اسلامیات

قبروں پر کی جانے والی بدعات و رسومات

حقیقت و مشاہدہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو ضلالت و گمراہی کی بنیاد قبر کی بدعات و خرافات ہیں۔ ان سے ہی ایک نیک و صالح قوم تباہی و بربادی کی وادیوں میں بٹکھتے پھرتی ہے رب سے تعلقات توڑ کر غیروں سے امیدیں لگاۓ بیٹھتی ہیں، اور مالک ارض و سموٰات کو بھول کر قبر میں مدفون لوگوں کو حقیقی رب سمجھ بیٹھتی ہیں۔
 ان بدعات و خرافات کے نتیجہ میں  لوگوں کو یہ پتا ہی نہیں چلتا کہ مصائب و مشکلات کو حل کرنے والی ذات کون ہے؟ آفات و بلیات کو ٹالنے والی ہستی کون ہے؟ اور جنت و جہنم میں داخل کرنے والی شخصیت کون ہے ؟
بدعات و خرافات کی ابتداء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قوم نوح میں ود، سواع، یغوث، یعوق، اور نسر نامی پانچ نیک صفت لوگ پاۓ جاتے تھے، انکی بزرگی اور صالحیت کا ہر کوئ قائل تھا جب یہ لوگ فوت ہوۓ تو لوگوں نے انکی عقیدت میں  تصویریں بنانی اور انکی قبروں پر چلّہ کاٹنا اور پھر دھیرے دھیرے انہیں مشکل کشا اور حاجت روا سمجھنا شروع کردیا، اور کچھ عرصہ بعد انکی پرستش بھی کرنی شروع کردی،
اس کے بعد لوگوں میں یہ قبر پرستی اتنی عام ہوگئ کہ جب بھی کوئ نیک آدمی انتقال کرجاتا، تو یہ لوگ اس کی پرستش کرنے لگتے، اور اپنی مرادیں انہی کے سامنے پیش کرنے لگتے۔
                                   (اغاثۃ اللھفان ابن جوزی)
اسی کا اشارہ اس حدیث پاک میں بھی ہے کہ حضرت  عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ (ام سلمہ ؓ اور ام حبیبہ ؓ)  نے ایک گرجے کا ذکر کیا، جسے انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا، جس کا نام ماریہ تھا۔ ام سلمہؓ اور ام حبیبہ ؓ دونوں حبشہ کے ملک میں گئی تھیں، انہوں نے اس کی خوبصورتی اور اس میں رکھی ہوئی تصاویر کا بھی ذکر کیا۔ اس پر نبی کریمﷺ نے سر مبارک اٹھا کر فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان میں کوئی صالح شخص مرجاتا، تو وہ اس کی قبر پر مسجد تعمیر کردیتے، پھر اس کی مورت اس میں رکھتے۔ اللہ کے نزدیک یہ لوگ ساری مخلوق میں بدترین  ہیں۔
                      (صحیح بخاری حدیث نمبر: 1341)
بعثت نبوی سے قبل قبر پرستی۔۔۔۔۔۔۔
یہ قبر پرستی کا سلسلہ یہاں تک چلا کہ اہل عرب و عجم  بھی ان بدعات و خرافات میں  مبتلا ہوگئے، اور اہل عرب فوت شدہ نیک لوگوں کے بت بناکر خانہ کعبہ میں رکھنے لگے، اور اپنے کلمہ اور نعرہ میں بھی انہی بتوں کو پکارنے لگے۔
صرف عرب ہی نہیں بلکہ عجم بھی  خدا کے ساتھ  بتوں کو شریک ٹہرانے لگے ، جنگ و جدل کے مواقع پر بتوں ہی نام سے مدد مانگنے لگے، اور سفر و حضر کے مشکل حالات پر بتوں ہی کو یاد کرنے لگے۔
بعثت نبوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نبی ﷺ نے امت کو قبر پرستی سے بچانے کے لیے جہاں لا الہ الا اللہ کا یقین دلوں میں بٹھا کر غیر اللہ سے مانگنے اور ان کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھنے سے روکا، وہیں ساتھ ساتھ  واضح الفاظ میں اس زمانہ میں قبر پر کی جانے والی بدعات و رسومات سے کنارہ کش رہنےکا تاکیدی حکم بھی دیا۔
قبر پر سجدہ کرنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قبر پر سجدہ کرنے متعلق نبیﷺ کا یہ فرمان ہے کہ حضرت جندب ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا آگاہ ہوجاؤ کہ تم سے پہلے لوگوں نے اپنے نبیوں اور نیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا، تم لوگ قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا میں تمہیں اس سے روکتا ہوں۔
                    ( صحیح مسلم حدیث نمبر1188)
