اسلامیاتمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

قربانی :فضائل و مسائل

قربانی کا لفظ قربان سے ماخوذ هے،عربی میں قربان اس چیز کو کہتے هیں؛جس کے ذریعے الله تعالی کا قرب حاصل کیا جاۓ؛جیسا که امام ابوبکر جصاصؒ اور علامہ ابو سعودؒنے صراحت کی هےنیز امام راغب اصفھانی نے مفردات میں لکھا هےکه عرف میں اب قربانی کا لفظ ذبیحه کے لیۓ استعمال هونے لگاهے۔قرآن پاک میں قربان کا لفظ تین مقامات پر استعمال کیاگیاہے:سورہ آل عمران 183،سورہ مائده 27،سورہ احقاف 28۔

قربانی کیاہے ؟؟ قربانی عشقِ حقیقی کی عظیم یادگار ہے،قربانی معرفت الٰہی کا جلی عنوان ہے،قربانی تقرب ایزدی کا اہم وسیلہ ہے، قربانی مقدارِمحبت کا قدرتی پیمانہ ہے، قربانی خود سپردگی و فرمان برداری کا روشن باب ہے،قربانی عشق و وارفتگی کی وہ آخری معراج ہے جہاں پہونچ کر ہرعاشق کا سفرِالفت منتھی ہوجاتا ہے۔اقبال مرحوم کے بہ قول ؎

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی

 

قربانی کی تاریخ :

قربانی کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود نوع انسانی کی۔ ہم اگر انسان تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے چلیں تو اندازہ ہوگا کہ تقریباً ہر نبی نےکسی نہ کسی درجہ میں اس عبادت کو انجام دیا ہے۔حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں ہابیل اور قابیل نے قربانی کی تھی جس کا ذکر خود قرآن مجیدمیں ہے۔ اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک مذبح بنایا تھا ؛جس میں وہ بہت سارے حیوانات اﷲ پاک کے نام پر قربان کرتے تھے۔اسرائیلی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی جانوروں کی قربانی کیا کرتے تھے، توریت میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی قربان گاہ کا تذکرہ ملتا ہے، شریعت موسویہ میں قربانی کو اتنی اہمیت حاصل رہی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی اور افضل عبادت ان کے ہاں ہے ہی نہیں۔اس کے علاوہ دنیا کی دیگر تمام ہی اقوام و ملل میں قربانی کا رواج رہا ہے۔معلوم ہوا کہ جانور کی قربانی کا یہ طریقہ محض ایک ہزار سال پہلے ایجاد ہونے والی رسم کےطور پرنہیں ہے، بلکہ اس کا رشتہ قدیم ترین مذہبی عبادات سے جڑتا ہے جو دنیا میں آنے والی تقریباً ہر قوم کا ایک مذہبی فریضہ رہا ہے۔اس سلسلہ میں اللہ تعالی کا یہ ارشاد بھی صریح ہے کہ : ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کے عمل کو عبادت بنایا۔(الحج :٣٤)غرض اسلا م نے قربانی کرنے کو ایک اہم مذہبی شعار قرار دیا ہے۔ قرآن و احادیث و کتب فقہ اس کے احکام سے بھری پڑی ہیں۔ قرآن میں متعدد جگہ قربانی کا ذکر ہےاور بعض جگہ حضور ﷺکے واسطے سے اُمت کو قربانی کرنے اور نماز عید پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حجتہ الوداع میں حضور ﷺنے اپنے دست اقدس سے تریسٹھ (٦٣) اونٹ ذبح کیے اور سینتیس (٣٧) اونٹ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے اپنی ہی نیابت میں ذبح کرائے۔

قربانی کا ذکر،قرآن و حدیث میں:

1)سو آپ اپنے رب کے لیے نماز(عید) پڑھیے اور قربانی کیجیے۔(الکوثر:2)

