سیاسی و سماجی

کورونا وائرس ! حقائق و خطرات !!

انٹر نیٹ وسٹیلائیٹ کے جس دور میں ہم جی رہے ہیں بلکہ جیتے جی ہم مررہے ہیں ،وہ برق رفتار ہی نہیں بلکہ دھماکہ خیز ہے،مرنے والے کی سانسیں ساری دنیا میں سنی جاسکتی ہیں،جسم سے روح کے جدائی کو لائیو دیکھا جاسکتا ہے،دنیا بھر میں ہورہے دم بدم ہلاکتوں سے دم نکالا اور نکلا جارہا ہے،نعشوں کے ڈھیر ،مردہ جسموں کے انبار دیکھے اور دکھائے جارہے ہیں،پل پل کی باخبری نے دنیا کو گرفتار کرلیا ہے،لمحہ لمحہ کی اطلاع دنیا بھر میں سوشیل میڈیا کی آنکھوں سے دیکھی ، سنی اور پڑھی جارہی ہے،سکنڈ سکنڈ کی اپ ڈیٹ نئے نئے حالات وواقعات پیش کررہی ہے،ایسے وبائی دورمیں کیا ہمارا محلہ وگائوں ، کیا شہر وریاست ، کیا ملک وبراعظم بلکہ ساری دنیا کانپ اٹھی ہے،ہر جگہ کرونا کا رونا رویا جارہا ہے،اور کرونا نے دنیا کو رونے کے قابل بھی نہیں چھوڑا ہے۔
قرب قیامت کی گھنٹی!
چین سے نکلنے والے وبائی مرض کرونا نے پوری دنیا کو بے چین کردیا ہے،چینا میں جینے والے۳۰۰۰ جینے اور مرنے کی سخت لڑائی لڑتے ہوئے موت کا لقمہ بن گئے ہیں،ووہان کے چھوٹے سے علاقے سے پھیلنے والے اس وائرس نے روحوں کو پیغام موت لا رہی ہے،ترقی یافتہ انسان اپنی ترقیات کے باوجود ایک وائرس سے سہما ہوا ، ڈرا ہوا،بلکہ مرنے سے پہلے ہی مرا ہوا نظر آرہا ہے، خوف ودہشت کا ایک ایسا ماحو ل ساری دنیا میں پھیل گیا ہے یا پھیلادیا گیا ہے کہ ہر کس وناکس اب اپنی ناک کو کس کر رکھنے ہی میں خیر وعافیت سمجھ رہا ہے،خیر ،  کرونا اب سب کو سمجھ میں آرہا ہےاور سب کو سمجھایا جارہا ہے کہ کس قدر تباہ کن ، قیامت خیز ،اندوہناک ولرزہ اندام وائرس پھیل رہا ہے اور دنیا کے مستقبل کے نقشہ میں اس کے اثرات کتنے بھیانک وخوفناک ہوسکتے ہیں۔
انسانی سوچ اور ایمانی سوچ کا فرق؟
دنیا کے بنانے والے خالق ومالک اللہ نے اتنی بڑی دنیا بنائی اور بسائی ہے کہ اس کے ایک چھوٹے سے قدرتی وائرس سے دنیا مشرق سے مغرب ، شمال سے جنوب تک کانپ اٹھے گی،اپنے جینے اور مرنے کی فکر میں گھل گھل کر اس کی طرف پلٹے گی ،اس نے کئی مرتبہ یہ خوبصورت ودل کش دنیابسائی بھی ہے اور اجاڑ ی بھی ،یہاں اس کی مرضی سے خوشیوں کی شہنائیاں بھی بجی ہیں اور ماتم وموت کے دل دوز آہ وفغا ں بھی دنیا نے دیکھے ہیں،چمک دمک کے قمقموں سے جگمگاتی بستیوں کو اندھیروں نے نگل لیا ہے یہ بھی تاریخ کاایک باب ہے، رنگ وآہنگ کی دل کشیوں کے عروج کے وقت حکومتوں اور اس کے متوالوں کو بے رنگ اور خاموش کردیا گیا ہے یہ بھی اس دھرتی کی کہانی ہے،سب سے بڑے پالنہار ہونےکے دعوے داروں کو نشان عبرت بناکر چھوڑا ہے،یہ دنیا اس کی ہے ،اور اس میں اس کی ہی چلتی ہے اور وہی اس کو چلاتا ہے،انسان یا تو چِلّاتا ہے یا پھر اس کے حکم پر صرف چلتا ہے اس سے بڑھ کر وہ کچھ نا کرسکا ہے اور ناہی قیامت تک اپنی مرضی سے کچھ کرسکتا ہے۔ بندے اس کے فیصلوں کے آگے مجبور محض ہیں جیسے ہماری نظروں میں شجر وحجر ہیں کہ وہ سردی وگرمی میں اپنی جگہ صرف جھیل سکتے ہیں ،لیکن اللہ نے بندے کو ایک اختیار وقدرت کی دولت سے نواز کر قدرت کے فیصلوں میں شریک کرلیا ہے کہ وہ اپنے عمل وکردار سے قدرت کے آسمانی فیصلوں کوٹال سکتا اورٹلا سکتا ہے،وہ بلا اور وبا کو دبا سکتا ہے ۔یہ سب سے بنیادی اور ابتدائی سبق ہے  کرونا کا کہ ایک مسلمان اس قدرتی عالمی وبا اور عالمگیر بلا کو قدرت کی کرشمہ سازی کہتا ہے اور وہ اپنے اللہ کو خیر وشر کا مالک سمجھتا ہےتو پھر وہ اپنے اللہ کی طرف شر کے لانے والے کی حیثیت سے نہیں بلکہ دافع شر کی قوت کے مالک کی حیثیت سے رجوع کرتا ہے ،شر وضرر ،نقص ونقصان کے دور کرنے والے اللہ کو پکارتا ،مناتا ہےاور اس کی ماننے کی دہائی دیتے ہوئے اس کی پناہ میں آجاتا ہے تو پھر اللہ ہی اس کو موت کے منھ سے نکالنے والے ،وائرس سے بچانے والے،اکھڑتی سانسوں کو سنبھالنے والے ہیں۔جنگ احد میں صحابہ کرام بھی دشمنان اسلام کی طرح میدان کارزار میں جسمانی طور پر زخمی ہوئے ،افرادی اعتبار سے جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ،شہادت کے اعلی درجے پر فائز ہوئےاللہ تعالی نے اس موقعہ کی منظر کشی اور حالات کی عکاسی کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ بھی الم سے دوچار ہوئے اور تم بھی الم سے دوچار ہوئے لیکن اس کے باوجود جو امتیازی فرق اور بنیادی انفرادیت ان میں اور تم میں ہے وہ یہ کہ تم ان تمام احوال کے باوجود اللہ سے امیدوار ہو اور جب کہ وہ اللہ سے امید وار نہیں ہیں۔ نگاہ شر ومرض پر ہو ،یہ ایک انسانی پہچان ہے اور نگاہ اس سے اوپر اٹھ کر دافع شر پر ہو یہ اسلامی فکر ، اور ایمانی بصیرت کی کارفرمائی ہے۔ایک بندہ مومن کا عقیدہ وایمان تو یہی ہے ناکہ وہ اللہ کو متصرف مانتا ہے ،اپنی ذات میں ، اپنے حالات میں اور بلکہ ملکی وعالمی احوال میں۔ جب کہ اللہ تعالی نے کلام حکیم میں دوٹوک اعلان فرمادیا ہے کہ ہم تمہیں ضرور بالضرور جانچیں گے ، آزمائیں گے ،خوف کے حالات سے ،بھوک مری کے اندیشوں سے ،اورجان کے لالے پڑنے سے اور مال ودولت کے لاک ڈائون کرنے سے ،اور عالمی معیشت وتجارت کے ایمر جنسی سے ۔ان حالات کے تذکرہ کے بعد اسی آیت کریمہ میں صبر کو دوا کے طور پر پیش فرمایا ہے۔
لا علاج وائرس؟
