قرآن کریم سے ہمارا تعلق کیسا ہو؟
نیز اس کی تلاوت باعثِ اجر و ثواب اور اس پر عمل ذریعۂ نجات ہے، اس کے ساتھ محبت علامتِ ایمان اور اس کا شغف مسلمان کی شان ہے، مومنوں کے لئے یہ ذکریٰ ہے تو متقیوں کے لیے ھدیٰ ، علوم و معارف کا بحر ناپیدا کنارعقلوں کا دفتر، ان گنت پندونصائح کا گنجینہ ہے۔اور یہ وہ کتابِ ہدایت ہے جو بندگانِ خدا اور عبادِ الہٰی کو ایک معبود حقیقی و مسجودِ اصلی کی بارگاہِ عالی میں اپنی جبیں فرسائی کا درس دیتی ہے، گم گشتہ راہ لوگوں کو رشد و ہدایت اور امن و سلامتی کا پیغام سناتی ہے، جس کے ذریعہ شر و فساد، ظلم و عدوان کا اہرمن دم گھٹ کر مرجاتا ہے، اور خیر و صلاح، عدل و کرم کا یزداں سایہ گستر ہو جاتا ہے۔*تلاوتِ قرآن کی فضیلت* : قرآن کریم ایک ہمہ گیر نظامِ حیات اور جامع کتاب ہے، جس کی تلاوت اجر وثواب کا ذریعہ ، رحمتوں اور برکتوں کے نزول کا باعث ہے، اور قرآن کریم کا یہ اعجاز ہےکہ اس کی کتنی بھی تلاوت کی جائے، انسان بے لطف نہیں ہوتا اور ہر بار تلاوت سے ایک نئی لذت حاصل ہوتی ہے، اور اس کے ایک ایک حرف پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں، رمضان میں تو یہ ثواب اور بھی بڑھ جاتا ہے، قرآنِ کریم ترجمہ کے ساتھ پڑھا جائے یا بغیر ترجمہ کے دونوں صورتوں میں بڑا ثواب ہے، اور اس کے ہر ہر حرف کی تلاوت پر دس نیکیوں کا وعدہ کیا گیا ہے؛ جیساکہ حدیثِ مبارک میں اس کی فضیلت بتائی گئی ہے، اور اس کی مثال سمجھاتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ "الم” ایک حرف نہیں ہے؛ بلکہ "الف” الگ حرف ہے اور "لام” الگ حرف ہے اور "میم” الگ حرف ہے. ( سنن الترمذي:5 / 175)
نکتہ اس میں یہ ہے کہ "الم” حروفِ مقطعات میں سے ہے، اور حروفِ مقطعات کا معنیٰ و مفہوم جمہور اہلِ علم کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو یقینی طور پر معلوم نہیں ہے، حدیث شریف میں مثال ہی ان حروف کی دی گئی جن کا معنٰی کسی بھی امتی کو معلوم نہیں ہے، اور ان کے پڑھنے پر ہر حرف پر دس نیکیوں کا وعدہ کیا گیا ہے، تو معلوم ہوا کہ قرآنِ کریم کی نفسِ تلاوت بھی مقصود ہے، اور اس پر اجر و ثواب مستقل ہے؛ حاصل یہ ہے کہ سمجھے بغیر تلاوتِ قرآنِ کریم کو فضیلت میں کم نہ سمجھا جائے؛ کیوں کہ تلاوت بھی مستقل طور پر مطلوب ہے،
اس فضیلت کا تو وہ شخص بھی حق دار ہےجو اس کی تلاوت پر قادر ہو؛ لیکن جو شخص اس کی تلاوت پر قادر نہ ہو تو وہ بھی مایوس نہ ہو؛ بلکہ اس کے سیکھنے کی کوشش کرے؛ کیوں کہ قرآنِ کریم کی ایک آیت سیکھنے پر حدیثِ مبارکہ میں یہ فضیلت وارد ہوئی ہے کہ ایک آیت کا سیکھنا سو رکعت نفل نماز سے بہتر ہے۔(سنن ابن ماجه:1/ 79)