رئیس المفسرین حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما،حسن بصریؒ،مجاہدؒ اور عکرمہ تابعی ؒ فرماتے ہیں کہ:آیت میں قربانی کا مطلب یوم النحر کی قربانی ہے۔(سنن کبریٰ )حافظ ابن کثیرؒ نے بھی "”وانحر”” سے اونٹ وغیرہ کی قربانی مراد لی ہے اور اس تفسیر کو ابن عباس ،عطاء، حسن بصری ،قتادہ،ضحاک اور دوسرے بہت سے سلف صالحین کی طرف مسنوب کیا ہے ۔(تفسیر ابن کثیر)

2)اللہ تعالیٰ کے پاس نہ اُن کا گوشت پہنچتا ہے ،نہ ان کا خون و لیکن اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ (سورہ الحج ،آیت 37)

3)اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی مقرر فرمائی تاکہ وہ ذکر کریں اللہ کا اسمِ پاک ،ان بے زبان جانوروں پر ذبح کے وقت ،جو اللہ نے انھیں عطافرمائی ہیں۔(الحج :34)

4) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺنےارشاد فرمایا: قربانی کے دن قربانی سے زیادہ کوئی چیز اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں،بالوں اور کھروں کے ساتھ لایا جائے گا اور ذبح کرتے وقت کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہو جاتا ہے تو خوب خوشی سے اور دل کھول کر قربانی کیا کرو۔(جامع ترمذی)

5) حضرت زید بن ارقم سے مروی ہے کہ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ان قربانیوں کی کیا حقیقت ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :یہ تمہارےوالد (جدِامجد) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ،صحابہ نے عرض کیا ہمارے لیے اس میں کیا (فائدہ) ہے یا رسول اللہ؟آپ نے فرمایاکہ( قربانی کے جانور کے )ہر ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ہے۔(سنن ابن ماجہ)

6) حضرت انس فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے اپنے دستِ مبارک سے مدینہ طیبہ میں مینڈھوں کی قربانی کی۔(صحیح بخاری)

7) حضرت جندب فرماتے ہیں کہ آنحضرت sنے مدینہ میں ہمیں عید کی نماز پڑھائی،آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو دیکھا کہ بعض لوگوں نے نمازِ عید سے قبل ہی قربانی کرلی ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں دوبارہ قربانی کرنا ہوگی۔(صحیح مسلم)

8) حضرت عبد اللہ ابن عمر فرماتے ہیں کہ آپ ﷺنے پورے دس سال مدینہ طیبہ میں قیام فرمایا اور بلا ناغہ ہر سال قربانی کرتے رہے۔(جامع ترمذی)

9) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ا نے فرمایا: جو استطاعت کے باوجود بھی قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔ (سنن ابن ماجہ)

10) حضرت عامرؒ سے مروی ہے،فرماتے ہیں کہ مخنف بن سلیم نے ہمیں بتلایا کہ عرفات کے میدان میں آنحضرتﷺ نے فرمایا:ہر سال ایک دفعہ ہر اہل خانہ پر قربانی اور عتیرہ واجب ہے۔(رواہ النسائی)

شرائطِ قربانی :

وجوبِ قربانی کے لیے فقہاء کرام نے چھ شرائط بیان کیے ہیں : (١) مسلمان ہونا،غیر مسلم پر واجب نہیں۔(٢) مقیم ہونا،مسافر پر واجب نہیں۔(٣) آزاد ہونا ،غلام پر واجب نہیں۔(٤) بالغ ہونا،نابالغ پر واجب نہیں۔(٥) عاقل ہونا ،مجنون پر واجب نہیں۔(٦) مالدار ہونا، مسکین نادار پر واجب نہیں۔(بدائع الصنائع)

قربانی کے جانور اور ان کی عمریں:

(١) اونٹ : عمر کم از کم پانچ سال(مسلم 2/155،ط:قدیمی)(٢) گائے، بیل : عمر کم از کم دو سال(مسلم ایضاً)(٣) بکرا ،بکری، بھیڑ ،دنبہ : عمرکم از کم ایک سال(مسلم ایضاً) البتہ دنبہ اگر اتنافربہ اور موٹا ہو کہ دیکھنے میں پورے سال کا معلوم ہو تو سال سے کم ہونے کے باوجود بھی اس کی قربانی جائز ہے،بشرطیکہ چھ ماہ سے کم نہ ہو۔(مسلم ایضاً)

قربانی کے دن:

