اسلامیات

علماء واہل فکر سے کچھ کام کی باتیں

٭ اس امت کے ابتدائی حالات کی درستگی جن ذرائع سے ہوئی تھی، بعد کے لوگوں کے حالات کی درستگی بھی ان ہی ذرائع سے ہوگی۔
٭ پہلے دل سازی پھر ذہن سازی کرنا چاہیے، اظہار نبوت سے پہلے حضرت نبیٔ رحمتﷺ نے دل سازی کی ، اس کے بعد ذہن سازی فرمائی، پہلی وحی کے نزول کے بعد حضرت خدیجہؓ کے تسلی بھرے جملے اس کی دلیل ہیں، انک لتصل الرحم…الخ
٭ دل سازی اور ذہن سازی کے ذریعہ جو کوئی جڑے گا ،وہ ہمیشہ کے لیے جڑے گا، اور جو وقتی ضرورت کے لیے جوڑ ہوتا ہے تو جب ضرورت پوری یا ختم ہوجائے تووہ جوڑ اور تعلق بھی ختم ہوجاتا ہے ۔
٭اس وقت مختلف صلاحیتیں اور مختلف طبعی رغبت رکھنے والے افراد کی ضرورت ہے ، یہ اونچ نیچ کا مسئلہ نہیں۔
٭ ہر فرد کے اندر الگ الگ صلاحیت ہوتی ہے اور الگ الگ ذہن ہوتا ہے، لوگوں سے ان کے ذہن اور صلاحیت کے اعتبار سے کام لینا چاہیے۔
٭اہل علم جو کام کرسکتے ہیں ، دوسروں سے وہ نہیں ہوسکتا ۔
٭عالم کا پھسل جانا عالَم کے پھسل جانے کا سبب بنتا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ عالم کا جوڑ سارے عالَم سے ہے۔
٭ صرف اپنی ضرورت کا کام کرنے کے بجائے سب کی ضرورت کا کام کرنا چاہیے۔
٭ کسی بھی کام پرخلق سے کوئی امید ، توقع یا فائدہ وابستہ نہیں رکھناچا ہیے، حضرات پیغمبران عظام ؑنے یہی اعلان فرمایا۔ ماأسئلکم علیہ من أجر، ان أجری الا علی رب العلمین۔
٭صفت استغناء کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔
٭ کام کرنے والوں کی اچھائیوں پر نظر رکھنی چاہیے، ان کی تنقیص نہ کریں۔
٭جس چیز کی ضرورت ہو، وہ کام انجام دینا چاہیے۔
٭خیر کا کام کریں اور خیر پھیلائیں۔
٭ عہدے کی طلب چھوٹی سوچ ہے، چھوٹی سوچ سے بڑا کام انجام نہیں دیاجا سکتا،بڑا کام انجام دینے کے لیے بڑی سوچ کی ضرورت ہوتی ہے۔
٭ ہر شخص اپنے اپنے مقام پر اپنی ایک ٹیم بناکرمختلف شعبوں میں کام شروع کرے۔
٭ اہل ایمان کے لیے مایوسی ممنوع ہے۔
٭ حالات سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔
٭ ڈیڑھ ہزارسال سے اسلام کو مٹانے کی کوشش ہورہی ہے؛ مگر اسلام نہ مٹ سکا اور نہ مٹ سکے گا۔
٭ اللہ قادر مطلق ہے، جوبگاڑ کے ذرائع ہیں اللہ انہیں ہی صلاح کا ذریعہ بنا دے گا، حضرت عمرؓ، حضرت سفیانؓ، حضرت خالد بن ولیدؓ اور تاتاری قوم اس کا نمونہ ہیں ۔
٭عبادتیں،دعائیں، کوششیں، تدبیریںاور آپسی اتحاد واتفاق کے ساتھ کام کریں۔
٭ اکڑ اور ریاکاری کی بالکل اجازت نہیں، جو کام ہوا اللہ کے کرالینے سے ہوا۔
٭عہدے کے بغیر کام کرنے میں بڑی حفاظت ہے،یہ اخلاص کی علامت ہے اور استقلال کا ذریعہ ہے۔
٭ اس نیت سے آزاد ہوکر کام کریں کہ میں اس کا م کے ذریعہ اپنا فلاں کام کروالوں گا۔
٭ اس وقت لوگوں کو خوف کے ماحول سے نکالنے کی کوشش کریں کہ بیماریاں آتی جاتی رہتی ہیں،ہمارے آنے جانے کا وقت اور ان کے اسباب سب متعین ہیں؛ لہذا خوف بالکل نہ کھائیں، ڈر اور خوف صرف ایک اللہ کا ہونا چاہیے۔
کامیابی کام سے ہوگی نہ کہ حسنِ کلام سے ہوگی
فکر کے اہتمام سے ہوگی ذکر کے التزام سے ہوگی
کچھ کئے جاؤ لے کر نامِ خدا
کچھ نہ کرنا بڑی خرابی ہے
کامیابی کچھ اور چیز نہیں
کام کرنا ہی کامیابی ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×