لہٰذا رمضان المبارک کے اس مہینہ کی قدر میں یہ بات بھی شامل ہے کہ کثرت سے قرآن کی تلاوت کا اہتمام کیا جائے۔
*رمضان میں تلاوتِ قرآن کے سلسلہ میں اکابر کا معمول*:
یہ بات بھی بالکل بدیہی ہے کہ قرآن کریم کا رمضان المبارک سے خاص تعلق ہے؛ کیوں کہ قرآن کریم کا نزول بھی اسی ماہِ مبارک میں ہوا ، اور اسی وجہ سے خود نبیﷺ ہر سال اس مہینہ میں حضرت جبرائیل ؑ کے ساتھ قرآن کریم کا دور کیا کرتے تھے ، اور اسی طرح ہمارے اسلاف و اکابر، علماء ومشائخ کا رمضان المبارک میں کثرت سے تلاوتِ قرآن کا معمول رہا ؛
*چنانچہ* (١) امام اعظم ابوحنیفہ ؒ رمضان کے ایک مہینہ میں ٦١؍ قرآن پڑھتے تھے ۔(تذکرۃ النعمان)
(٢) امام شافعی ؒ کا معمول یہ تھا کہ وہ رمضان میں ٦٠‚ قرآن ختم کیا کرتے تھے (الفتاوی الحدیثیۃ :٨٢)
(٣) حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ کے حالات میں لکھا ہے کہ آپ ؒ روزآنہ نصف قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتے تھے ۔ (اکابر کا رمضان:٥١)
(٤) شاہ عبد الرحیم رائے پوری ؒ کا مشغلہ دن رات تلاوتِ کلام ُ اللہ کا تھا۔
(٥) حضرت جی یوسف صاحب ؒ کے متعلق لکھا ہے کہ صحت و قوت کے زمانہ میں سالہا سال تک یومیہ ایک قرآن پاک ختم کرنے کا معمول رہا ۔ (اکابر کا رمضان)
(٦) حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا ؒ کے والد گرامی "حضرت مولانا یحییٰ کاندھلوی ؒ” رمضان میں دن بھر میں چلتے پھرتے پورا قرآن ختم فرمالیتے اور افطار کا وقت قریب ہوتا تو ان کی زبان پر "قل اعوذ برب الناس” ہوتی تھی ۔
(٧) اور خود حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب ؒ کا حال تلاوتِ قرآن کے سلسلہ میں یہ تھا کہ رمضان میں روزآنہ ایک ختمِ قرآن فرمایا کرتے تھے اور 42 سال تک یہی معمول رہا۔ (آپ بیتی:١/٩٥)
(٨) فقیہ الامت حضرت محمود حسن صاحب گنگوہی ؒ تمام معاملات و مشاغل کے ساتھ ساتھ یومیہ ایک قرآن ختم فرماتے تھے اور یہ معمول نصف صدی سے زائد تک رہا (مواعظ فقیہ الامت)
تلاوتِ قرآن کا یہ بابرکت ذوق اور شغف جہاں مردوں میں پایا جاتا ہے، تو وہیں خواتین کی زندگیوں میں بھی یہ دل شاد منظر دکھائی دیتا ہے؛ جیسا کہ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب نے اپنے گھریلو خواتین کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: "ہمارے گھر کی خواتین گھریلو کام کاج کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ یومیہ نصف قرآن کی تلاوت کرلیتی ہیں۔ ”
اور اسی طرح بانئ تبلیغ حضرت مولانا الیاس صاحب کاندھلوی ؒ کی والدہ ماجدہ کے بارے میں لکھا ہے کہ ماہ مبارک میں روزآنہ ایک قرآن مکمل اور مزید دس پاروں کی تلاوت کا اہتمام تھا؛
