اسلامیات

حج بیت اللہ مسلمانوں کیلئے قرب الٰہی کا عظیم ذریعہ ہے

حج اسلام کا ایک اہم رکن ہے۔اپنے دامن میں بہت ساری حکمتیں  اور بے شمار روحانی لذتیں سمیٹے ہوئے ہے۔قدم قدم پر محبت کے ان مٹ نقوش ہیں۔چونکہ حج  ,بیت اللہ شریف کی زیارت اور مکہ مکرمہ میں حاضری کا نام ہے۔اللہ تعالی کےمحبوب،انبیاء اور رسل کا اس جگہ حاضر ہونا اور طواف کعبہ کا شرف حاصل کرنا  اور وہاں کی روحانی کیفیات میں  وقت گزارنا  دلائل سے ثابت ہے بالخصوص سیدنا آدم علیہ السلام،سیدنا ابراہیم علیہ السلام،سیدنا اسماعیل علیہ السلام،فخر کائنات روحی فداء جناب محمد الرسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بے شمار حسین یادیں اس خطہ مبارکہ کے ساتھ وابستہ ہیں۔قربان گاہ حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی یہی ہے ۔مقام ابراہیم بھی اسی جگہ ہے۔آب زم زم کا کنواں بھی وہیں ہے ۔حجر اسود یعنی جنتی پتھر کعبہ شریف کی دیوار میں نصب کیا ہوا وہیں ہے ۔ اللہ تعالی کی نیک بندی حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا کے نقش پاجسے قرآن مقدس نےصفا اور مروہ کےنام سے یاد کیا ہےاسی جگہ ہے۔انہیں حسین اور بابرکت یادوں کو اللہ تعالی کے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنے اسوہ عمل سے عالم اسلام  کو پیغام دیا ہے ۔تو جن کے قلوب و اذہان میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم بسے ہوۓ ہیں ان کے لیے حسن وذوق کا عالم آباد نظر آتے ہیں ۔اللہ رب العزت نے حج کا حکم دیتے قرآن مقدس میں ارشاد فرمایا ہے-  "وَلِلّٰهِ عَلَی النّٰاسِ حِجُّ الۡبَیۡتَ مَنِ السۡتَطَاعَ اِلَیۡهِ سَبِیلَا "اور حج کی اہمیت کے سلسلے میں دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے۔ ” وَاَتِمُّوالۡحَجَّ وَالۡعُمۡرَةَ لِلّٰهِ” (اور پورا کرو حج  اور عمرہ اللہ تعالی کی رضا کے لئے) مزید مختلف قوموں ،مختلف نسلوں، مختلف زبانوں،  مختلف رنگتوں، اور مختلف ملکوں کے اشخاص میں رابطہ دین کو مضبوط کرنے کے لیے اور ساری کائنات کے مسلمانوں کو دین واحد میں شامل ہونے کے لیے حج بیت اللہ بہترین ذریعہ بھی ہے ۔حج میں سب کے لیے سادہ لباس بغیر سلا ہوا لباس جو لباس حضرت آدم علیہ السلام کا تھا تجویز کیا گیا ہے تاکہ ایک ہی رسول ،ایک ہی قرآن ،ایک ہی کعبہ پر ایمان رکھنے والے ایک ہی صورت، ایک ہی لباس،ایک ہی ہیںت اور  ایک ہی سطح پر نظر آءیں تاکہ حج کرنے والوں کے اندر کوئی اختلاف ظاہری محسوس نہ سکے۔
حج کی فضیلت کے متعلق چند احادیث مبارکہ۔
(1)  حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مَنۡ حَجَّ لِلّٰهِ فَلَمۡ یَرۡفُثۡ وَلَمۡ یَفۡسُقۡ رَجَعَ كَیَوۡمٍ وَلَدۡتُ اُمُّهٗ(مشكٰوةۡشَريفۧ)جس نے حج کیا اور فحش کلام اور گناہ نہیں کیا ،تو جب وہ واپس ہوگا تو اس دن کی طرح ہو گا ،جس میں اس کی ماں نے اسے جنا ہو ۔
