سیاسی و سماجی

دل بدل جائیں گے

  ہمارا ملک "ہندوستان”انگریزوں کے چنگل سے آزاد تو ہوگیا ؛لیکن ہندوستانی مسلمان ، مذہبی ،قومی اور تعلیمی محاذ پر اس کی عفریتی سائے سے نہ بچ سکے ، انگریزوں نے مسئلہ تعلیم کو خالص مذہبی نقطہ نظر سے دیکھنے کے بجائے  سیاسی زاویئے سے دیکھا ،یہاں کے باشندوں کو ایسے نظام تعلیم کا خوگر اور عادی بنایا  جو مذہبی اور قومی روح سے یکسر خالی ہونے کے ساتھ ساتھ بے مقصد اور لایعنی  بھی ہو ، کیا یہ حقیقت واقعہ نہی کہ اسکولوں اور کالجوں میں تاریخ کا وہ حصہ پڑھایا جاتاہے جو قوموں کی آپسی ظلم و تعدی اور باہم چپقلشوں  کا آئینہ دار ہوتا ہے ؟ ایسی زبان سکھائی جاتی ہے جس کا مقصد اعلی خوردونوشت کا سامان بہم پہونچانا ہے ؟(اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ راقم انگش کی فی زماننا اہمیت کا منکر ہے ) جغرافیہ میں ایسے جزیرے اور ملکوں کی دریافت مقصود  نہی ہوتی جہاں سورج کب طلوع اور غروب ہوتا ہے ؟؟اسکولوں میں انگریزی زبان کے پڑہنے اور پڑہانے سے انگریزوں کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہے کہ ہندوستانیوں کی اس "لسانی وحدت” کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا جائے جو تمام برادران وطن کو قومیت اور وطنیت کے ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ،اور جس  لسانی وحدت کے پلیٹ فارم پر تمام  ہندوستانی ذات پات اور رنگ روپ سے قطع نظر ایک جگہ جمع ہوسکتے ہوں اور ملی شیرازہ بکھرنے سے بچاسکتے ہوں ، اگر یہ کہا جائے کہ انگریزوں کا سب سے مہیب ناک ظلم اس نئے نظام تعلیم کے ذریعہ مسلمانوں کے وطنی اورقومی  شیرازے کو بکھیرنا ہے تو شاید یہ مبالغہ آمیزی نہ ہو ۔
    آزادی ہند کے بعد یہاں کے سیاسی دانشوروں اور قائدین نے مذہبیت کی بنیاد پر  ہندؤں اور مسلمانوں کو دو گروہوں میں بانٹ دیا ، شروع  ہی سے ان کی پالیسی اور حکمت عملی یہی رہی کہ ہندوؤں کو وہ تمامتر سیاسی  اثرو نفوذ  رہے جس سے  عام مسلمان یکسر محروم رہیں  ، اس غرض کے لئے ان سے جو جو بن پڑا انہوں نے اس کو کرنے میں دریغ نہیں کیا ،   اسلام کی شمع عالم تاب اور سدا بہار  وہر دم جواں چہرے کو بےجا تنقیدو ملامت کا نشانہ بنانا ، وارثین خلیل اور مسلمانان اسلام کو ناروا اور بےجا تہمتوں کی جال میں پھنسانا ، مذہب اسلام کی معزز اور قابل قدر ہستیوں پر کیچڑ اچھالنا ان کے تقدس کو پامال کرنا  ، مذہبی عبادت گاہوں کو سیاست کی بھینٹ چڑھانا ، یہ سب اسی زعفرانی حکومت اور اس رنگ  میں رنگے ہوئے سیاسی قائدین کی شاخسانے ہیں ،  بحث وتحقیق کے نام پر  غیر مسلم مفکرین  کا اسلامی تاریخ کو بدنام کرنے کی سازش ، ہندو دیوی دیوتاؤں کی تقدیس وتکریم ،  اور اسکولوں اور کالجوں میں وندے ماترم اور سوریہ نمس کار جیسی غیر اسلامی تہذیب کو لاگو کرنے  کی کوششیں بھی دیدنی ہے ، پھر  تاریخ ہند  پر  ایسی مسموم کتابوں کی تالیف وترتیب کا م انجام دینا  جو ہندو مذہب کی طرف لوگوں کی دلچسپی کا سامان بہم پہونچاے ، بجائے خود ایک افسوس ناک اور تعجب خیز پہلو ہے ۔
