اسلامیات

رہ گئی رسم اذاں، روح بلالی نہ رہی

گذشتہ دنوں عالم اسلام کے ممتاز و مایہ ناز عالم دین،فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم کا ایک اہم مضمون بہ عنوان”اذان میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال” شائع ہوا(تاریخ اشاعت: 9 اپریل 2021 روزنامہ منصف حیدرآباد) اس مضمون میں حضرت مولانا نے موجودہ حالات کے پس منظر میں اپنی اعلیٰ درجہ کی فقہی بصیرت کے ساتھ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ اذان کے مسئلہ پر بہت ہی سلجھے ہوئے اور سنجیدہ انداز میں روشنی ڈالی، غیر ضروری جذباتیت سے قطع نظر اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ حضرت مولانا کا یہ گراں قدر مضمون عدل و اعتدال اور عقل و انصاف پر مبنی ہے۔ اذان سے متعلق یہ مضمون نہ صرف یہ کہ شرعی احکام کے عین مطابق ہے بل کہ’’ لا ضرر ولا ضرر‘‘ جیسے اسلام کے بے لاگ اصول کے تحت دین و شریعت کے مزاج و مذاق سے ہم آہنگ بھی ہے… اس سلسلہ میں مزید چند امور قابل غور و لائق توجہ ہیں:

1۔ اذان بے شک اسلامی شعائر میں سے ہے، جیسے دوسرے اسلامی شعائر سے مسلمانوں کا جذباتی تعلق ہے، اسی طرح اذان سے بھی ہے اور ہونا بھی چاہئے، لیکن سوال یہ ہے کہ ہم جس دین و شریعت کے پابند اور پیروکار ہیں،کیا اُس میں ہمارے لئے جذبات کو بالکل بے لگام رکھا گیا یا اُس کی کوئی حد بھی رکھی گئی ہے؟ اسلامی تعلیمات پر غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قدم قدم پر ہمارے جذبات کی حد بندی کی گئی،مثلاً خوشی و مسرت کے موقع پر مال خرچ کرنا ہے،عام انسان کی طرح ہر مسلمان بھی ایسے مواقع پر خوب خرچ کرنے کا جذبہ رکھتا ہے،لیکن شریعت کی طرف سے حدبندی ہے کہ تمہارے خرچ کرنے کی حد وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں اس اسراف اور فضول خرچی کی سرحد شروع ہوتی ہے،اس طرح رنج و غم کے موقع سے جذبات کے اظہار کے لئے تین دن کی حد رکھی گئی ہے ،کسی سے اپنی ناراضگی جتا کر بات چیت بند رکھنا ہے تو اس کے لئے بھی تین دن کی حد رکھی گئی ہے، حتی کہ بعض مرتبہ عبادت و بندگی کا خوب جذبہ اور شوق ہوتا ہے، ایسے موقع پر بھی حکم ہے کہ تم اپنےآپ کو ہلاکت میں ڈال کر یا اپنے بال بچوں کے حقوق کو پامال کرکے اس شوق و جذبہ کو پورا نہیں کرسکتے۔إِنَّ لنفسک عَلَيْکَ حقًّا، ولاھلک عليك حقًّا،
اس وقت ہمیں اپنے ملک میں فرقہ پرست طاقتوں اور ہندو توا عناصر کی طرف سے شدید نفرتوں کا سامنا ہے،اس مخالفت اور عداوت کے ماحول میں دین و شریعت کا کوئی بھی مسئلہ ھمارے لئے انتہائی اہم اور جذباتی ہے ،اس لئے بادی النظر میں محسوس ہوتا ہے کہ یہی جذباتیت زیر بحث مضمون میں حضرت مولانا رحمانی کے معقول مشورہ سے اختلاف کا سبب بنی ہے،ظاہر ہے کہ جب مخالفت کا ماحول خوب گرم ہوتو عداوت کا جذبہ عدل و انصاف پر قائم نہیں رہنے دیتا۔اس لئے قرآن مجید میں مسلمانوں کو اس طرح کے رویہ سے منع کیاگیا،
وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ( المائدہ:8)
کسی قوم کی دشمنی تم کو نا انصافی پر آمادہ نہ کرے،انصاف کرو،یہی تقویٰ سے قریب تو طریقہ ہے