قبر کا طواف کرنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح قبر کا طواف کرنا بھی بلکل ناجائز و ممنوع ہے، کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ  (۱)﴿طواف البیت صلوٰۃ﴾ کہ  بیت اللہ کا طواف نماز ( کے حکم میں) ہے، چناچہ طواف اسی کا کیا جاتا ہے جو نماز کا حکم رکھتا ہے، اور قبر نماز کا حکم  نہیں رکھتی ہے، کیونکہ اس پر نماز و سجدہ بلکل ممنوع ہے، تو قبر کا طواف بھی ناجائز و ممنوع ہوگا۔
                       (۱)سنن نسائ حدیث نمبر: 2925۔
قبر کو پختہ کرنا اور ان پر چراغ جلانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمانہ جاہلیت میں لوگ پختہ قبریں بناتے تھے، اور ان پر چراغ جلاتےتھے، وہ لوگ ان سب کاموں کو نیکی سمجھتے تھے، رسول اللہ ﷺ کو جب علم ہوا تو آپ نے انہیں ان بدعات سے سختی سے روکا،
 حدیث شریف میں ہے کہ آپﷺ نے قبروں کو پختہ بنانے اور ان پر بیٹھنے اور ان پر عمارت بنانے سے منع فرمایا۔
                     (صحیح مسلم حدیث نمبر: 2245)
اور آپﷺ نے قبروں پر چراغ جلانے والوں پر  لعنت فرمائ،
 چناچہ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ سرورِ کائنات ﷺ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر اور قبروں کو مسجد بنالینے یعنی قبروں پر سجدہ کرنے والوں) اور قبروں پر چراغ جلانے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔
 ( مشکوٰۃ المصابیح حدیث نمبر: 701 ،ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی )
قبروں پر جلسہ و جلوس کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قبر پر کی جانے والی ایک بڑی بدعت قبر کی سالانہ  عید ہے، اسے عرس بھی کہتے ہیں، یہ کسی ولی کے وفات کے دن منائ جاتی ہے، جس میں زائرین کا ہجوم ہوتا ہے، اور آنے جانے والے لوگوں کی لیے کھانے پینے کا انتظام بھی کیا جاتا ہے، آس پاس کے لوگ اس دن کو عید سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں، اور اس کے علاوہ وہاں مختلف قسم کی رسم و رواج اور فضول خرچی ہوتی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ قبر پر اس سالانہ تقریب کا تصور اسلام میں موجود ہے یا نہیں ؟
تو آئیے ہم یہاں بھی سید الانبیاء والاولیاء جنابِ محمد الرسول اللہ ﷺ کا رخ کرتے ہیں، تو ہمیں  آپﷺ یہ واضح فرمان ملتا ہے کہ
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے خود سنا، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم اپنے گھروں کو قبریں نہ بنالو، اور میری قبر کو میلہ نہ بناؤ، ہاں مجھ پر صلوٰۃ بھیجا کرو، تم جہاں بھی ہوگے مجھے  تمہارا درود پہنچے گا۔
 (معارف الحدیث حدیث نمبر: 1354 و سنن نسائ)
یہ وہ بدعات تھیں جو زمانہ جاہلیت میں بکثرت پائی جاتی تھیں، پھر رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو ان بدعات و رسومات سے سختی روکا، اور ایک صالح معاشرہ کی تشکیل دی۔
لیکن جیسے جیسے زمانۂ نبوت سے دوری ہوتے گئ، ویسے ویسے وہی بدعات قدیمہ اور عادات رذیلہ امت میں لوٹ آئیں ، اور پھر وہی بدعات شروع ہوئیں، جو زمانہ جاہلیت میں پاۓ جاتی تھیں، بلکہ ان جاہلی بدعات میں مزید نۓ اضافات بھی ہونے لگے۔
قبروں پر پھول چڑھانا اور چادریں ڈالنا۔۔۔۔۔۔۔
آج کے معاشرہ میں قبروں پر پھول چڑھانے اور ان پر چادریں چڑھانے کی بدعت بہت عام ہے، اور بعض لوگ پھول چڑھانے پر یہ حدیث بھی پیش کرتے ہیں، کہ حضور ﷺ نے ایک مرتبہ دو آدمیوں کی قبر پر تر ٹہنیاں لگائ، اور فرمایا کہ جب تک یہ ٹہنیاں تازہ رہے گی، تب تک ان کے عذاب میں کمی رہےگی، اس عمل کو لے کر وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب ٹہنیوں سے عذاب میں کمی ہوسکتی ہے، تو پھول تو ٹہنیاں سے اچھی اور عمدہ چیز ہے، لہذا پھول بھی جب تک ترو تازہ رہنگے، تب تک عذاب میں کمی ہوگی۔