قربانی کےلیے، ذی الحجہ کی دسویں، گیارھویں اور بارھویں تاریخیں ہیں، ان میں جب چاہیں قربانی کرسکتے ہیں البتہ پہلے دن قربانی کرنا افضل ہے۔ ذخیرہ حدیث کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر یہ امر صادر فرمایا کہ قربانی کا گوشت تین روز سے زائد نہ کھایا جائے ، اور اس حکم کی حکمت یہ بیان کی گئی کہ اس زمانہ میں فاقہ کشی اور قحط سالی کا دوردورہ تھا ، لہٰذا اہل خیر حضرات کی قربانیوں کے ذریعہ غریب ولاچار لوگوں کی امداد ودل بستگی کا سامان بھی ہوجائے ، اس بناء پر آپﷺ نے یہ حکم ارشاد فرمایا ۔ حضرت سلمہ بن الاکوعؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:تم میں سے جو شخص قربانی کرے تو تیسرے دن کے بعد ہر گز اس حال میں صبح نہ کرے کہ اس کے گھر میں قربانی کا کچھ حصہ باقی رہ جائے ، پھر آئندہ سال صحابہ ؓ نے پوچھا : ائے اللہ کے رسول ! کیا ہم گذشتہ سال ہی کی طرح امسال بھی کریں؟ تو آپ نے فرمایا :کھاؤ دوسروں کو کھلاؤ اور ذخیرہ اندوزی کرلو، کیوں کہ اس سال لوگ مشقت اور پریشانی کے عالم میں تھے اسی لئے میں نے چاہاتھا کہ تم ان کی مدد کرو!(بخاری شریف)

اسی مضمون کی متعدد روایات ترمذی شریف، مسلم شریف اورشرح معانی الآثار پر بھی حضرت عائشہ ؓ ،حضرت جابر ؓ ،حضرت بریدہ ؓ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی مروی ہیں۔

ان سب روایات کا حاصل یہ ہے کہ آپﷺ کے ابتداء ً گوشت کھانے کو تین دن میں منحصر کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ایام قربانی تین ہی ہیں: اس لئے کہ اگر ایام تشریق ہی ایام قربانی بھی ہوتے اور چوتھے روز بھی قربانی جائز ہوتی تو پھر تین دن سے زیادہ قربانی کے گوشت کی ذخیرہ اندوزی سے ممانعت کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی، جب کہ موطا امام مالک ؒ میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت علیؓ کاایک اثر صراحت کے ساتھ مذکور ہے کہ:قربانی عید الاضحی کے بعد مزید دوروز تک کی جاسکتی ہے ۔ (موطا مالک ص:188)

چھوٹے جانور میں شرکت کا حکم :

واجب قربانی کے لئے بکری یادنبہ ایک سے زائد افراد کی جانب سے جائز نہیں، معروف مفسر و فقیہ ،علامہ وہبہ زحیلی نے اس مسئلہ میں فقہا ءکرام کا اتفاق نقل کیا ہے کہ بکرے وغیر ہ کی قربانی صرف ایک ہی فرد کی جانب سے جائز ہے؛البتہ بڑے جانور میں سات افراد شریک ہوسکتے ہیں۔(الفقہ الاسلامی وادلتہ)سرکار دوعالم ﷺکا ارشادہے: گائے سات افراد کی جانب سے ہے اور اونٹ سات اشخاص کی جانب سے ہے۔(سنن ابوداؤد شریف ،کتاب الضحایا،باب البقروالجزورعن کم تجزی )اگر چھوٹا جانور بھی کئی افراد کی جانب سے ہوتاتواس سلسلہ میں بھی ارشاد مبارک ہوتا کہ بکری سات افراد کی جانب سے ہے؛لیکن کتب حدیث میں ایسی کوئی روایت احقر کی نظر سے نہیں گزری جسمیں یہ ارشاد فرمایاہوکہ ایک بکری سات افراد کی طرف سے قربان کرسکتے ہیں ۔