لیکن تف ہے ہماری اس محرومی اور عدیم الفرصتی پر کہ ہمیں اس عظیم الشان مہینہ میں بھی قرآن کریم کی ایک معتدبہ مقدار تلاوت کرنے کی توفیق نہیں ملتی، بایں طور کہ مرد حضرات کاروبار اور بزنس اور باہر کی مشغولیات میں مصروف ہیں تو دوسری طرف خواتین خانگی مصروفیات اور خریداری و شاپنگ میں اس قدر منہمک ہیں کہ نہ روزہ کی پرواہ ہے اور نہ ہی عبادت و تلاوت کا کوئی ذوق، یہ سب محروم القسمت ہونے کی علامات ہیں؛ ورنہ تو کچھ خوش نصیب گھرانے آج کے اس عدیم الفرصتی کے دور میں ایسے بھی ہیں جہاں پر مردوں اور عورتوں دونوں کا معمول بحمداللہ یومیہ ختمِ قرآن کا ہے۔ یہ کوئی خلاف عقل بات نہیں؛ کیوں کہ اگر بندہ کی جانب سے طلبِ صادق ہو اور ربِ رحمنٰ کی طرف سے توفیق نصیب ہو تو کیا بعید ہے ،
بس اپنے اندر شوق کی چنگاری کو بھڑکانا ہوگا، طلب کی ضیاء روشن کرنا ہوگا، ثواب کی حرص پیدا کرنا ہوگا، رضائے رب کی وصول یابی کی کوشش کرنا ہوگا، اور بارگاہِ الہی میں دستِ سوال دراز کرنا ہوگا، پھر ان شاء اللہ کامیابی مقدر ہوگی؛ لیکن شرط یہ ہے کہ بندہ کی جانب سے پہل ہو؛ کیوں کہ
تدبیر کے دست زریں سے تقدیر درخشاں ہوتی ہے
قدرت بھی کرم فرماتی ہے جب کوششِ انساں ہوتی ہے ۔
*ہماری حالت ِ زار*:
قرآن کریم کا اعلان ہے :
لَا تَہِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (آل عمران : ۱۳۹)
” ( اے مسلمانو ! )تم نہ ہمت ہارو اور نہ غم کھاؤ ، اگر تم ایمان رکھتے ہوتو تم ہی غالب رہو گے
لیکن جب ہم نے فرمانِ خداوندی کو نظر انداز کر دیا ، قرآن اور اس کے پیغامات سے چشم پوشی کی، اور ایمانی صفات اور نبوی تعلیمات سے روگردانی کی تو پھر کیا تھا، مہر، قہر میں بدل گیا، بلندی سے پستی کی طرف دھکیل دیے گیے اور سزا کے طور پر رسوائی، ناداری، خواری اور بدنامی سے ہستی اور بستی کو بھر دیا گیا، اور قرآن کے تارک بن کر تاریکی میں ڈوبتے چلے گئے، اور پھر آج ہم در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، دن بہ دن مصائب و مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں، حالات اور حوادثات سے دوچار ہیں، آزمائشوں اور طرح طرح کی بیماریوں میں گھرے ہوئے ہیں، وبائی سازشوں اور طوفانوں سے حیراں و سرگرداں ہیں، معاشی نظام کی تباہی سے پریشان ہیں، تعلیمی پسماندگی کی وجہ سے تنزلی اور پستی ہمارا مقدر بن چکی ہے؛ کیوں کہ اسلاف نے قرآن کا دامن تھام کر سب کچھ پایا اور ہم نے قرآن کا دامن چھوڑ کر سب کچھ کھو دیا۔
*مختصر یہ کہ*
میرے کعبے کو جبینوں سے سجایا کس نے
میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
