اسلامیاتمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

خیرہ نہ کرسکے تجھے جلوۂ دانشِ فرنگ! ؛ مغرب زدہ نسل نو کی تباہی اور والدین کی ذمہ داری

ایک دن چاند نے سورج سے پوچھا، تم مشرق سے نکلتے ہو تویوں محسوس ہوتاہے کہ بڑی آب و تاب میں ہو ،خوشی سے مسکرارہے ہو، ہر طرف روشنی بکھیر رہے ہو،شب دیجور کی ظلمتوں کا قلع قمع کررہے ہو،مرغانِ سحر کونوید مسرت دے رہے ہو؛ لیکن مغرب میں تمہیں کیا ہوجاتا ہے کہ تم مرجھائے ہوئے پھول کی طرح بے رنگ نظر آتے ہو؟پریشان حال تھکے ماندہ مسافر کی طرح ز رد ہوجاتے ہو ؟عروج وترقی کے بامِ ثریا سے زوال و پستی کے تحت الثری میں پہونچ جاتے ہو ؟تمہاراروشن وتاباں چہرہ فق اور بے نور ہوجاتاہے ؟ایساکیوں ہوتا ہے ؟
جواباًسورج نے کہا کہ مجھے مشرق کی عادتیں اچھی لگتی ہیں،وہاں کا طور طریق بھلامعلوم ہوتاہے ، ماں باپ کا ادب ،بڑوں کا احترام،خواتین کا حجاب اور شرم وحیاسے معمورافراددیکھ کر میں جھوم جاتاہوں ،مسکراتااور خوش ہوتا ہوں،میرے اندرایک نئی تازگی اورمسرت کی لہردوڑجاتی ہے ؛مگرجیسے ہی مغرب کی سمت ڈھلنے لگتاہوںتو وہاںبے حیائی دیکھتاہوں،نسل نو کی تباہی و بربادی کا مشاہدہ کرتاہوں،بڑوں کی بے راہ روی و بے التفاتی محسوس کرتاہوںتو دل مسوس کررہ جاتاہوں اور افق عالم تاب سے ڈوب جانے میں ہی عافیت سمجھتاہوں ۔
ہماری نئی نسل بھی ہماراقیمتی سرمایہ اور متاع گراںمایہ ہے جو ہمارے لیے کسی درخشاں آفتاب سے کم نہیں؛اسی لیے جب تک وہ مشرقی روایات کی پاسباں، مشرقی اقدارکی نگہباں اور مشرق کی پاکیزہ تعلیمات پر عمل پیرارہے گی تو آسمان دنیاپر آفتاب کی طرح حکمرانی کرے گی اور جوں ہی مغرب کی طرف مائل ہوگی اورخوان ِمغرب کی ریزہ چینی کو شرف افتخار سمجھے گی توشدہ شدہ ایک دن غروب ہو جائے گی اس طرح آناًفاناًپوری قوم کانام ونشان مٹ جائے گا اور رہی سہی ثقافت بھی ملیامیٹ ہو جائے گی ۔
سورج ہمیں ہرشام یہ دیتاہے منادی
مغرب کی سمت جاؤ گے تو ڈوب جاؤ گے
آپ غورکریں!جب نسل نو کی ہر صبح کا آغازاور ہر شام کا اختتام ،لیلی مجنوں کی داستانیں دیکھ کر ہوتا ہو،جنہیں ماں باپ اپنی نگرانی میںفحش وگندی فلمیں دکھانے کا اہتمام کرتے ہوں،جہاں بچوں کے رقص وسرود پر فلک شگاف قہقہے لگائے جاتے ہوں،جہاں اساتذہ معصوم نازک کلیوں کو اپنی ہوسناکی اور درندگی کا شکار بناتے ہوں،جہاںفیشن پرستی ،بے حیائی اور بے پردگی کا دور دورہ ہو،جہاں اغیارکی نقالی ‘ مذہب سے بیگانگی ‘شریعت سے علانیہ بغاوت کوروشن خیالی تصورکیاجاتا ہو ، جہاں اسلامی تہذیب سے زیادہ یہودی تہذیب ،دینی تعلیم سے زیادہ انگریزی تعلیم ،مشرقی طرزمعاشرت سے زیادہ مغربی طورطریق میں کامیابی و کامرانی کو مضمر سمجھا جاتاہو۔ تو سمجھ لینا چاہیے اور اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اب مشرقی تہذیب کاجنازہ نکل چکاہے اور مغربی ثقافت نے اپنے خوفناک پنجے گاڑدیے ہیں۔
