اسلامیات

شہادت کا مقام اور اس کا پیغام

رسول اللہ ؐ کی بعثت اور آپ کی نبوت کا مقصد وحدانیت کا اعلان اور دین اسلام کی اشاعت ہے ، انہیں مقاصد کے تحت سابقہ انبیاء ؑ کو بھیجا گیا تھا ،رسول اللہ ؐ اس مبارک ومحترم جماعت کے آخری فرد تھے،نبوت ورسال سب سے بڑا منصب اور خدا کی طرف سے عطا کردہ سب سے بڑا اعزاز ہے ،رسول اللہ ؐ کو چالیس سال کی عمر میں نبوت ورسالت سے سرفراز کیا گیا،نبوت سے سرفراز کئے جانے کے بعد رسول اللہ ؐ نے پوری انسانیت کو ’’لاالہٰ الا اللہ ‘‘ کا پیغام سنایا اور اس کے اقرار پر ’’تفلحون‘‘ کی خوشخبری سنائی ، رسول اللہؐ نے سرزمین مکہ مکرمہ میں تیرہ سال اور ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں وفات تک دس سال اسی اہم فریضہ کو انجام دیتے رہے ، آپؐ پیغام حق پہنچانے کی خاطر ، راہ مستقیم پر گامزن کرنے کے لئے اور دعوت دین لوگوں تک پہنچاتے ہوئے ہر طرح کی سعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کرتے رہے اور دشمنان اسلام اور باطل پرستوں کے رد عمل کا نہایت صبر وثبات سے جواب دیتے رہے ،تاریخ گواہ ہے کہ باطل پرست جس شدت کے ساتھ حق کی دعوت روکنے کی کوشش کرتے تھے آپ ؐ اتنا ہی جرأت واستقامت کے ساتھ پیغام حق اور توحید کی دعوت لوگوں تک پہنچانے کی جدجہد کیا کرتے تھے، حق کی پہچان رکھنے والے ،حق کے متلاشی اور ہدایت کے آرزو مند آپ کی دعوت پر لبیک کہہ کر آپ پر ایمان لا تے اور داخل اسلام ہو کر ابدی وسرمدی نعمتوں کے حقدار بن جاتے تھے ، کچھ عرصے بعد اہل ایمان کی ایک جماعت تیار ہوگئی اور انہوں نے بھی رسول اللہ ؐ کے ساتھ دوعت وتوحید کے فریضہ کو انجام دینے میں جٹ گئے ، رسول اللہ ؐ اور اہل ایمان کی مقدس جماعت کو دعوت دین کی خاطر سخت ترین مشکلوں اور آزامائشوں سے گزرنا پڑا ،کفار ومشرکین ان کے جانی دشمن بن گئے اور طرح طرح سے انہیں ستانے لگے ، مشرکین نے انہیں دعوت وتبلیغ سے روکا ،خدا کے سامنے جبین ٹکانے سے روکا اور علی الاعلان اس کی وحدانیت کا اظہار کرنے باز رکھنے کی ناکام کوششیں کیں،اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ان کے ساتھ انسانیت سوز تشدد سے پیش آیا ،ان مظلوموں کو ستایا جاتا تھا ،انہیں مارا پیٹا جاتا تھا اور انہیں طرح طرح سے ازیتیں دی جاتی تھیں ، صحابہ ؓ ہر طرح کی تکلیفیں سہتے رہے اور اس پر صبر کرتے رہے ، خدا کے حکم سے مکہ مکرمہ چھوڑ کر مدینہ منورہ آخر مستقل سکونت اختیار کی ،مگر دشمنان اسلام اپنے ناپاک ارادے وعزائم کے ساتھ مسلسل کوششیں کرتے رہے کہ کسی طرح مسلمانوں کو سکون وچین سے جینے نہ دیا جائے اور انہیں اسلام پر ثابت قدم رہنے سے باز رکھا جائے ،ایسے حالات میں مسلمانوں کو حکم ملا کہ وہ دشمنوں سے اپنے ظلم کا بدلہ لیں اور اسلام ومسلمانوں کے خلاف محاز آرائی کرنے والوں کی خوب کبر