سیاسی و سماجی

سی اے اے احتجاجیوں کے خلاف چارج شیٹ فسطائی ذہنیت کی عکاسی

ایک جمہوری ملک میں عوام کواحتجاج کاحق حاصل ہوتاہے، اسے کوئی چھین نہیں سکتا، اگراحتجاج کے حق کوختم کردیاجائے توپھروہ ملک بھی جمہوری ملک باقی نہیں رہتا، دنیاکے کسی بھی جمہوری ملک کے تعلق سے یہ نہیں کہاجاسکتاہے کہ وہاں احتجاج کے حق کوختم کردیاگیاہے، سوائے ان ممالک کے ، جہاں کے حکمرانوں نے ظلم کوروارکھاہے، احتجاج ایک ایساحق ہے، جس کے ذریعہ سے حکومت من مانی کرنے سے ڈرتی ہے، اگراس کوختم کردیاجائے توپھرحکومت ڈکٹیٹربن جاتی ہے۔

ہمارے ملک میں پچھلے ادوارمیں یہ کام اپوزیشن کرتی رہی ہے؛ لیکن یہ اس وقت کی بات ہے، جب کہ اپوزیشن مضبوط ہوتی تھی، آج اپوزیشن نام کی کوئی چیز نہیں ہے؛ اس لئے عوام نے اس کام کو اپنے ذمہ لیاہے، اس سے قبل بھی کچھ عوامی احتجاجات ہوئے ہیں ، جیسے اناہزارے کااحتجاج اورہاردک پٹیل کااحتجاج، ان کے احتجاجات بھی پرامن تھے اورمہنگائی کے خلاف اورحق کے لئے تھے، اس وقت تمام لوگوں نے ان کاسپورٹ کیا، میڈیانے بھی ان کاساتھ دیا۔

اس وقت بھی ایک زبردست احتجاج چل رہاہے، جوکسان آندولن کے نام سے جاناجارہاہے، اس احتجاج میں اصلاً توکسان شامل ہیں؛ لیکن چوں کہ یہ بھی حق اورانصاف کے لئے ہے؛ اس لئے ملک کاہرانصاف پسند شہری عملی طورپرنہ سہی؛ لیکن ذہنی طورپرضرور شریک ہے، احتجاجیوں اورحکومت کے درمیان کئی مرتبہ گفتگو ہوچکی ہے؛ لیکن کوئی گفتگو نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکی ہے، کسانوں کے اس احتجاج کوروکنے کے لئے حکومت نے بہت زورصرف کیا، سڑکوں تک کو کھدوا ڈالا؛ لیکن احتجاجیوں کادھارارک نہ سکا اوروہ تمام رکاوٹوں کوروندتے ہوئے دہلی پہنچ گئے۔

گزشتہ سال ایک احتجاج جے این یومیںبھی ہوا تھا، جوحکومت کے اس فیصلہ کے خلاف تھا، جس کی روسے تعلیمی فیس میںاضافہ کیاگیاتھا، یہ احتجاج بھی پرامن ہی تھا، اور جے این یوکے ساتھ ملک کے تقریباً تمام یونیورسٹیوں کے طلبہ نے بھی ساتھ دیاتھا اوراس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تھی؛ لیکن طلبہ کی آواز کوطاقت کے زورپردبایاگیا اوران کی فریادنہیں سنی گئی، تقریباً تمام یونیورسٹیوں میںہنگامہ برپاکروایاگیااورباہری غنڈوں کے ذریعہ سے طلبہ پرظلم وستم ڈھائے گئے، ہاتھ پیرتوڑے گئے اورآنکھ وسرپھوڑے گئے، پھربعض غنڈوں کی شناخت بھی ہوئی؛ لیکن اندھے قانون سے ان کوکوئی نقصان نہیںہوا۔

گزشتہ سال کشمیرمیںبھی زبردست ہنگامہ آرائی رہی، جس کی وجہ دفعہ 370کاہٹاناتھا، وہاں کے احتجاجات کوکچلنے کے لئے پہلے تووہاں کے تمام لیڈران کونظر بند کردیا گیا، جوعملاً قیدہی کی شکل ہے، پھرپورے خطہ کوفوجی چھاؤنی میںتبدیل کردیاگیا، نیٹ کی سہولت ختم کردی گئی؛ تاکہ وہاں کے حالات سے باخبری نہ ہواجاسکے، جوکیاگیا، وہ غلط طریقے سے کیاگیا، ایسے اندازمیںکیاگیا، جیسے کسی کمزورملک پرقبضہ کیاجاتاہے۔