     وبائ   مرض ” کرونا وائرس ” کی آڑ میں حکومت کا مقصد  اب مسلمانوں کے دل ودماغ اور تعلیم و تربیت کو زک پہونچانا ، یہاں کی فضاء کو بے اذان اور زمین کو بے سجود کرنا   ہے (خار الله آمالهم )؛کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ فکری ذہنی اور اعتقادی حملہ ،  عسکری اور جسمانی حملے سے کہیں زیادہ  پر اثر اور زود مغز  ہوتا ہے  ، انہوں نے اب یہ ٹھان لیا ہے کہ اس جمہوری ملک کو ہندو راشٹر بناکے چھوڑنا ہے ۔
   اطلاعات کے مطابق مرکزی اتھارٹی برائے ثانوی تعلیم نے لاک ڈاؤن کے باعث نصاب میں کمی کرنے کےلئے  اسکولوں کا جو خاکہ  تیار کیاہے اس میں ہندوستان کی مادری زبان "اردو”کو سرے سے ہٹادیا گیا ،  اسکول میں پڑہنے والے تمام بچوں کےلئے اب صرف ایک ہی مذہب کی تعلیم وتر بیت رہ گئی ہے اور وہ ہے "ہندو مذہب "رامائن ” ویدوں” اور  "مھا بھارت "کی تعلیم ، اسکول میں پڑہنے والے ہر طالب علم کو اب محمود غزنوی اور محمد غوری کے ظالمانہ کردار کی تعلیم دی جائے گی کہ کس طرح انہوں نے ہندوستان کو لوٹا گھسوٹا ، ان کتابوں سے بچوں کو اس بات کی تعلیم دی جائے گی کہ انگریزوں کے ظالمانہ پنجوں سے جب لوگ اس ملک کو آزاد کرارہے تھے تو ایک مسلمان "علی صغیر "انگریزوں کا حلیف و دست وبازو اور انکا گماشتہ بناہواتھا ، عصری جامعات سے    "جمہوری حقوق ” حب الوطنی ، قومی یکجہتی کی طرف دعوت دینے والے مضامین کو نصاب سے خارج کردیا گیا ، "سیاست ” میں سے "موجودہ زمانے میں پُر امن طریقے” "ہندوستان کی نئی اجتماعی معاشرتی تحریکوں ” ہندستانی آئینی اعضاء ” وغیرہ ان تمام  مضامین کو برطرف  وبرخاست کردیا گیا جو ایک سیکولر اور جمہوری ملک کے نظام کو سمجھنے اور اس پر عمل درآمد ہونے میں معاون ثابت ہو تے ہیں ۔
      نظام تعلیم کے دور رس اثرات
 نئی تاریخ کی وضع وتدوین تو چھوڑ دیجیے کہ یہ بڑے وسیع منصوبے ہیں ، کسی قوم کا اس کے درخشاں ماضی سے رشتہ کانٹنے اور اس کی علمی وتہذیبی ورثہ کو ملیامیٹ اور ہباءا منثورا  کرنے کے لیے اس قوم کے صرف رسم الخط کو بدل دینا کافی ہے
      شیخ مرحوم کا قول اب مجھے یاد آتا ہے
      دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے
    ظاہر ہے کہ نسل نو کی نوخیز  زندگی  اس طلسماتی نظام تعلیم وترتیب کے بھیانک اور خطرناک اثرات سے متاثر ہوئے بغیر نہی رہ سکتی "قلب اومومن دماغش کافرست "کا مصداق !
