اسلامیات

اسلامی تجارت اور ہمارا مسلم معاشرہ

شریعت میں تجارت اور معاملات کو بڑی اہمیت دی گئ ہے اگر یہ کہا جائے تو غلط اور بیجا نہ ہوگا کہ دنیا کے کسی مذہب ونظام نے معیشت و تجارت کو وہ مقام اور اہمیت نہیں دی جو مذہبِ اسلام نے دی ہے، اسلام تجارت کے ان طور و طریقوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جس میں خرید و فروخت کرنے والوں کے درمیان کسی قسم کا دھوکا نہ ہو، اور ایسے طریقوں سے منع کرتا ہے جس میں کسی دھوکہ، فریب یا فراڈ ہونے کا اندیشہ ہو،دین اسلام نے بیع (خرید وفروخت)کو حلال اور سود کو حرام قرار دیاہے، آپ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کی سیرت کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ و علیہ وسلم اعلان نبوت سے پندرہ بیس سال پہلے سے تجارت سے وابستہ تھے اور بطور صادق اور امین کے پورے جزیرۂ عرب میں معروف ومشہور تھے.تجارت میں بے پناہ برکت ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کی ہے اس لیے یہ سنت بھی ہے،جس طرح اسلام میں ہر کام کے اصول موجود ہیں اسی طرح تجارت کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہیں جن پر عمل کرکے ہی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے، تجارت میں سب سے زیادہ اخلاق و کردار کی پاکیزگی کی اہمیت ہے، آج آپ دنیا کا مشاہدہ کریں تو معلوم ہوگا کہ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں اکثر کا تعلق تجارت سے ہے. کاروبار میں لوگوں کو دھوکہ دینے اور بد دیانتی کرنے کے مواقع کثیر تعداد میں ملتے ہیں لیکن جو تاجر اسکے باوجود دھوکہ نہیں دیتا دیانتداری کا مظاہرہ کرتا ہے یہ خوفِ خدا ،تقوی کا اور طہارت قلب کا باعث بنتا ہے اس سے نیک نامی ہوتی ہے اور نیک نامی خدا کا ایک انمول تحفہ ہے جس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔

اسلامی تجارت قرآن و حدیث کی روشنی میں:

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا یٰۤاَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوۡا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعۡمَلُوۡا صَالِحًا ؕ اِنِّیۡ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ عَلِیۡمٌ ﴿ؕ۵۱﴾سورہ المؤمنون(51) ترجمہ: اے پیغمبرو ! پاکیزہ چیزوں میں سے (جو چاہو) کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ یقین رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو، مجھے اس کا پورا پورا علم ہے۔اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے پاکیزہ اور حلال رزق کو نیک اعمال پر مقدم فرمایا ہے معلوم ہوا کہ نیک اعمال کا صدور حلال رزق پر موقوف ہے-کہیں اللہ تعالی نے مال کو باطل،حرام ناجائز ،جبر و اکراہ اور زبردستی کے طریقے پر کھانے سے منع کرتے ہوئے فرمایا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ ترجمہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا تم اپنے مالوں کو غلط طریقے سے مت کھاؤ الا یہ کہ آپس کی رضا مندی سے تجارت کی صورت میں-سورہ الاسراء آیت نمبر 35وَ اَوۡفُوا الۡکَیۡلَ اِذَا کِلۡتُمۡ وَ زِنُوۡا بِالۡقِسۡطَاسِ الۡمُسۡتَقِیۡمِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ وَّ اَحۡسَنُ تَاۡوِیۡلًا ﴿۳۵﴾-سورہ الاسراء آیت نمبر 35 ترجمہ:اور جب کسی کو کوئی چیز پیمانے سے ناپ کر دو تو پورا ناپو، اور تولنے کے لیے صحیح ترازو استعمال کرو۔ یہی طریقہ درست ہے اور اسی کا انجام بہتر ہے، کہیں اللہ تعالیٰ نے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کو وعید بیان کرتے ہوئے فرمایا وَیۡلٌ لِّلۡمُطَفِّفِیۡنَ ترجمہ:-بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی۔الَّذِیۡنَ اِذَا اکۡتَالُوۡا عَلَی النَّاسِ یَسۡتَوۡفُوۡنَ ۫﴿ۖ۲﴾ترجمہ:-جن کا حال یہ ہے کہ جب وہ لوگوں سے خود کوئی چیز ناپ کرلیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں وَ اِذَا کَالُوۡہُمۡ اَوۡ وَّزَنُوۡہُمۡ یُخۡسِرُوۡنَ ﴿ؕ۳﴾سورہ المُطَفِّفِین آیت نمبر(1، 2، 3) ترجمہ:-اور جب وہ کسی کو ناپ کر یا تول کردیتے ہیں تو گھٹا کردیتے ہیں۔ ان آیتوں میں ان لوگوں کے لیے بڑی سخت وعید بیان فرمائی گئی ہے جو دوسروں سے اپنا حق وصول کرنے میں تو بڑی سرگرمی دکھاتے ہیں، لیکن جب دوسروں کا حق دینے کا وقت آتا ہے تو ڈنڈی مارتے ہیں۔ یہ وعید صرف ناپ تول ہی سے متعلق نہیں ہے، بلکہ ہر قسم کے حقوق کو شامل ہے، اور اس طرح ڈنڈی مارنے کو عربی میں ” تطفیف “ کہتے ہیں (آسان ترجمہ قرآن)مندرجہ ذیل وہ احادیث یش خدمت ہے جس میں فضائل تجارت ،طریقۂ تجارت کے آداب،اصول وضوابط،اور خلاف شرع تجارت میں پیش آنے والی وعیدوں کا تذکرہ ہے،اجمالی طور پر جو تقریبا بیع اور تجارت کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کئے ہوئے ہے، ترتیب وار بحوالہ نقل کی جارہی ہیں ملاحظہ فرمائیں-حضرت ابو سعید خدریؓ نبی کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا سچا اور امانت دار تاجر انبیاء صدیقین اور شہداء کے زمرے میں ہوں گے- (ترمذی ص 145 ج 2) صخر الغامدی ؓ کی روایت ہے رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ائے اللّٰہ تو میرے امت کے لئے صبح کے وقت میں جانے میں برکت عطا فرما حضرت صخر تاجر آدمی تھے تو جب اپنےتاجروں کو بھیجتے تھے تو صبح سویرے بھیجتے تھے اس طرح وہ مالدار ہوگئے اور مال زیادہ ہوگیا -(ترمذی ص145ج1) حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کوئی تنگدست کو مہلت دی یا کچھ تخفیف کردی تو قیامت کے دن اللہ اس کو اپنے عرش کے سایہ میں رکھیں گے جس دن کوئی سایہ سوائے اللہ تعالی کے سائے کے حاصل نہیں۔ہوگا (ترمذی 156ج1) حضرت رفاعہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تاجر حضرات قیامت کے دن نا فرمان لوگوں میں اٹھائے جائیں گے سوائے اس تاجر کے جس نے اللّٰہ کا خوف کیا نیکی کی اور سچائی اختیار کی (ترمذی ص145 ج2) حضرت ابو ہریرہ ؓسے مروی ہےرسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے اچھے لوگ وہ ہیں جو بہتر طور پر ادا کرنے والے ہیں (مشکوة ص251) حضرت حذیفہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے ایک آدمی مرگیا تو اس سے سوال ہوا تم کیا کرتے تھے اس نے جواب دیا میں لوگوں سے خرید وفروخت کیا کرتا تھا تو میں مالدار سے بھی درگزر کا معاملہ کیا کرتا تھا اور تنگدست کو معاف کردیا کرتاتھا اس بات پر اس کی مغفرت ہوگئی (بخاری ص322ج1) حضرت جابر بن عبد الله ؓ کی روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللّٰہ اس اس شخص پر رحم۔کرے جو نرم ہو بیچنے اور خریدنے یا تقاضہ کرنے میں (بخاری ص278ج1) حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم غلے کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے تو اس ڈھیر میں اپنا ہاتھ داخل فرمادیا ان کی انگلیوں کچھ تری محسوس ہوئی آپ نے اناج کے مالک سے پوچھا یہ کیا ہے انھوں نے جواب دیا آسمانی بارش لگ گئ ہے توآپ نے فرمایا تو تم۔نے اس گیلے اناج کو اوپر کیوں نہیں رکھا تاکہ لوگ دیکھ لیتے پھر فرمایا جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہےحضرت مقدام نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا کسی نے نہیں کھایا اس سے بہتر کہ وہ اپنے ہاتھ کے محنت سے کھائے اور اللّٰہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام تو اپنی ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔ (بخاری ص227ص1) حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس ذات کی قسم۔جس کے قبضے میں میری جان ہے تم میں سے کوئی رسی لے اور اس سے اپنی پشت پر لکڑیاں کاٹ کر لائے کہیں بہتر ہے اس سے کہ وہ کسی آدمی کے پاس جائے اور اس سے سوال کرے وہ اسے دیدے یا منع کردے-(بخاری ص199 ج1) حضرت ابن مسعود نبی کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا قیامت کے روز بنی آدم کے پیر اپنے رب کے پاس سے اس وقت تک نہیں ہٹ سکیں گے جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرلیا جائے عمر کس چیز میں گزاری۔ جوانی کس چیز میں گنوائی ،مال کہاں سے کمایا, مال کس مصرف میں خرچ کیا، جو علم حاصل کیا اس پر کتنا عمل کی(ترمذی ص64 ج2)

ہمارا طرز عمل اور اس کے نقصانات:

