سیاسی و سماجی

دارالعلوم دیو بند اور جمعیۃ علماء ہند کاملک کی جنگ آزادی میں تاریخی کردار

جدوجہد آزادی ہی نہیں ملک کی کوئی بھی تاریخ ہندوستان کے علمائے کرام کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی، خواہ وہ ملی یا قومی قیادت و سیادت ہو یا آزادیٔ وطن کے لئے میدان جنگ میں کود پڑنا، کسی تحریک کی قیادت ہو یا پھر کسی مصیبت اور پریشانی کے وقت میں لوگوں کی مدد و غمگساری، ہر میدان میں علماء نے اہم کارنامے انجام دئے ہیں اور حکومتِ وقت کے سامنے سینہ سپر ہوکر حق اور سچ بات رکھی ہے۔ایک بڑی تاریخی سچائی یہ ہے کہ ہندوستان کی آزاد ی کی تحریک علماء اور مسلمانوں نے شروع کی تھی اور یہاں کے عوام کو غلامی کا احساس اس وقت کرایا جب اس بارے میں کوئی سوچ بھی نہیںرہا تھا۔ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے عَلمِ بغاوت علماء نے ہی بلند کیا تھا اور جنگ آزادی کا صوربھی انہوں نے ہی پھونکا تھا۔ہندوستان کے بے شمار لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کی پہلی آزادی کی لڑائی 1857ء میں لڑی گئی تھی، لیکن یہ بات اپنی تاریخ اور اپنے بزرگوں کی قربانیوں سے ناواقفیت پر مبنی ہے ۔ آزادی کی تاریخ 1857ء سے نہیں بلکہ 1799ء میںاس وقت شروع ہوئی جب سلطان ٹیپو شہیدؒ نے سرنگاپٹم میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھا، جس وقت ان کے خون میں لتھڑی ہوئی لاش پر انگریز فوجی نے کھڑے ہوکر یہ بات کہی تھی ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے‘‘ اس کے بعدہی انگریزیہ کہنے کی ہمت پیدا کر پائے ’’اب کوئی طاقت ہمارا مقابلہ کرنے والی، ہمارے پنجے میں پنجہ ڈالنے والی نہیں ہے‘‘ اور پھر انہوںنے عملی طورپرچھوٹے چھوٹے نوابوں اور راجاؤں کو شکست دیکر ان کو سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کردیا۔ٹیپو سلطانؒ کی شہادت اور انگریزوں کے بڑھتے اثر ورسوخ کے بعدعلمائے کرام نے غلامی کی آہٹ کو محسوس کرلیا تھا ۔ اس کے بعد سے ہی جہادِ آزادی کاآغاز ہوا، جب انگریز نے 1803ء میں دہلی کے اندر یہ اعلان کیا کہ ’’خلق خدا کی، ملک بادشاہ کا‘‘ لیکن آج سے حکم ہمارا ہے، اس دن اس ملک کے سب سے بڑے عالم دین اور خدارسیدہ بزرگ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے بڑے بیٹے حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلویؒ نے دلّی میں یہ فتوی دیا ’’آج ہمارا ملک غلام ہوگیا اور اس ملک کو آزاد کرانے کے لئے جہاد کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے‘‘ یہ جرأت مندانہ اعلان ایسے وقت میںکیا گیا کہ اس عالم دین کے علاوہ ہندوستان کے اندر کوئی ایسا نہیں تھا جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے مقابلے اپنی زبان سے آزادیٔ وطن کے لیے جہادکا اعلان کرسکتا تھا۔ اس فتویٰ کی پاداش میں ان کو بڑی بڑی تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں، انھیں زہر دے دیا گیا، ان کی جائداد کو قرق کرلیا گیا، ان کی آنکھوں کی بینائی اس زہر سے جاتی رہی، ان کو دلّی شہر سے در بدر کردیا گیا،وہ ان تمام سخت ترین حالات میں بھی انھوں نے اپنی موت سے پہلے دو روحانی شاگردپیدا کردیئے، ایک حضرت سیّد احمد شہید رائے بریلویؒ اور دوسرے شاہ اسماعیل شہیدؒ، ان لوگوں نے پورے ملک کے دورے کئے اور مسلمانوں سے جہاد کی بیعت اور اس کا عہد لیا کہ وہ ہمارے ساتھ ملک کی آزادی کے لیے اپنی جان قربان کردیں گے۔اس کے بعد بالاکوٹ کے میدان میں ہزاروں مسلمان ان دونوں صاحبان کے ساتھ سب سے پہلی آزادیٔ وطن کی جنگ میں شہید ہوئے ،یہ سب سے پہلا آزادیٔ وطن کے لئے جہاد تھا جو دوسرے جہاد آزادی (1857ء ) کا مقدمہ تھا،جو لوگ وہاں اس وقت ناکامی کے بعد واپس ہوئے ان لوگوں نے واپس آکر پھر اِکائیوں کو جمع کیا اور افراد کو تیار کیا،اورچھبیس سال کی محنت کے بعد1857ء میں دوبارہ آزادیٔ وطن کے لئے جہاد شروع ہوا جس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوئے لیکن مسلمان زیادہ تھے اور ہندو کم تھے۔ آزادیٔ وطن کے لئے یہ دوسرا جہادبھی ناکام ہوا، اس جہاد کی پاداش میں علماء کو گرفتار بھی کیا گیا اور کچھ علماء نے اپنے آپ کو نظر بند کرلیا، جب یہ علماء تین چار سال کے بعد جیل سے باہر نکلے اور عام معافی کا اعلان ہوا تو انھوں نے بڑی عجیب و غریب چیز دیکھی کہ وہ یتیم جن کے باپ جامِ شہادت نوش کرگئے، انگریز کی دشمنی کی وجہ سے ان کے یتیم بچے سڑکوں پر ہیں، ان کے سرپر کوئی ہاتھ رکھنے والا نہیں ہے، ان حالات کا فائدہ اٹھاکر انگریزوں نے فکری محاذ پربھی اپنی لڑائی تیز کردی، چنانچہ کرسچن اسکول، عیسائی پوپ اور چرچ کے لوگ باہر نکل کر ان یتیموں کا ہاتھ پکڑتے اور کہتے کہ ہمارے ساتھ چلو ہم تم کو کھانا،رہائش اور تعلیم مفت دیں گے،مقصد ذہنی اعتبار سے ان کو انگریز بنانا تھا۔ یہ وہ بچے تھے جن کے آباء واجداد نے انگریز دشمنی میںجہاد آزادی میں جامِ شہادت نوش کیا لیکن اب انہیں کی اولاد انگریزوں کے ہاتھ میں تھی اور وہ ان کو فکری اعتبار سے اپنا غلام بنانا چاہتے تھے، ان حالات کو دیکھ کر علماء کرام سرجوڑ کر بیٹھے اور فیصلہ لیا کہ دو جہادوں میں مجاہدین شہید کر دئے گئے ،اب ہمیں آزادیٔ وطن کے لئے ایسی فیکٹری کی ضرورت ہے جہاں اپنے ملک ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے اور غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لئے مجاہدین تیار کئے جائیں، چنانچہ مکمل سات سال کے بعد 1866ء میں انھوں نے دارالعلوم دیوبند کی بنیادرکھی اور بالکل وہی نعرہ دیا کہ ہم بچوں کومفت کھانااور رہائش کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے آراستہ کریں گے اوران بچوں کو ان کے آباء اجداد کی طرح جہادِ آزادی کے لئے مجاہد بنائیں گے، لیکن یہ تو فقیر اور بوریا نشین تھے ،توان لوگوں نے مفت طعام وقیام کے ساتھ مفت تعلیم کابھی پلان کیسے تیار کیا؟ یہ قابل حیرت بات تھی کہ ان لوگوں نے مدرسہ بنایا اور قوم کو پیغام دیا کہ ’’اگر غلامی کی لعنت کی زنجیر توڑ کر آزاد ہونا ہے تو اس مدرسہ کو زندہ رکھیں‘‘ پھر لوگوں نے دل کھول کر اس کی مدد کی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند برسوں کے اندر بخارا، سمرقند، تاشقند، اور ہندوستان کے شہر شہر سے لڑکے جمع ہونا شروع ہوگئے جن کو مفت تعلیم دی جاتی تھی ، انھوں نے قوم کو یہ بتلایا کہ اگر یہ مدرسہ زندہ ہے تو آپ زندہ ہیں، اور آپ کی اولاد زندہ ہیں، آپ کے گھر میںاسلام کی روشنی زندہ ہے، اور آپ آزاد ہیں۔جنگ آزادی، اسلام کی آبیاری،وطن کی حفاظت، اسلام دشمن طاقتوں سے لوہا لینے کیلئے ایک تحریک کی شکل میں مجاہدین آزادی کو پیدا کرنے کے لئے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی گئی اور پھردارالعلوم دیوبند نے ایسے سپوتوں کو پیدا کیا جنھوں نے اس ملک کے اندر آزادیٔ وطن کی آگ جلائی، اگر پوچھا جائے کہ ان میںسب سے پہلے سپوت اور دارالعلوم دیوبند کا سب سے مایۂ ناز سرمایہ کون ہے؟ تو جواب ـ’’ حضرت شیخ الہندؒ ‘‘ ہوگا، جو دیوبند کے رہنے والے مولانا محمود حسن صاحب ہیں، پستہ قد، دُبلا پتلا آدمی لیکن اس شخص کے دل کے اندر کیسی آزادیٔ وطن کی آگ تھی جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا، صوبہ جات متحدہ کا انگریز گورنر مسٹن کہتاتھا’’اگر شیخ الہند کو جلاکر راکھ کردیا جائے تو ان کی راکھ کے اندر سے بھی انگریز دشمنی کی بو آئے گی‘‘۔انھوں نے ’’ریشمی رومال‘‘ کی تحریک چلاکر انگریزوں کو حیران کردیا اور ان کو آخر تک معلوم نہیںہوا یہ تحریک کون چلارہے ہیں، انگریز حضرت مولانا عبیدا للہ سندھیؒ اور دوسرے علماء کو اس تحریک کا سربراہ سمجھتے رہے لیکن شیخ الہندؒ کا دماغ تھا جو انگریزوں کی سمجھ سے بالاتر تھا اور انہوں نے سینکڑوں ایسے جیالے اور جید علماء پیدا کئے کہ جنہوں نے انگریزی حکومت کی ناک میں دم کردیا تھا، شیخ الہندؒ کے ساتھ مالٹا میں اسیر شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ بھی تھے جو شیخ الہندؒ کے خاص شاگرد اور خاص خادم کا درجہ رکھتے تھے، انہوں نے شیخ الہندؒ کی خاطر جیل جانا ضروری سمجھا اور شیخ الہندؒ کی خدمت کے لئے جیل کی صعوبتوں کو کاٹا۔ شیخ الہندؒ آگے چل کر دارالعلوم کے سب بڑے استاذ بنے ، ساتھ ہی انھوں نے آزادیٔ ہند کے لئے اپنے شاگردوں کی ایک ٹیم اور جماعت تیار کرکے باضابطہ تحریک ِ آزادی شروع کی، تاریخ میں یہ تحریک ’’ تحریک ریشمی رومال‘‘ کے نام سے مشہور ہے، شیخ الہندؒ نے اس تحریک میں رنگ و روغن بھرنے کے لئے حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کو کابل بھیجا، دوسری طرف شیخ الہندؒ خلافت ِ اسلامیہ سے تعاون حاصل کرنے کے لئے حجاز مقدس تشریف لے گئے، شیخ الہندؒ کی یہ تحریک اگر کامیاب ہوگئی ہوتی تو ہندوستان کب کا آزاد ہوگیا ہوتا لیکن قدرت ابھی اور قربانیاں چاہتی تھی، شریف ِ مکہ کی