سیاسی و سماجی

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

جب سے ہمارا یہ پیارا ملک بھارت انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا ہے اس وقت سے لے کرآج تک دیکھا جائے تویہاں فتنوں اور فرقہ وارانہ فسادات کا ایک ایسا لا متناہی سلسلہ نظر آتا ہے جس میں ہمیشہ اقلیتوں اوربالخصوص مسلمانوں ہی کا بے انتہاجانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ گذشتہ دنوں جب سے موجودہ حکومت دوسری مرتبہ برسرِ اقتدار آئی ہے، اس وقت سے ملک میں ہندو شدت پسند عناصر کی جانب سے موب لنچنگ اور ہجومی تشدد کے جو واقعات رونما ہورہے ہیں وہ اتنے سنگین اور جاں گسل ہیں کہ ان کے سامنے پچھلے تمام واقعات و فتنے ہیچ نظر آتے ہیں، یہ وہ واقعات ہیں جن کی وجہ سے وطن عزیز بھارت کی اس وقت دنیا بھر میں مذمت کی جارہی ہے ، یوروپین اور مغربی ممالک کے سنجیدہ افراد ان غیر جمہوری و غیر انسانی وحشیانہ واقعات کی مذمت کرتے ہوئے سڑکوں پر اتر کر احتجاج کر رہے ہیں ۔ دراصل وطن عزیز بھارت کا زعفرانی ٹولہ گذشتہ کئی دہائیوں سے اس ادھیڑ بن میں لگا ہوا ہے کی کس طرح اس ملک کو ہندو راشٹر بنایا جائے،ملک کی آزادی سے لے کر آج تک ان کی تمام تر سرگرمیاں صرف اسی قسم کے منصوبوں میں صرف ہوئیں کہ کس طرح اس ملک میں’’ رام راج ‘‘ نافذ کیا جائے، چنانچہ اس خواب کو شرمندۂ تعبیرکرنے کے لئے اِن ملک دشمن عناصر کی معاندانہ سرگرمیوں کی وجہ سے اس دیش کے مسلمانوں کو ہمیشہ نت نئے مصائب کا سامنا کرنا پڑتا رہا، ان کی فتنہ پردازیوں نے مسلمانوں کو کبھی چین سے رہنے نہیں دیا جس کی وجہ سے وہ آئے دن طرح طرح کی مشکلات سے دوچار ہوتے رہیں۔
عجیب بوالعجبی ہے کہ ایک طرف تو حکومت سب کا ساتھ سب کا وکاس و وشواس اور ترقی کا دلفریب نعرہ بلند کرتی ہے تو وہیں دوسری طرف حزب اقتدار سے وابستہ افرادکی ترقیوں کی راہوں کو مسدود کرنے والی سرگرمیاں ہیں ، ہر کس و ناکس کچھ اس انداز میںاپنے مذموم عزائم کا اظہار کر رہا ہے اور ہفوات بکتا جارہا ہے جس سے جمہوریت ، سیکولرازم، مساوات، رواداری اور دستور و آئین کی دھجیاں اڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ جانوروں کی حفاظت کے نام پرانسان نما درندے وحشی جانور بنتے جارہے ہیں ، بے بنیاد او رمن گھڑت باتوں کو بہانہ بناکر مسلم نوجوانوں ، بوڑھوں اور معصوم بچوں تک کے خون سے ہولی کھیلنا اب یہاں صبح و شام کا تماشا بن چکا ہے، اورطرفہ تماشا تو یہ ہے کہ جب بات خونِ مسلم کی ہوتی ہے تو عوام تو عوام، خود محافظ بھی تماشائیوں سے بڑھ کر تماشائی بن جاتے ہیں۔
سبھی کچھ ہورہا ہے اس ترقی کے زمانے میں مگر یہ کیا غضب ہے آدمی انساں نہیں ہوتا
یقیناً حالات بدل سکتے ہیں، ماضی میں ایسے بلکہ ان سے بھی زیادہ سخت اور جاںگسل حالات میں اللہ رب العزت نے اپنی قدرت کے محیر العقول کرشمے دکھائے ہیں،مختصر تعداد کے حامل نہتے اور کمزور مسلمانوں کا وقت کے بڑے بڑے سپر پاور رومن امپائر اور ایرانی شہنشاہیت کے غرور کو خاک میں ملادینا، ان درندہ صفت وحشی تاتاریوں کا جنہوں نے ۱۸؍ لاکھ مسلمانوں کے خون سے اپنی خوں آشام شمشیروں کی پیاس بجھائی تھیں دیکھتے ہی دیکھتے سوفیصد اسلام کے سایۂ عاطفت میں داخل ہوجانا، ابابیل کے ذریعہ ابرہہ کے لشکر جرار کو پیوند خاک کردیا جانا، فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کردینا۔ یہ سب اللہ کی قدرت کے معجزاتی کرشمے اور تاریخ کے استثنائی واقعات ہیں ، ہمیں یہ نہیں بھولنا نہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو دارالاسباب بنایا ہے ، لہٰذا ہمیں قدرت کے کسی معجزاتی کرشمے کا انتظار کئے بنا اور تقدیر پر تکیہ کئے بغیر ان حالات کے تدارک اور ان کے سد باب کے لئے تدابیر اختیار کرنی ہوگی۔
