اسلامیات

’’لاک ڈاؤن کا یادگار رمضان ؟ ‘‘ (ربانی بنئے نا کہ رمضانی)

دنیا بھر میں ایک ایسے وقت لاک ڈائون کی مصیبت ٹوٹی جب کہ چہار دانگ عالم میں صیام وقیام کا جلوے ہونے والے تھے، رحمت ومغفرت کی مینہ برسنے والی تھی،توبہ واستغفار کی رھم جھم ہونے والی تھی،تلاوت وقرائت کے زمزمے گونجنے والے تھے، مسجدیں سجنے ،رونقیں بڑھنے ،مسلمان چہرے ڈاڑھیوں کے نور سے جگمگانےوالے تھے،یعنی مسلمان رمضانی مسلمان بننے والا تھا کہ یک لخت مسجدیں مقفل،نمازباجماعت موقوف،جمعہ پر پابندی، عمرہ پر روک، طواف پر ٹوک،مسجد نبوی کی حاضری سے محرومی،افطار کے لئے مسجدمیں افطاری پہنچانا ممنوع ،روزہ دار کا مسجد جانا موقوف،تراویح وقیام اللیل سے دوری، اعتکاف وشب قدر پر پابندی ،طاق راتوں کے اہتمام کی اجازت نہیں ،کیا سنائوں داستان محرومی وقصہ درد کہ بس اپنی بے بسی ومجبوری کے خون کے آنسو رونے کے سوا کچھ بچا نہیں ہے،ایک ایسا رمضان بھی ہم نے دیکھا جس کو مدتوں یادرکھا جائے گا بلکہ یادگار رمضان کے طور پر بھلایا نا جاسکے گا۔اس کے محرومی کے درد وکرب کو گھٹایا نا جاسکے گا،رمضان سے قبل کورونا کی وبا پھوٹی تو کیا کچھ ستم ٹوٹے ،کیا کہا جائے اور تو اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ اذان کو کورونا کے نام پر موقوف کروایا گیا، اور پھراس المیہ کے نازک ترین موقعہ پر بھی مسلم دشمنی، اسلام سے نفرت کا گندا کھیل پوری سیاسی ذہینت سے کھیلا گیا۔
اگر ہم مسلمان کے رمضان کے بات کریں تو واقعی آج بھی اس گئے گذرے دور میں ،اس جہالت وجاہلیت کے بدترین وقت میں، انانیت ونفسانیت کے سیلاب میں ،نفس پرستی ومفاد طلبی کے زمانہ میں ،خودغرضی ودھوکہ دہی کی وبا میں،دنیا پرستی ودین بیزاری کے طوفان میں بھی رمضان واقعی رمضان ہے ،خیانت کے بجائے امانت ،جھوٹ کے بجائے سچ،دھوکہ کے بجائے فائدہ، مکر کے بجائے کرم،بے رحمی کے بجائے رحم دلی،فلمو ں ،گانوں،سیریلیوں ،گیمز کے بجائے قوالی ونعت ،نظم وحمد اور زبانی ہمدردی کے بجائے عملی کارکردگی کی جیتی جاگتی متحرک مثالیں ہمارے معاشرہ میں ماہ رمضان میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ایسا لگنے لگتا ہے کہ انسانی لبادہ میں فرشتوں کی جھرمٹ ہے ،عفو ودرگذر ،بھلائی واچھائی ہر جگہ دیکھنے کو ملتی ہے ،یہی وہ کردار ہے کہ جس نے دنیا بھر میں اسلام کی صداقت وحقانیت کا سکہ بٹھایا ہے۔لیکن جیسے ہی رمضان کا چاند دیکھا ساری بہاریں کافور بلکہ فی الفور الوداع ہوجاتی ہیں بلکہ ہم نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کا نام جمعۃ الوداع رکھ چھوڑا ہے کہ رمضان کو الوداع کرنے کا کام رمضان کےآخری جمعہ پڑھنے سے شروع ہوجاتا ہے ۔پھر پوسٹ رمضان ہماری حالت وکیفیت اور ہمارا طرزعمل وطریقہ زندگی بقول شاعر
وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی وہ اب بھی ہے