چلنا تھا جس کو دین کی پاکیزہ راہ پر
وہ قوم بے حیائی کے رَستے پہ چل پڑی
نئی نسل ہمارے روشن مستقبل کی ضامن ہے ، دیگر مسلم معاشروں کی طرح ہماری نوجوان نسل بھی مغربی سیلاب میں بہنے لگی تو پھر صبح نو کی آرزو دم توڑ دے گی اور نئی سحر طلوع ہونے سے پہلے شب ِتاریک کو ظلمت ِ دوام عطا کرے گی۔ نئی نسل کی موجودہ دلچسپیاں اور اس پر مستزاد کیبل وانٹرنیٹ کی تاریکیاں ہمیں قومی سطح پر بہت کچھ سوچنے کا پیغام دیتی ہیں !!اولاد کو پڑھانے ، لکھانے کا شوق سبھی والدین کو ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے ؛ لیکن مسلمان ہونے کی بنائ پرکچھ تقاضے اوربھی ہیں جن کی رعایت کرنا اولین اسلامی فریضہ ہے : مثلاً اگر آپ اپنی اولاد کو دینی علوم کے علاوہ دنیاوی اور عصری علوم میں ڈگریاں دلانا چاہتے ہیں تو دین ومذہب آپ کو روکتا نہیں، بس اتنا تقاضا رکھتا ہے کہ آپ بچوں کو ایسے ادارے میں داخل کریں، جس میں اسلام اور شریعت محمدیہ کے خلاف مضامین شاملِ درس اور داخلِ نصاب نہ ہوں، اسی طرح اس ادارے میں کوئی عمل ایسا ضروری نہ ہو جو اسلامی روح اور دینی مزاج کے منافی ہو ۔ بچوں کے کھیل، کود، سیر و تفریح، رہنے سہنے میں والدین اس بات پر ضرور توجہ رکھیں کہ دس سال عمر ہونے کے بعد بچوں اور بچیوں کو مخلوط نہ رہنے دیں، کھیل ہوتو بھی بچے اور لڑکے علیحدہ کھیل کھیلیں اور بچیاں بالکل الگ اپنا کھیل اختیار کریں اسی طرح غیر اسلامی کھیلوں اور ہندوانہ رسومات سے بھی اپنی اولاد کو دور رکھیں اور انہیں مفید صحت افزاکھیل کھیلنے کا موقع فراہم کریں۔
امام غزالی رحمہ اللہ علیہ نے والدین کو یہ وصیت کی کہ بچوں کو قرآن پاک، احادیث مبارکہ اور نیک لوگوں کے واقعات اور ضروری دینی احکام کی تعلیم دیں بچہ والدین کے پاس امانت ہوتا ہے اور اس کا پاکیزہ دل ایک نفیس جوہر اور موتی کی طرح ہے اگر اسے خیر کا عادی بنایا جائے اور بھلے کام سکھائے جائیں تو وہ انہیں سیکھتا ہوا بڑھتا اور پلتا ہے پھر دنیاوآخرت دونوں جگہ خوش نصیب رہتا ہے اگر اسے برے کاموں کا عادی بنایا جائے یا مہمل چھوڑ دیا جائے تو بدبختی و ہلاکت اس کا مقدر بن جاتی ہے اسکی حفاظت کا طریقہ یہی ہے کے اسے علم وادب سکھایا جائے اچھے اخلاق سکھائے جائیں اور مہذب بنایا جائے ۔