پورے دین کا خلاصہ پانچ چیزوں میں ہے اعتقادات، عبادات، معاملات، معاشرت، اخلاقیات اور تجارت کا معاملات ،معاشرت(آپس میں رہن سہن کے طور طریقے)اور اخلاقیات سے گہرا تعلق ہے بلکہ یہ کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ ان کے بغیر تجارت کا تصور ہی ممکن نہیں گویاکہ دین کا ایک بہت بہت بڑا حصہ تجارت سے متعلق ہے اور مسلم معاشرہ خصوصا معاملات کے شعبہ میں سب سے پیچھے ہے، حال یہ ہوچکا ہے کہ مسلمان، مسلمان سے خرید و فروخت کرنے کو تیار نہیں وجہ اس کی یہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ مسلمان تاجر مہینگا بیچتا ہے اور ساتھ میں کم قیمت دینے کا احسان بھی جتلاتا ہے اور کبھی گاہک کے ساتھ بے التفاتی اور سخت رویہ بھی اختیار کرتاہے، جب تاجر کے دل میں اسلامی تجارت کے اصول وضوابط کو چھوڑ کر محض رقم بٹورنے اور مال جمع کرنے کا جذبہ کارفرما ہوجاتا ہے تو حلال، حرام ،جائز، ناجائز کا کوئی پاس و لحاظ باقی نہیں رہتا -لہذا ناپ تول میں کمی کرنا، جھوٹ بولنا، خیانت کرنا، دھوکہ دینا،عیب چھپانا، نقلی چیز کو اصلی چیز بتا کر روخت کرنا،مبیع یا ثمن کے ادا کرنے میں ٹال مٹول کرنا،تنگدست کو مہلت نہ دینا، مالدار سے درگزر کا معاملہ نہ کرنا، خرید وفروخت میں نرمی سے پیش نہ آنا، رقم یا مبیع کا تقاضہ کرنے میں سختی سے پیش آنا جیسے اعمال کا صدور ہوتا ہے جس کا نتیجہ آپسی دشمنی، نا اتفاقی، تجارت کی برکتوں سے محرومی، ظلم و زیادتی، اخلاق کا زوال اور ایک دوسرے پر بھروسہ واعتماد کا ختم ہونا وغیرہ جواصل میں معاشی اعتبار سے مسلم معاشرہ کا سب سے بڑا نقصان ہے۔

گزارش:

حلال وحرام کے ساتھ مشتبہ چیزوں کی بھی رعایت ملحوظ رکھیں اور شریعت میں جو حقوق اللہ اور حقوق العباد مال سے متعلق کئے گئے ہیں ان کو ادا کیا جائے تو یہی تجارت اجر و ثواب کا باعث ہے،اس لئے کوئی بھی تجارت خلاف شرع نہ ہو،تجارت میں غیر مسلموں کی نقالی اور ان کے طور طریقوں کو فروغ نہ دیں بلکہ آپ ملازمت اور تجارت کے جس شعبہ میں بھی خدمت انجام دیر ہے ہیں کسی عالم یا مفتی سے اسلامی احکام سے مکمل واقفیت حاصل کرکے ہی ملازمت و تجارت کریں -نیز برکتوں کے حصول کے لئے صبح سویرے ہی کاروبار و تجارت کا آغاز کریں -مالدار حضرات قومی وملی فریضہ سمجھتے ہوئے اپنی دکانوں،مکانوں اور کمپنیوں میں خاص طور پرغریب مسلمانوں کے لئے روزگار فراہم کریں یا مالدار حضرات قومی و ملی فریضہ سمجھ کر اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت کا شکر بجالاتے ہوئے غریب اور متوسط طبقہ کے وہ مسلمان جو کسی فن میں مہارت رکھتے ہوں مگر محض پیسے نہ ہونے کی وجہ سے تنگدستی کا شکار ہوں تو ان کو بیع مضاربت یا قرض کے طور پر مال دیکر ان کی معاشی تنگی کو دور کرنے کا ذریعہ بنیں،نیز پیشہ ور مسلمان فقراء جو صحت مند اور جن کے اعضاءصحیح سلامت ہے ان کو بھیک مانگنے کی وعیدیں سناکر حتی المقدور تجارت کرنے پر زور دیا جائے اور ایسے لوگوں کا تعاون کرکے ان کو تقویت پہنچانے سے گریز کیا جائے اور صحیح مستحقین تک وہ تعاون پہنچایاجائے،خرید و فروخت کے وقت مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی نرم لہجہ سے گفتگو کریں اور اخلاق کے ساتھ پیش آئیں جو موجودہ زمانہ کا ایک اہم تقاضہ بھی ہے تاکہ غیر مسلم مسلمان اور اسلامی تجارت سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرلیں یا کم از کم اسلام کے خلاف اپنی آواز پست کرلیں۔

خلاصہ:

اگر حلال طریقہ پر مال حاصل کیا جائے اور صحیح راستہ سے خرچ کیا جائے تو یہ اسلام میں عین مطلوب ہے، کیونکہ بہت سے حقوق مال ہی سے متعلق ہیں، مال یہ ایسی چیز ہے جو بعض دفعہ انسان کو کفر تک پہنچادیتی ہے.

اسی لئے ہمیں بھی چاہیئے کہ ہم زیادہ سے زیادہ تجارت کریں کسی چیز کا بھی کاروبار ہو اسکو اسلامی اصول وضوابط اور ایمانداری کے ساتھ کریں پھر دیکھیئے برکتوں کا نزول ہوگا اور اس سے ہماری معیشت مضبوط و مستحکم ہوگی ان شاء اللہ-دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو شریعت کے مطابق تجارت کرکے اس کے فضائل حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×