اسلامیات

ابرہیمؑ اور خانوادهٔ ابرہیمؑ

ابتلا و آزمائش کے سینکڑوں قصے ہیں، ایثار و قربانی کی ہزاروں داستانیں ہیں، اورفداکاری و فرمابرداری کی بے شمار کہانیاں ہیں لیکن اپنے محبوب کے لئے ایثار و قربانی کا جو نمونہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں نظر آتا ہے، اس کی مثال تو کجا اس کے اثرات بھی کہیں اور پائے جانے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہیں۔
اللّٰہ تعالی نے قرآن کریم کے اندر 25 سورتوں کی 63 آیات میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ فرمایا ہے۔ کہیں ” فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ الخ جیسی آیتوں کے ذریعہ غیراللہ کی معبودیت کی نفی اور اللہ تعالی کی ربوبیت کو ثابت کرنے کا ذکر ہے، تو کہیں اللہ تعالی نے "واتل علیہم نبأ ابراھیم الخ” جیسے رکوع کے اندار سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کی قوم کے درمیان ہونے والے مکالمہ کا تذکرہ کیا ہے، کہیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام "اذ قال لابیہ یا ابت لم تعبد مالا یسمع الخ” کے ذریعہ اپنے والد کو دعوت دیتے ہوئے نظر آتے ہیں، تو کسی جگہ قرآن نے الم تر الی الذی حاج ابراھیم فی ربہ ‌الخ” کے ذریعہ نمرود کے دربار میں اس خردماغ بادشاہ کا تکبر و غرور خاک میں ملانے کو بیان کیا ہے، کہیں قرآن نے "فراغ علھم ضربا بالیمین الخ” بیان کرکے ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ بت شکنی کا نقشہ بڑے فصیح انداز میں کھینچا ہے، تو کبھی کافر و مشرک قوم "حرقوہ و انصرو آلھتکم ” کہہ کر اپنی قوم کو پکارتے ہوئے نظر آتی ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال دو، دہکتے ہوئے انگاروں کے حوالے کردو، اور کبھی باپ "لئن لم تنتہ لارجمنک واھجرنی ملیا” کہکر ابراہیم علیہ السلام کو سنگسار کرنے کی دھمکی دے کر ھجرت کرنے پر مجبور کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ بہر حال سینکڑوں امتحانات ہوئے، ہزاروں ابتلا و آزمائش کے دور سے گزرے، بہت سی بار آزمائے گئے، لیکن پھر بھی کوئی سستی نہیں، کوئی سرتابی نہیں، کوئی فرار نہیں، کہیں عذر نہیں، کبھی جھجک نہیں، بلکہ جب بھی حکم ہوتا ہے فورا سر نگوں ہوتا ہے، جہاں بھی احکام جاری ہوتے ہیں وہیں اطاعت کے لئے تیار نظر آتے ہیں، جس وقت بھی فرامین سنائی دیتے ہیں اسی وقت اعمال کے لئے تیار ہوجاتے ہیں، جب بھی اسلم کی صدا آتی ہے اسلمت لرب العالمین پکار اٹھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خدا وند قدوس اپنے خلیل کے متعلق فرماتا ہے: وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ…… جب ابراہیم ﴿علیہ السلام﴾ کو ان کے رب نے کئی کئی باتوں سے آزمایا اور انہوں نے سب کو پورا کردیا۔
بہت سے امتحانات کے بعد ایک بڑے امتحان کی تیاری شروع ہوتی ہے، اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام دعا کے لئے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور بار گاہ ایزدی میں عرض کرتے ہیں "رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ”(‌اے میرے رب! مجھے نیک بخت اوﻻد عطا فرما) فورا رب کریم کی رحمت جوش میں آتی ہے، اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی بشارت سنائی جاتی ہے، پڑھاپے کی حالت میں ایک سہارا نصیب ہوتا ہے، آنکھوں کا تارا دل کا سکون پیدا ہوتا ہے، ایک ایسا باپ جس کو عمر کا بڑا حصہ گذرنے کے بعد ایک دلارا عطا ہوتا ہے، آپ تصور کیجئے وہ کیسے کیسے ‌چاؤ کرتا ہوگا، کس کس طرح پیار جتاتا ہوگا لیکن ابھی بچے سے طبیعت سیر بھی نہیں ہوتی، بے قرار دل کو قرار بھی نہیں ملتا، بوڑھے دل کو سکون بھی نہیں ملتا کہ بے آب و گیاہ چٹیل میدان میں چھوڑ آنے کا فرمان جاری ہوتا ہے، فورا سر تسلیم خم کرتے ہیں اور بیٹے کو ماں کے ساتھ ایک اونٹنی پر سوار کرکے ایک ایسے میدان میں چھوڑ آتے ہیں جہاں نہ کوئی آدم ہے نہ آدم زاد، نہ سایہ ہے نہ پانی، ہُو کا عالم ہے، ہر طرف وحشت برستی ہے، ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سیدہ ھاجرہ رضی اللہ عنہا بھی صبر و استقامت کی پیکر اللہ کی رضا پر راضی ہوجاتی ہیں، سبحان اللہ کتنا عظیم گھرانہ ہے، ہر فرد مطیع اور فرما بردار نظر آتا ہے،رحمت خدا وندی جوش میں آتی ہے، جب بچہ پیاس کی وجہ سے ایڈیاں رگڑتا ہے تو ممتا کی ماری ماں صفا اور مروہ پر دوڑ لگاتی ہے،اللہ تبارک و تعالی اس ننھے بچے کی ایڈیوں کی رگڑ کے ذریعہ پتھریلی زمین سے پانی جاری کرتا ہے، چٹان سے وہ چشمہ ابالتا ہے، جس کا پانی رحمت ہی رحمت ہے۔

قصۂ مختصر: جب اسماعیل علیہ السلام کچھ اور بڑے ہو گئے، باتوں کو سمجھنے لگے، اور پاؤں پاؤں چلنے لگے بلکہ بعض مفسرین کے مطابق بلوغیت کی حدود پار کرنے لگے تو قرآن کہتا ہے: فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ انی اذبحک: پھر جب وه (بچہ) اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے، تو اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا میرے پیارے بچے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔
اللہ اللہ ایک باپ اپنے بچے کو خدا کا پیغام سنا رہا ہے (نبی کا خواب بھی حکم خدا وندی ہے) اپنے لخت جگر، نور نظر کو ذبح کرنے کا حکم سنا رہا ہے، جان لینے کا فرمان سنا رہا ہے، اور کہتا ہے: فَانْظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ۚ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ اف!!! کس چیز پر رائے طلب کی جارہی ہے؟؟ قتل کے اوپر رائے مانگی جارہی ہے، موت کے فرمان پر دستخط کرائے جارہے ہیں، اور کس سے پوچھا جارہا ہے؟؟ ایک معصوم بچہ ہے، جو جانتا ہے، سانس کا رشتہ ہے، منٹوں میں ختم ہوجائے گا، زندہ وجود نعش میں تبدیل ہوجائے گا، مارنے والا کوئی غیر نہیں باپ ہوگا، مرنے والا کوئی دوسرا نہیں بیٹا ہوگا ایک بے زبان جانور بھی جان بچانے کے لئے جدو جہد کرتا ہے، یہاں تو معاملہ ایک انسان کا ہے، لیکن سبحان اللہ یہ خانوادۂ ابراہیمی کا چمکتا دمکتا ستارہ تھا، جو اپنے باپ کی فرما برداری، جاں نثاری اور اطاعت گذرای جانتا تھا، لہذا بلا جھجک کہتا ہے…… قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ۔…… : بیٹے نے جواب دیا کہ ابا! جو حکم ہوا ہے اسے بجا ﻻئیے انشاءاللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے
نیک بیٹے کے ایثار و قربانی سے لبریز جواب کے بعد باپ کمر کس لیتا ہے، آستین میں چھری چھپا لیتا ہے، ماں نہلاتی دھلاتی اور خوشبو میں بساتی ہے، شیطان بھی اپنی چال چلتا اور خوب بہکاتا ہے، ورغلاتا ہے، کبھی ماں کی ممتا کو بھڑکاتا ہے، کبھی باپ کی محبت کو جوش دلاتا ہے، اور کبھی بچے کو قتل سے ڈراتا ہے، شاید اس کو معلوم نہیں کہ یہ خانوادۂ ابراہیمی ہے، اطاعت جس کی پہچان ہے، ایثار و قربانی جس کی شان ہے۔
لہذا باپ بیٹے کو سوئے مقتل لئے جارہا ہے، یقینا فرشتوں نے بھی یہ منظر دیکھ کر رشک کیا ہوگا، انہوں نے اس اشرف المخلوقات کا اعتراف کیا ہوگا۔ مقتل پر پہنچ کر بیٹا باپ کی خدمت میں عرض کرتا ہے، ابا جان مجھے پیشانی کے بل لٹا دینا مبادا آپ کی محبت جوش میں آجائے، ارادہ کمزور پڑجائے، اطاعت پر آنچ آجائے بہرحال انسان ہیں، دل میں میری محبت موجزن ہے، لہذا قران نقشہ کھینچتا ہے: فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ…… غرض جب دونوں مطیع ہوگئے اور اس نے (باپ نے) اس کو (بیٹے کو) پیشانی کے بل گرا دیا۔

سبحان اللہ!! لیکن یہاں تو ذبح کرانا مقصود نہ تھا، بلکہ اطاعت کا نمونہ دکھانا تھا، محبت سے روشناس کرانا تھا، کہ عشق اسکو کہتے ہیں، پیار اس کو کہتے ہیں، اور یہی اطاعت مطلوب ہے، یہی عشق منظور ہے۔ارشاد ہوتا ہے: قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ…… یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا، بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں…… إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ…… درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا…… وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ…… اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیا۔ …… ایک دنبہ جنت سے بھیج کر اللہ تعالی نے اس کو قربان کرایا اور پھر اس سنت ابراہمی کو ہمیشہ ہمیش کے لئے زندہ فرماکر اس مذکورہ امتحان کی یادگار بنایا۔
لہذا ہم سب کو چاہئے کہ اس عظیم موقع جانور کی قربانی کا نذرانہ پیش کرکے ظاہر کردیں کہ اے اللہ سب کچھ مال و دولت، بیوی بچے وغیرہ تیرا عطا کردہ ہے، لہذا جب جس کی قربانی کا حکم آئے گا ان شاء اللہ تعالی تیری راہ میں قربان کردیا جائے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×