لیں اور خدا کی محبت ورسول ؐ کی اطاعت کرتے ہوئے دین کی سر بلندی کے لئے سر دھڑ کی بازی لگادیں،چنانچہ حق وباطل کئی مرتبہ آمنے سامنے ہوئے ،خدا کی مدد ونصرت کے ساتھ اہل اسلام اہل کفر پر غالب آئے ،جنہوں نے اسلام کی سربلندی کے لئے جام شہادت نوش کیا وہ خدا کے نزدیک بلند ترین مقام کو پایا اور جنہوں نے دشمن کے دانت کھٹے کئے اور اپنی جان پر کھیل کر باطل کا مقابلہ کیا خدا نے انہیں عزت وعظمت سے نوازا اور ان کے لئے دنیامیں کا میابی اور آخرت میں ابدی نعمتوں کے حصول کی خوشخبری سنائی ۔
راہ خدا میں جان کی بازی لگانا اور لڑتے لڑتے جام شہادت پی جانا عظیم نہایت عظیم ترین اور قابل رشک عمل ہے ،حقیقت میں سچا مسلمان تو وہی ہے جو اپنے ذوق عبادت ، ذوق شہادت رکھتا ہے اور دین اسلام کے لئے خود کو پیش کرکے خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، مسلمانوں کی انفرادی واجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ خدا کی الوہیت و وحدانیت کا پیغام لوگوں تک پہنچائیں ،قرآنی احکامات سے لوگوں کو آشنا کریں اور نبی ٔ رحمت ﷺ کی مبارک حیات طیبہ ،انسانیت نواز تعلیمات اور آپکی پاکیزہ سیرت لوگوں کو بتا کر انہیں دامن اسلام سے وابستہ کرنے کی فکر کرتے رہیں ،اس طرح امت داعی کا حق ادا کرتے ہوئے پورے عالم میں دین اسلام کو برپا کرنے کی جدوجہد اور کوشش میں لگے رہیں ،دین متین کی دعوت، پیغام اسلام پہنچانے میں کسی بھی طرح کا تساہل نہ برتیں اور یادرکھیں کہ خدا نے ہم کو اسی کام کے لئے منتخب کیا ہے ، بلکہ اس کا م کے لئے جنت کے عوض ہماری جان ومال کا سودا کیا ہے ،گویا ہم خدا کے ہاتھوں بک چکے ہیں ،یہ ایسا زبردست سودا ہے جس میں نفع ہی نفع ہے اور منافع دینے والا کو ن ہے جو صفت فیاضی سے متصف ہے ،اس کی شان کریمی وصفت ر حیمی دیکھئے کہ اپنی ہی دی ہوئی چیزوں کو خرید رہا ہے وہ بھی صر ف ہمارے ہی فائدے کے لئے، ارشاد ربانی ہے: إِنَّ اللّٰہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ أَنۡفُسَہُمۡ وَأَمۡوَالَہُمۡ بِأَنَّ لَہُمُ الجَنَّۃَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَیَقۡتُلُوۡنَ وَیُقۡتَلُوۡنَ وَعۡدًا عَلَیۡۡہِ حَقًّا فِیۡ التَّوۡرَاۃِ وَالإِنۡجِیۡلِ وَالۡقُرۡآنِ وَمَنۡ أَوۡفٰی بِعَہۡدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسۡتَبۡشِرُوۡا بِبَیۡۡعِکُمُ الَّذِیۡ بَایَعۡتُمۡ بِہٖ وَذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ(توبہ:۱۱۱)’’ بلاشبہ خدا نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض میں خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی ،وہ لوگ راہ خدا میں لڑتے ہیں جس میں قتل کرتے ہیں اور قتل کئے جاتے ہیں ،اس پر سچا وعدہ کیا گیا ہے تورات میں اور انجیل میں اور قرآن میں اور