احوال وطن

وزیر اعلی مہاراشٹر ادھو ٹھاکرے سے مولانا سجاد نعمانی صاحب اور ابو عاصم اعظمی کے ساتھ مسلم وفد کی ملاقات

ممبئی: 24؍دسمبر (عصر حاضر) مورخہ 23؍دسمبر کو مہاراشٹر کے وزیر اعلی ادھو ٹھاکرے کے ساتھ ممبئی کے سہادری گیسٹ ہاوس میں مسلمانوں کی دو میٹنگیں ہوئیں، ایک کا ممبئی پولیس نے نظم کیا تھا، جس میں شہر کے مقتدر علماء اور خواص کو مدعو کیا گیا تھا اور دوسری اخص الخواص کی میٹنگ ابوعاصم صاحب اعظمی صاحب کے ذریعے طلب کی گئی تھی، احقر دونوں جگہ مدعو تھا ـ
عاصم بھائی والی میٹنگ پہلے ہوئی، اس میں کئی مسلم ایم ایل اے، مہاراشٹر کے ڈائرکٹر جنرل آف پولیس، ممبئی کے پولیس کمشنر اور دیگر پولیس کے اعلی افسران بھی شامل ہوئے ـ وزیر اعلی کچھ تاخیر سے آئے، جلدی میں بھی تھے، ان کا کہنا تھا کہ آج کی میٹنگ کا مقصد مجھے معلوم ہے اس لئے آپ حضرات کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے، میں اپنی بات کہہ دیتا ہوں ـ مگر عاصم بھائی نے اصرار کرکے مولانا سجاد نعمانی صاحب کو اپنی بات رکھنے کے لئے کہا، ماشااللہ مولانا کو بات کرنے کا سلیقہ ہے، بمشکل پانچ سے سات منٹ میں مولانا نے مرتب انداز میں گفتگو کی، بتایا کہ یہ قانون اگر نافذ ہوگیا تو پورے ملک میں اس کی وجہ تفرقہ پڑ سکتا ہے، ہمارے پڑوس کے دشمن ممالک اس کا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں، مولانا نے وزیر اعظم کی رام لیلا میدان پر ہونے والی ریلی کے بارے میں کہا کہ ہمیں بہت تعجب ہوتا ہے کہ کس طرح وہاں ساری دنیا کے سامنےجھوٹ بولاگیا کہ ہم نے ابھی این ارسی کے بارے نہ سوچا ہے نہ چرچا کی ہے جب کہ وزیرداخلہ خود ایوان پارلیمنٹ میں بار بار کہتے رہتے ہیں کہ این آرسی آئے گا ضرور آئے گا ـ
مولانا کے بعد فورا وزیر اعلی مائیک سنبھالنے جارہے کہ احقر نے یہ کہہ مداخلت کی کہ بس تیس سیکنڈ میں ایک ضروری بات کہنا چاہتا ہوں کہ ہم سب اس ایکٹ کی جو مخالفت کررہے ہیں اس کی بنیادی وجہ کیا ہے ـمیں نے کہا کہ آج دنیا میں صرف دو طرح کے طبقات پائے جاتے ہیں، ایک ظالم اور دوسرا مظلوم، جس طرح ظالم کسی بھی مذہب، کسی بھی رنگ اور نسل کا ہوسکتا ہے اسی طرح مظلوم بھی مختلف مذاہب، مختلف علاقوں اور مختلف نسل سے تعلق رکھنے والے ہوسکتے ہیں، مذہب کی بنیاد پر اِن میں فرق کرنا غیرانسانی فعل ہے، اس قانون کے ذریعے پہلی مرتبہ مظلوموں کے درمیان مذھب کی بنیاد پر فرق کیا جارہا ہے، یہ ہمارے دستور کے خلاف تو ہے ہی، اخلاق اور انسانیت کے خلاف بھی ہے، اگر یہ سلسلہ چل پڑا تو ہمارے ملک کا مستقبل خطرے میں پڑسکتا ہے ـ میں نے یہ بھی کہا کہ آپ نے مہاراشٹر میں جہاں اس قانون کو نہیں نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے، وھیں ہماری یہ خواہش بھی ہے کہ آپ آگے بڑھیں اور دوسری وہ ریاستیں جن کے وزرائے اعلی نے اس قانون کو نافذ نہ کرنے کا اعلان کیا ہے اُن سب کو ساتھ لے کر مرکزی حکومت پر دباؤ بنائیں کہ وہ اس مذھبی بھید بھاؤ والے قانون کو واپس لے یا اُس میں مناسب ترمیم کرے ـ