ان ناگفتہ بہ حالات میںہم مسلمانانِ بھارت کا اپنی ناراضگی اور غم و غصہ کا اظہار محض نعرے بازیوں، احتجاجی مظاہروں اور چند میمورنڈم دے کر کرناہماری بزدلی اور بے بسی کو آشکار کرتا ہے ، ہمیں چاہئے کہ ہم آئین اور دستورِ ہند میں شہریوں کے لئے جائز قرار دی گئی دفاعی احتیاطی تدابیر اختیار کریں، دستورہند کے ذریعہ فراہم کردہ اپنے بنیادی حقوق سے واقفیت حاصل کریں، اپنے شاہین بچوں کو خاک بازی کا سبق پڑھانے کی بجائے انہیں لہو کو گرم اور عزئم کو جواںرکھنے کا درس دیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم حالات کی نزاکت بلکہ سنگینی کو سمجھیںاور اس صورت حال کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے لئے خود کو تیار کریں، موت کو سامنے دیکھ کر بے موت مرجانا سب سے بڑی بزدلی ہے ۔ مصائب میں گھِر کر پریشاں خاطر ہونے کی بجائے ڈٹ کر اس کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ علامہ اقبال مرحوم نے پیام مشرق میں ایک کہانی لکھی ہے جس کا خلاصہ یہ ہیکہ ایک ہرن نے دوسرے ہرن سے کہا کہ میں شکاریوں کے تعاقب اور ان کی چالوں سے گھبراگیا ہوں ، ہر لمحہ یہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کب کوئی شکاری مجھے شکار کرجائے ، اس لئے میںنے یہ طئے کیا ہے کہ میں اپنی زندگی کے بقیہ ایام ’’حرم‘‘ میں جاکر گذارونگا، کیونکہ وہاں شکار کرنا حرام ہے۔ یہ بات سن کر دوسرے ہرن نے کہا :
رفیقش گفت ائے یار خرد مند اگر خواہی یافت اندر خطر زی
ائے عقلمند! اگر زندگی کا لطف چاہتے ہو توپھر خطرات میں جینے کی کوشش کرو۔ اس بات کو امام بخش ناسخ نے یوں کہا ہے
زندگی زندہ دلی کا نام ہے مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں
اسی کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم وہ قوم ہے جس کے سینے میں شمع ِایمان فروزاں ہے، جو رسالت مآب ﷺ کی محبت سے سرشار ہے، جس کو خالق کائنات کی قدرت اور مدد پر پورا بھروسہ ہے،ایک سچے اور مخلص مسلمان کا شیوہ یہ ہونا چاہئے کہ اس کو لاکھ مصائب کے کانٹیں گھیریں وہ کلیوں کی طرح مسکراتا چلا جائے اور ہنستے ہوئے چہرے کے ساتھ یہ کہے :
ائے ذوقِ اذیت مجھے منجھدار میں لے چل ساحل سے کچھ اندازۂ طوفاں نہیں ہوتا
وہ اپنی جان اور مال سے زیادہ اپنے ایمان کی حفاظت کریں ، اس لئے کہ ایک مسلمان کا سب سے بڑا اور قیمتی سرمایہ دولتِ ایمان ہی ہے، الحمدللہ مسلمانوں کی تاریخ ایسے سرفروش جیالوں کے روشن و تابناک قصوں سے بھری پڑی ہے ، رسالت مآب ﷺ اور آپ کے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے مکی دور میں بے پناہ مشکلات و مصائب برداشت کیں لیکن مصیبت کی ان دل سوز ساعتوں میں ثابت قدم رہے تاریخ میں محفوظ ایسے ہی ایک موب لنچنگ کے واقعہ میں حضرت خبیب ؓ کو بیک وقت چالیس کافروں نے اپنے ظلم و ستم کا شکار بنایا ، انہیں نیزوں اور تلواروں سے مار مار کر لہولہان کردیا، قبل اس کے کہ حضرت خبیب ؓ اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کرتے کوئی ظالم یہ پوچھ بیٹھا کہ بتاؤ کیا تم یہ پسند کروگے کہ تمہیں چھوڑ دیا جائے اور تمہاری جگہ (نعوذباللہ) محمد ﷺ کو قتل کیا جائے؟ اس وقت حضرت خبیب ؓ نے اپنی جان بچانے کیلئے اپنے ایمان کا سودا کرتے ہوئے ہاں نہیں کہا بلکہ بڑی دلیری کے ساتھ یہ فرمایا کہ مجھے تو یہ بات بھی گوارا نہیں کہ میری جان کے عوض میں ایک کانٹا بھی میرے نبی ﷺ کو چبھے۔
حفاظت چاہئے دل کی ، حفاظت چھوڑ گلشن کی اجڑ جاتا ہے دل، گلشن کبھی ویراں نہیں ہوتا

موبائل : 9892794952

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×