اسلامیات

محرم الحرام کے شرعی اعمال اور ہماری ذمہ داریاں

محرم الحرام کامہینہ اسلامی سالوں کے اعتبار سے پہلا مہینہ ہے ،محرم کے معنی ہیں” محترم ومکرم”،اس مہینہ کو محرم الحرام اس وجہ سے کہاجاتاہے کہ یہ اپنی خصوصیات اور امتیازات کے لحاظ سے نہایت ہی مہتم بالشان اور قابل تعظیم مہینہ ہے،یہ مہینہ اشہر حرم میں سے ہے ، یعنی ان مہینوں میں سے ہے جس کی عظمت و بر کت کی وجہ سے قبائل ِعرب قتل وقتال اور لڑائی، جھگڑے وغیرہ کو حرام سمجھتے تھے،بر سوں سے چلنے والی لڑائی بھی اس مہینہ میں بندہوجاتی تھی،اس مہینہ کی دسویں تاریخ جس کو یوم عاشوراء کہاجاتاہے کوبھی اہمیت حا صل ہے، اس لیے کہ کئی جلیل القدر انبیاء کرام کے مشہور واقعات ا س سے وابستہ ہیں۔چنانچہ علامہ عینی شارح بخاری ان کا تفصیلی ذکر فرماتے ہیں کہ محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی ، ان کو جنت میں داخل کیا گیااور اسی دن ان کی توبہ قبول ہوئی۔اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جبل جودی سے ہمکنار ہوئی،حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہوئی ،اسی دن ان کے لیے نار نمرود گل گلزار بنائی گئی ۔اسی روز حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات ملی اور فرعون ا پنے لشکر کے ساتھ دریائے نیل میں غرق ہوا۔حضرت ایوب علیہ السلام کوان کی بیماری سے شفاء نصیب ہوئی ،حضرت ادریس علیہ السلام کو اسی دن مقام رفیع پر اٹھایا گیا۔حضرت سلیمان علیہ السلام کوبادشاہت عطاء ہوئی،حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی لوٹائی گئی ،اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کنویں سے اورحضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے نکالے گئے ۔اسی دن حضرت عیسیٰ السلام کی پیدائش ہوئی اور اسی دن وہ آسمان پر اٹھائے گئے۔پہلے زمانہ میںا سی روز کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتاتھا،اور یہ بھی حسن ِاتفاق ہے اسی دن حضرت حسین ؓ نے جام شہادت نوش فرمایا،جو امت مسلمہ کے لے ایک اندوہناک حادثہ ہے۔(دیکھئے عمدۃالقاری۱۱:۱۱۷،۱۱۸،صحیح بخاری:۱۵۹۲)
عاشوراء کے دن رو زہ رکھنا مستحب ہے:دسویں محرم الحرام کے ان ہی خصوصیات کی بناء پراللہ کے رسول ﷺ نے اس دن روزہ رکھاہے اور دوسروں کوبھی روزہ رکھنے کا حکم دیا ،حضرت ابوہریرہ ؓ رسے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایاکہ رمضان کے بعد محر م کا روزہ افضل ہے۔ حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ عاشوراء کے روزہ کے بارے میں مجھے امید ہے کہ اس سے گزشتہ ایک سال کا گناہ معاف ہوجاتا ہے۔(سنن ترمذی:۷۴۰،۷۵۲)
