سیاسی و سماجی

تم توچالاک ہو، چال بدل دیتے ہو

کیلیفورنیا، مغربی اوریگون اورمغربی نیواڈاکے جنگلات اورچراگاہوں میں ایک چھوٹاساجانوررہتاہے، جسے ’’زمینی گلہری‘‘کہاجاتاہے، اس جانورکاایک خاص دشمن’’چکی ناگ‘‘(Rattle Snake)ہے، یہ ایساسانپ ہے، جوسونگھ کرشکارکرتاہے اوراگرایک مرتبہ اپنے شکارکے پیچھے پڑجائے توشکارکے لئے اس سے پیچھا چھڑانااور اس سے بچ پانامشکل ہوجاتاہے؛ لیکن کیلیفورنین زمینی گلہری اپنے اس خطرناک دشمن سے بچنے کے لئے عجیب وغریب چالاکی سے کام لیتی ہے، ایسی چالاکی کہ سونگھ کرشکارکرنے والاشکاری دشمن بھی اس تک نہیں پہنچ پاتا، وہ چالاکی یہ ہے کہ اسی چکی ناگ کی کینچلی کواستعمال کرکے اپنی بوکوچھپالیتی ہے اوراس طرح اپنے خطرناک دشمن سے وہ بچ جاتی ہے۔

یہ توخیرجانورہے، جس کواللہ نے عقل سے محروم رکھاہے؛ لیکن اس کے اس عمل سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جس مخلوق کوعقل دی گئی ہے، وہ کتنی چالاکی دکھا سکتی ہے؟ اوراپنی چالاکی سے کیسے کیسے کام انجام دے سکتی ہے؟ دنیامیں اس کی بہت ساری مثالیں موجودہیں؛ لیکن باعقل وبے عقل کی چالاکی میں بڑافرق ہوتاہے، بے عقل کی چالاکی عمومی طورپرذاتی حفاظت کے لئے ہوتی ہے، جب کہ باعقل کی چالاکی ذاتی نفع کے لئے ہوتی ہے، مفاد کے لئے ہوتی ہے،ایک دوسرے کونیچا دکھانے کے لئے ہوتی ہے، دوسرے کوکمزور کرنے کے لئے ہوتی ہے، دوسرے کونقصان پہنچانے کے لئے ہوتی ہے، جس کے لئے وہ دوسروں کے لہوبہانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔

برسہابرس سے عقل والوں کی طرف سے اسی قسم کی چالاکیاں ہوتی آئی ہیں،جس کی وجہ سے جنگ عظیم اول اوردوم وجود میں آئیں،جس کی وجہ سے ہیرو شیما اور ناگاساکی پرایٹم بم داغے گئے، جس کی وجہ سے بریطانیہ نے بیسیوں ممالک پرقبضہ جمایاتھا، جس کی وجہ سے نیوکلیرہتھیاربنائے گئے، جس کی وجہ سے عالم عرب کے خزانوں پررعب ودبدبہ قائم رکھاگیا، جس کی وجہ سے بعض نے بعض کودہشت گردقراردیااوراس کی آڑ لے کراینٹ سے اینٹ بجادی گئی، اس کوعقل والوں نے چالاکی سے تعبیرکیا؛ حالاں کہ اگر غورکیاجائے توان کی اس چالاکی میں تباہی اوربربادی کے سواکچھ بھی نہیں۔

ہمارے ملک میں بھی اسی قسم کی چالاکیاں شروع ہوئی ہیں، جب برسراقتدارپارٹی سے اس کے وعدے کے بارے میں سوال کئے جاتے ہیں توچالاکی سے موضوع بدل دیاجاتاہے، جب اس سے جواب مانگاجاتاہے توسوال کارخ پھیردیاجاتاہے، جب چین اورنیپال کی دراندازی پربات کی جاتی ہے تووہ پاکستان کی بات کرنے لگتے ہیں، جب الیکشن کاموقع آجاتاہے اوراندیشہ ہوتاہے کہ لوگ اس سے کئے ہوئے وعدوںسے متعلق سوال کریں گے توملک کے کسی گوشہ میں دہشت گردانہ حملہ کروادیاجاتاہے، جب ووٹ کا وقت آتاہے اوورخوف ہوتاہے کہ لوگ ووٹ نہیں دیں گے توفرقہ وارانہ کھیل کھیل دیاجاتاہے، جب موب لنچنگ پرسوال کھڑے کئے جاتے ہیں تووطن پرستی کی بات کی جانے لگتی ہے، جب عورتوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے توطلاق پرمباحثے کئے جانے لگتے ہیں، جب بڑے مجرموں کے پول کھلنے کی نوبت آنے لگتی ہے توچھوٹے مجرموں کاانکاؤنٹر کردیاجاتاہے اوراسے چالاکی سمجھی جاتی ہے۔

