اسلامیات

صفر المظفر؛ نحوست و توہمات سے پاک مہینہ

صفر یہ عربی زبان کا لفظ ہے جو اسلامی مہینوں میں دوسرا مہینہ ہے۔ قبل از اسلام دور جاہلیت میں اہل عرب ماہ ِصفر سے متعلق عجیب و غریب توہمات گڑھ لیاکرتے تھے جس کو محدثین کرام نے تفصیل سے بیان کیا ہے اور جس کاخلاصہ حسب ذیل ہے ۔
اہل عرب صفر کے متعلق یہ گمان رکھتے تھے کہ صفر سے مراد وہ سانپ ہے جو انسان کو بھوک کی حالت میں ڈستااور کاٹتاہے ‘چنانچہ بھوک کی حالت میں جو تکلیف ہوتی ہے وہ اسی کے ڈسنے سے ہوتی ہے اہل عرب میں بعض کا یہ گمان تھا کہ صفر اس جانور کو کہتے ہیں جو انسان کے پیٹ میں رہتا ہے اور بھوک کی حالت میں پھڑکتا ہے جس کی بنا پر انسان کو تکلیف ہوتی ہے بسا اوقات یہ انسان کی جان بھی لے لیتا ہے بعض کے نزدیک صفر ان کیڑوں کو کہتے ہیں جو جگر اور پسلی کے سرے میں پیدا ہوتے ہیں جن کی وجہ سے انسان بالکل پیلا ہوجاتا ہے (جس کو طب میں یرقان کہتے ہیں ) بعض اوقات یہ مرض موت کا بھی سبب ہوجاتا ہے ۔
بعض اہل عرب یہ کہتے تھے کہ صفر ایک مشہور مہینہ ہے جو محرم اور ربیع الاول کے درمیان آتا ہے لوگوں کا اس کے متعلق یہ گمان تھا کہ اس مہینہ میں بکثرت مصیبت و آفتیں اُترتی ہیں نیز بعض اہل عرب صفر کے آنے سے قبل بدفالی لیاکرتے تھے ‘ امام مالک ؒ فرماتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں صفر کو ایک سال حلال اور ایک سال حرام ٹھہرا تے تھے مطلب یہ ہے کہ اہل عرب محرم کے مہینہ کوحرمت والا سمجھتے تھے اور اس میں قتل و قتال کو ناجائز سمجھتے تھے اس مہینہ کو بڑھاکر صفر کو اس میں شامل کرلیتے تھے اور کبھی ایک سال صفر کو محرم کے مہینہ سے ہٹاکر اس میں جنگ و جدال کوحلال سمجھتے تھے .
آج کل ماہِ صفر کے متعلق عام لوگوں کے ذہن میں مختلف خیالات ہیں ان میں مختصر خیالات کا تذکرہ حسب ذیل ہے:
(۱) بعض لوگ ماہِ صفر میں شادی بیاہ اوردیگر پُر مسّرت تقریبات منعقد کرنے اور اس میں اہم امور کے افتتاح کرنے سے گریزکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صفر میں کی ہوئی شادی صِفر ہوتی ہے (ناکام ہوگی) جس کی بنا ذہنوں میں یہ بات ہوتی ہے کہ صفر کا مہینہ نامبارک ہے اس میں کئے ہوئے کام پایۂ تکمیل کو نہیں پہونچتے اور یہ مہینہ منحوس ہے چنانچہ اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ جیسے ہی صفر کا مہینہ گذرتاہے شامیانے گھروں پر نظر آتے ہیں خوشیاں شروع ہوجاتی ہیں اور اہم امور انجام دئے جاتے ہیں ۔
(۲) بعض لوگ ماہِ صفر کی یکم سے تیرہ تاریخ تک کے ایام کو بطور خاص منحوس سمجھتے ہیں اور ۱۳ ؍تاریخ کو کچھ گونگھیاں پکاکر سرکے پاس انڈے دال وغیرہ رکھ کر صبح کو تقسیم کرتے ہیں تاکہ اس ماہ کی نحوست سے نجات ملے اس کی دین میں کوئی اصل ہے اور نہ کوئی بنیاد ‘من گھڑت باتوں کی تو کوئی بنیاد ہوتی ہی نہیں؛لیکن جب جاہلوں کے گمراہ کن رہنماؤں سے ان باطل نظریات کی دلیل بن جاتی ہے وہ من گھڑت روایات اور غلط سلط دلیلیں پیش کرنےلگتے ہیں ۔
چنانچہ صفر کے منحوس ہونے کے متعلق بھی ان کے پاس ایک روایت منقول ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :
مَنْ بَشّرَّنیْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّۃ :موضوعات ملاعلی قاری ص۶۹آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ماہِ صفر کے ختم ہونے کی خوش خبری دے گا میں اس کو جنت کی بشارت دونگا ‘