ان کا اس حدیث سے قبروں پر پھول ڈالنا  بلکل غیر درست عمل ہے۔
کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ حضورﷺ کو بذریعۂ وحی یہ بات بتلائ گئ تھی کہ ان کے عذاب میں اس وقت تخفیف کا باعث تر ٹہنیوں کا رکھنا ہے، جب تک یہ  تر رہے گی، تب تک ان کے عذاب میں کمی رہے گی، تو یہ عمل اس واقعہ کے ساتھ خاص ہے، لہذا اس عمل کے ذریعہ سے قبروں پر پھول ڈالنا درست نہیں  اگر ہوتا تو ہم سے زیادہ جاننے والے اور عمل کرنے والے صحابہ اور تابعین تھے انہوں نے کبھی اس طرح قبروں پر پھول نہیں ڈالے، اسی بناء پر قبروں پر پھول ڈالنا بدعت اور ناجائز عمل ہے۔
                       (مطالعہ بریلویت ج 6 ص 254)
اور قبروں پر چادریں نہ صحابہ نے ڈالی اور نہ تابعین و تبع تابعین نے ڈالی، یہ لوگوں کی اپنی طرف سے ایجاد کی ہوئ ایک بدعت ہے۔
 اور علامہ شامی رح نے اس فعل کو مکروہ قرار دیا ہے، اور کہا کہ (فی الاحکام عن اللجۃ تکرہ الستور علی القبور)
احکام میں لجّہ سے منقول ہے کہ قبروں پر چادریں ڈالنا مکروہ ہے۔
                              (رد المختار ج 2 ص 228)
قبروں پر مننتیں اور مرادیں مانگنا۔۔۔۔۔۔۔
بہت سے لوگ  اولیاء اللہ کی مزاروں پر مرادیں مانگتے ہیں، اور ان کے نام پر مننتیں مانگتے ہیں، کہ اگر ہمارا فلاں کام ہوگیا، تو ہم انکے مزار پر چادر چڑھائیں گے، یا انکے نام پر بکرا دیں گے۔
جبکہ منت مانگنا عبادت ہے، اور غیر اللہ کی عبادت درست نہیں۔
 اور علامہ شامیؒ نے غیر اللہ کی نام پر مانی گئ نذروں کو بالاجماع حرام قرار دیا ہے۔
                           (رد المختار ج 1 ص 473)
مذکورہ بالا بدعات میں سے اکثر  تو وہ تھیں، جن کے منع پر حضور کے صریح ارشادت موجود ہیں، اور بعض پر ان ائمہ کے فتاوی موجود ہیں، جنکی علمی قابلیت کو تقریباً ہر عالمِ دین و مفتئ وقت تسلیم کرتا ہے۔
اب ان تمام بدعات پر رسول اللہ ﷺ اور ائمہ دین کے صریح ارشادت موجود ہونے کے باوجود آخر کیا وجہ ہے جو ہمیں اپنے شوق پورا کرنے کی طرف لے جاتی ہے، رسول اللہﷺ کی نافرمانی  کی طرف کھینچتی ہے اور علماء دین و مفتیانِ شرع متین کی مخالفت پر ابھارتی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان تمام بدعات سے بچتے ہوئے دین کی صحیح راہ پر چلے تاکہ ہم ربِّ کریم کے ساتھ شرک کرنے اس کے دین میں کسی نئ بدعت کے ایجاد کرنے اور اس کو چھوڑ کر مزاروں سے مرادیں اور مننتیں مانگنے والے نہ بنیں۔
بلکہ اس طریقہ کے  مطابق قبر کی زیارت کریں، جو سنت کے مطابق ہو، جو تعلیمات نبوی کے موافق ہو، اور جو بدعات و رسومات سے پاک صاف ہو،  تو پھر ہماری یہ زیارت آخرت  کی یاد دہانی، دنیا سے بے رغبتی، اور اللہ و رسول سے دل لگی کا سبب بنے گی۔
زیارت کے آدابِ مسنونہ…………
زیارتِ قبور کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ زیارت کرنے والا شخص میت کے پاؤں کی طرف سے آئے، اور اس کے چہرے کی طرف اپنا رخ کر کے قبلہ کی طرف پشت کر کے یہ دعا پڑھے ’’السلام علیکم دار قوم مؤمنین وانا انشاء اللہ بکم لاحقون‘‘ پھر وہاں پر کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر سورۃ یٰسین یا سورۃ فاتحہ اور سورۃ اخلاص یا کوئی بھی اور سورت پڑھ کر اس میت کو ایصال ثواب کرے، اور افضل یہ ہے کہ ایصال ثواب کرتے وقت نیت تمام مؤمنین کی کرلے، اور زیارۃ قبور کے لیے جانا جمعہ کے دن افضل ہے، اس سے کم افضل جمعرات اور ہفتہ کے دن جانا ہے۔ (ھکذا فی الشامی ۲/۲۴۲)”
اللہ ہمیں بدعات سے بچاۓ، اور دین کے مطابق عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×