گزشتہ سال ایک اوراحتجاجی ریلی نکلی تھی، جوطلاق ثلاثہ بل کی مخالفت میں بھی لاکھوں کی تعداد میں خواتین نے اس میں شرکت کی تھی؛ لیکن حکومت کے کان میں جوں تک نہیں رینگی، پھرایک اورقانون پاس کیا گیا، جسے سی اے اے کے نام سے جانا جاتا ہے، اس قانون کے خلاف بھی زبردست عوامی احتجاج شروع ہوا، سب سے پہلے شاہین باغ میں شروع ہوا، پھرملک کے چپے چپے میں یہ احتجاجات ہوئے، شاہین باغ مرکز کے طورپرسمجھا گیا، اس میں بھی مسلمانوں کے علاوہ دوسری قوموں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی تھی، یہ احتجاج بھی دراصل اس ظالمانہ قانون کے خلاف تھا، جس کی روسے اس ملک کی ایک قوم کی شہریت کونشانہ بنائے جانے کاامکان ہے، یہ قانون ابھی تک ختم نہیں ہواہے، جوں کاتوں باقی ہے، اس تعلق سے احتجاج 101دن تک چلتارہا۔

 اس دوران بہت سارے نشیب وفراز آئے، بم پھینکے گئے، گولیاں داغی گئیں، دھمکیاں دی گئیں، پھردہلی میں اس کی وجہ سے ہی ٹارگٹ کرکے فساد بھڑکایا گیا اوردسیوں مساجد، مزارات اورگھروں کونذرآتش کردیاگیا، جانیں بھی گئیں، اس تعلق سے چارج شیٹ بھی ایساداخل کیا گیا، جس کے لحاظ سے ’’ہم ہی مقتول بھی، ہم ہی مجرم بھی‘‘ ٹھہرائے گئے، کورناکے دورمیں حکومت کوموقع ملااوراحتجاج میں شریک ہونے والوں کوچن چن کرگرفتار کیا گیااورجیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیاگیا، آج بھی بہت سارے جیل ہی میں ہیں۔

اس تعلق سے سب سے سنگین مسئلہ یوپی کاہے، وہاں حکومت بھی بی جے پی کی ہے اورسی ایم یوگی جی ہیں، جن کی شدت پسندانہ ذہنیت کوہرکوئی جانتاہے، اس تعلق سے یوپی پولیس نے 4751افراد کے خلاف چارج شیٹ داخل کی ہے، یہ چاج شیٹ کس بنیاد پرتیارکی گئی ہے؟ اکثرجگہوں پرجواحتجاجات ہورہے تھے، وہ سڑک جام کرکے نہیں تھے، عوامی جگہوں پرتھے، عوام اگرعوامی جگہوں پراحتجاج نہ کریں توپھرکہاں کریں؟ اس پر چارج شیٹ توہوناہی نہیں چاہئے۔

لیکن اگریہ چارج شیٹ اس بنیاد پربنائے گئے ہیں کہ یہ احتجاجات ایک ایسی چیز کے تعلق سے تھے، جسے قانون بنا دیا گیا تھا تو کیا جمہوری ملک میں کسی قانون کے خلاف احتجاج بلند کرناجرم ہے؟ اوروہ بھی ایسے قانون کے خلاف ، جس کی وجہ سے ایک کمیونٹی کے حق پرحرف آتاہو؟ظاہرہے کہ یہ بھی جمہوری ملک کاحق ہے، اس لئے اس تعلق سے بھی چارج شیٹ داخل نہیں ہوناچاہئے۔

اوراگراسی وجہ سے چارج شیٹ داخل کیا گیا ہے توپھرکسان آندولن میں بیٹھے ہوئے لوگوں پربھی چارج شیٹ داخل ہوناچاہئے کہ وہ بھی ایک ایسی چیز کے خلاف احتجاج کررہے ہیں، جوقانون بنادیا گیاہے؛ لیکن یہاں تومعیارہی مسلم اورغیر مسلم کاہے، جس میں مسلم قوم شریک ہوں، وہ صحیح ہوتے ہوئے بھی غلط ہے اورجس میں مسلم شریک نہ ہوں، اس میں کسی قسم کی کوئی دقت نہیں ہے، یہ معیارحکومت کی ذہنیت کوواضح کرتاہے، جس سے سب ہی واقف ہیں؛ لیکن اس کے ساتھ سوال بھی پیداہوتاہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس کاجواب یہ ہے کہ ایک تومسلم دشمنی کی وجہ سے؛ لیکن اس کے ساتھ یہ مسئلہ بھی اہم ہے کہ سی اے اے کے خلاف احتجاجات میں قیادت کی کمی تھی، طلبہ آگے تھے، قائدین خواب خرگوش میں پڑے ہوئے تھے، حکومت بات کرتی بھی توکس سے؟ شاید 101دن تک چلنے کے باوجودحکومت کی طرف سے کسی قسم کی کوئی ہل چل اس وجہ سے بھی نہیں ہوئی، کسانوں کے اس احتجاج سے ہمیں یہ سیکھ ملتی ہے کہ احتجاج کی کامیابی کے لئے قیادت بھی ضروری ہے، اگرشاہین باغ کے ساتھ ہمارے قائدین کھڑے ہوتے ، تمام تنظیمیں شریک ہوجاتیں توشاید وہ تلوارنیام میں جا چکی ہوتی، جوآج بھی ہمارے سروں پرلٹک رہی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×