مگرافسوس صد افسوس کہ ہم اپنی نسل کے ذہنوں کی پختگی کیلئے تعلیم اور تربیت کا بندوبست نہیں کرسکے جبکہ فضول اور خرافات چیزیں ان کو وافر مقدار میں میسر کردیں، کیا وہ ان سے کوئی فائدہ اٹھا سکیں گے یا اندھی پیروی کرتے ہوئے تباہ ہوجائیں گے!! ہماری نسل موبائل فون، سوشل میڈیا اور مغربی ایام کی نقالی سے کیا حاصل کر رہی ہے سوائے وقتی تسکین کے ، کیا یہ جائز ہے ؟ آج ہم نے دین کو نامکمل اور عصرحاضر کے تقاضوں سے ناموافق قرار دے کر اس میں مغرب کی فرمانروائی قبول کرلی ہے ۔ چہ جائے کہ ہم سائنس و ٹیکنالوجی اور علم وتحقیق کو اسلام کے تقاضوں پر ترتیب دیتے ہوئے آگے بڑھتے اور مغربی تہذیب میں جو خامیاں تھیں ان کا مداوا کرتے ، ہم نے تو مغرب کو مکمل تہذیبی رب تسلیم کرلیا۔ذہنی غلامی کا تسلط اس قدر مسلم معاشروں پر قائم ہے کہ کوئی بڑی مسلم آبادی اس سے ماورا نظر نہیں آتی۔ ان کے مدارس، بازار، انجمنیں، گھر حتیٰ کہ اجسام اپنی زبان سے شہادت دے رہے ہیں کہ ان پر مغرب کے افکار و نظریات اور علوم و فنون حکمراں ہیں۔ اُسی نظر سے ہر چیز کو جانچتے ہیں، چاہے اس کاشعور انہیں ہو یا نہ ہو۔ ان کے ذہنوں پر یہ مفروضہ مسلط ہے کہ ہر وہ چیز درست ہے جسے مغرب نے درست تسلیم کیا ہے اور ہروہ چیز غلط ہے جسے مغرب نے غلط کہا ہے ۔ یہ اپنے دین و ایمان، افکار و تخیلات، تہذیب وشائستگی، اخلاق وآداب سب کو اسی معیار پر جانچتے ہیں۔ جو چیز اس معیار پر پورا اترتی ہے اسے درست سمجھتے ہیں، اس پر مطمئن ہوتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں کہ ہماری فلاں چیز مغرب کے معیار پر پوری اتر آئی ہے اور جوچیز پوری نہیں اترتی اسے شعوری یا غیر شعوری طور پر غلط سمجھتے ہیں۔ اسی کیفیت کے متعلق حکیم الامت نے کہا تھا:تھا جو ’ناخوب‘ بتدریج وہی خوب ہواکہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیرہم ذرا اپنی مارکیٹوں میں نکل کر دیکھیں، سڑکوں اور شاہراؤں پر دوڑتی زندگی پرغور کریں، سیاست و حکومت کی طرف نظر دوڑائیں، تعلیمی اداروں میں قدم رکھیں، کلاس میں کھڑے استاد اور پروفیسر سے مکالمہ کریں۔ کیسے کیسے غلامی ومحکومی کے مظاہر نظربآتے ہیں۔ اسی کے متعلق اقبال نے کہا تھا:خواجگی میں کوئی مشکل رہتی نہیں باقیپختہ ہو جاتے ہیں خوئے غلامی میں جب غلاماہل مغرب نے اپنی تہذیب کاتسلط قائم رکھنے اور بیداری کی کسی بھی تحریک کو ناکام کرنے کے لیے خوئے غلامی میں رنگے ہوئے کچھ ایسے غلام پیدا کیے ہیں جوتعلیم، سیاست اور صحافت کے ارباب بن کر دن رات مغرب کے گن گاتے ہیں۔ قوم کو مغرب کی ترقی اور اس کی خوشنما تصویر دکھا کر اس کے احسان گنواتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں نسل نو کے نوخیز ذہنوں کو غلامئی افرنگ پر رضا مند کرتے ہیں۔(مشرق و مغرب کی تہذیبی کشمکش از احمد حماس)