اذان کے معاملہ میں لاؤڈ اسپیکر کا بےجا استعمال،انصاف نہیں ہوسکتا، انصاف وہ ہے جس کی اجازت شریعت نے ہمیں دی ہے،اور جتنی گنجائش شریعت میں ھمارے لئے رکھی گئی ہے بہر حال وطن عزیز میں فرقہ پرستوں کی مخالفانہ سازشوں کا ہمیں پوری ہمت و جرأت اور عزم و حوصلہ کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے، دشمنوں کی سازشیں حد سے کیوں نہ بڑھ جائیں ہمیں حد سے زیادہ جذباتی ہوکر اور رد عمل کی نفسیات کاشکار ہوکر عدل و انصاف کی حد نہیں پار کرنا ہے۔حالات چاہے جیسے بھی ہوں ہم لاؤڈ اسپیکر کےاستعمال کے لئے شرعی ہدایات اور اسلامی تعلیمات کے پابند ہیں،ملک و ملت کے حالات کے نام پر نہ انصاف کا دامن چھوڑ ا جاسکتا ہے، اور نہ شرعی احکام نظر انداز کئے جاسکتے ہیں۔
2۔لاؤڈ اسپیکر پر اذان کے تعلق سے غیر مسلم بھائیوں کے اعتراضات کے پیچھے سچائی کیا ہے؟ وہ کیوں بغیر مائک والی اذان چاہتے ہیں؟ اس لئے کہ انہیں تکلیف ہوتی ہے۔تکلیف کس بات کی؟ کیا اس کو وہ گاؤ ذبیحہ کی طرح اپنے عقیدہ پر ضرب کاری محسوس کرتےہیں؟ نہیں،تکلیف کا تعلق مذہبی عقیدے سے نہیں ہے، تکلیف اس پر ہے کہ اُن کی نیند میں خلل ہوتا ہے،یا دیگر مصروفیات کے موقع پر یکسوئی متاثر ہوتی ہے،یا گھروں اور دواخانوں میں بیماروں کا مسئلہ ہے۔
غور کیجئے کیاان سب باتوں سے ہمیں بھی تکلیف ہوتی ہے یا نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ جس انداز میں اور جس طرح کی آوازوں میں اذانیں ہوتی ہیں اس سے تو بڑے بوڑھے لوگ ہربڑا کر نیند سے اٹھ جاتے ہیں اور چھوٹے معصوم بچے نیند میں چمک جاتے ہیں،جب یہ ایک واضح سچائی ہے تو ہمیں اپنی اذانوں میں اصلاح کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ لوڈ اسپیکر کے ذریعہ اذان پر اصرار کرنے کی ، یاد رکھئے غلطی بہرحال غلطی ہے چاہے جو بھی کرے، کسی غلط چیز کو محض اس لئے صحیح قرار نہیں دیا جاسکتا کہ اس کے کرنے والے والے اپنے ہیں،اور کسی صحیح بات کو صرف اس لئے رد نہیں کیا جاسکتا کہ اُ س کے بتانے والے ہمارئے مخالف ہیں،قرآن مجید میں مسلمانوں کوصاف حکم دیا گیا :
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَ لَوْ عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ (النساء:135)
اے مسلمانو! انصاف قائم کرنے والے اور اللہ کے لئے گواہی دینے والے بنو! گو یہ گواہی اپنے آپ کے یا والدین یا رشتہ داروں کے خلاف کیوں نہ ہو۔ کوئی بھی نغمہ یا ترانہ کتناہی اچھاا ور معنی خیز اور پیغام آفریں کیوں نہ ہو اگر اُس کو اچھی طرح اور خوبصورت آوازمیں نہ پڑھا جائے تو اس کی ساری تاثیر اور معنویت ختم ہوجاتی ہے،اذان بھی توحید کا ترانہ اور نغمہ ہے،اس کو بھدی آواز اور بھونڈے انداز میں دے کر سننے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔
3۔ اذان در اصل اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعلان ہے ،یہ اعلان ہر سلیم الفطرت انسان کے دل کی آواز ہے، اس لئے جب کبھی خوبصورت لحن میں اذان دی جاتی ہے سلیم الفطرت انسان اذان کی آواز سے بے چین اور ہریشان ہونے کے بجائے اپنے اندر ایک عجیب روحانی سکون محسوس کرتاہے اور پھر آہستہ آہستہ یہ احساس ان کے مشرف باسلام ہونے کا ذریعہ بنتاہے،چنانچہ یورپ و امریکہ کے بہت سے غیر مسلم حضرات سیاحت یا کسی دوسرے کام سے مصر، سعودی عرب وغیرہ جاتے ہیں تو وہاں اذان کی ان کے لئے بہت ہی متاثر کن اور دلکش ہوتی ہے،اذان کی یہی مقناطیسی کشش انہیں دین حق کی طرف کھینچ لاتی ہے،اور وہ اسلام کے دامن رحمت مین آکر روحانی و قلبی سکون محسوس کرتے ہیں۔