خدا سے زیادہ اپنے عہد کو کون پورا کرنے ولا ہے ،تو تم لوگ اپنی اس بیع پر جس کا تم نے معاملہ کیا ہے خوشی مناؤ اور یہ بڑی کامیابی ہے‘‘اس آیت میں مسلمانوں کو آخرت کی کامیابی اور جنت کی دائمی زندگی اور اس کی مسرتوں کی خوشخبری سنائی گئی ہے ،اور اسے بہت بڑی کامیابی سے تعبیر کیا گیا اور کیوں نہ ہو کہ دنیا ، قیامِ دنیا اور اس کی راحتیں عارضی وفانی ہیں ،اس کے مقابلہ میں آخرت ،جنت ،وہاں کا قیام وقرار دائمی اور وہاں کی نعمتیں لازوال ہیں ،اس بیع عظیم اور نفع بخش سودے کے بعد ایک سچے اور پکے مسلمان کامقصد حیات دین اسلام کی سربلندی اور سرفرازی ہونا چاہیے ؎
میری زندگی کا مقصد تیری دیں کی سر فرازی ٭ میں اسی لئے مسلمان میں اسی لئے نمازی
بلاشبہ اسلام پر جان نچھاور کر تے ہوئے شہادت کو گلے لگانا بامقصد زندگی کے پالینے کا نام ہے،یہی وجہ ہے کہ خدا کے نزدیک شہید کو ایک خاص مقام ومرتبہ حاصل ہے ، شہید خدا اور رسول ِ خدا کی نظر میں قابل قدر اور امت کی نگاہ میں قابل فخر بلکہ قابل رشک ہوتا ہے،قرآن مجید میں شہید ہونے والوں کو زندہ کہا گیا ہے،ارشاد ربانی ہے :وَلاَ تَقُولُواۡ لِمَنۡ یُقۡتَلُ فِیۡ سَبیۡلِ اللّہِ أَمۡوَاتٌ بَلۡ أَحۡیَاء وَ لٰکِن لاَّ تَشۡعُرُون(البقرہ ۱۵۴)’’اور جولوگ راہِ خدا میں (یعنی دین کے واسطے ) قتل کئے جاتے ہیں انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ لوگ ( ایک ممتاز حیات کے ساتھ) زندہ ہیں ،لیکن تم (اپنے موجودہ ) حواس سے ( اس حیات کا ) ادراک نہیں کر سکتے ‘‘قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد ہے : وَلاَ تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُواۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّہِ أَمۡوَاتاً بَلۡ أَحۡیَاء عِندَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُونَ Oفَرِحِیۡنَ بِمَا آتَاہُمُ اللّہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ (آل عمران ۱۶۹،۱۷۰)’’جولوگ راہِ خدا میں شہید ہوگئے انہیں مردہ گمان نہ کرنا بلکہ وہ تو اپنے پروردگار کے پاس زندہ ہیں ،وہ کھاتے پیتے رہتے ہیں،وہ خوش ہیں اس چیز سے جو انکو خدانے اپنے فضل سے عطا فرمائی ہے‘‘۔
یقینا شہادت وہ بلند ترین مقام اور خدا کی خوشنودی کا وہ عظیم ذریعہ ہے کہ جس کی آرزو اور تمنا خود نبی ٔ رحمت ﷺ نے فرمائی ، آپ ﷺ دعا ؤں میں یہ بھی دعا فرمایا کرتے تھے :اللھم انی اسئلک شہادۃ فی سبیلک(بخاری ۱۷۹۱)’’اے اللہ میں تیرے راستے میں شہادت کی درخواست کرتا ہوں‘‘ ایک موقع پر آپﷺ نے ارشاد فرمایاکہ’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میرا دل چاہتا ہے کہ میں راہِ خدا میں شہید کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں‘‘ خلیفۂٔ دوم، سیدنا فاروق اعظم ؓ اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ:اللھم ارزقنی شہادۃ فی سبیلک وموتاً بلد رسولک(بخاری ۱۷۹۱)،’’اے اللہ مجھے اپنے راستے میں شہادت اور اپنے رسول ﷺ کے شہر میں موت عطا فرما‘‘شہادت کی عظمت اورشہدا کے مقام ومرتبہ کو دیکھ کر سیف اللہ حضرت خالد بن ولید ؓ لشکر کفار سے مخاطب ہوکر فرمایا کرتے تھے ’’ ظالمواور خدا کے نافرمانو! تمہیں شراب اتنی محبوب نہیں جتنی ہمیں راہِ خدا میں شہادت محبوب ہے‘‘،جب شہادت اتنی عظیم چیز ہے اور شہدا ء کا اس قدر بلند مقام ومرتبہ ہے ،انہیں حیات جاودانی حاصل ہے اور وہ اپنے رب کے پاس نعمتوں میں پل رہے ہیں اور مزے کی زندگی گزار رہے ہیں تو ان پر ماتم اور رنج وغم کیسا ،شہادت قابل غم نہیں بلکہ قابل رشک موت کا نام ہے اور ایک مسلمان شہادت پر ماتم نہیں بلکہ رشک کرتے ہوئے خود بھی شہادت کی آرزو رکھتا ہے ۔
اسلام میں مواقع غم وخوشی اور مسرت ومضرت کے احکام بڑی تفصیل اور نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں،خوشی کے موقع پر شکر اور مصیبت کے موقع پر صبر کا مظاہرہ کرنے کی تعلیم دی گئی ہے ،اور اس سلسلہ میں نبی ٔ رحمت ﷺ کے ارشادات وفرمودات اور آپﷺ کا عملی نمونہ بھی موجود ہے جو ہر مسلمان کے لئے اسوۂ حسنہ ہے ،اس سے بڑھ کر اور کیا خوشی کا موقع ہوسکتا ہے کہ نبی ٔ رحمت ﷺ مکہ مکرمہ میں فاتح بن کر داخل ہورہے ہیں ، سرزمین مکہ کا ذرہ ذرہ اسلام کی شوکت سے جگمگا اُٹھا ہے ،نعرۂ تکبیر سے مکہ کی وادیاں گونج اُٹھیں ، صحابہ ٔ کرام ٹکڑیوں کی شکل میں مکہ کی وادیوں سے ہوتے ہوئے شہر میں داخل ہو رہے ہیں ،شکر اسلام کے رعب ودبدبہ کا یہ منظر دیکھ کر دشمنوں کی آنکھیں خیرہ ہو رہی ہیں ،صرف چند ہی سالوں میں جزیرۃ العرب اسلام کے پرچم تلے آچکا ہے، بخاری میں حضرت عبداللہ بن مغفل ؓ سے مروی ہے کہ نبی ٔ رحمت ﷺ فتح مکہ کے دن ناقہ پر سوار ہیں اور خوش الحانی کے ساتھ سورۂ فتح پڑھ رہے ہیں،اس عظیم فتح کے وقت مسرت اور نشاط فرحت کے آثار کے ساتھ بارگاہ خداوندی میں تخشع و تضرع اور تذلل وتمسکن کے آثار بھی چہرۂ انور پر نمایاں ہیں،تواضع کا یہ عالم ہے کہ گردن مبارک اس قدر جھکی ہوئی ہے کہ ریش مبارک ناقہ سواری کے کجاوہ کی لکڑی سے مس کر رہی ہے (بخاری)، خوشی کے اس مبارک موقع پر آپﷺ نے اپنی امت کو عملی تعلیم دی کہ جس خالق نے مسرت کے لمحات عطا کئے ہیں بندہ کو چاہیے کہ تواضع وانکساری کے ساتھ شکر گزاری واحسان مندی کا مظاہر کرنا چاہیے یہی عبدیت کی پہچان ہے ،زندگی میں اس سے بڑھ کر اور کیا رنج و غم کا موقع ہوسکتا ہے کہ نور نظر اور لخت جگر صاحبزادی حضرت زینب ؓ وفات پا چکی ہیں ،عورتیں رونے لگیں ہیں ،فاروق اعظم ؓ انہیں کوڑے سے انہیں روکنے لگے ہیں، آپ ﷺ نے انہیں پیچھے ہٹا لیا اور پھراس غمناک موقع پر مجسم صبر بن کر عورتوں سے فرمایا ’’تم شیطان کی سی چیخ وپکار