ظاہر ہے جب تک والدین اولاد کی تربیت پر توجہ نہیں دیں گے ، ان کے ساتھ وقت نہیں گزاریں گے ، انہیں تمیز وتہذیب نہیں سکھائیں گے تب تک نسلِ نو اپنی تہذیب ، اقدار یا روایات کیسے سیکھے گی۔ عموماًجب گھر میں ساز گار ماحول نہیں ملتا تو وہ انٹرنیٹ، موبائل فون وغیرہ کی طرف مائل ہوجاتے ہیں پھر والدین شکایت کرتے ہیں کہ نوجوان ان کی بات نہیں سنتے ۔ہم اپنی اقدار وتہذیب کو اپنے ہی ہاتھوں سے تباہ کررہے ہیں۔ نسل نو تک ہماری اقدار و روایات منتقل نہیں ہورہی ہیں، اس ضمن میں جہاں نوجوانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کیلئے وقت نکالیں، کچھ دیر گھر کے بزرگوں اوربڑوں کے ساتھ گزاریں، ان کے تجربات کی روشنی میں زندگی گزارنے کے طور طریقے سیکھیں، اپنے اندر تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کریں،بڑوں یا اساتذہ کی ڈانٹ کو غنیمت جانیں اور اپنی اصلاح وتربیت کی فکر کریں، وہیں بڑوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر کلی طور پر پابندی لگانے کے بجائے اس کے مثبت استعمال کے فوائد اور منفی استعمال کے نقصانات بتائیں اور بچوں سے وقت نہ دینے کا شکوہ کرنے کی بجائے بچوں کیلئے خود وقت نکالیں کیونکہ یہ بچوں کے مستقبل کا سوال ہے اور اپنی تہذیب و ثقافت کو اسی طرح نسل نو میں منتقل کیا جا سکتاہے ۔
اخیر میں صرف ایک التجا ہے ……خدارا !نسل نو کے مغربیت کی طرف بڑھتے قدموں کو روکئے !کیا نسل نواس مغربیت کی طرف قدم بڑھانا چاہتی ہے ، جس کے نتیجہ میں جنسی بے راہ روی، اخلاقی انارکی اور بہیمیت و حیوانیت عروج کو پہونچ جائے اور عورتوں کی حد سے بڑھی ہوئی آزادی اور مکمل بے پردگی، مرد وعورت کا اختلاط اور شراب نوشی عام ہوجائے ، اگریہ قدم نہ رکے تو اسلامی ممالک ہو ں یا غیر اسلامی اخلاقی انتشار اور دینی اساس واصول سے بغاوت ہوجائے گی، اور مغربی تہذیب کا یہ کینسر اور جذام اپنے ساتھ اسلامی تمدن وحضارت اور انسانی عزت ووقار کا خاتمہ کردے گا، اور ایک ایسا عالم برپا ہوگا جس سے کہیں کوئی مفر نہ ہوگا۔
بہ قول مفکر اسلام‘‘ اس انتشار اور بغاوت سے بچنے کیلئے عوام میں دینی روح، طاقت ور ایمان، اخلاقی حس اور اسلامی شعور پیدا کرنا ہوگا، اس ذہنی انتشار اور بے دلی اور بغاوت کے جراثیم کا خاتمہ کرنے کیلئے ان کے اسباب و محرکا ت کا ازالہ، حالات کی عمومی اصلاح اور سیرت وکردار میں تبدیلی کی ضرورت ہے ، مغرب سے وہ لینا ہوگا جو اسلامی ممالک اور معاشرہ کیلئے مفید اور اس کے عقیدے سے ہم آہنگ ہے ، اور بجائے خود کوئی عملی اور ایجابی افادیت رکھتا ہے اور قوم وملک کو مضبوط کرسکتا ہے ، اور زندگی کی جد وجہد سرفروشی اور دعوت الی اللہ کے مقصد میں مفید ہوسکتا ہے ‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×