یہ بھی کتنی عجیب اور ناقابل تصور بات ہے کہ آج کا اتنا ترقی یافتہ انسان جو آسمانوں میں سیر کررہا ہے اور سمندر کی تہوںمیں ایر کنڈیشنڈ آبادیاں بسارہا ہےاور اپنی کامیابی پر اتنا نازاں ہے کہ وہ اپنے پچھلوں کو کم عقل سمجھ رہا ہے،چاند پرزمین بیچنے اور محلات بسانے کی پلاننگ کرچکا ہے،سورج کی شعائیں گرفتار کرکے برقی پیدا کررہا ہے،مصنوعی بارش کے کامیاب تجربے کرکے قدرتی برسات سے ٹکر لینے کےدعوے کررہا ہے،لیکن ایک کامیاب انسان کی ناکامی بلکہ بے بسی ولاچاری دیکھ کرکلیجہ منھ کو آتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو ایک چھوٹے سے وائرس سے بچا نہیں سکتا ،آتی اور جاتی سانسوں پر اپنی چلا نہیں سکتا کہ وہ اس کے لئے زندگی بن کر آرہی ہیں یا موت کا پروانہ بن کر جارہی ہیں، کرونا نے دنیا کوسمجھایا ہے کہ وہ مخلوق ہے خالق نہیں ہے بلکہ کبھی بھی خالق نہیں بن سکتا ،دنیا سمجھے یا نہ سمجھے ایک مسلمان کے ایمان وعقیدہ میں پختگی آئی ہے کہ یہ دنیا اللہ کی ہے تو وہی بیماری دیتا ہے اور وہی شفا بھی بخشنے والا ہے۔بڑے سے بڑے وبائی بیماری میں اور چھوٹے سے چھوٹے وائرس میں بندہ شافی کی طرف دیکھے ۔
کرونا کے دو رخ؟
انسان ہر چیز سے کچھ نا کچھ پاتا ہے اور کچھ نا کچھ کھوتا ہے،انسانی اعتبار سے دیکھیں تو  کرونانے دنیا کو صرف کھونے کا دروازہ کھولا ہے،ساری دنیا صرف یہ دیکھ رہی ہے کہ گائوں کے گائوں ، ملکوں کےملک اس کی زد میں آرہے ہیں  کرونا کا بھوت انسانی جسموں کو اپنا شکار بناتا بلکہ شہروں ،ملکوں کو روندتا ہوا دندنا رہا ہے۔جہاں اس کے نقش اور اس کے قدم کے نشان پائے جارہے ہیں وہاں موت کی حکمرانی کی صدائیں سنائی دے رہی ہیں،جو اس کے شکار ہوئے وہ اس کا لقمہ تر ہی بن رہے ہیں،جس جسم میں اس نے بسیرا کیا اس کو موت کے گھاٹ اتارکر ہی سکون کا سانس لے رہی ہے،ایسا نہیں ہے کہ سب ہی فوت ہورہے ہیں بلکہ متاثر ہوکر شفا پانے والے بھی ہیں ،دنیا بلبلا رہی ہے،حکومتیں تڑپ رہی ہیں،بچائو واحتیاطی تدابیر کے ہزار جتن کئے جارہے ہیں ،دنیا کے سوپر پاور اس کے آگے نا صرف گھٹنے ٹیک چکے ہیں بلکہ ٰ کرونانےسوپر پاورس کازعم وطم طراق رکھنے والوں کے سو سو پارے اور ٹکڑے کر دئے ہیں۔ہر عروج کو زوال ہے کا ایک چھوٹا سا مشاہدہ دنیا بھر کے سامنے ہے،امریکا،اٹلی،ایران اس کی ایک مثال ہے،میں بولنے والے کی اکڑفوں اس کھانسی نے نکال چھوڑی ہے۔
حقیقت یا مذاق؟
صحت اور طب کو اہمیت دینے والی قومیں اس کے تباہ کن اثرات سے جاگ چکی ہیں،متاثرہ ممالک کی دیگر گوں کیفیت وحالت انھیں اپنے ملک کی سلامتی کی راہ پر چلا دی ہے ،کچھ ممالک تو اس سے بری طرح متاثر ہوچکے ہیں اور کچھ ہورہے ہیں اور کچھ ہونے والے ہیں،جیسے آج دنیا میں سروں پر آسمان نہیں بلکہ  کروناکی قیامت خیزی کا سائباں ہے،پائوں تلے زمین نہیں بلکہ وائرس کے ذرات ہیں،باخبر وہوش مند ملکوں اور اس کے بیدار مغز حکام کے لئے یہ  حقیقت بد تر مستقبل سے بچائو کا ذریعہ ہے،لیکن وہ قومیں جو حفظان صحت کے اصولوں کو زندگی بھر پامال کرتی آئی ہیں وہ آج پامال ہونے کی راہ پر ہیں،اس سے بدتر حالت اور کیا ہوسکتی ہے کہ دنیا بھر میں ہورہے  کرونائی اموات کو وہ ایک مذاق اور کھیل تماشا سمجھ رہی ہیں،لاشوں کے ڈھیر اس کے لئےابھی تازیانہ نہیں بلکہ دل بہلاوا کا شاخسانہ ہے۔ صحت اور جان کی سلامتی ،طہارت وپاکیزگی ،نفاست وستھرائی کو اسلام نے ہر جگہ جگہ دی ہے،ایک مسلمان زندگی بھر باطہارت رہتا ہے،بے طہارت ہونا مسلمان کی پہچان نہیں ہے۔پانچ وقت کی نمازیں با وضو ہوتی ہیں،دن میں تین مرتبہ کھانا ہاتھ منہ دھوکر ،کلی کرکے کھاتا ہے،پیشاب کے چھینٹوں سے اور پائخانے کی آلائش سے پانی کے ذریعہ پاکی وصفائی حاصل کرتا ہے۔لیکن افسوس کہ مومنانہ صفات کی حامل قوم اغیار سے سیکھ رہی ہے،اپنے گھرمیں چراغ رکھتے ہوئے مانگے کی روشنی کے لئے در در کی ٹھوکریں کھاتی پھر رہی ہے،وہ دنیا بھرکے لئے انسانیت کے لئے مشعل خیر رکھتےہوئے بھی بے نور وبے بصیرت اور تہی داماں ہونے کا رونا رورہی ہے۔ فیا للاسف ویا للعجب
 اسباب وعلل کی دنیا!
حالات وواقعات کا تجزیہ اچھی چیز ہے ،اور بیدار مغزی وہوش مندی کی علامت ہے،گر د وپیش سے واقفیت ایک مومنانہ شان ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ فراست مومن سے بچو کہ وہ نور الہی سے دیکھتا ہے ،نگاہ مومنانہ بڑی دوربیں ہوتی ہے،وہ دور تک دیکھ لیتی ہے،لیکن آج ہم ہر واقعہ وحادثہ کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک سازش کے طور پر دیکھنے اور دکھانے کے عادی ہوتے جارہے ہیں،دوربین سے نفرت ،عداوت ،اسلام دشمنی ، مسلم بیزاری ہی دکھائی دے رہی ہے، کروناکو بھی اسی عینک اور نظریہ سے دیکھنے اور دکھانے کی ایک انتھک کوشش ہورہی ہے،کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ ان حالات وحوادث ،واقعات واموات میں ہمارا کچھ بھی کردار نہیں ہے؟کیا ہمارا کوئی بھی رول نہیں ہے؟ جب کہ ہم اس بات کے قائل وعامل ہیں کہ نا صرف زمین کا فساد بلکہ بحر وبر کے فساد بر پا ہونے میں ہمارے ہی کرتوتوں کو دخل ہے۔اس حقیقت کا اعلان قرآن میں ہے۔بیماری وکھانسی کو چین واسرائیل کے عالمی سوپر پاور ہونے کے طور پر دیکھا جارہا ہے،عرب وامریکا ،ہند وفرانس کے سرنگوں ہونے کی علامات بتلایا جارہا ہے۔حالات وواقعات کے تجزیہ کے ساتھ اپنی خرابیوں پر بھی نگاہ ہونی چاہیے،بلکہ تجزیہ کا نقطہ آغاز ہی اپنی ذات اور اپنی خامیاں اور کوتاہیاں ہونا چاہیے ورنہ قوم دوسروں کو مورد الزام سمجھ کر اور ایک انگلی سے ان کی طرف اشارہ کرکے اپنے آپ کو بری الذمہ ہونے کی بیماری اور پرانی نفسیات سے آزاد نہیں ہوگی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ذاتی وخاندانی ،قومی وملکی،عالمی تمام حالات کو ہم اپنی مومنانہ فراست سے دیکھنے کے عادی بنیں۔
 قدرتی آزمائش ہے !