کیا ہی اچھا ہوتاکہ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ اذان پر اصرار کرنے کے بجائے ہم خوش الحان مؤذن حضرات کے تقرر کے لئے خصوصی مہم چلائی جائے، اور مسلمان ازخود یہ طے کرلیں جب تک جس مسجد میں اچھے اور خوش الحان مؤذن کا تقرر نہیں ہوتا اُس مسجد کے مائک پر اذان نہیں ہوگی،ان شاء اللہ اس اقدام اذان کی فطری تاثیر اپنا رنگ دکھائے گی اذان کی عظمت اور اُس کا تقدس و احترام بھی باقی رہے گا،پھر وہ دن بھی مسلمان انشاء اللہ ضرور دیکھیں گے کہ اذان کی آواز نہ سننے پر غیر مسلم اپنی بے چینی اور بے سکونی کا اظہار کرتے ہوئے مسلمانوں سے لاؤڈ اسپیکر ہر اذان دینے کی درخواست کریں گے۔
4۔ حضرت مولانا رحمانی کے مشورہ سے اختلاف کرتے ہوئے بعض حضرات نے اس کو مذہبی تشخص سے جوڑدیا، اور پھر مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ کی تحریریں پیش کی جانے لگی کہ ہم اس ملک میں اپنے ملّی تشخص کے ساتھ رہیں گے اور اپنے کسی مذہبی شعائر سے دستبردار نہیں ہوں گے مجھ جیسے طالب علم کو تو اب تک یہی معلوم تھا کہ
نفسِ اذان شعائر میں ہےلیکن لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینا کب سے اسلامی شعائر میں داخل ہوگیا اس کو یہ حضرات ہی بتاسکتے ہیں۔ البتہ حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒ کے حوالہ پر یاد آیا کہ :حضرت مولانا ؒ نے:أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ۔ حدیث کی تشریح میں فرمایا: سلطان جائر سے صرف وقت کا ظالم و جابر بادشاہ اور حکمران مراد نہیں ہے بلکہ اس سے وہ سماج اور معاشرہ بھی مراد ہے جو حق بات سننا اور سمجھنا نہیں چاہتا، ایسے میں کوئی عالم دین سماج کی روایتی سوچ کے خلاف اگر کوئی بات کہتا یا لکھتا ہے تو وہ بھی گویا کلمۃ حق عند سلطان جائر کا مصداق ہے۔
اس وقت اسلام دشمن عناصر کی مسلسل ریشہ دوانیوں کی وجہ سے مسلمانوں کا عمومی مزاج حد سے زیادہ جذباتی ہو گیا ہے،اس سے بعض مرتبہ صحیح اور درست بات کو بھی کسی دلیل اور ثبوت کی وجہ سے نہیں محض اپنے مخالفانہ جوش کی وجہ سے وہ اُس بات کو فریق مخالف کے حق میں سمجھنے لگتا ہے، ظاہر سی بات ہے کہ غیر ضروری جذبات رعایت میں انصاف پسند اور حق کا پابند کوئی عالم دین اپنے عوام کی غلط رہنمائی تو نہیں کرسکتا،رہنمائی و رہبری کا مطلب یہی ہے کہ سماج کی اصلاح کی جائے نہ یہ کہ ہر دل عزیز بننے کے شوق میں عوامی مزاج اور منشاء کے مطابق سماج کی غلطیوں کو نظر انداز کردیا جائے۔
غرض یہ کہ اس وقت لاؤڈ اسپیکر پر اذان سے زیادہ اصل ضرورت اُس اذان کی ہے جس میں "روح بلالی” ہو ایسی اذان سے زمانہ میں انقلاب آئےا ور زمانہ کی سوچ بدلے گی بقول شاعر ؎
پلٹ رہا ہے زمانہ صدائے حق کی طرف
جہانِ فکر میں چرچا مری اذان کا ہے۔
عجب نہیں کہ ایسی اذان کےحیرت انگیز نتائج دیکھنے کو ملے کہ
مسجد میں اس کو دیکھ کے حیران رہ گیا
تنقید کر رہا تھا جو کل تک اذان پر

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×