*لائحہ عمل اور علاج*: رمضان المبارک کی ان گراں قدر ساعتوں اور بابرکت لمحات کا تقاضہ ہے کہ اس کو عبادت وتلاوت اور ذکر و نماز اور بھلائی کے کاموں میں گذارا جائے، کیوں کہ اگر ہم ان مبارک لمحات کی قدردانی کیے بغیر ان کو یوں ہی گذار دیں، اور اپنے اندر بدلاؤ اور تبدیلی لانے کی فکر اور کوشش نہ کریں تو پھر ہمارے حق میں رمضان اور غیر رمضان یکساں ہو جائیں گے، اور ہمارے لئے اس سے بڑا خسارہ اور کیا ہوگا، کہ ہم اللہ تعالیٰ کی مغفرتِ عظمیٰ اور بخششِ عامہ سے محروم رہ جائیں، اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کی اس بددعا کا حصہ بن جائیں گے، جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین کہی ہے،
ابھی بھی وقت ہے سدھرنے کا، سنبھلنے کا، اپنے اندر تبدیلی لانے کا،
چند ایک کام ہیں جن کی ادائیگی ان شاء اللہ کارآمد اور نفع بخش ہوگی،
سب سے پہلا کام یہ کریں کہ اپنے کاموں کا نظام العمل بنائیں، کہ کس وقت میں مجھے کونسا کام کرنا ہے؛ یعنی کس وقت آرام کرنا ہے اورکس وقت عبادت کرنا ہے، اور کب دکان اور آفس جانا اور کس وقت قرآن کی تلاوت کرنا ہے؛ کیوں کہ اگر ہم اس طرح کا نظام الاوقات اور شیڈول نہیں بنائیں گے تو پھر رمضان کی بابرکت گھڑیاں یوں ہی گذر جائیں گی، کچھ ہاتھ نہیں آئے گا، اور رمضان کو پالینے کے باوجودبھی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی؛ اس لیے اولاً اپنا نظام الاوقات تیار کریں اور اوقات کو کام میں لائیں۔
اور اسی کے ساتھ ساتھ اس بات کا پختہ عزم و ارادہ کریں کہ آج سے لیکر موت تک ایک نماز بھی فوت نہ ہوگی، اور جو نمازیں چھوٹ گئی ہیں ان کی قضاء کی ترتیب بنائیں، اور سب سے اسہل طریقہ یہ ہے کہ ہر نماز کے وقت اسی نماز کی قضاء کریں؛ اگر اس طرح کریں تو ان شاء اللہ مہینہ میں ١٥٠‚ نمازوں کی قضاء ہوجائے گی۔
اور قرآن کریم سے اپنا رشتہ اور تعلق مضبوط بنائیں، رمضان اور غیر رمضان دونوں میں تلاوتِ قرآن کا معمول بنائیں؛ اگر چہ یومیہ ایک رکوع ہی کیوں نہ ہو، اور علماء کرام کے درس قرآن میں شرکت کرکے قرآن سمجھنے کی کوشش کریں۔
اور ایک اہم کام یہ ہے کہ علماء کرام اور بزرگانِ دین سے اپنا تعلق قائم کریں؛ اس لیے کہ علماء کرام کی رہنمائی کے بغیر صراط مستقیم پر چلنا، اور دین پر ثابت قدم رہنا آج کے زمانہ میں مشکل ہے، جس طرح وباء کے دور میں ڈاکٹروں سے دوری جان لیوا ثابت ہوتی ہے ؛ اسی طرح فتنوں کے دور میں علماء سے دوری ایمان لیوا ثابت ہوتی ہے، اس لیے علماء کرام سے اپنے روابط کو مضبوط کریں، اور ہر کام میں ان کی رہبری اور نشان دہی پر عمل کریں، ان شاء اللہ ہر فتنہ اور دشمنانِ دین کی سازشوں سے مامون رہیں گے ۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم سے وابستہ رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں عزت و سربلندی سے ہم کنار کرے ۔ آمین ثم آمین