یکم رمضان ۱۴۴۱ یعنی لاک ڈائون کے رمضان کا پہلا افطار ابھی ہوا چاہتا ہےکہ شہر حیدرآباد کے ایک معمر حاجی صاحب(نام مخفی) نے کال کیا کہ پوچھنے لگے کہ ہم نے آج روزہ نہیں رکھا ایک دن کے روزہ کا کفارہ کیا ہوتا ہے،اور کفارہ کے ساتھ کیا قضا کی بھی ضرورت ہے ؟ ہم نے پوچھا کہ آپ نے روزہ کیوں نہیں رکھا ،کہنے لگے کہ ٹی وی پر ایک صاحب نے کہاکہ ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے لوگ روزہ رکھیں تو کورونا ہوجائے گاتو اس ٹی وی بیان کے بعد ہم نے آج روزہ نہیں رکھا جب کہ آج کے ہمارے اردو اخبار ہی میں یہ بھی سائنسی انکشاف شائع ہوا ہے کہ روزہ دار کورونا سے محفوظ رہتے ہیں۔لیکن چونکہ سحری نہیں کی تھی اور وقت بھی کافی گذر چکا تھا اور زندگی بھر کا یہ پہلا روزہ اور رمضان ہے کہ بغیر روزہ ہورہا ہے۔یہ ایک مثال ہے ،ایک حقیقت واقعہ ہے ہمارے معاشرے کا ،ایک دل دوز کہانی ہے شہر حیدرآباد کی،اندازہ لگانے کے لئے کافی ہے کہ شہر میں ایسا ہوا ہے تو پھر گائوں دیہات میں کیا کچھ نہیں ہوا ہوگا؟کیا کچھ ہوتا ہوگا؟ایک کہانی جو ہماری سامنے آگئی ورنہ کتنے واقعات ہوگئیں جو ہمارے علم سے ماورا ہیں۔
لاک ڈائون کے رمضان میں کیرم بورڈ کی مارکٹ نے دھو م مچائی ،اپنے اپنے علاقے کے کاروباری افراد سے پوچھ لیجئے کہ جیسے غذائی اجناس کی مانگ تھی رمضان میں کیرم بورڈ کی طلب بڑھ گئی بلکہ مارکٹ میں اسٹاک ختم ہوگیا، جس کو ملا اس نے خو دکو خوش نصیب سمجھا ، اور جس کو نہیں ملا وہ کف افسوس ملتے رہ گیا۔کیرم بورڈ نے روزہ آسان اور لاک ڈائون کے رمضان میں بوریت کا احساس ہونے نہیں دیا،کتنے نوجوان ہیں جنہوں نے صبح وشام اس کو محبو ب ترین کام سمجھا اور پھر کھیل کے لئے نت نئے دوست پیداہوگئے،لاک ڈائون کے رمضان میں انٹرنیٹ کمپنیز نے بھی اچھا فائدہ اٹھایا اس لئے کہ نوجوان روزہ داروں نے اس لاک ڈائون کے رمضان میں انٹرنیٹ پر اپنے آپ کو مصروف رکھا۔دوسرے اور بھی کھیل تماشے سننے میں آئے بلکہ اس یادگار رمضان میں سامنے آئے ،لیکن اللہ سے دعا ہے کہ یہ سلسلہ ہر رمضان میں نہ رہے بلکہ پہلا اور آخری رمضان ثابت ہو ،آئندہ رمضان ایسا گذرے کہ ہاتھ میں قرآن، زبا ن پر تلاوت ،نگاہوں میں نور قرآن ہو۔لاک ڈائون کے یادگار رمضان میں مردوں نے پہلی مرتبہ شاید دیکھا ہوگا کہ ہماری خواتین گھریلو رمضانی پکوان کے ساتھ ساتھ کس اہتمام سے تکمیل قرآن کرتی ہیں،کیسے دینداری ودنیاداری کوباہم انجام دیتی ہیں ،مبارک ہیں ایسی باعمل وباتوفیق مسلمان خواتین ۔
رمضان میں ہر مسجد میں تراویح ہوتی ہے اور قرآن مجید کی تکمیل ہوتی ہے، لیکن لاک ڈائون کے رمضان میں ہر ہر محلہ میں تراویح ہوئی ،جس گھر میں حافظ قرآن ہے اس گھر والوں نے حافظ قرآن کی سعادت کو پوری طرح محسوس کیا کہ آج کے اس بدترین وقت میں تراویح کے لئے فکر مندی کی ضرورت نہیں ہے ،الحمد للہ ہمارے گھروں میں تراویح ہوئی اور پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہوگا کہ حفاظ نےاپنے اپنے افراد خاندان کو قرآن سنایا اور تراویح پڑھاکر اپنے گھر چراغ روشن کیا،ایسے گھر بھی ہیں جہاں لوگوں نے اپنےپاس پڑوس سے حافظ صاحب کا انتظام کرکے تراویح پڑھی۔یہ ایک عبادت ہے اور اس عبادت کی برکتیں بھی پورے معاشرے میں دیکھی جاتی ہیں۔
