سیاسی و سماجی

سیاسی اتحاد : وقت کی ضرورت

کوئی بھی قوم اپناسرداراس لئے منتخب کرتی ہے؛ تاکہ وہ پوری قوم کے تعلق سے بھلاسوچے، برائی کوٹالے، اس کی تعمیراورترقی کے راستے ہموارکرے، جمہوری نظام میں یہی چیزالیکشن کے ذریعہ انجام دی جاتی ہے، پارٹیوں کوووٹ اسی لئے قوم دیتی ہے اورکئی پارٹیوں کے مقابلہ میں کسی ایک پارٹی کوزیادہ ووٹوں سے جتاکر اسے حکومت کی کرسی پربٹھاتی ہے، اسی لئے جب الیکشن کاوقت آتاہے توہرپارٹی اپنامنشورجاری کرتی ہے اورقوم کے سامنے یہ واضح کرتی ہے کہ اگرہماری حکومت قائم ہوجاتی ہے توہم ملک وقوم کوفلاں فلاں سہولتیں فراہم کریں گے، آج بھی وہ ممالک، جن کوہم ترقی یافتہ کہتے ہیں، الیکشن میں عمومی طورپراس طرح دھاندلی وہاں نہیں ہوتی، جس طرح کی دھاندلیاں ترقی پذیر ممالک میں اورخصوصیت کے ساتھ برصغیر میں ہوتی ہے۔

برصغیرمیں پارٹیوں کے منشورصرف فارملٹی نبھانے کے لئے ہوتے ہیں، یہاں کی عوام کی اکثریت چوں کہ تعلیم یافتہ نہیں ہوتی؛ اس لئے یہاں کے سیاست داں ان کی جہالت کاخوب خوب فائدہ اٹھاتے ہیں، منشورکچھ نکالتے ہیں اورکام کچھ اورکرتے ہیں، یہ اکثرپارٹیوں کامسئلہ ہوتاہے، کچھ کم اورکچھ زیادہ؛ لیکن ہمارے بھارت کے برسراقتدار پارٹی توحد سے تجاوزکرچکی ہے، شایدہی کسی پارٹی کے کرنی اورکتھنی میں اتنافرق رہاہو، اس پارٹی سے قبل یہاں اکثروبیشترکانگریس کی حکومت رہی، جس وقت ملک آزادہوا، اس وقت ملک کی حالت کیاتھی اورکانگریس کے دوراقتدارمیں کہاں تک پہنچی اوراب بی جے پی کے اقتدارمیں ملکی حالت کیاہے؟ اسے لوگ کھلی آنکھوں دیکھ سکتے ہیں۔

ہمارے ملک بھارت میں سیاست اس مرحلہ میں داخل ہوچکی ہے، جہاں تعمیراورترقی سے کوئی مطلب نہیں، جہاں تعلیم اورتہذیب کوئی اہم چیز نہیں، بس لوگوں کے ذہن ودماغ میں ایسی چیزداخل کرناہے، جواسے اپنی طرف کھینچ لے، اوراس میں سب سے زیادہ اس وقت کامیاب بی جے پی ہے،یہ چوں کہ آر ایس ایس کی سیاسی پارٹی ہے؛ اس لئے اسے وہ تمام گرمعلوم ہیں، جولوگوں کے رخ کوپھیرسکے، آج تک اس نے یہی کیاہے اوراسی کانتیجہ ہے کہ اس کے پاس دولت بھی ہے اوردولت مند بھی، وکیل بھی ہیں اور جج بھی، عہدہ داربھی ہیں اورسیاست دان بھی، لٹھ باز بھی ہیں اوربندوق برداربھی، بم باربھی ہیں اورکلاکاربھی، اس کے مقابلہ میں نہ کانگریس کے پاس کچھ ہے اورنہ ہی دوسری پارٹیوں کے پاس۔

بی جے پی کاایک خواب ہے، ایک نظریہ ہے، ایک سوچ، اسی کے تحت وہ کام کرتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ سیاسی سے زیادہ نظریاتی پارٹی ہے اوراس وقت ملک میں جولڑائی ہے، وہ سیاسی سے زیادہ نظریاتی ہے؛ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ مادیت کے اس دوورمیں ان چیزوں پرپردہ ڈال دیاجاتاہے اوربی جے پی بے تحاشادولت خرچ کرکے ایسے لوگوں کواپنی پارٹی میں شامل کرنے کی دعوت دیتی ہے، جو حریص ہوتے ہیں اورجن کے سامنے دولت ہی سب کچھ ہوتی ہے، راجستھان میں یہی کیاگیا، اب بنگال بھی اس نے یہی چال چلی گئی اورکامیاب بھی ہوگئی، یہ سب دیکھ اورپڑھ کرلگتاہے کہ آج کل کے سیاست دان کاکوئی دھرم نہیں، ان کادھرم صرف پیسہ ہے۔