اس وقت ملک کی معیشت تباہ ہوچکی ہے، بے روزگاری انتہاکوپہنچی ہوئی ہے، تعلیم یافتہ نوجوان مرکز سے سوال کررہے ہیں، نوکری کامطالبہ کررہے ہیں، اس کے لئے سڑکوں پراترے ہوئے ہیں، حکومت کے پاس جواب نہیں، حکومت کے پاس نوکری نہیں، ان سوالوں کے جواب سے چھٹکارہ کے لئے بہت ہاتھ پیرمارے گئے، لوگوں کے ذہنوں کوبدلنے کی بہت کوش کی گئی، کبھی مورمونی کاکھیل دکھا کر، کبھی کھلونوں سے جی بہلاکر؛ لیکن جب بات نہیں بنی توپھرچالاکی نہیں؛ چالاکیاں دکھائی گئیں، معیشت کی تباہی کی بات دب گئی، بے روزگاروں کے دھرنوں کاذکرہٹ گیا، اخبارات سے بھی اورنیوزچینلوں سے بھی۔

ریاچکرورتی گرفتارکرلی گئی، ڈرگس کے تعلق سے اس پرکیس فائل کیاگیاہے، اسے چودہ دن کے لئے پولیس کی تتحویل میں دے دیاگیاہے، جب پولیس گرفتارکرنے آئی تھی، اس وقت وہ جنس کرتی میں پہنے ہوئے تھی، جب پوچھ تاچھ کے بعدباہرآئی تواس نے ہاتھ سے اشارہ کیا، یہ وہ لڑکی ہے، جس نے آٹھ سالوں میں سات فلاپ فلمیں عوام کودی ہیں ، اوریہ… اوریہ…اوروہ …اوروہ…

پنگاگرل اورمہاراشٹراحکومت آمنے سامنے، پنگاگرل نے ممبئی کوPOKیعنی پاک مقبوضہ کشمیرسے تشبیہ دیا، کنگنارناوت کے آفس پرانہدامی کارروائی شروع، پنگاگرل کوجان سے مارنے کی ملی دھمکی، مرکز نے اس کودی سیکوریٹی، چاروں طرف سے گھری جھانسی کی رانی، کنگنا رناوت کے خلاف ایف آئی آردرج، کئی معاملات میں ہورہی جانچ، ڈرگس کے سلسلہ میں بھی ہوسکتی ہے جانچ اورالّم …اورغلّم…

آج کل تمام نیوز چینلوں میں چوبیس گھنٹے بس یہی ہے، کیب ڈرائیورآفتاب کی لنچنگ ہوگئی، ایک چھوٹی سی خبر، پانی مانگنے کے بدلے آرے سے سلمانی کاہاتھ کاٹ دیاگیا، ایک چھوٹی سی خبر، بے روزگارنوجوان تالی اورتھالی کے ساتھ سڑکوں پر، خبرغائب، معیشت کی تباہی ، اسکرین سے غائب، یہ ہے وہ چالاکی، جس کے ذریعہ سے صرف اورصرف پارٹی مفادسوچاجارہاہے، ملک کی فکرکسے ہے؟ شسانت سنگھ ، ریاچکرورتی اورکنگنارناوت کی خبروں سے بے روزگاروں کاکیالینادینا؟ کیا اس خبرسے ملک کی معیشت سدھرجائے گی؟ کنگنارناوت کی آفس 48کروڑروپے کی لاگت سے تعمیرہوئی ہے، اس سے ملکی معیشت کی سدھار کیوں کر ہوسکتی ہے؟کیااس کی تعمیرکردہ آفس کومنہدم کردینے سے بے روزگاروں کوروزگارمل جائے گا؟