لاک ڈائون ہوا پھر دیکھتے دیکھتے رمضان آیا تو خیر خیرات ،صدقہ وصدقات ،زکوۃ وعطیات ،فدیہ وکفارات،فطرہ وہدیات ،راشن کٹس وادویات کی تقسیم نے پوری دنیا کو مسلم قوم کی دل نوازی ورحم دلی کا معترف کروادیا،مسلمانوں کی دریا دلی وانسانیت پروری نے دنیا میں سکہ بٹھادیا ،لیکن افسوس صد افسوس کہ غیر اردو میڈیا چاہے وہ الیکٹرانک ہو کہ پرنٹ میڈیا اس کو یہ زمینی حقائق ،عملی کردار دکھائی نا دئیے،ٹی وی واخبارات کی دنیا میں اتنا چرچا نہیں ہوا بلکہ ایسا لگتا ہےکہ اس پہلو کو جان بوجھ کر دبادیا گیا کہ کہیں مسلمانوں کی سخاوت و انسانی ہمددردی سے ان کی دکان بندنا ہوجائے۔ریاستی حکومت ومرکزی حکومت نے جو اعلانات کئے وہ تو ضروری ہیں اور اعلانات کے بعد اگر کام بھی کیا تووہ ریکارڈ میں ہیں اور ریکارڈ کے لئے ہیں لیکن مسلمانوں نے اس سنگین وبدترین بھوک مری میں ،اس لاک ڈائون کے رمضان میں کردکھایا ہے وہ حکومتوں کی آنکھیں کھولنے کےلئے کافی ہے کہ مسلمان بھوکا یعنی روزہ دار رہ کر بھوکوں کو کھانا کھلاتا ہے ،پیاسا یعنی روزہ دار رہ کر پیاسوں کو پانی پلاتا ہے،رات رات بھر جاگ کر اپنے مولی سے مناجات کرتا ہے لیکن دن بھر اللہ کے بندوں کے دکھ درد میں شریک ہوتا ہے۔اپنی چھوٹی چھوٹی اولاد کو روزہ کا شوق دلا کر روزہ دار بناتا ہے لیکن پڑوس کے بچوں کےبھوک وپیاس میں تڑپ جاتا ہے اور ان کے سکھ وآرام کے جتن کرتا ہے۔اور مسلمان نے لاک ڈائون کے اس یادگار رمضان میں جو عملی کام کرگذرا ہے وہ کسی صلہ وتمنا کے لئے نہیں۔
لاک ڈائون کی وجہ سے رمضان میںکئی کاروبار بری طرح نہیں بلکہ پوری طرح متاثر رہے ،حلیم وہریس کا کاونٹ ڈائون کرنے والوں کے کاروبار کا لاک ڈائون ہوگیا،ہوٹلیں ویران،ریسٹورنٹس بند،کافی خانوں پر سناٹا چھاگیا،مندی کی مطعم پر مندی چھاگئی ،کپڑوں کی تجارت نے لاک ڈائون میں بدترین بلکہ صفر کاروبار کی تاریخ بناڈالی اور اگر مسلمان کچھ اور ہوش وعقل سے کام لیتے تو مسلمانوں کی عید سے اپنی عید کرنے والوں کی ہوا ہی اکھڑ جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا ،لاکھ اپیلیں کرنے،لاکھ واٹسآپ بیانات کے باوجود مسلمانوں نے آخری عشر ے میں خریداری نہیں چھوڑی ،لاک ڈائون کی عید ہم نے نئے کپڑوں، نئے جوتوں ،نئےسوٹس، نئے ڈیزانس،نئے برقعوں میں کی،اور تو اور کچھ عقل بند ایسی بھی ہیں جنہیں دور دور تک رمضان اور لاک ڈائون چھوکر نہیں گذرا کہ مہندی کے ڈیزانس کے لئے بیوٹی پارلر میں گھنٹوں برباد کیں۔ہمارے ارد گرد دیکھ لیجئے کہ جاننے والے بہت ہیں ،لیکن ماننے والے کم ہیں،معلومات والے زیادہ ہیں ،معمولات والے کم ہیں،عقل بند بہت ہیں عقل مند تھوڑے ہیں۔سوشیل میڈیا ہیرئوں کی بھرمار ہے ، میدانی غازی ومقامی مجاہدانگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔اگر ہم ایک عید سادگی کے ساتھ کرتے اور وہی خطیر رقم غریب وضرورت مندوں میں بانٹتے تو عید کی رونقیں نا صرف ہماری کوٹھیوں وبنگلوں میں ہوتیں بلکہ پاس پڑوس کے غریب گھرانوں میں بھی عید کی خوشیاں دیکھنے کو ملتیں۔