(2)  حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ” تَابِعُوۡا بَينَ الۡحَجِّ وَالۡعُمۡرَةِ فَاِ نَّهَا يَنۡفِیَانِ الۡفَقۡرَ وَالذُّنُوۡبَ كَمَا يَنۡفِی الۡكِیۡرُ خَبَثَ الۡحَدِيۡدِ وَالذَّهَبِ وَالفِّضَّةِ وَ لَيۡسَ الۡحَجُّ الۡمَبۡرُوۡرُ اِلَّا الۡجَنَّةَ”- حج اور عمرہ مسلسل کرتے رہا کرو کیوں کہ یہ غربت اور گناہوں کو اس طرح ختم کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے سونا اور چاندی کے زنگ کو دور کردیتی ہے۔ اور حج مبرور کا ثواب جنت ہے ۔
حج مبر ور اور اسکا ثواب۔
حج مبرور وہ حج ہے جس میں  حلال کمائی سے رقم خرچ کیا گیا ہو ۔یعنی اس میں سود اور حرام کمائی کی آمیزش نہ ہوئی ہو اور نہ ہی سفر حج کے دوران کوئی ایسا عمل کیا ہو جس عمل کے کرنے سے شریعت نے  منع کیا ہو  جیسے  بے حیائی کی بات سے گریز کرنا اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی سے بچنا کسی کے ساتھ لڑائی اور جھگڑے سے پرہیز کرنا۔
حضورِ اکرم صلّی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
جس شخص نے حج کیا اوراپنے آپکو  فسق و فجور سے سے بچانے رکھا وہ شخص ایسا ہے کہ اسکی ماں نے آج ہی اسے جنم دیا ہو۔
حلال اور حرام کی رقم خرچ کرکے حج کرنا۔
"جب حاجی حج کے ارادے سے سے حلال رزق خرچ کر کے روانہ ہوتا ہے اور سواری میں پاؤں رکھ کر کر لبیک اللہم لبیک آتا ہے ہے تو آسمان سے ایک فرشتہ طہ سہاوا زور لگاتا ہے ترانہ لبیک کا نا انا بول ہے مقبول ہے ہے مقبول ہے ہے چونکہ کہ تیرا زادہ را حلال ہے ہے تیری سواری پاک ہے ہے تیرا حج حج مبرور ہے اور تو گناہوں سے پاک ہے-
اور جب حاجی حرام رزق لیکرگھر سے نکلتا ہے اور  سواری میں پاؤں رکھ کر لبیک اللہم لبیک کہتا ہے  تو آسمان سے سے فرشتہ آواز لگاتا ہے تری حاضری قبول نہیں کیونکہ تیرا زادے راہ حرام اور ناپاک ہے تیرا حج محض جھوٹ ہے اور اس کا کوئی اجر نہیں”
حج بیت اللہ کے لیے دعوتِ عام۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام سلام خانہ کعبہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو اللہ تعالی نے حکم دیا کہ اے ابراہیم اب لوگوں کے درمیان اعلان کر دو کہ خدا کا گھر تیار ہو گیا ہے۔  اے خدا کے بندو حج کرو جب اللہ کے حکم کو سنا تو عرض گذار ہوے کہ مولامیری آواز کہاں تک پہنچے گی! اللہ رب العزت نے فرمایا اعلان کرنا  تمہارا کام ہے  اورآپکی آوازکو پورے بندوں تک پہنچانا میرا کام ہے چنانچہ جبل ابی قبیس پر تشریف لے گئے اور حج کا اعلان فرما دیا”اللہ تعالی نے وہ آواز ہر اس شخص کو سنا دیا جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے اپنے باپوں کی پشتوں یا ماؤں کی رحموں میں تھے اور اس آواز کا جواب ہر اس شخص نے دیا جس کی قسمت میں حج بیت اللہ کرنا مقدر ہو چکا تھا۔
 تو جس شخص نے دعوت ابراہیم پر لبیک کہا اسے ہی حج کی سعادت نصیب ہو گی اور جتنی بار  کہاں وہ اتنی بار حج بیت اللہ ادا کرے گا اسی لئے جتنا جلدی ممکن ہوسکے اتنا ہی جلدی حج بیت اللہ ادا کرلینا چاہیے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے کہ تم میں سے جو کوئی حج کا ارادہ کرے اسے چاہیے  کہ جلدی کرے۔
فضائل كعبہ شریف