سے بچو ،پھر فرمایا جب غم نم آنکھ اور دل سے ہوتو خدا کی جانب سے ہوتا ہے اور یہ رحمت ہے اور جب ہاتھ اور زبان سے ہونے لگے تو شیطان کی طرف سے ہوتا ہے(اور جو شیطان مردود کی طرف سے ہو یقینا وہ گناہ ہے) (مسند احمد:۲۱۲۷)،ایک حدیث میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ جو (کسی کی موت پر) منہ اور سینہ پیٹے اور گریبان پھاڑے اور جاہلیت کی طرح بین کرنے( یعنی مردے کے اوصاف بیان کر تے ہوئے رونے اور رلانے والے) وہ ہماری جماعت (مسلم )سے نہیں (بخاری : ۱۲۹۷) ، خود نبی ٔ رحمت ﷺ نے اپنی وفات سے بیشتر صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓ سے فرمایا کہ بیٹی جب میں فوت ہو جاؤں تو ماتم میں چہرہ نہ نوچنا ،بال نہ بکھیر نا اور ہائے ہائے کرتے ہوئے نہ رونا اور مجھ پر بین کرنے والیوں کو نہ بلانا(فروع کافی)، ان کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث ہیں کہ جن میں آپﷺ نے کسی کے مرنے پرسوگ منانے، نوحہ وماتم کرنے اورگال پیٹنے وسینہ زنی کرنے سے سخت منع فرمایا ہے،البتہ اپنے عزیز واقارب اور رشتہ داروں کی جدائی پر جو فطری رنج وغم ہوتا ہے اس کی اجازت دی گئی ہے ،یہی وجہ ہے کہ آپﷺ نے عام رشتہ داروں پر تین دن اور شوہر کے انتقال پر بیوی کے لئے چار مہینہ دس دن شرعی حدود میں رہتے ہوئے سوگ کی اجازت دی ہے ،چنانچہ حضرت ام عطیہؓ کے ایک لڑکے کا انتقال ہوگیا ،تو انہوں نے تیسرے دن زرد خوشبو منگواکر اپنے بدن پر لگایا اورکہنے لگیں کہ ہم کو شوہر کے علاوہ کسی پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنے کو منع کیا گیا ہے(بخاری : ۱۲۷۹)،اسی طرح کسی کے انتقال پر اظہار افسوس ورنج کے طور پر سیاہ کپڑے پہننا بھی منع ہے ،نبی ٔ رحمت ﷺ نے سختی سے منع فرمایا ہے(بخاری:۱۲۹۴) ،یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام نے بصرا حت اس کے ناجائز ہونے کو لکھا ہے( ہندیہ ۵؍ ۳۳۳)۔
خدا کی حکمت خدا ہی جانے ،اس کے مقدرات کون بدل سکتا ہے ،اس کے اٹل فیصلے کو کون ٹال سکتا ہے ،خدا کی مشیت یہی تھی کہ نواسۂ رسولؐ ،فرزند مرتضیٰؓ اور جگر گوشہ ٔ فاطمہؓ حضرت سیدنا حسین ؓ اور دیگر اہل بیت اطہار کی شہادت کا عظیم واقعہ بھی اسی عظیم دن میں وقوع پذیر ہو ،سو ہوگیا ، یقیناحضرت سیدنا حسینؓ کی شہادت کا واقعہ تاریخ اسلام کا ایک اندوہناک واقعہ ہے ،کس قدر حیرت و استعجاب کی بات ہے کہ ادھر نبی ٔ رحمت ﷺ کے وصال کو صرف نصف صدی ہی گزری ہے کہ آپ ؐ کے نام لیوا نے نواسہ ٔ رسول حضرت سیدنا حسین ؓ اور دیگر اہل بیت کو انتہائی شقاوت کے ساتھ شہید کر ڈالا ،بے شک حقیقی فیصلہ تو قادر مطلق ہی کرے گا جو دلوں کے بھیدوں کا جاننے والا ہے ، اس حادثہ ٔ فاجعہ کی تفصیلات میں جائے بغیر بس اتنا کہا جاسکتا ہے کہ خدا نے حضرت سیدنا حسین ؓ اور اہل بیت اطہار کی