سیاسی و سماجی

مرکز بہانہ مسلمان نشانہ

بیماری کا کوئی مذہب یا دھرم نہ تھا نہ ہے اور نہ کبھی ہوگا اور یہ بالکل بدیہی امر ہے لیکن ہمارے ملک ہندوستان کی بد قسمتی ہے کہ یہاں اب بیماری بھی ذات پات بھید بھاؤ کے ساتھ اپنا اثر ظاہر کررہی ہے،کورونا جواس وقت عالمی وبا کے طور پوری دنیا میں کہرام مچارہی ہے اور ساراعالم اسکی لپیٹ میں آچکا ہے تقریباً ہر ملک اپنے باشندوں کے لیے حفاظتی اقدامات کررہاہے جسکا اثر عالمی لاک ڈوان کی شکل میں ظاہر ہوچکا ہے لیکن ہمارے ملک کی طوائفی وگودی میڈیا نے اس وباء کو خاص مذھبی رنگ دیتے ہوئے نہ صرف یہ کہ کورونا وائرس کو کلمہ شہادت پڑھادیا بلکہ اسے حلقہ بگوش اسلام بھی کردیا پہلے جب اس بیماری کا تذکرہ کیا گیا تھا تو اس کا کوئی خاص مذہب نہیں تھا مگر جب میڈیا کو اس سادہ اور بغیر نمک مرچ مصالحہ کی خبر سے پیٹ نہیں بھرا تو پھر اچانک دہلی کی بنگلہ والی مسجد مرکزنظام الدین کو اپنا ٹارگیٹ بناکر اس بیماری کا ایسا تعارف کروایا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ملک سمیت عالمی میڈیا میں یہ تاثر پیدا کردیا کہ کورونا وائرس دراصل مسلمانوں کی وجہ سے ہی ملک بھر میں پھیل گیا ہے اس کے چلتے بعض سیاسی لیڈروں نے بظاہر قوم مسلم سے ہمدردی کا جذبہ دکھاتے ہوئے اپنی دکان چمکانے کی کوشش کرلی، بی جے پی کو تو چھوڑ ہی دیں اسکاروز اول ہی سے یہی مشن ہے اسکا گلہ کرنا بھی بےکار ہے لیکن افسوس کی بات یہ رہی کہ راجدھانی دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے بھی اپنا اصلی روپ بہت صفائی وڈھٹای کے ساتھ پیش کیا ۔
ایسے وقت جب ملک ہی نہیں پوری دنیا کورونا کی زد میں پریشان ہے اور ملک بھوکا ننگا ہوچکا ہے اب تو اس کی ضرورت نہیں میں کہوں گا دیش کے ہر ناگرک پر فرض ہے کہ سب کا ساتھ سب کاوکاس اس کا عملی مظاہرہ کیاجاتا اور ہر شہری کورونا کے خلاف پوری سچای کے ساتھ اس جنگ کا حصہ بنتا مگر پستی کا کوئی حد سے گذرنا دیکھے کے عین مطابق طوایفی وگودی میڈیا نے ایسے نازک وقت میں عالمی وباء کو ختم کرنے میں اپنے صحیح فرض منصبی کو چھوڑ کر حکومت کی چاپلوسی اور اس کے تلوے چاٹتے ہوئے چلاو تم ادھر کو ہواہو جدھر کو مصداق اس بیماری کا رخ ہی پلٹ دیا ۔۔کیا گودی میڈیا کو کنیکہ کپور اور یوپی کے وزیر اعلی یوگی اور ان ایم پیز کی ملاقات یاد نہیں؟؟ کیا لاک ڈوان کے بعد یوگی اور ان کے ساتھ ایودھیا میں سوشل ڈسٹینسنگ کو ختم کرکے پوجا پاٹ کرنے والے اس وایرس سے ملک کو محفوظ کرنے میں لگے ہوئے تھے؟؟ ملک کے بیشتر علاقوں کے منادر جو لاک ڈاؤن کے بعد بھی کھلے ہوئے تھے اور ہزاروں یاتری بغیر کسی پابندی کے اپنے کام میں مصروف تھے شاید وہ کورونا وائرس سے تحفظ کی خدمات پر مامور تھے ؟؟ اسی طرح دیگر ریاستوں کے وہ مزدور جن کے جماوڑے سے ساراملک واقف ہے کیاوہ سارے کورونا وائرس سے دوسروں کو بچانے جمع ہوئے تھے؟؟ ایسے کیی سوالات ہیں جن کا گودی میڈیا کے پاس کوئی جواب نہیں ہے یا اگر ہے تو صرف زبانی جمع خرچ کے لیے آخر کب تک اپنے فرائض کی دھجیاں بکھیرتے رہے گی یہ طوایفی وگودی میڈیا؟ کب تک اپنے ضمیر کا سودہ کرے گی؟ اور کب تک دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے والی ہے یہ بکاؤ میڈیا؟ملک کا نمک کھاکر ملک سے کب تک نمک حرامی کرے گی؟ کب اپنے جھوٹے حربے اورشعبدہ بازیوں سے باز آے گی اور شاید ان میڈیا والوں نے جمہوریت آزدی اظہار خیال کی آڑ میں شروع دن ہی سے اپنا ضمیر بیچ کر اپنی نسل کو لقمہ حرام کھلانے کا فیصلہ کرلیا ہے قلمی اور الیکٹرانک میڈیا کو گویا اپنے گھر کی لونڈی تصور کرلیا ہے ایسے میں ملک کے ہر شہری کی اپنی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ان بکاؤ طوائفی وگودی میڈیا کا مکمل بائیکاٹ کرے اور ہر اعتبار سے سچ کو قوم کے سامنے پیش کرے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×