احوال وطن

ڈیٹنشن کیمپ سے انکار کرنے والی حکومت ڈیٹنشن سنٹر کیوں تعمیر کروارہی ہے: پرکاش امبیڈکر

اورنگ آباد 27؍دسمبر(رفیع الدین رفیق کی رپورٹ ) آج مودی اور امیت شاہ دونوں اس بات سے انکار کررہے کہ این آر سی سے متعلق بات ہی نہیں ہوئی ہے ۔ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ رہے کہ سی اے اے کا مطلب بھی الگ ہے میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں جب آپ ڈٹینشن کیمپ سے انکار کر رہے ہیں تو پھر ڈیٹنشن کیمپس جگہ جگہ کیوں تیار کیے جارہے ہیں‘ نئی ممبئی کے کھرگر کیمپ میں 5؍ لاکھ لوگوں کو رکھا جاسکتا ہے ۔مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ نے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ ڈٹینشن کیمپ کے لیے ہم جگہ دے رہے ہیں مطلب یہ ہے کہ ڈٹینشن کیمپ ہم تعمیر کر رہے ہیں۔اگر آپ این آرسی نافذ نہیں کرنا چاہتے ہیں تو ڈٹینشن کیمپ کی ضرورت کیوں ہے ؟ ان خیالات کا اظہار اورنگ آباد ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام سی اے اے اور این آر سی کے خلاف منعقدہ مہاریلی سے خطاب کرتے ہوئے ونچت اکھاڑی لیڈر ایڈوکیٹ پرکاش امبیڈکر نے کیا۔انہوں نے مزید کہاکہ : کیا وجہ ہے کہ ڈٹینشن کیمپ ہر ضلع اور ریاست میں تعمیر کرنا کا منصوبہ ہے ۔آپ کتنے لوگوں کو اندر رکھنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ میں مسلمانوں کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ : آپ بیدار ہوچکے ہیں این آر سی مسلمانوں کے خلاف ہے یہ بات صحیح ہے لیکن اسٹیج پر جتنے غیر مسلم لیڈران تشریف رکھتے ہیں میں ان سے اپیل کرتا ہوں کہ ۴۰؍ فیصد ہندو بھی اس سے متاثر ہوں گے ۔اس لیے ہمارے کل کے ممبئی کے جلوس میں مسلمان کم تھے ہندو زیادہ تھے ۔میں نے مسلم لیڈران سے ممبئی میں اس بات کی اپیل کی تھی کہ آپ کا موقف تو واضح ہوچکا ہے ۔پورا دیش جانتا ہے کہ مسلمان این آرسی کے خلاف ہے ہم یہ پورے ملک کو بتانا چاہتے ہیں کہ جس طرح مسلمان این آر سی کے خلاف ہیں اُس طرح ہندو بھی اس کے خلاف ہیں اور ہم یہ بتانے میں کامیاب ہوئے ۔جیندر آہواڑ ( ایم ایل اے ) نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا  یہ ملک کسی کے باپ کا نہیں ہے ۔آسام کے ۱۴؍ لاکھ ہندو جب پکڑے گئے جو ہمارے ہی بھائی تھے جنہیں آساموں نے اپنا لیا تھا 1971ء کے بعد آپ نے دیوار ڈال دی اب ان کو بچا نے کے لیے سی اے اے لا رہے ہیں ۔ میرے مسلمان بھائیوں جو یہاں جمع ہوئے ہیں آپ کو ہر ایک ہندو کی قسم دیتا ہوں کہ آپ کو ہندوں کو بچانا ہوگا ۔انہوں نے مزید کہا کہ اس ملک کے ترنگے اور دستو ر کو ماننے سے انکار آرایس ایس نے کیا تھا اس لیے یہ لڑائی ہندو مسلمانوں کی نہیں یہ لڑائی ہر اُس شخص کی ہے جس نے اس دھرتی کو آزاد کرنے کے لیے اپنا خون بہایا ہے ۔ ونود کمار جھا ( ایم پی آر جے ڈی) نے اپنے خطاب میں کہا کہ : این آر سی اور سی اے اے صرف مسلمانوں کامسئلہ نہیں ہے آپ کو پتہ نہیں میں ۱۹۴۷ء نہیں جانتا آپ کے ہندوئوں بھائی آپ کے ساتھ خون بہا دیںگے۔جو دستاویزکا مطالبہ کیا جائے گا تو ترنگا دیکھ دیںگے ۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سے میں سر زمین اورنگ آباد سے اپیل کرتا ہوں کہ ابھی بھی کچھ گیا نہیں آپ اس قانون کو فوراً واپس لیجئے ۔ اس احتجاجی جلسہ سے ہنومنت پوار( کانگریس ) ، قدیر مولانا ( این سی پی ) ، پروفیسر سوشیلا موراڑے ( جنتا دل سیکولر) ، مجتبیٰ فاروق ( سکریٹری مجلس مشاورت )،سرجیت سنگھ کھنگر ( این سی پی ) نے خطاب کیا ۔ واضح ہوکہ اس احتجاجی ریلی کا انعقاد اورنگ آباد ایکشن کمیٹی سی اے اے اینڈ این آرسی کے بینر تلے کیا گیا تھا جس میں شہر کی تمام دینی ، ملی ، سیاسی ، جماعتیں اور تنظیمیں شامل تھیں ۔ایکشن کمیٹی کی اپیل پرلاکھوں شہریان نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد مساجد سے دلّی گیٹ پہنچے ۔ مظاہرین میں تمام مذاہب کے افراد شامل تھے ۔ کثیر تعدادمیں طالبات او رخواتین بھی اس احتجاج میں شامل ہوئیں۔ شہر اورنگ آبادکی تاریخ کا یہ سب سے بڑا مظاہرہ تھا ۔ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران نے ابتداء میں پولس کو گلاب کے پھول پیش کیے ۔ نماز جمعہ کے بعد تاریخی جامع مسجد اور شہر کی دیگر مساجد سے مظاہرین نے دلّی گیٹ کا رخ کیاتو ریلی احتجاجی جلسہ میں تبدیل ہوگئی ۔ جلسہ کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا ۔ ضیاء الدین صدیقی( کنوینر، اورنگ آباد ایکشن کمیٹی ) نے ابتدائیہ پیش کیا ۔ نظامت کے فرائض انجینئر واجد قادری نے انجام دئیے ۔ مولانا شریف نظامی کی پرسوز دُعا پر احتجاج اختتام پذیر ہوا ۔ڈویژنل کمشنر کی معرفت صدر جمہوریہ میمورنڈم ارسال کیا گیا جس میں قانون کو واپس لینے اور این آر سی کو نافذ نہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ آج کا احتجاج پرامن رہا ، پولس کا بندوبست آس پاس میں نظر آیا ۔مظاہرین میں کثیر تعداد میں کالے کپڑوں میں ملبوس نوجوان نظر آئے ۔جن کے ہاتھوں میں پلے کارڈ س تھے جن پر سی اے اے واپسی اور این اے اے کو ہم نہیں مانتے تحریر تھا ۔ اسٹیج سے ہندو، مسلم ، سکھ ، عیسائی آپس میں بھائی بھائی ، انقلاب زندہ باد ، سی اے اے واپس لو ، این آر سی ہمیں منظور نہیں کے نعرے لگائے گئے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×