رمضان رمضان ہے چاہے وہ لاک ڈائون کا ہو یا بلاک ڈائون کا ،کسی کے برا کرنےسے کچھ برا ہونے والا نہیں ہے ،جب تک اللہ نا چاہے اس لئے کہ مسلمان جس خدا کو ماننے والا ہے وہی کائنات کا نظام چلانے والا ہے،وہی زمین وآسمان کا مدبر ہے ،لیکن لاک ڈائون کا بڑا سبق یہ ہے کہ مسلمان کو رمضانی بننے کے بجائے ربانی بننے کی ضرورت ہے ، اس لئے کہ وہ مسلمان صرف رمضان کی حد تک نہیں ہے ، اس کا ایمان ویقین صرف روزہ دار ہونے کی صورت میں نہیں ہے بلکہ وہ تو زندگی بھر کے لئے ایمان ویقین رکھنے والا ہے ،حلال وحرام کا تعلق اسلام سے ہے اور روزہ کی حالت میں تو حلال لقمہ بھی حرام ہوجاتا ہے، حلال رشتہ بھی روزہ کو توڑدیتا ہے اور ایک مسلمان حلال کھانے ، حلال پینے،حلال ضرورت سے بھی اپنے آپ کو بچاتا ہے تو پھر رمضان بعد حرام سے دوری ،حرام سے احتیاط کیا مشکل ہے؟حرام کاری وحرام کلامی ،حرام کھانا ،حرام پہننا ،حرام دیکھنا چھوڑنا کیا مشکل کام ہے ؟ایک ماہ میں جب تلاوت وتراویح میں قرآن مکمل ہوسکتا ہے تو پھر کیا بات ہے کہ سال بھر میں اس تلاوت کو تدبر وفہم قرآن سے دوبالانا کیا جائے ؟جب ایک سیڑھی پر پہنچ گئے یا اللہ کریم نے پہنچا دیا تو پھر دوسری سیڑھی یعنی تلاوت کے بعد فہم قرآن کی طرف آگے قدم کیوں نہیں بڑھتے ؟کیا ہر سال ہم اسی طرح قرآن کی تلاوت وتراویح کے ثواب کو اپنے لئے کافی سمجھتے رہیں گے؟کچھ عبادتیں تو رمضان کی شان اور پہچان ہیں جیسے تراویح،اعتکاف،شب قدر ،طاق رات، چاند رات ،صدقہ فطر لیکن ان سے ہٹ کر دوسری عبادات تووہ مخصوص نہیں ہیں ان کا اہتمام تو ہر وقت ہر جگہ ہونا چاہئے ،بلکہ رمضانی تربیت سے زندگی میں بدلائو،فکر میں سلجھائو،اطوار میں ٹھہرائو ، گفتگومیں نرماہٹ،لہجہ میں نرمی،علم میں اضافہ، عمل میں پختگی،یقین میں بڑھوتری، جذبات میں سنجیدگی، احساسات میں پاکی،نظر میں طہارت ،خوشی وغم میں رجوع الی اللہ ،ترقی وزوال میں اللہ کی طرف دھیان،کامیابی وناکامی میں تقدیر پر ایمان،بے مطلب وبے غرض ہمدردی،عملی کام ،اپنے پرائے کی تقسیم سے بے نیازی ،ضرورت مندوں کی ضرورت کو اپنی ضرورت سمجھنا ۔مختصر الفاظ میں اسی کردار کا نام ہے ربانی یعنی اللہ والا بندہ ۔ اللہ کریم ہم مسلمانوں کو رمضان کے ذریعہ سے ربانی بنالے۔ آمین

مفتی سید آصف الدین ندوی قاسمی ایم اے
بانی انسٹی ٹیوٹ آف عربک اسٹڈیز وماسٹر ٹرینر حج وعمرہ حیدرآباد

asif_nadwi@yahoo.com   –  9849611686
۳  ، جون  ۲۰۲۰   چہارشنبہ ، بیت الحمد قادر باغ ، حیدرآباد

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×