غداری کی وجہ سے ریشمی خطوط (ریشمی رومال تحریک کے خطوط)پکڑے گئے اور حجاز مقدس ہی سے آپ کو گرفتار کرلیا گیا، گرفتاری کے بعد آپ کو مالٹا بھیج دیا گیا، شیخ الہندؒ جب مالٹا سے رہا ہوکر آئے تو عا م منظر نامہ بدل چکا تھا،اس لئے انھوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے دوسرا طریقہ اختیار کیا اور جمعیۃ علماء ہند کو مشورہ دیا کہ وہ انڈین نیشنل کانگریس کا ساتھ دے اور تشدد کو چھوڑ کر عدم تشدد کا نعر ہ لگائے، شیخ الہندؒ کی وفات کے بعد ان کے شاگرد خاص رفیق مالٹا حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ اور شیخ الہندؒ کے شاگرد حضرت مفتی کفایت اللہ صاحبؒ وغیرہ نے ان کے نقش قدم پر چل کر تحریک ِ آزادی کو آگے بڑھایا۔ حضرت شیخ الہندؒ کے بعد جمعیۃ علماء ہند نے حالات کے مزاج کو سمجھتے ہوئے فراست ایمانی پر مبنی ایک حکمت عملی اختیار کی اور فرقہ وارانہ ذہنیت کے پھیلتے زہریلے اثرات کو روکنے کے لیے برادران وطن پر مشتمل تنظیم کانگریس سے اتحاد کرکے، ملک کی مکمل آزادی کے لئے فرقہ و مذہب کی قید سے آزاد ہوکرلڑائی شروع کی۔ان کی قیادت میں جیسے جیسے ملک کی آزادی قریب آتی گئی، یہ لوگ انڈین نیشنل کانگریس کے بنیادی لوگوں مثلاً موتی لال نہرو، جواہر لال نہرو اور مہاتما گاندھی سے برابر عہد لیتے چلتے ہیں کہ ملک کی آزادی کے بعد ملک کا دستور سیکولر دستور بنے گا اور کانگریس بھی وعدہ کرتی ہے کہ مسلمانوں کی مسجدیں، مسلمانوں کے مدرسے، مسلمانوں کے امام باڑے، مسلمانوں کے قبرستان، مسلمانوں کی زبان، مسلمانوں کا کلچر، مسلمانوں کی تہذیب سب چیزیں محفوظ رہیںگی، اور ملک کا دستور سیکولر دستور بنے گا، ان لوگوں کا تیقن اور دانش مندی دیکھئے کہ یہ سمجھتے تھے کہ ملک کی اکثریت ہندو ہے، اور آج سے نہیں ہے، آٹھ سو سال اس ملک پر مسلمانوں نے حکومت کی ہے، اکثریت تو ہندو ہی کی تھی، وہ بدل تو نہیں گئی تھی لیکن دستور ہندوستان کا سیکولر ہونا چاہئے، اللہ نے ان کو عجیب وغریب عقل ودانش سے نوازا تھا، اتفاق کی بات ہے کہ ملک آزاد ہوا، اور تقسیم ہوگیا اسلام کے نام پر ایک دوسرا ملک بن گیا، اس ملک کے بن جانے کے بعد قدرتی طور پر یہ مسئلہ اُٹھنا تھا کہ جب اسلام کے نام پر مسلمانوں نے اپنا ایک حصہ لے لیا ہے، تو اس ملک کو ہندو اسٹیٹ بننا چاہئے، چنانچہ ہندؤوں کے قد آور لوگ جو برابر آزادی میں شریک تھے، اُنہوں نے ہی یہ آواز اُٹھائی کہ اب ملک کا دستور سیکولر اسٹیٹ نہ بن کرکے ایک ہندو اسٹیٹ ہونا چاہئے، جمعیۃ کے اکابرین اس رائے کے خلاف کھڑے ہوگئے، کہ جو ہم سے وعدے کئے تھے، اُن وعدوں کو پورا کرو، کیوںکہ اگر ملک تقسیم ہوا ہے تو تم نے دستخط کئے ہیں، ہم نے نہیں۔اس لئے اس ملک کا دستور سیکولر بنے گا۔جمعیۃ علماء ہند کا مطالبہ اتنا مظبوط تھا کہ اس مطالبہ کے سامنے سرتسلیم خم کرنا پڑا اور ملک کا دستور سیکولر دستور بنا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×