وزیر اعلی نے جوابی تقریر میں کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ ہماری ریاست میں مجموعی طور پر امن وامان ہے، ڈیٹنشن سینٹر کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے یہاں ایسا کچھ نہیں ہورہا ہے، ہمارے یہاں جو ڈٹنشن سینٹر ہے اس میں صرف ۳۸ افراد کی گنجائش ہے وہ بھی ڈرگس کا کام کرنے والے نائیجیرین وغیرہ کے لئے بنایا گیا ہے ـ CAA اور این آرسی کے بارے میں وہی گھسی پٹی بات دھرائی کہ CAA کا تعلق یہاں بسنے والے کسی بھی فرد سے نہیں ہے اس لئے یہاں کسی کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، انھوں نے کہا کہ میری وزیر اعظم سے بات ہوئی ہے این آرسی کے بارے میں اب تک کچھ طے نہیں ہوا ہے یہی بات وزیر اعظم نے رام لیلا گراونڈ سے کہی ہے، اُنھوں امید جتائی کہ ایسا گراونڈ جس کے ساتھ رام کا نام جڑا ہوا ہے وہاں کھڑے ہوکر وزیراعظم جھوٹ نہیں بولیں گے ـ
آخری مراحل میں کالج اسٹوڈنس کے نمائندے فہد نامی نوجوان نے بھی مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے جو یہ اعلان کیا ہے کہ ترمیمی بل کو مہاراشٹر میں نافذ نہیں کریں گے اُس کی باضابطہ تحریر بناکر جاری کردی جائے تو سب کو مزید اطمینان ہوجائے گا، اس پر وزیراعلی کا کہنا تھا کہ لکھنے کی ضرورت نہیں میں جو کہتا ہوں وہی کرتا ہوں، میری بات پتھر کی لکیر ہوتی ہے ـ اپنی تقریر کے درمیان وزیر اعلی نے یہ بھی خواہش ظاہر کی کہ اس ایکٹ کے خلاف ریاست میں جو احتجاجات ہورہے ہیں اب ان کو موقوف کردیا جائے، اُن کا کہنا تھا کہ کچھ عناصر ان کو سبوتاز کرکے ریاست کا ماحول خراب کرسکتے ہیں ـ
بس اُٹھتے اُٹھتے ابوعاصم اعظمی نے مہاراشٹرا کے پربھنی وغیرہ کے علاقے میں احتجاج کے دوران کچھ گڑبڑی پر توجہ دلائی اور کہا کہ مہاراشٹرا میں جو احتجاج ہورہے ہیں ہم پوری کوشش کریں گے کہ اتنے بڑے پیمانے پر نہ ہوں کہ کنٹرول نہ ہوسکیں، اسی کے ساتھ ہم حکومت سے بھی یہ چاہتے ہیں کہ ان احتجاجات کے دوران حکومت کارروائی وغیرہ کےسلسلے میں کچھ نرمی برتے ـ
اس کے بعد وزیر اعلی اُٹھ کر دوسری میٹنگ میں چلے گئے جو وہیں دوسرے ہال میں ہورہی تھی، احقر نے باہر ہی سے اندازہ لگالیا تھا کہ اندر بہت بھیڑ ہے اور یہ بھی اندازہ تھا کہ وزیر اعلی نے جو کچھ یہاں کہا ہے وہی کچھ وہاں دھرائیں گے، اس لئے دوسری میٹنگ میں احقر نے شرکت نہیں کی، بعد میں شریک ہونے والوں نے میرے اندازے کی تصدیق کی ـ
کل ملا کر اس میٹنگ کے بارے میں احقر کا تاثر بہت اچھا نہیں ہے ـ شہر کے سرکردہ ترین مسلمانوں کا مجمع تھا، اس میں پہلے تو وزیر اعلی نے کوشش کی کہ کسی بات سننے کے بجائے صرف اپنی سناکر چلے جائیں، کچھ زبردستی کرکے مولانا سجاد صاحب کی بات کرائی گئی، میں نے بھی درمیان میں مداخلت کرکے ہی اپنی بات رکھی، اسٹوڈنس کے نمائندے اور عاصم بھائی نے بھی اُن کے اٹھتے اُٹھتے اپنی باتیں رکھیں، وزیر اعلی نے کوئی نیا وعدہ نہیں کیا، انھوں نے وزیر اعظم کی وہی باتیں دھرائیں جن کا جواب مولانا سجاد صاحب کی تقریر میں پہلے ہی موجود تھا ـ
میرا اپنا تاثر یہ ہے کہ ابھی تک وہ شیوشینا پرمکھ کے خول سے پوری طرح باھر نہیں آسکے ہیں جہاں وہ کسی کی بات سننے کے بجائے صرف اپنی بات سنایا کرتے تھے، حالانکہ اب وہ محض شیوشینا پرمکھ نہیں بلکہ ایک عوامی خدمت گار اور ایک بڑی ریاست کے وزیر اعلی ہیں، یہاں اُنکو سنانے سے پہلے سننے کی عادت ڈالنی پڑے گی ـ
دوسرا تاثر یہ ابھرتا ہے کہ چونکہ اب تک شیوشینا بھاچپا کو اپنا فطری پاٹنر سمجھتی رہی ہے، اس لئے پرانے پاٹنر کو چھوڑ کر کانگریس این سی پی کے ساتھ نئی پاٹنر شپ نبھانے کی عادت ڈالنے میں ابھی شیوشینا کو کچھ اور مدت درکار ہوگی، عادت پڑنے سے پہلے خدانخواستہ اگر یہ نئی پاٹنر شپ ٹوٹ گئی تو ایک بار پھر پرانے پاٹنر کے پاس لوٹنے کے امکانات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×