اس وقت ملک میں لڑائی بی جے پی بمقابلہ کانگریس نہیں ہے اورنہ بمقابلہ دیگرپارٹیاں ہیں؛ بل کہ اصل لڑائی نظریاتی ہے، یہ سیاسی جنگ نہیں, بل کہ نظریاتی جنگ ہے، آئیڈیالوجی کی جنگ ہے اوربدقسمتی سے اس جنگ میں ملک کے تمام لوگ ہارتے جارہے ہیں، اوربی جے پی ہرمحاذ میں اپنی جیت درج کرتی جارہی ہے، ابھی حال ہی میں بہارالیکشن کاجونتیجہ آیا، حیدرآبادکاجونتیجہ آیااوردیگرجگہوں پرجونتائج سامنے آئے ، اس سے صاف طورپریہی محسوس ہوتاہے، اس نظریہ کوسامنے رکھ کر اکثرسیاسی پارٹیاں مقابلہ نہیں کررہی ہیں؛ لیکن بی جے پی اسی نظریہ کوسامنے رکھ کرمقابلہ پراتری ہوئی ہے، اب ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح اس کامقابلہ کیاجاسکتاہے؟

بنگال میں الیکشن کی تیاری چل رہی ہے، پہلے کے مقابلہ میں وہاں بھی صورت حال خطرناک ہوتی جارہی ہے، سیاست دانوں کی منڈیاں سج چکی ہیں اورخرید وفروخت جاری ہے، ایک بڑی تعدادبک بھی چکی ہے، اب چند مزیدکی ضرورت ہے، ایسے میں آئی اے ایم آئی ایم کاوہاں جاناکیادرست ہوگا؟ یہ اس کے صدرکوسوچنے کی ضرورت ہے، اس وقت پورے ملک میں بی جے پی کی پوزیشن مضبوط ہے، اس کے مقابلہ کے لئے اتحادکی ضرورت ہے، اتحادبھی چندیاغیرمستحکم پارٹیوں کانہیں؛ بل کہ مستحکم اورتمام پارٹیوں کاضروری ہے، اگراس طرح سیاست کے میدان میں اس کوپیچھے دھکیل سکتے ہیں تونظریاتی مقابلہ میں بھی کمزورکرسکتے ہیں۔

مسلمانوں کی ایک سیاسی پارٹی ہونی چاہئے اورمضبوط ہونی چاہئے، ان کی کئی پارٹیاں ہیں اوراپنے اپنے صوبوں میں کامیابی کے ساتھ جیت درج کررہی ہیں، ان تمام پارٹیوں کاایک مشترکہ پلیٹ فارم ہوجائے اورتمام کے مابین سیاسی اتحادقائم ہوجائے توکیایہ بہترنہیں ہوگا؟ اوراگریہ تمام مل جل کرکام کریں تویقیناً نتیجہ خیز بھی ہوگا اورکارآمدبھی، ہاں لیکن یہ اسی وقت ہوگا، جب آپس میں ایک دوسرے کوبرداشت کرنے کی طاقت پیداکرلیں، اگرنظریاتی جنگ جیتناچاہتے ہیں توپھریہ توکرناپڑے گا؛ لیکن اگردیگرسیاسی پارٹیوں کی طرح ہی مسلمانوں کوصرف ووٹ بینک سمجھ لیاجائے اوران کی تعمیر اورترقی کے بارے کچھ بھی نہ سوچاجائے توپھرایساممکن نہیں ہے، ذاتی مفاد کوتج کرقومی مفادکوترجیح دینی ہوگی، ایسی صورت میں ملک کے تمام مسلمان بھی آپ کے ساتھ ہوں گے۔

اسی کے ساتھ یہ بھی کرناہوگاکہ جواحتجاجات برادران وطن کی طرف سے ہوں اورواقعی وہ قومی مفاد میں ہوں،سرکارکے غلط فیصلوں کے خلاف ہوں توان میں بھی ہمیں ساتھ میں جڑنا ہوگا، نیزایسے لوگوں کواپناہم نوا بنانا ہوگا، جوبی جے پی کی اس نظریاتی جنگ میں آپ کے حلیف ہیں، بل کہ پارٹی اتحاد میں انھیں بھی شامل کرناچاہئے؛ تاکہ مقابلہ میں مضبوطی آسکے، اگرایسا کیا گیا تو اس نظریاتی جنگ میں جیت ہماری ممکن ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×