یہ لوگ اس روایت سے ماہِ صفر کے منحوس اور نامراد ہونے پر استدلال کر تے ہیں اور کہتے ہیں کہ صفر میں نحوست تھی جبھی تو نبی ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی اور صفر کے سلامت گذرنے پر جنت کی خوش خبری سنائی ‘ واضح ہو کہ اول تو ملاعلی قاری ؒ جو بڑے جلیل القدر محدث ہیں اپنی کتاب الموضوعات الکبیر میں اس حدیث کو با لکل بے اصل قراردیا ہے لہٰذا موضوع اور من گھڑت روایات سے استدلال کرنا سراسر جہالت و ضلالت ہے بعض لوگ اس دن کام وکاج سے چھُٹی کرنے کو اجر وثواب کا موجب سمجھتے ہیں اور مشہور ہے کہ اس دن آنحضرت ﷺ نے غسل صحت فرمایا تھا چنانچہ ایک شعربھی اس سلسلے میں بنایا ہے :
آخری چہارشنبہ آیا ہے
غسل صحت نبی نے فرمایا ہے
اس کی کوئی اصل نہیں بلکہ اس دن آنحضرت ﷺ کے مرض وفات کی شروعات تھی اور آپ ﷺ کی مرضِ وفات پر خوشی کیسی ؟
بعض لوگ اس دن گھروں میں اگر مٹی کے برتن ہوتو اس کو توڑ دیتے ہیں اور اس دن بعض افراد چاندی کے چھلے اور تعویذ ات بنواکر ماہِ صفر کی نحوست و مصیبت اور بیماریوں سے نجات کی غرض سے پہنتے ہیں یہ خالص توہم پرستی ہے جس کو ترک کرنا اشد ضروری ہے زمانہ جاہلیت میں ماہِ صفر کے متعلق بکثرت مصیبتیں اور بلائیں نازل ہونے کا جواعتقاد اوپر نقل کیا گیاہے اسی کی بنیاد پر مذہبی پیشواؤں اوررہنماؤں نے بھی اس ماہ کو آفتوں اور مصیبتوںسے بھر پور قرار دیا ہے حتی کہ لاکھوں کے حساب سے آفات و بلیات کے نازل ہونے کی تعداد بھی نقل کردی خُلاصہ کلام یہ ہے کہ تمام کی تمام باتیں محض غلط بے بنیاد اور من گھڑت ہیں قرآن و حدیث صحابہ و تابعین و ائمہ مجتہدین اورسلف صالحین میں سے کسی سے بھی ان کا کچھ ثبوت نہیں ملتا بلکہ رحمت عالم ﷺ نے اپنے صاف اور واضح ارشاد کے ذریعہ زمانہ جاہلیت کے توہمات اور قیامت تک پیدا ہونے والے تمام باطل خیالات اور ماہِ صفر کے متعلق وجود میں آنے والے نظریات کی تردیداور نفی فرمادی ہے چنانچہ اب آنحضرت ﷺ کے چند ارشادات ملاحظہ ہوں ۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ رسول ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مرض کا لگ جانا اُلّو اور صفر اور نحوست یہ سب باتیں بے حقیقت ہیں اور جزامی شخص سے اس طرح بچو اور پرہیز کرو جس طرح شیر ببر سے بچتے ہو۔
حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے خود رسول ﷺ سے سنا ہے کہ آپ ﷺ فرمارہے تھے کہ مرض کالگ جانا صفر اور غول بیابانی سب خیالات ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں ۔ (مسلم شریف)
یہ سب بخاری شریف و مسلم شریف کی صحیح حدیثیں ہیں دیکھئے ان میں رحمت عا لم ﷺ نے صفر کے متعلق جتنے باطل نظریات خیالات اور توہمات زمانہ جاہلیت میں عربوں کے اندر رائج تھے ،ان سب کی نفی فرمادی ۔
ان ارشادات کے ذریعہ جہاں زمانہ جاہلیت کے توہمات کی تردید ہوتی ہے آپ ﷺ کے انہی پاک ارشادات سے بعد کے زمانہ میں قیامت تک پیدا ہونے والے تمام غلط سلط خیالات و تصورات کی بھی نفی ہوگئی کیونکہ آپ ﷺ کے اِرشادات قیامت تک کے لئے ہیں ۔
الغرض:مذکورہ بالا دلائل سے ثابت ہوگیا کہ ماہِ صفر المظفر میں ہرگز کوئی نحوست نہیں ہے اور آفات و بلیات و امراض بھی اس مہینہ میں نازل نہیں ہوتے بلکہ یہ کامیابی والا مہینہ ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×