   موجودہ اسپین اس کی واضح مثال ہے کہ کس طرح ایک طویل المیعاد منصوبہ بندی کے نتیجے میں ایک اسلامی ملک غیر اسلامی بن گیا ۔
       تدبیر
   ذرا اسلام کے اس قابل تسخیر پہلو پر غور وفکر کیجئے جس نے بہت ہی قلیل مدت میں اپنی جہاں داری اور جہاں بانی کے جھنڈے گاڑ دیے ، اور سارے لوگوں کو رنگ ونسل سے قطع نظر ” وحدت قومیت ” یا "وطنیت”کے متحدہ پلیٹ فارم پر لاکھڑاکردیاتھا ، جس کے تحت تمام لوگ ذات پات اور دین ومذہب سے صَرف نظر خالص ملی بقاء کے پیش نظر اور وطنیت کے شیرازے کو بکھرنے سے بچانے کے لیئے ایک محاذپر سرگرم عمل ہوے تھے ، اسلام کی اس قابل تسخیر پہلو کا راز اسی میں پنہاں ہے کہ اس نے اسلامیت یا مذہبیت اور وطنیت یا قومیت کے درمیان لوگوں میں کبھی تفریق و امتیاز اور بھید بھاؤ کو روا رکھا اور نہ کبھی برداشت کیا ، یورپ کو گزشتہ دو صدیوں میں جو علمی فکری اور صنعتی ترقی ہوئی اس میں اس کی پالیسی ہمیشہ سے یہی رہی کہ ایک ملک میں بسنے والی تمام قومیں متحد ہوکر اس طرح دوش بدوش کھڑی ہوں کہ حریف قومیں ان کی صفوں کو متزلزل  کرسکیں اور نہ ان کے شیرازے کو بکھیر سکیں ، اس لیے  ان تما م ممالک میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں  اور دوسری قومیں اکثریت میں  اپنے ملی تشخصات کی بقاء کی خاطر  اُن پر ضروری ہے کہ مذہبی اور دینی امور میں  نیم خود مختاری  حاصل کرکے ایسے عصری جامعات قائم کیے جائیں جس کے نصاب میں حکومت کو کسی بھی طرح کے ردو بدل اور ترمیم و تنسیخ کی گنجائش نہ رہے ، دوسری طرف ملک کے سیاسی اور وطنی امور میں برادران وطن کے ساتھ اشتراک عمل ہوں ، اس طرح مسلمانوں کی دو مجلسیں ہونگی ایک خالص اسلامی جو ان کی مذہبی اور تمدنی معاملات کا فیصلہ ہوگی اور دوسری سیاسی جو دوسرے ہم وطنوں کے ساتھ مل کر ملکی مسائل ومشکلات کا تصفیہ کرنے میں معاون ومددگار ثابت ہوگی ۔( دیکھیں :مسلمانوں کی آئیندہ تعلیم  19)
          ترک ناداں نے اگر چہ خلافت کی قبا چاک کردی ،  جس میں اپنوں کی سادگی اور اوروں کی عیاری بھی شامل تھی  ؛مگر بقول علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ  کہ” ترکوں نے سیاسی انقلاب کے بعد تعلیمی انقلاب کی طرف اپنی توجہ موڑدی” ، ان کی تعلیمی پالیسی اور حکمت عملی لائق التفات  اور لایق قبول بھی ہے ،  ذیل میں  ترکی  ابتدائی  تعلیمی لیڈر کا سبق بطور اقتباس نقل کیا جاتا ہے ، جس سے اندازہ ہوگا  کہ کیسے ترک داناں نے  تعلیمی حقیقت کا پتہ لگایا ، اور دین و وطن کو کس طرح  ہم آغوش وہم رشتہ کیا ”  بچو!تم دیکھتے ہو کہ ایمان لوگوں میں اتحاد پیدا کرتاہے  ، اور ان کو قوت اور مسرت بخشتاہے ، اللہ تعالیٰ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور مذہب اسلام پر عقیدہ رکھنا ہی ایمان ہے ، ہمارا ایک قومی ایمان بھی ہے ، ہم ترک ہیں ، ترک تہذیب یافتہ اور متمدن ہیں ، ہمارا ملک ہمیشہ ترقی کرتا جائے گا  اور دشمنوں پر فتحیاب ہوگا ، جس وقت ترک نام لیاجاتاہے میرا سینہ  فخر سے پھول جاتاہے اور میرا سر بلند ہوجاتاہے ، میں ان لوگوں سے محبت کرتا ہوں جو میری قوم اور میرے ملک کے لئے مفید ہیں ، جو میرے ملک کو نقصان پہنونچاتے ہیں ان سے مجھے مطلق محبت نہی ” (یہ اقتباس علامہ سید سلیمان ندوی کی کتاب "مسلمانوں کی آئیندہ تعلیم”سے ماخوذ ہے ، تفصیل کے لئے دیکھیں مذکورہ کتاب )

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×