کرونا کی پیدائش کے بابت کہا جارہا کہ ۱۹۶۰ ہی میں کہیں ہوئی تھی،لیکن اسے اس وقت کسی اور نام سے جانا گیا اور جب ڈسمبر ۲۰۱۹ میں چین کے ووہان شہر میںدوبارہ اس کا جنم ہوا تو پھر اسے جاننے اور پہچاننے میں ہزاروں جانوں کی بھینٹ چڑھانی پڑی،اور جب تک کہ وہ سمجھ میں آتا وہ چین سے ہوتے ہوئے دور دراز کے براعظموں میں اپنے وجود وموجودگی کی داستان غم سنانے کے لئے متاثرین اور مہلوکین کی صورت میں آچکا تھا۔اس کی پہچان میں کھانسنا ،زکام ،سر درد ،تھکاوٹ ،گلے کاسوکھا پن ،سینہ میں سانس کا پھولنا بتلایا جارہا ہے،اور کیسے یہ عام بیماری ایک وبا بن جائے گی ،لوگوں کو سمجھ ہی نہیں آرہا بلکہ ڈاکٹر س وطبی شعبہ اس کے مقابلہ کے لئے بے بس نظر آرہا ہے،اور اس کے متاثرین کے بابت کہا جارہا ہے کہ دس برس سے کم اور پینسٹھ برس سے زیادہ عمر کے افراد اس کی اولین پسند ہیں اور ایسا بھی نہیں ہے کہ نوجوان اپنی مستیوں اور مدہوشیوں میں مگن رہیں کہ انہیں کچھ ہونے والا نہیں ہے بلکہ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کون کب متاثر ہوگا اور کب اس بلا کے برے سائے اس پر پڑیں گے۔بیمار ہونا برا نہیں ہے لیکن بیمار ہوکر کوئی شفایا ب نہ ہو ،یہ بڑی مصیبت اور بلا ہے ورنہ ہر انسان بیمار تو ہوتا ہی ہے اور قرآن مجید کا کہنا ہے کہ اللہ ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزماتے ہیں ۔
ناممکن ممکن ہورہاہے !
کرونا نے گلوبل ورلڈ کو بتا یا ہے کہ ترقی ہی سب کچھ نہیں بلکہ انسانی پیش گوئیاں اور پیش قیاسیاں اب ختم ہونے جارہی ہیں ،اور ایک ایسا دور شروع ہونے جارہا ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری کے بعد اس کائنات میں ظہور پذیر ہوچکا ہے کہ ناممکنات اب ممکنات ،ناقابل تصورات قابل قبول حقائق بنتے جارہے ہیں ،قیامت کے واقع ہونے اور اس واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کے لئے ایسے ہی دم بخود حالات ومناظر ،مشاہدے اور تجربے ہونے والے ہیں،دنیا بھر کا لاک ڈائون ایک ناقابل تصور بات تھی ،لیکن آج دنیا والےاپنی سر کی آنکھوں سے اس کرب کو نا صرف دیکھ رہے ہیںبلکہ اس کے کرب سے دوچار ہے،غریب کی غربت اور مفلسی تو پہلے بھی تھی لیکن  کرونا نے مالداروں کو غریب ہونے کا احساس دلادیا ہے،ابھی تو اس کا ۶ واں ہفتہ چل رہا ہے اور پھر دنیا بھر کی تجارت ومعیشت کساد بازاری کے بھیانک حالات سے دوچار ہونے والی ہے،ملکوں کا شٹ ڈائون آنے والے دنوں میں قیمتوں اور ضرورتوں کے درمیان ایک جنگ کی سی صورتحال پیش کرنے والا ہے۔
۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×