اللہ تعالی کا یہ گھر سیاہ غلاف میں ملبوس وہ کوٹھا ہے  جسے  روحانی توجہات کا مرکز ہونے کا ہی شرف  حاصل نہیں بلکہ فرشتوں و اولیاء عظام اور ہر بندہ مومن کی توجہ کا مرکز ہے ۔سب سے پہلے فرشتوں نے اسے تعمیر کیا ۔ حضرت آدم علیہ السلام کو اس کی تعمیر کرنے کا شرف حاصل ہوا۔حضرت ابراہیم اورحضرت اسماعیل علیہما السلام نے اسکی تعمیر جدید کی اور اس کو مزید مزین وآراستہ کیا اورحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ شریف کی طرف منہ کر کے نماز ادا کیا۔اس کی زیارت عبادت ہے، اس کا طواف باعث برکت ہے ،اس کے غلاف کو بوسہ دینا باعثِ انسیت ہے ۔ا ور اس کی محبت اللہ کے حصول محبت کا ذریعہ ہے ۔اور کعبہ کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔ مَنۡ نَظَرَ اِلَی الۡكَعۡبَةِ اِيۡمَانًا وَّ تَصۡدِيۡقًا خَرَجَ مِنَ الۡخَطَا يَا كَيَوۡمٍ وَلَدَتۡهُ اُمُّهٗ ( نُزهةالمجالس) جو کوئی ایمان اور تصدیق قلبی سے کعبہ شریف کی طرف نظر کرے گناہوں سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے آج ہی جانا ہو ۔
جیسا کہ اکثر کتابوں میں آیا ہےکہ ” ایک مرتبہ حجاج بن یوسف کعبہ شریف کا طواف کر رہا تھا اس نے ایک نا بینا کو دیکھا جو  پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ اے اللہ! میری بینائی لوٹا دے لیکن اس کی دعاء قبول نہیں ہو رہی تھی۔حجاج نے  ایک چکر پورا کیا تو بھی اسے یہی کہتے ہوئے سنا پھر دوسرے چکر میں بھی  اسے اسی طرح کہتے دیکھاتوحجاج نے کہا کہ اے نابینا!  تم بار بار یہی دعا کر رہے ہو لیکن تمہاری دعا قبول نہیں ہو رہی ہے ۔ ہوش میں آؤ کہ تم کس مقام پر کھڑے ہو کر کر دعا کر رہے ہو !لیکن یاد رکھو اب اگر میری واپسی تک تیری آنکھوں کی بینائی واپس نہ ہوئی  تو میں تجھے قتل کردوں گا۔ اب تو اسے جان جانے  کا خطرہ لاحق ہوا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ حجاج نےجو کہتا ہے وہ ضرور اس پر عمل کرتا ہے  اس لیے اس نے کعبہ کے سامنے اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں خوب گریہ وزاری کرکے دعا کرنے لگا۔ کہ اے اللہ اگر تو میری بینائی واپس نہیں کریگا تو آج مجھے قتل کر دیا جائے گا  چنانچہ اس کی دعاء قبول ہوئی اور بینائی واپس ہو گئ اس طرح وہ قتل ہونے سے بچ گیا۔
حجر اسود (جنتی پتھر)
حجر اسود سیاہ رنگ کا پتھر ہے جو بیت اللہ شریف کے کے جنوب مشرقی کونے میں نصب ہے ۔اس کو حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ ہی جنت سے اتارا گیا تھا اور اس کا رنگ بالکل سفید برف کی طرح تھا۔
ایک مرتبہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ بیت اللہ شریف کا طواف کر رہے تھے جب حجر اسود کے سامنے آئے اور اسکا بوسہ لینےلگےتو آپ نے کہا کہ حجر اسود! میں تیرا  بوسہ اس لیےلے رہا ہوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےتیرابوسہ لیا ہے حالانکہ میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہی ہے ۔تو نہ نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ ہی نقصان پاس ہی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کھڑے تھے آپ نے فرمایا اے عمر  ایسا مت کہو بلکہ یہ نفع بھی پہنچا سکتا ہے اور نقصان بھی کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حجر اسود کی دو آنکھیں ہیں جن سے وہ بوسہ لینے والوں اور استلام کرنے والوں کو دیکھتا ہے اور قیامت کے دن یہ ان کے حق میں گواہی دے گا(ترمزی شریف)
