جلاوطن کر دیا جائے گا ، یہ ایسا شخص ہے جو مہذب معاشرہ میں رہنے کے لائق نہیں ہے ،اس سے کنارہ کشی اور دوری ضروری ہے ،کہیں اس کے اثر سے دور سرے خراب نہ ہو جائیں ۔
زنا و بدکاری ایسا گھناؤنا جرم ہے اور اس قدر قبیح عمل ہے جس کی وجہ سے اس کے مرتکب کو دنیا کے علاوہ آخرت میں بھی اس کی سزا ملے گی اور خدا کی نظر رحمت وعنایت سے محروم رہے گا ،حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا : تین شخص ایسے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کردی ہے (۱) ہمیشہ شراب پینے والا(۲) والدین کا نافرمان(۳) وہ بے غیرت جو اپنے گھر میں بے حیائی کو( دیکھنے کے باوجود) برقرار رکھتا ہے ( ابوداؤد) ،زانی ان اشخاص میں سے ایک ہے جن کا قتل جائز ہے ، ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا : کسی مسلمان کا خون حلال نہیں جو گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد ؐ اللہ کے رسول ہیں ،مگر تین میں سے کسی ایک وجہ سے (۱) جس نے شادی کے بعد زنا کرے تو اسے رجم کیا جائے گا(۲) وہ شخص جو اللہ اور اس کے رسول ؐ کے ساتھ جنگ کرنے نکلے (۳) یا کوئی شخص کسی کو قتل کردے تو اسے اس کے بدلے میں قتل کیا جائے گا( ابوداؤد)۔
اسلامی احکام اور اس کے انصاف پر مبنی قوانین جو دراصل صلالح معاشرہ کی تعمیر اور ظلم وبربریت اور بے حیائی وبدکاری کے سد باب کے لئے بنائی گئی ہیں ،انہیں اپنائے بغیر کسی بھی معاشرہ سے جرائم کا خاتمہ ممکن ہی نہیں ہے ، ربانی قوانین چھوڑ کر خودساختہ قانون بناکر اس کے ذریعہ مجرموں کو سزا دینا اور جرم کی روک تھام کی کوششیں کرنا عبث ہے ،دنیا کے مختلف ممالک اور ان کے مختلف شہروں کے بے شمار عد التوں میں زنا جیسے خطرناک اور گھناؤنے عمل کے ان گنت کیسس درج ہیں ،جن کی عزتیں تار تار ہوئی ہیں وہ انصاف کے لئے عدالتوں کے چکر کاٹ رہی ہیں اور بہت سے کیسوں میں مجرم باعزت بری ہو کر دندناتے پھر رہے ہیں ،اور جنہیں سزائیں دی گئی ہیں وہ بھی نا کافی ہیں ،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ جرائم کی شرح کم ہونے کے بجائے اس میں اور اضافہ نظر آرہا ہے ،اس کا کھلا ثبوت اخبارات ،ٹیلی ویزن اور سوشل میڈا پر روزانہ پڑھنے اور دیکھنے کو مل رہا ہے ،ہمارے ملک ہندوستان میں بھی ہر ایک دو روز میں کسی نہ کسی مقام پر ایک بہن بیٹی کی عزت تار تار کئے جانے کی خبریں ملتی رہتی ہیں ، باحوصلہ ،غیرت مند اور معاشرہ کو صاف ستھرا دیکھنے کے خواہش مند اس پر آواز بلند کرتے ہیں اور اپنے غم وغصہ کا اظہار کرتے ہیں مگر ایک دودن بعد وہ کیس سرد خانے میں چلاجاتا ہے اور جس بیٹی کی عزت وعصمت نیلام ہوئی تھی اسے اور اس کے اہل خانہ کو سخت مایوسی ہاتھ لگتی ہے ،جس کی وجہ سے مجرموں کے حوصلے پلند ہوتے دکھائی دیتے ہیں ، اگر یہی سلسلہ جاری رہا اور ملک کے حکمران اور عدالت پر براجمان اس پر خصوصی توجہ نہیں دیں گے تو پھر معصوموں کی عزتیں لٹتی جائیں گی اور مجرموں کے حوصلے بڑھیں گے ،اگر ملک کو اور یہاں کے معاشرہ کو ان جرائم سے پاک صاف کرنا ہے اور اس کے لئے حکومتیں اور اعلی عہدوں پر فائز عوامی قائدین سنجیدہ ہیں تو پھر انہیں اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے اس کے لئے سب سے پہلے ان ذرائع پر پابندی لگانے کی ضرورت ہے جن سے بے حیائی کو فروغ مل رہا ہے ،صاف ذہن پراگندہ ہو رہے ہیں ،نوجوان نسل اخلاقی زوال کا شکار ہو رہی ہے اور کسی کی بہن تو کسی کی بیٹی ان درندہ صفت کے ہوس کا شکار ہوکر اپنی عزت وعصمت سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو رہی ہیں ، پھر ان مجروموں کو فوراً سخت ترین اور ایسی عبرت ناک سزائیں سنانے اور اسے عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے کہ ان کے بعد کوئی اور اس طرح کی حرکت کرنے سے قبل سو مرتبہ سونچنے پر مجبور ہوجائے ،مگر یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب حکمرانوں کے دلوں میں اتنا ہی درد ہو جتنا کہ متاثرین کو پہنچاہے ،یقینا اس گھناؤ نے جرموں کی لعنت سے معاشرہ پاک صاف اسی وقت ہو سکتا ہے جب مجرموں کو بر وقت کڑی سنائیں دی جائے ، در حقیقت اسلام کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس نے عورتوں کی عزت وعظمت ، عفت وعصمت کی حفاظت کے لئے ایسے احکام وقانون بنائے ہیں جس کے ذریعہ صنف نازک کو حقیقی تحفظ فراہم ہوتا ہے اور اس کے نفاذ ہی سے مجرموں کو کیفر وکردار تک پہنچایا جاسکتا ہے ،کاش منصف حضرات اس پر عمل کرکے تو دیکھں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×