شہادت کے واقعہ کو اس عظیم دن کے ساتھ جوڑ کر اُسے اور بھی عظیم تر اور یاد گار بنادیا ، بلاشبہ حضرت سیدنا حسینؓ نے جن نازک اور ناموافق حالات میں جس درجہ صبر وتحمل کے ساتھ دین پر ثابت قدم رہ کر ،باطل کے خلاف نبرد آزما ہوئے اور پھر اپنے نانا جان کے لائے ہوئے دین کی عظمت وسربلندی کی خاطر اپنا گھر بار لٹا کر امت مسلمہ کو عملی پیغام دیا کہ دین اسلام اور نانا جان کی لائی ہوئی شریعت مال و اولاد اور ہماری جانوں سے زیادہ قیمتی ہے ،لہذا اس کی حفاظت کیلئے جان تو دی جا سکتی ہے مگر جبین شریعت پر معمولی شکن بھی برداشت نہیں کی جاسکتی ، ایک آدمی جس طرح اپنی جانِ عزیز کی حفاظت کرتا ہے ایک مسلمان کو دین متین اور شریعت مطہرہ کی حفاظت اس سے بڑھ کر کرنی ضروری ہے ،حضرت سیدنا حسین ؓ میدان کربلا میں بَلا کے جوہر دکھاکر دین اسلام کے لئے جینا اور اسی کے لئے مرنا سکھایا ،لیکن افسوس کہ اہل بیت سے محبت کا ڈھونگ رچانے والے اور امت کی عظیم ترین شخصیتوں حضرات صحابہ ؓ خاص کر حضرات شیخین یعنی حضرت ابوبکر صدیق ؓ وحضرت عمر فاروق ؓ سے بغض وعناد رکھنے والوں نے ا س عظیم اور اہم ترین تا ریخی دن کے تاریخی واقعات اور پھر حضرت سیدنا حسین ؓ اور اہل بیت اطہار کی شہادت عظمی کے عظیم واقعہ سے عملی پیغام لینے کے بجائے اعمال قبیحہ میں مبتلا ہوئے کہ لوگوں کے لئے تماشا اور درس عبرت بن گئے ، مسلمانوں کی سادہ لوحی دیکھئے کہ بہت سے لوگ اس چال باز طبقے کی سازش کا شکار ہوکر وہی سب کچھ کرنے لگے ہیں جس کا محرم الحرام سے نہ کوئی تعلق ہے ،نہ یوم عاشورہ سے اور نہ ہی شہادت حضرت سیدنا حسین ؓ سے ۔
بعض بھولے بھالے مسلمان بھی وہ سب کام کرنے لگے ہیں جس کا اسلام سے اور شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے ،ہم کو ان خُرافات سے بچتے ہوئے شریعت مطہرہ پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے ،ہمارے لئے شہادت غم نہیں بلکہ عزم وحوصلہ پانے کی چیز ہے ، شہادت کے مقام ،اس کے مطلب اور اس کے پیغام کو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے،شہادت ایک عظیم عمل ہے ،اس کا حصول بہت بڑا اعزاز ہے،اس کا پانے ولا نہایت قابل رشک ہے اور دین وایمان کے تحفظ کے لئے ہمہ وقت تیار رہنا اس کا پیغام ہے ،بلاشبہ میدان کارزار میں اسلام کے جلیل القدر اور عظیم المرتبت فرزندوں نے جان عزیز کا نذرانہ پیش کرکے اور نواسہ رسول ،جگر گوشہ فاطمہ ،فرزند علی ؓ سیدنا حسین ؓ اور ان کے رفقاء وافراد خانہ نے میدان کربلا میں خون میں نہا کر ،جام شہادت پی کر زبان حال وقال سے یہ پیغام دیا کہ حق وصداقت ،مظلوم کی حمایت ،دین کی حفاظت اور اسلام کی سربلندی کے لئے سر تو کٹایا جاسکتا ہے لیکن کسی حال میں بھی سر جھکایا نہیں جاسکتا ۔

ؓ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×