مقام ابراہیم (علیہ السلام)
ایک ایسا مقدس پتھر ہے کہ جب حضرت ابراہیم اور ان کے فرزند ارجمند حضرت اسماعیل علیہمالسلام کعبہ معظمہ کی تعمیر فرما رہے تھے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جیسے پتھر لگا دیتے تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام پر کھڑے ہوکر کر کر خانے کعبہ کی دیوار تعمیر فرما رہے تھے کی اتنی دیر تک ک اس پتھر پر کھڑے رہے ہے کہ کہ وہ پتھر موم کی طرح نرم ہوکر کر ہر اس پر آپ کا نقش قدم پیوست ہو گیا یا یا اور آپ کے اسی نقش قدم کی وجہ سے سے یہ پتھر مقام ابراہیم کہلانے لگا جس کے جس کے متعلق اللہ رب العزت قرآن مقدس میں ارشاد فرمایا ہے "وَاتَّخِذُوۡامِنۧ مَّقَامِ اِبۡرَاهِيۡمَ مُصَلّٰی”  (سوره بقره) تم مقام ابراہیم کو اپنا مصلی بنالو۔ مزید حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا جو مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز پڑھے گا اللہ ربّ العزت اسکے اگلے پچھلے گناہ گناہ معاف فرمائے۔
مقام عرفات۔
عرفات مکہ سے باہر ایک میدان ہے یہ بہت برکت والی اور پاک جگہ ہے ۔ حج کرنے کے دوران یہاں وقوف کرنا ضروری ہے عرفات کے میدان میں نہ جائے تو حج قبول نہیں ہوتا ہےمکہ مکرمہ کے جنوب مشرق میں واقع ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے اسی پہاڑی پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجتہ الوداع دیا تھا ۔ا
اور اس کی حیثیت یہ بھی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا رضی اللہ تعالی عنہا جب جنت سے زمین پر اتارے جانے کے 200 سال کے بعد اسی مقام پر دوبارہ دونوں میں ملاقات ہوئی اس پہاڑ کے ارد گرد کے میدان کو میدان عرفات کہا جاتا ہے  اور اسی عرفات کے میدان میں نویں ذالجہ کو تمام حجاج کرام قیام کر کے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں خلوص نیت سے ذکرو اذکار، دعا، درود،توبہ واستغفار، میں مشغول رہتے ہیں بالخصوص گریہ و زاری میں اپنا وقت گزارتے ہیں۔
مقام مزدلفہ۔
عرفات اور منی  کے درمیان ایک کشادہ میدان ہے عرفات سے تقریبا تین میل دور ، یہاں سے منی کا فاصلہ بھی تقریبا اتنا ہی ہے کہتے ہیں کہ عرفات میں قبول توبہ کے بعد حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا رضی اللہ تعالی عنہا کی ملاقات مزدلقہ ہی میں ہوئی تھی۔
بہرحال حج کے تمام فضائل و برکات کی جانکاری حاصل کرنےکے بعداور حجاج کرام کو بالخصوص حج  سے واپسی کے بعد اپنے حج کی عظمت اور برکت کو مدنظر رکھتے ہوئے زندگی گزارنا چاہیے اب  آپ کے اندر ایک حاجی جیسی سیرت و صورت ،عمدہ کردار،اچھا اخلاق،صبروتحمل،اور ایک مثالی زندگی نظر آنا چاہیے۔ اسکے لیے مستقبل کی زندگی کا لا ٔحہ عمل خود کو تیار کرنا ہوگا ۔اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمارے حق میں حج بیت اللہ اور زیارت حرمین شریفین نصیب فرمائے۔آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×