ان سب چیزوں کواچھال کرحکومت ایک تیرسے کئی شکارکرناچاہ رہی ہے، مہاراشٹرا حکومت کے خلاف زمین ہموارکررہی ہے؛ کیوں کہ ادھوٹھاکرے نے اسے ٹھینگا دکھایاتھا، جس کی پبلیسٹی کے لئے ایک چہرہ چاہئے تھااوروہ چہرہ کنگنارناوت کی شکل میں دستیاب ہوگیا، ملک کی کئی بڑی شخصیتوں نے حکومت سے سیکوریٹی کامطالبہ کیا؛ لیکن انھیں کوئی سیکوریٹی نہیں دی گئی؛ کیوں کہ وہ حق بات کرتے ہیں، حکومت کی غلط پالیسیوں پرتنقید کرتے ہیں اوروہ بی جے پی کے لئے پبلیسٹی چہرہ نہیں بن سکتے؛ اس لئے ان کی جان کی کوئی پرواہ نہیں؛ لیکن کنگنارناوت جذباتی عورت ہے، وہ بی جے کے جھانسے میں آجائے گی؛ بل کہ آچکی ہے، عجب نہیں کہ آئندہ سیاست میں بھی نظرآئیں اورعجب نہیں کہ مہاراشٹرا سے ہی ٹکٹ مل جائے۔

دوسری طرف بہارمیں الیکشن قریب ہے، شسانت سنگھ بہارکا نوجوان تھا؛ اس لئے الیکشن تک اس کے کیس کوزندہ رکھناہے؛ کیوں کہ شسانت کے ساتھ نوجوانوں کے جذبات وابستہ ہیں، ان کے جذبات سے کھیلنے کااس سے اچھاموقع اورکہاں ہاتھ آئے گا؟ ورنہ اوربھی دکھ ہیں ملک میں شسانت کے سوا، معیشت پربات نہیں کی جارہی ہے؛ کیوں کہ اس کے ذریعہ سے حکومت کی ناکامی سامنے آئے گی، بے روزگاری پربات نہیں کی جارہی ہے؛ کیوں کہ اس سے حکومت کی ہزیمت نکھرے گی۔

ایک اورشوشہ ہاتھ آگیاہے،سدرشن نیوز چینل کے متانزعہ پروگرام ’’ نوکرشاہی جہاد‘‘، جس پرہائی کورٹ نے اسٹے لگایاتھااورمرکزکی اجازت پرموقوف رکھاتھا، اب مرکزنے اس متنازعہ پروگرام کونشرکرنے کی اجازت دیدی ہے، ظاہرہے کہ یہ اجازت اس بات کی دلیل ہے کہ اس ملک کی گنگاجمنی تہذیب دم توڑچکی ہے؛ کیوں کہ اس پروگرام کے پرومومیں نیوزچینل کے ایڈیٹران چیف یہ کہتے ہوئے نظرآئے کہ: ’’اچانک آئی پی ایس، آئی اے ایس میں مسلمان کیسے بڑھ گئے، سوچئے، اگرجامعہ کے جہادی آپ کے ضلع کلکٹراورہروزارت کے سکریٹری ہوں گے توکیا ہوگا؟جمہوریت کے سب سے اہم ستون انتظامیہ کے سب سے بڑے عہدوں پر مسلم گھس پیٹھ کاپردہ فاش، دیکھئے سدرشن نیوز پر‘‘، اس پروموسے ہی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ پروگرام میں کیاہوگا؟

حالاں کہ دوسری طرف اگرغورکیاجائے توسدرشن کایہ پروگرام براہ راست حکومت پراعتراض کررہاہے؛ کیوں کہ یہ امتحانات حکومتی سطح پرہوتے ہیں توگویایہ کہارہاہے کہ حکومت نے اس امتحان میں شفافیت سے کام نہیں لیاہے، تبھی تومسلمانوں کی تعدادبڑھتی جارہی ہے؛ حالاں کہ کتنے مسلمان اس امتحان میں پاس ہوئے؟ اگرآبادی کے تناسب سے دیکھیں توآٹے میں نمک کے برابرہیں، اس کے باوجودکچھ لوگوں کی آنکھ کاشہتیرہیں یہ کامیاب ہونے والے طلبہ، جوبھی ہو، بہرحال!یہ بھی اصل مسائل سے لوگوں کی توجہ کوپھیرنے اورمسلم دشمنی کومزیدپختہ کرنے کے لئے ہی مرکزنے اس کونشرکرنے کی اجازت دی ہے۔

یہ ہے حکومت کی وہ چالاکی، جوملک کوتباہی کے دہانے پرلے کرجارہی ہے، جب بات ہوگی نہیں توتمام لوگوں کواس تعلق سے معلومات نہیں ہوں گی، اورجب معلومات نہیں ہوں گی تولوگ حکومت کے خلاف کیوں کربرسرپیکارہوں گے؟حکومت بہت چالاک ہے اورشاطربھی، ہمیشہ وہ چال بدل دیتی ہے؛ لیکن چال بدلنے سے معیشت سدھرے گی نہیں، حکومت جتنی جلد اس کوسمجھ لے، ملک کے حق میں فائدہ مند ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×