حضرت ابن عباس ؓہی سے دوسری روایت ہے کہ جب آپ علیہ السلام نے عاشوراء کے دن روزہ رکھااور دوسروںکو روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ کرام ؓ نے کہا یارسول اللہ اس دن کی تو یہودونصاریٰ عظمت کرتے ہیں(اور روزہ رکھتے ہیں) تو آپ نے فرمایا کہ ان شاء اللہ ہم آئندہ سال نویں تاریخ کو بھی روزہ رکھیں گے(تاکہ ان کی مشابہت لازم نہ آئے) لیکن اس دوران آپ ﷺ کی وفات ہوگئی۔ (صحیح مسلم:۲۶۶۶ )
ان احادیث کی بناء پرفقہا ء کر ام نے دسویں محرم کو روزہ رکھنا مستحب کہا ہے اور اس سے ایک دن قبل یا ایک دن بعد میںروزہ رکھنابہتر ہے تاکہ یہود ونصاریٰ کے ساتھ مشابہت نہ ہو۔عاشوراء کے روزہ کی اہمیت کااندازہ بخاری شریف کی اس حدیث سے لگایاجاسکتاہے کہ عاشورہ کا روزہ پہلے فرض تھا ،رمضان کا روزہ فرض ہونے کے عاشوراء کاروزہ مستحب ہوگیا۔(بخاری :۲۰۰۲)
کھانے پینے میں وسعت باعث خیر وبرکت ہے:
دسویں محرم کواپنے اہل وعیال پر کھانے پینے میں وسعت کر نا،سال بھرکی روزی میں وسعت کا باعث ہے،نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے عاشوراء کے دن اپنے بال بچوں پرکھانے پینے کی وسعت کی، خدائے تعالیٰ پورے سال اس کی روزی میں برکت اور وسعت کرے گا۔(الجامع الصغیرللسیوطی،حدیث :۹۰۷۵) گوکہ یہ روایت ضعیف ہے لیکن بعض حضرات نے اس کی صحت کی طرف اشارہ کیاہے ۔ نیز اکابر امت کا تجربہ صحیح ثابت ہو اہے ۔رہی یہ بات کہ ایک ہی دن میں کھانے اور روزہ رکھنے کا حکم کیسے دیاگیا تو اس کا حل یہ ہے کہ دن میںروزہ رکھا جائے اور شام کے کھانے میں وسعت سے کام لا جائے۔
عاشوراء کے دن حضرت حسین ؓ کی شہادت حُسنِ اتفاق ہے:
عام طورپر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ محرم اور عاشورہ کی فضیلت حضرت حسین ؓکی شہادت کی وجہ سے ہے حالاں کہ یہ فضائل حضرت حسین کی شہادت سے پہلے ہی منقول ہوئے ہیں ؛البتہ یہ حُسن ِاتفاق ہے کہ نواسہ رسول حضرت حسین ؓ نے اسی مہینہ کی دسویں تاریخ کو جامِ شہادت نوش فرمایااور اپنے مالک ِحقیقی سے جا ملے،یقینا امت مسلمہ کے لیے یہ ایک انتہائی المناک حادثہ فاجعہ ہے ؛چوں کہ آپ کوشہید کر نے والوں نے بڑی چالاکی اور سازش کے تحت آپ کے خون کوبہایا تھا؛اس لیے اس پر پردہ ڈالنے کے لیے ان کے قاتلین ان کی شہادت پر ماتم کر تے ہیں، اظہار ِعقیدت و محبت کر تے ہیں تاکہ امت ِحقہ کوگمراہ کیا جائے کہ یہ ان کے قاتلین نہیں ہیں بل کہ محبین ہیں۔حالاں کہ باوثوق تاریخی شواہد کے ذریعہ یہ ثابت ہوچکاہے کہ ان کی شہادت پربتکلف رونے دھونے والے ،سینہ پیٹنے ،ماتم کر نے والے ،ایصال ثواب کے نام پرپُرتکلف کھاناکھلانے اورکھانے والے ،شربت پینے ،پلانے والے اور تعزیہ بنانے والے ہی نواسہ رسول ﷺ کے قاتل ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ حضرت عمر ؓ ،حضرت عثمان غنیؓ ،حضرت مصعب بن عمیر ؓ،حضرت حمزہ ؓ، بدرواحد اور دیگر جنگوں میں ہزاروں صحابہ شہید ہوئے ۔ کفار اور ظالموں نے اللہ کے برگزیدہ بندوں ،نبیوں اور رسولوںتک کو نہ چھوڑاان پر بھی ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائے حتی کہ ہمارے نبی اخرالزماں،دونوں کے جہاں کے سردار،اللہ تعا لیٰ کے حبیب حضرت رسول اقدس ﷺ کے پیر مبارک لہولہان ہوئے،دانت مبارک شہیدہوا،چہرہ انور زخمی ہوااور اس سے نا رکنے والاخون جاری ہوا،انگلی مبارک سے بھی خون بہا۔دنیابھر کے اولیاء کرام کاخون کسی نبی کے ایک قطرئہ خون کے برابر نہیں ہوسکتاہے۔مگر اس پر کوئی ایک قطرہ آنسوبہانے والا نہیں،ان پر کوئی ماتم کر نے والا نہیں ،کوئی آ نکھ آنسوٹپکا والی نہیں ،ان کے داستانِ رنج والم اور شہادت کے واقعات کو کوئی سننے سنانے والا نہیں۔ یہاں زبان ،کان ،نگاہ،دل،اور آنکھ سب پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔لے دے کر حضرات حسنین ؓکی شہادت کا ذکر ؟کیا یہی انصاف ہے؟ دراصل ان کے قاتلین نے اس واقعہ کی اس طرح ملمع سازی کی اور اس قدر اس کو بڑھا یا چڑھا یا آج خالی الذہن اور نادان مسلمان یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ پوری تاریخ اسلامی میں حضرات حسنین کی شہادت کے علاوہ کوئی دوسرا واقعہ پیش ہی نہیں آیا۔کیا امت مسلمہ کے لیے آںحضور ﷺ کی وفات سے زیادہ کون سا دردناک حادثہ ہو سکتاہے؟ ا فسوس کہ مسلمان اس سے ناواقف ہیں یا پھر لاپرواہی کی وجہ سے ان خرافات میں شریک ہوتے ہیں۔نبی اکرم ﷺنے فرمایا کہ جو رخساروں کو مارے ،سینہ پیٹے ، کپڑوں کوپھاڑے اورجاہلیت کے رسوم پر عمل کر نے کے لئے لوگوں کو بلائے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔(بخاری: ۱۲۹۷)
قطب ربانی شیخ عبد القادر جیلانیؒ کا فتوی: اگر امام حسین ؓ کی شہا دت کے دن کو مصیبت اور ماتم کے طور پر منایا جائے تو پیر کادن اس غم و اندوہ کے لیے زیادہ مناسب ہے،کیوں کہ اس دن رسول مقبول ﷺ نے وفات پائی ہے اور اسی دن حضرت ابوبکر ؓ نے بھی وفات پائی حالاں کہ کوئی ایسا نہیں کرتاہے۔(غنیۃ الطالبین:۲:۳۸)
علامہ ابن حجر مکی ؒکا فتویٰ:خبر دار اور ہوشیار !! عاشوراء کے شیعوں کی بدعتوں میں مبتلا نہ ہوجاناجیسے مرثیہ خوانی ،آہ وبکاء اور رنج و الم میں۔اس لئے کہ یہ خرافات مسلمانوں کے شایانِ شان نہیں ،اور اگر ایسا کر نا جائز ہوتا تو حضور ﷺ کا یوم ِوفات اس کا زیادہ مستحق ہوتا۔(شرح سفر السعادہ :۵۴۳)،اس لیے محرم الحرام کے مہینہ میں اورخاص طورپردسویں تاریخ کوحضرات حسنین کی لڑائی اورشہادت کی نقل کر نا ،سوگ کرنا،ماتم کرنا،سبیل لگانا،علَم بنانا،اس نیت سے شربت یادودھ پینایا پلاناکہ اس سے حضرت حسین ؓکی پیاس بجھ جائے گی ، یا اس کے لیے چندہ دینا،تعزیہ بنانا،اس کا طواف کر نا،سجدہ کرنا،نذر ونیاز چڑھانا،مرادیں مانگنا وغیرہ ایسے امور ہیں جو جہالت پر مبنی اور خلاف ِ شریعت ہیں۔(دیکھئے : رسالہ محرم وتعزیہ داری ،عرفان شریعت،عرفان ہدایت وغیرہ بحوالہ فتاویٰ رحیمیہ۲: ۲۴،۲۵)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×