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں ایک صاحب حاضر ہوئے اور عرض کیا: (سات افراد کی طرف سے قربانی کرنے کے لئے) میرے ذمہ ایک اونٹ ہے، میں اس کی استطاعت رکھتا ہوں جب کہ مجھے خریدنے کے لئے اونٹ نہیں مل رہے ہیں؟ تو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم فرمایا کہ وہ سات بکریاں خریدیں اور انہیں ذبح کریں۔ (سنن ابن ماجہ،کتاب الاضاحی ، باب کم یجزی من الغنم عن البدنۃ)

اگر بکری کی قربانی سات افراد کی جانب سے جائز ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ ارشادفرماتے کہ سات افراد کی جانب سے قربانی کے لئے اونٹ نہیں مل رہا ہو تو ایک بکری خریدکر سات افراد کی جانب سے قربانی کے لئے ذبح کردو، لیکن حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بکری ذبح کرنے کا حکم نہیں فرمایا بلکہ سات بکریاں خریدکر ذبح کرنے کا حکم فرمایا۔

اسی طرح صحیح بخاری شریف میں حدیث پاک ہے،حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے اپنی صاحبزادیوں کو اُن کے ہاتھوں سے ذبح کرنے کا حکم فرمایا۔ (صحیح بخاری ، کتاب الاضاحی ، باب من ذبح ضحیۃ غیرہ )

نیز حضرت فاطمہ زھراء رضی اللہ عنھا سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے فاطمہ ! اٹھو اور اپنی قربانی کے موقع پر موجود رہو۔ (سنن البیہقی ، کتاب الضحایا ، باب مایستحب للمرء من ان یتولی ذبح نسکہ او یشھدہ )حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی جانب سے ایک دنبہ کی قربانی کیا کرتے تھےجیساکہ ترمذی شریف میں منقول ہے۔

اگر ایک بکری تمام گھروالوں کے لئے کافی ہوجاتی تو حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ اپنی صاحبزادیوں کو علٰیحدہ علیحدہ قربانی کرنے کا حکم نہ فرماتے اور حضرت فاطمہ زھراء کو حضرت علی رضی اللہ علیہ کی قربانی کے علاوہ قربانی کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔

اسی طرح حضرت جابرؓ سے مروی ہےکہ آپ ﷺ نے اپنی بیویوں کی جانب سے بھی قربانی فرمائی۔(صحیح مسلم)معلوم ہوا کہ آپﷺنے تنہا اپنی قربانی کو ازواج مطہرات کی جانب سے بھی کافی نہیں سمجھا ؛بل کہ ان کی الگ سے قربانی فرمائی۔

قربانی کے چند مستحبات وآداب:

قربانی میں مندرجۂ ذیل امور کی رعایت کرنا مستحب و پسندیدہ ہے:(1) قربانی سے چند دن پہلے جانور کو گھر میں باندھ کر خوب کھلانا پلانا۔(2) تیز چھری سے ذبح کرنا۔(3) ذبح کرنے کے فوراً بعد کھال نہ اتارنا بلکہ کچھ دیر بعد جانور کے جسم کے ساکن اور ٹھنڈا ہونے کا انتظار کرنا۔(4) کسی اور جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کرنا۔(5) اگر اچھے طریقے سے ذبح کرنا جانتا ہو تو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا اور خود تجربہ نہ رکھتا ہو تو بہتر ہے کہ کسی دوسرے سے ذبح کرائے مگر خود بھی موجود رہے تو بہتر ہے۔(6) جانور کو قبلہ رخ لٹانا اور خود بھی ذبح کرنے والا قبلہ رخ ہو (یہ سنت مؤکدہ ہے)۔(7) قربانی کی جھول، رسی وغیرہ صدقہ کردینا۔(8) جانور کو لٹانے کے بعد یہ دعا پڑھنا: اِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالاَرْضَ حَنِیْفاً وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ، اِنَّ صَلوٰتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ، اَللّٰہُمَّ مِنْکَ وَلَکَ۔پھر بسم اللہ، اللہ اکبر کہہ کر ذبح کرے اور اس کے بعد یہ دعا پڑھے: اللّٰہُمَّ تَقَبَّلْہُ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیْبِکَ مُحَمّد (ﷺ) وَخَلِیِلِکَ اِبْرَاہِیْمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ۔

 

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×